7 October, 2024


دارالاِفتاء


..Hawale Kai Sath Jawab Irshad farmayai... ?..salam..zawal kai waqt azan daine main koi harz hai

فتاویٰ # 94

..Hawale Kai Sath Jawab Irshad farmayai... ?..salam..zawal kai waqt azan daine main koi harz hai

فتاویٰ # 94

کیا فرماتے ہیں علماے دین مسئلہ ذیل میں احمد آباد میں ایک مسجد ایسی ہے جہاں پر منبر کے محاذات بھی دیوار پڑی ہے ، کوئی ایسی جگہ جہاں خارج مسجد واقع ہو منبر کے سامنے نہیں۔ اس صورت میں اذان ثانی جمعہ کے روز صحن میں دے سکتے ہیں؟ کیا صحن خارج مسجد ہے یا داخل مسجد، خلاصہ تحریر فرمائیں۔ محمد اقبال ابراہیم، پوسٹ میرا سمنی، ضلع بڑوپ ، گجرات

فتاویٰ # 123

کیا فرماتے ہیں علما دین اس بیان میں کی، زید ایک مسجد کا امام ہے دوران خطبہ جمعہ میں زید نے کہا کی ، حالت نماز میں جس شخص کا موبائل فون بجا تو اسکی نماز فاسد ہو جاےگی ، اور آسa پاس فون کی آواز سننے والوں کی بھی نماز فاسد ہو جاےگی ، زید کے اس بیان پر کیا حکم شریعت ہے ، کیا صحیح میں فون بجنے والے اور اسکی آواز سننے والوں کی نماز ٹوٹ جاےگی ، اگر نہیں تو زید کو اس طرح کا غلط مسئلہ بیان کرنے پر کیا حکم ہے، سائل : شریف قادری -- ​

فتاویٰ # 127

mere zihan me kuch sumalat hein sajde ke bare me agar koi shakhs sajde me gaya or us ke dono per zamin par nahi lage yani uthe howe the pir us ne dorane sajda dono per ki 10 ungiliyo ka pet zani par laga diya sirf 1tasbih ki miqdar pir usne sajde ki hi halat me per utha diya sajda or namaz hoga'e ya nahi jawab inayat farma'ay

فتاویٰ # 220

agar muqtadi ko imaam ke bare men bugz ho to keya is muqtadi ki namaaz us imaam ke piche bela karahat hojaiye gi ya nahi

فتاویٰ # 279

کیا فرماتے ہیں علماء دین شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ہمارے یہاں ایک بڑی مسجد کے امام صاحب عید الفطر کی نماز میں ثناء پڑھنے کے بعد بجائے تکبیر کہنے کہ سورہ فاتحہ کی تلاوت شروع کردئے مکمل ایک آیت پڑھنے کے بعد انہیں یاد آیا تو انہوں نے تکبیر کہی اس دوران ان کے سامنے جو مائک لگا ہوا تھا وہ جھک گیا۔ امام صاحب نے اسے اپنے ہاتھ سے دوران نماز ہی ٹھیک کیا اور اس مائک میں پھر تکبیر کہا بد قسمتی سے اس تکبیر کے بعد مائک زمین پر گرگیا اب امام صاحب نماز میں ہی جھک کر زمین سے مائک اٹھایا اور اسے ٹھیک کیا پھر بقیہ نماز مکمل کی۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں نماز ہوگئی یا نہیں؟ براہ کرم جلد جواب عنایت فرمائیں علاقہ میں بڑی بے چینی ہے۔ فقط والسلام عبد الرحمٰن فیل خانہ ہوڑہ نوٹ: اگر فتوی کا اسکین کاپی بھی جو کہ آپ کے لیٹر پیڈ میں لکھا ہوا ہو میرے ای میل پر بھیج دیں تو آپ کا مشکور ہوں گا۔ جزاک اللہ خیرا

فتاویٰ # 325

نماز کیا ہے؟

فتاویٰ # 364

السلام علیکم ورحمۃاللہ کیا فرماتے ہیں علماءدین وشرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کےامام صاحب مغرب کے نماز کی امامت فرمارہے تھےاور وہ بھول کر قعدہ آخیرہ میں تحیات مکمل کرکے چوتھی رکعت کےلۓ کھڑاہونے لگے تو مقتدی نے لقمہ دیا اورامام اس لقمہ کو لینے کے بعد کھڑاہونے سے رک گۓ اوربغیر سجدہ سہو کۓ سلام پھیردیاایسی صورت میں نماز درست ادا ہوئی کے نہیں جواب عنایت فرمائیں الملتمش محمد نسیم الدین رضوی مقام وپوسٹ بچھارپور تھانہ پوپری ضلع سیتامڑھی بہار

فتاویٰ # 409

چین والی گھڑی باندھا کیسا ہے؟ نماز ہوجاءےگی السلام علیکم

فتاویٰ # 423

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کیافرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ حنفی پنج وقتہ نمازوں اور جمعہ میں شافعی امام کی اقتدا کرسکتا ہے یا نہیں؟بہار شریعت میں ہے کہ اگر شافعی امام مسائل طہارت و نماز میں حنفی مذہب کی مراعات کرتا ہے تو جائز ہے ورنہ جائز نہیں ہے۔برائے مہربانی اس مسئلہ کو شرح و بسط کے ساتھ لکھیں کہ کن کن صورتوں میں اقتدا جائز یا ناجائز ہوگی۔اور کن کن چیزوں میں مراعات ضروری ہے؟اب تک جن لوگوں نے ایسی نمازیں ادا کی ہیں ان کا کیا حکم ہے؟جنوبی ہند کے کئی مدارس میں امام شافعی المذہب ہوتا ہے اور طلبا کی ایک تعداد جو کہ حنفی المذہب ہوتی ہے اسی کی اقتدا میں نماز ادا کرتی ہے۔بینوا و توجروا۔

فتاویٰ # 530

کیا فرما تے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید کی تکبیر اولی فوت ہو گئی اور وہ دوسری رکعت میں پہنچا پھر نیت باندھ کر تشہد میں بیٹھ گیا پھر بجائے التحیات شریف پڑھنے کے ثناء پڑھنا شروع کیا آیا صورت مسئولہ میں زید کی نماز ہوئی یا نہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں بینوا توجروا نبیل احمد غزالی بیگوسرائے بھار

فتاویٰ # 532

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ کیا فرمائے ہیں علماء کرام و مفییان شرع عظام مسئلہ ذیل میں کہ زید ایک عالم دین ہے اور امامت کے منصب پر فائز ہے بقول صدر مسجد کے امام صاحب سنن و واجبات مستحبات ترک کرتے ہیں ۔ تو اب امام صاحب پر کیا حکم شرع عائد ہوگا؟ اور کیا امام صاحب کے پیچھے نماز ہو جائے گی ؟ مزید یہ ارشاد فرما دیں کہ اس بنا پر امام صاحب سے مقتدیوں کو اظہار ناراضگی اختیار کرنا کیسا ؟

فتاویٰ # 990

(۱).مکبر کو تکبیر کب کہنی چاہیے،آیا قبل از درستیِ صفوف یا بعد از قیامِ صفوف؟ (۲).اگر مکبر تکبیر(اقامت) کہہ رہا ہو تو امام کو اپنا منہ کب قبلہ کی طرف کرنا چاہیے ،آیا قبل از اقامت یا دورانِ اقامت، یا بعد از اقامت؟ (۳).اگر امام، جب کہ اقامت کہی جا رہی ہو اور وہ اپنا منہ بجاے قبلہ کے مقتدیوں کی طرف براے درستیِ صفوف کیے ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ (۴).اگر مکبر اقامت شروع کر دے قبل اس کے کہ امام مصلیٰ پر موجود ہو تو اس کا مسئلہ کیا ہے،آیا درست ہے یا غیر درست؟ (۵).تکبیرِ تحریمہ سے کون سی تکبیر مراد ہے؟ اقامت یا وہ تکبیر جو امام نماز شروع کرنے کے لیے کہتا ہے؟ (۶).امام کو نماز شروع کرنے والی تکبیر کب کہنی چاہیے؟ (۷).امام کو نماز کب شروع کرنا چاہیے؟ (۸).اگر جماعت کثیر ہو کہ امام اپنے مصلّے پر سے صفِ اول کے سوا دیگر صفوف کو دیکھ نہیں سکتا اور ایسی حالت میں جب کہ تکبیر (اقامت) کہی جا رہی ہو تو امام اپنی جگہ سے ہٹ کر پچھلی صفوں کو دیکھ سکتا ہے یا نہیں؟ جب کہ اسے یقین نہ ہو کہ صفیں درست نہیں ہیں گو کہ اس کے متعلق وہ زبان سے تنبیہ کر چکا ہو۔

فتاویٰ # 1015

(۱).بوقتِ خطبۂ جمعہ امام کی پشت کعبہ شریف کو اور منہ سامعین کی جانب ہو یا ترچھا بیٹھے؟ (۲).بوقت خطبۂ جمعہ امام منبر پر بیٹھے جو کہ مغربی نمبر پانچ میں واقع ہے اور اسی کے مقابل نمبر پانچ مشرق میں موذن اذانِ ثانی دے تو یہ اذان خطیب کے سامنے ممبر کے آگے امام کے مواجہہ و رو برو ہونا مانی جائے گی یا نمبر پانچ کے علاوہ تین ، چار، یا چھ، سات میں موذن اذان دے تو یہ بھی محاذی خطیب کے سامنے ممبر کے آگے مواجہہ و رو برو مانا جانائے گا؟ (۳).زاویہ قائمہ اورحادہ منفرجہ جو بنے گا منبر پانچ کے آگے بنے گا یا ترچھا یعنی پانچ نمبر مغربی و پانچ نمبر مشرقی کے اندر بنے گا ۔ یا پانچ نمبر مشرقی سمت چھوڑ کر مشرقی ایک دو، اور سات، آٹھ کی طرف بنے گا؟ (۴).اگر خطیب و موذن کے درمیان دیوار حائل ہو تو اپنے بائیں یعنی بجاے نمبر پانچ کے ایک، دو اور سات، آٹھ جس طرف چاہے موذن کھڑا ہو بین یدیہ اذان مانی جائے گی یا نہیں؟ (۵).اذان ثانی جمعہ کا خطیب کے سامنے و نیز منبر کے آگے امام کے مواجہہ یعنی روبرو محاذات میں ہونا صحیح ہے یا بغیر منہ پھیرے موذن پر نظر پڑے گو دور ہونے میں کتنی ہی نظر چوڑی ہو چوڑان میں ہو ترچھا اور محاذات منبر و خطیب کے خلاف ہو صحیح مانی جائے گی۔ از روے شرع شریف جواب تحریر فرمائیں۔

فتاویٰ # 1016

(۱). خطبۂ جمعہ کے درمیان امام کا بطور نصیحت کچھ کہنا یا کوئی شعر پڑھنا ، زید کہتا ہے خلافِ سنت ہے، اس لیے ناجائز ہے، عمرو کہتا ہے جائز ہے کیوں کہ صدہا کام خلافِ سنت ہیں لیکن علماے احناف انھیں جائز و مستحسن فرماتے ہیں ، مثلاً فاتحہ، قیام،عرس، قرآن شریف کا اردو ترجمہ ۔ کس کا قول صحیح ہے۔ (۲). بوڑھی عورتوں کا مسجد میں جماعت میں شریک ہونا کیسا ہے ، اگرچہ سب سے پیچھے بوڑھی عورتوں کی صف ہو۔

فتاویٰ # 1017

کلماتِ اقامت میں جو دو مرتبہ قد قامت الصلوٰۃ کہا جاتا ہے ، اس میں پہلی دفعہ صلوٰۃ کے آخر حرف کو مضموم پڑھنا اور دوسری دفعہ میں حرفِ مذکور پر وقف کر کے (ہا) پڑھنا کیسا ہے۔ زید کہتا ہے کہ اس طرح پڑھنا ضروری ہے اور عمرو کہتا ہے کہ دونوں مرتبہ (ہا) پڑھنا ضروری ہے اور بکر کہتا ہے کہ دونوں صورتیں درست ہیں۔ بکر کے قول کے مطابق دونوں صورتیں جائز ہیں تو اولیٰ اور بہتر کون ہے؟ جواب بالدلیل مع حوالہ کتب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1018

جمعہ کے خطبہ کی اذان مسجد کے اندر مکروہ ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1019

اذانِ ثانی جو خطبہ کے وقت ہوتی ہے ، دروازہ پر کہنا سنت ہے یا مسجد کے اندر؟ سنن ابو داؤد شریف جلد اول میں ہے: عن السائب بن یزید رضي اللہ تعالیٰ عنہ قال کان یوذن بین یدی رسول اللہ ﷺ إذا جلس علی المنبر یوم الجمعۃ علی باب المسجد و أبي بکر و عمر.) ( یعنی جب رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن منبر پرتشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان ہوتی اور یہی طریقہ ابو بکر و عمر کے زمانے میں تھا۔ اس حدیث سے بداہۃً یہی معلوم ہوتا ہے کہ اذانِ ثانی جو خطبہ کے وقت کہی جاتی ہے مسجد کے دروازے پر ہونا چاہیے۔ یہی سنت ہے۔ فتاویٰ عالم گیری جلد اول میں ہے: ’’یکرہ أن یؤذن فی المسجد۔‘‘) ( غنیۃ شرح منیۃ میں ہے: ’’والمکان ھنا (أی فی الأذان) مختلف ، لأنہ ینتقل عن مکان الأذان ، فی الغالب لأنہ انما فی المدینۃ و خارج المسجد و الأقامۃ فی داخلہ، اھ ) ( عمدۃ الرعایۃ شرح وقایۃ میں ہے: ’’قولہ، بین یدیہ أي مستقبل الإمام فی المسجد کان أو خارجہ والمسنون ھو الثاني۔ اھ ) ( ان اقوال کے باوجود بکر اس پر اڑا ہوا ہے کہ خارجِ مسجد اذان ہونا حنفی مسلک کے خلاف ہے۔ اور استدلال میں کفایہ شرح ہدایہ کی عبارت پیش کرتا ہے: ’’روی الحسن عن أبی حنفیۃ رحمہ اللہ ان المعتبر فی وجوب السعی و حرمۃ البیع الأذان علی المنارۃ لانہ لو انتظر الأذان عند المنبر یفوتہ أداء السنۃ۔‘‘) ( اور ’’عند ‘‘ کا ترجمہ ’’قریب ‘‘ کرتا ہے۔ حالاں کہ مولانا قاضی ثناء اللہ مالا بدمنہ میں فرماتے ہیں: و چوں امام بر منبر نشیند اذان دوم یعنی جب امام منبر پر بیٹھے، رو بروے او گفتہ شود۔) ( اذان اس کے سامنے کہی جائے۔ آپ حضرات کی خدمت میں مودبانہ معروض ہوں کہ آپ اپنے قلمِ ہدایت رقم سے اظہارِ حق فرمائیں کہ اذان خارجِ مسجد ہونا سنت ہے یا مسجد کے اندر۔ بینوا و توجروا۔

فتاویٰ # 1020

جماعت کی نماز میں امام و مقتدی کو کس وقت کھڑا ہونا چاہیے ۔ مذہبِ احناف کیا ہے، مدلل ارشاد فرمائیں۔

فتاویٰ # 1021

اکثر لوگ ولاالضالین کو بآوازِ ”ظ “یا بآوازِ ’’ز‘‘ یا بآوازِ ’’دال‘‘ ادا کرتے ہیں ۔ اس سے نماز فاسد تو نہیں ہوتی ، یا معنیٰ تو نہیں بدل جاتے ، یا کفر تو لازم نہیں آتا ۔ فقہ اور حدیث کی روشنی میں تحریر کیجیے اور قراء ت کی رو سے کیا پڑھنا چاہیے۔ بینوا و توجروا۔

فتاویٰ # 1022

نماز کے اندر ’’ولا الظالین‘‘ پڑھنا کیسا ہے؟ جواب اہل سنت و جماعت کے مطابق ہونا چاہیے۔

فتاویٰ # 1023

(۱).اگر امام فرض قرا ء ت کے اندر سہو کرے تو مقتدی لقمہ دے سکتا ہے کہ نہیں؟ (۲).اگر شافعی مذہب کے دس آدمی ہوں اور حنفی کے آٹھ ہوں تو کس جماعت کا آدمی پیش امام بنایا جائے، جس سے سب کی نماز ہو جائے یا دونوں کی تعداد برابر ہو؟ (۳).اگر غیر مقلد امام ہو تو اس کے پیچھے نماز ہو سکتی ہے یا نہیں؟ (۴).ایک امام اہل حدیث ہے مگر فرض نماز حنفی طریقہ سے ادا کرتا ہے تو حنفی مصلیوں کی نماز ہوگی کہ نہیں؟ (۵).مقتدی امام کی تقلید نہ کرے تو اس مقتدی کی نماز ہوگی کہ نہیں؟

فتاویٰ # 1024

ایک مولا نا صاحب آئے ہیں ، انھوں نے نمازِ جمعہ کی امامت کی اور بعد ختم سورہ فاتحہ آمین بآوازِ بلند کہا اور ہاتھ بھی کانوں تک اٹھائے دونوں رکعت میں،تو اس صورت میں مقتدیانِ اہلِ سنت و جماعت کی نماز کے متعلق کیا حکم ہے؟اور ہم مقتدیوں کی نماز ہو گئی یا نہیں اور ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ۔ تسلی بخش جواب سے مطلع کیا جائے ۔ جزاکم اللہ تعالیٰ خیر الجزاء۔ نوٹ: جواب بحوالہ کتبِ معتبرہ مع دستخط علماے کرام جلد از جلد آنا چاہیے تاکہ جمعہ میں سنایا جا سکے ۔ بینوا تو جروا۔

فتاویٰ # 1025

زید ظہر کی نماز پڑھ رہا تھا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن نمازوں میں فرض کے بعد سنت ہے یا نفل ہے ان نمازوں کے بعد مشرق یا شمال و نیز جنوب کی طرف دعا نہیں مانگ سکتا سواے قبلہ کی طرف رخ کر کے اور جن نمازوں میں فرض کے بعد سنت یا نوافل نہیں ان نمازوں میں شمال ، مشرق نیز جنوب کی طرف دعا مانگ سکتا ہے، یہ کہنا کہاں تک صحیح ہے ؟ فقط والسلام ۔

فتاویٰ # 1026

حمدا علی قولہ »فَاسۡـــَٔــلُوۡا اَھۡلَ الذِّکۡر اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ« فالحمد للہ الذی عرفنا بنبییہ الی استفتاء والصلوٰۃ والسلام علی اشرف خلقہ رحمۃ للعالمین العالم لما کان و مایکون و علی اٰلہ و صحبہ و فقہاء ملتہ۔ اما بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ . ما قولکم دام فضلکم فی رجل امَّ قوماً و لما قعد للتشہد الاخیرمن الصلوٰۃ الرباعیۃ تردد في أنّ الرکعۃ رابعۃ ام ثالثۃ و قام علی ظن انہ الثالثۃ۔ قبل قرأتہ التشہد ولکن لما بلغ حد القیام سمع سبحۃ بالمقتدی فرجع متیقنا ان ھذ القیام خامس زائد و قعد و قرأ التشہد وسلم یمیناً ثمَّ وسجد للسہو ثم تشہد مع الدعاء و سلم مرتین والمامومون فی ھذہ الصورۃ ماشارکوا اما مہم فی القیام الزائد ہل انتظر وا امامہم ففی ھذہ الصورۃ ھل صحت صلوۃ ھذا الشخص الامام و المامومین ام بینہم فرق بینوا بعبارات الکتب الحنفیۃ جزاکم اللہ تعالیٰ خیر الجزاء۔

فتاویٰ # 1027

وہابی اور دیوبندی اعتقاد والے کے پیچھے نمازپڑھنا جائز ہے یا نہیں، اگرجائز نہیں ہے تو کیوں؟ براے مہر بانی جواب سے مطلع فرمائیں۔

فتاویٰ # 1028

زید مولوی اشرف علی تھانوی کا مرید اور خلیفہ ہے ، نیز دیوبندی عقائد رکھتا ہے ، مگر کبھی کبھی میلاد شریف میں شرکت کر کے سلام پڑھ لیتا ہے لیکن ضروری نہیں سمجھتا اور کھانا وغیرہ پر فاتحہ بھی کر لیتا ہے ۔ اس کے پیچھے اہلِ سنت و جماعت کی نماز جائز ہے یا نہیں۔ جان بوجھ کر سنیوں کو اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ صاف صاف بیان کیجیے۔

فتاویٰ # 1029

کیا امام کے لیے مصلیٰ ضروری ہے؟ بینوا و توجروا۔

فتاویٰ # 1030

موقوفہ زمین پر زید عرصہ سے قبضہ کیے ہوئے ہے۔ پنچان نے اعتراض کیا تو اعتراف کرتا ہے، باوجود اس کے مقبوضہ زمین کو چھوڑتا نہیں بلکہ اور زیادہ کی کوشش کرتا ہے اور وہ محلہ کا امام ہے ، ایسے امام کی امامت کیسی ہے ، آیا نماز اہل محلہ پڑھ سکتے ہیں یا نہیں، کوئی شرعی قباحت ہو تو بحوالۂ کتب جواب مرحمت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1031

(۱).اگر کسی شخص کی ناک کٹ کر گر گئی ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ (۲).جو شخص داڑھی مونڈتا ہو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1032

زید زبر دست عالم متقی پر ہیزگار اور امام ہے۔ اتفاق سے ایک مرتبہ زید کے پاس ایک شخص آتا ہے جو زید کا نزدیکی اور معتبر ہے وہ شخص زید سے کہتا ہے کہ فلاں مدرسے میں اب بجائے عربی کے ہندی اور انگلش کی تعلیم دی جاتی ہے ، یادی جائے گی۔ زید نے یہ بات یعنی فلاں مدرسے میں……… بذریعہ ڈاک روانہ کردی حالانکہ اس مدرسہ میں عربی کی بھی تعلیم ہوتی تھی اور ہوتی ہے ۔ اب سوال یہ ہے اس صورت میں زید جھوٹا ہے یا وہ شخص جس نے زید سے کہا؟ پنچایت ہوئی تو زید کو بلایا گیا اور کہا گیا کہ آپ اس تحریر کی وجہ سے جھوٹے ثابت ہوتے ہیں، اس لیے اب لائق امامت نہیں۔ زید نے تمام موجودہ مسلمانوں کے سامنے اس بات سے اور تمام معصیتوں سے توبہ کی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس صورت میں زید کے پیچھے نماز بلا کراہت درست ہوسکتی ہے یا نہیں اور زید لائق امامت بلا کراہت ہے کہ نہیں؟ فریق مخالف مصر ہے کہ تحریری توبہ نامہ ہو اور وہ اسی شہر میں اس شخص کے پاس بھیجا جائے اس وقت لائق امامت ہونگے حق و صحیح کیا ہے رقم فرمائیں۔ اگر زید کا جھوٹ ثابت نہیں اور وہ لائق امامت ہے پھر بھی فریق مخالف گاؤں گاؤں چرچا کرتا پھررہاہے کہ فلاں مولوی صاحب جھوٹے ہیں ان کے پیچھے نماز جائز نہیں اور جو فریق مسلمانوں کو ان سے بدظن کرے اس فریق کا شرعا کیا حکم ہے ۔ بینوا توجروا۔

فتاویٰ # 1033

ایک شخص ہے جس نے آج تک جھوٹ بولا اور جھوٹی شہادتیں عدالت میں دیں اور غیبت و چغلی بھی بہت سی کی اور اس شخص کے پاس بہت سے آدمیوں کاقرضہ بھی ہے اور سو روپے مسجد کے بھی ا س کے پاس قرضہ کے ہیں اور دوسری مسجد کے آدمی اس شخص کو امام بنانا چاہتے ہیں ۔ مگر یہ شخص اور کاموں سے توبہ کرتا ہے لیکن دیگر آدمیوں کا قرضہ دینے کا اقرار اور نہ مسجد کے روپے دینے کا وعدہ کرتا ہے اور نہ قرض خواہ اس کو معاف کرتے ہیں تو ایسی صورت میں اس شخص کے پیچھے نماز درست ہو سکتی ہے یا نہیں؟ فقط۔

فتاویٰ # 1034

(۱) ہر فرض نماز کے بعد دعا مانگنا جائز ہے یا نہیں؟ (۲).ہر نفل و سنت کے بعد فاتحہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1035

(۱). جمعہ کے دن محراب میں امام کے دائیں یا بائیں بغرض خوشبو لوگ اگر بتی جلا دیتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آئندہ رواج ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ کیا فرماتے ہیں، جلایا جائے یا منع کر دیا جائے؟ (۲). نمازِ فجر کا وقت ہو گیا اور ابھی جماعت میں دیر ہے ۔ اس وقت نماز مثل قضاے عمری کو پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ (۳).جس جگہ فرض نماز امام یا مقتدی پڑھ چکا ہو اس جگہ سنتیں پڑھنا کیسا ہے؟ (۴).جنازے کی نماز کے وضو سے فرض نماز پڑھی جا سکتی ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1036

ماز فجر کی جماعت قائم ہونے کے بعد فجر کی سنت پڑھ کر جماعت میں شریک ہوناچاہیے جیسا کہ ہم حنفیوں کا طریقہ ہے یا بغیر سنت پڑھے فوراً جماعت میں شامل ہونا ضروری ہے؟ ایک شخص نے پیپل سانہ کے مسلمانوں سے یہ اعتراض کیا کہ تم لوگ قرآن و حدیث کے خلاف سنت فجر پڑھنے کھڑے ہو جاتے ہو ۔ حالانکہ حدیث مسلم و بخاری میں یہ ہے۔ ’’ اذا اقیمت الصلوۃ فلا صلوۃ الا المکتوبۃ‘‘ ) ( اور یہ کہتا ہے کہ اس میرے قول کے خلاف قرآن و حدیث لاؤ ۔فقہ میں کسی کا قول نہیں مانتا لہٰذا اس کا جواب کسی حدیث سے لکھیے۔

فتاویٰ # 1037

وتر کے بعد کی جو دو نفل پڑھے جاتے ہیں ، ان کو بیٹھ کر پڑھنا افضل ہے یا کھڑے ہو کر پڑھنے کا زیادہ ثواب ہے؟ کیوں کہ ہمارے اس اطراف میں اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔ بعض اشخاص یہ کہتے ہیں کہ حضور نے یہ نفل بیٹھ کر پڑھی ہے اور حضرت انس کا قول پیش کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی کتابوں میں بھی بیٹھ کر پڑھنا لکھا ہے۔ لہٰذا بحوالہ حدیث تحقیقی جواب دیں۔ بینوا توجروا۔

فتاویٰ # 1038

جمعہ کے خطبۂ ثانی میں درود شریف بہ آواز پڑھی جائے یا آہستہ، تشریح کی ضرورت ہے۔

فتاویٰ # 1039

ایک جماعت احناف کی جو اذانِ خطبہ کو خارجِ مسجد کہلانے سے منع نہیں کرتی ہے اور منبر کے پاس سے کرنے پر اقرار کرتی ہے اور کہتی ہے کہ حضرت امام اعظم کا یہی مذہب ہے، لہٰذا جماعتِ مذکور کا منع کرنا اور اقرار کرنا موافقِ سنت اور مذہبِ حضرت امام اعظم ہے یا نہیں اور جماعتِ مذکورہ اہلِ سنت ہے یا نہیں؟ حضور ﷺ کے زمانۂ اقدس میں اور خلفاے راشدین کے زمانے میں اذانِ خطبہ کہاں سے ہوتی تھی اور اذانِ خطبہ کے بارے میں ہمارے فقہاے کرام کا کیا مسلک ہے؟

فتاویٰ # 1040

(۱).اگر امام فرض قرا ء ت کے اندر سہو کرے تو مقتدی لقمہ دے سکتا ہے کہ نہیں؟ (۲).اگر شافعی مذہب کے دس آدمی ہوں اور حنفی کے آٹھ ہوں تو کس جماعت کا آدمی پیش امام بنایا جائے، جس سے سب کی نماز ہو جائے یا دونوں کی تعداد برابر ہو؟ (۳).اگر غیر مقلد امام ہو تو اس کے پیچھے نماز ہو سکتی ہے یا نہیں؟ (۴).ایک امام اہل حدیث ہے مگر فرض نماز حنفی طریقہ سے ادا کرتا ہے تو حنفی مصلیوں کی نماز ہوگی کہ نہیں؟ (۵).مقتدی امام کی تقلید نہ کرے تو اس مقتدی کی نماز ہوگی کہ نہیں؟

فتاویٰ # 1041

جہاں سال کی چند راتوں میں عشا کا وقت نہیں آتا وہاں ان ایام میں عوامی رفع فتن کے لیے نماز عشا اور تراویح کی جماعت کرائی جائے تو کیا حکم ہے جب کہ تقدیر وقت کے لیے علامہ شامی فرماتے ہیں: وبقي الكلام في معنى التقدير والذي يظهر من عبارة الفيض أن المراد يجب قضاء العشاء بأن يقدر أن الوقت الحسن سبب الوجوب قد وجد (إلی) ويحتمل أن المراد بالتقدير المذكور هو ما قاله الشافعية من أنه يكون وقت العشاء في حقهم بقدر ما يغيب فيه الشفق في أقرب البلاد إليهم إهـ۔ (رد المحتار،ج۲،ص:۱۸، ۱۹، کتاب الصلاۃ) اس دوسرے احتمال کو علامہ شامی نے مرجوح قرار دیا ہے لیکن رفع فتن کے لیے اگر احتمال مرجوح پر عمل کیا جائے تو کیا حکم ہوگا۔ بینوا وتوجروا۔

فتاویٰ # 1398

عرض یہ ہے کہ سال گزشتہ ہم نے کوشش کر کے حضرت علامہ مفتی سید افضل حسین صاحب فیصل آباد، پاکستان کے ذریعہ اور دیگر علماے متبحرین کی نگرانی میں امسٹرڈم (ہالینڈ) کا نقشہ اوقات الصلاۃ تیار کرایا تھا، شائع ہونے کے بعد گرمی کےچند ایام جن میں حنفیہ کے نزدیک عشا کا وقت نہیں ہوتا اس کے بارے میں یہاں کچھ انتشار پیدا ہوگیا ہے مسلمانوں کے انتشار اور فتنہ فساد کو دفع کرنے کے لیے جن ایام میں شفق ابیض غروب نہیں ہوتی، کیا اگر صرف شفق احمر کے غروب کا ثبوت مل جائے تو صاحبین کے قول پر عمل کرتے ہوئے نماز عشا ادا کی جا سکتی ہے۔ جواب با صواب سے جلد از جلد نوازیں۔

فتاویٰ # 1399

وقت عشا کے لیے ائمہ ثلثہ اور صاحبین رضوان اللہ تعالی علیہم کے نزدیک شفق سے مراد احمر ہے (کتاب الفقہ علی مذاہب الاربعہ،۴۱/۱۸) تو جن آبادیوں میں شفق ابیض غائب نہ ہو، یا غیر معمولی تاخیر سے غائب ہو تی ہو وہاں نماز عشا کے لیے شفق احمر کا غائب ہونا کافی ہے کہ نہیں؟ اور ایسی صورت میں صاحبین کے قول پر فتوی درست ہے کہ نہیں؟ جب کہ بعض مسائل میں ائمۂ اربعہ میں سے کسی ایک امام کے مذہب پر عمل ہوتا ہے مثلا مفقود الزوج وغیرہ۔ سفر حج سے متعلق اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالی عنہ اپنی تصنیف فتاوی رضویہ جلد چہارم ،ص:۶۸۴ میں تحریر فرماتے ہیں: ’’اگر ثقہ معتمدہ عورتیں واپسی کے لیے ملیں تو ان کے ساتھ جائے اور انھیں کے ساتھ واپس آئے کہ تقلید غیر عند الضرورہ بلا شبہہ جائز ہے۔ کما فی الدر المختار وغیرہ۔ بینوا وتوجروا۔

فتاویٰ # 1400

لندن سے ۱۰۰؍ میل جانب شمال لیسٹر شہر آباد ہے۔ اس شہر کا عرض البلد ۳۸ء۵۲ شمالی ہے۔ یہاں موسم گرما میں (۱۸؍ مئی سے ۲۶؍ جولائی تک) تقریبا دو ماہ نو دن ایسے آتے ہیں جب آفتاب غروب ہو کر مغرب کی جانب ۱۸؍ درجہ زیر افق نہیں پہنچتا ہے بلکہ ۱۲؍ درجہ ہی نیچے جاکر دوبارہ طلوع ہو جاتا ہے۔ برطانیہ کی مشہور زمانہ رصد گاہ ’’رائل گرینچ آبزرویٹری‘‘ نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے۔ ان کی اصطلاح میں اس خاص لمحہ کو جب سورج زیر افق شرعی ۱۸؍ درجہ تک آجا تاہے اسٹرو نومیکل ٹوائی لائٹ کا آغاز (Beginning of Astronomical Twitight ) کہتے ہیں۔ اور جب سورج زیر افق غربی ۱۸؍ درجہ تک چلا جاتا ہے تو اسے اسٹرو نومیکل ٹوائی لائٹ کا اختتام کہتے ہیں۔ گرینچ کی رصد گاہ نے اس سلسلہ میں لیسٹر کے لیے اسٹرو نومیکل ٹوائی لائٹ کے آغاز واختتام کا جو نقشہ مرتب کر کے دیا ہے وہ اس استفتا کے ساتھ منسلک ہے جسے دیکھ کر لیسٹر میں موسم گرما میں پیدا ہونے والی زیر بحث مخصوص صورت حال کی مزید وضاحت ہو جائے گی۔ مذکورہ بالا صورت حال، یہاں آباد ہزاروں مسلمانوں کے لیے اس وقت بڑی پیچیدہ ہے جب ہم بہت سے متقدمین ومعاصرین علما کی یہ آرا پڑھتے ہیں: (۱) انحطاط الشمس تحت أفق حتی کان ثمانیۃ عشر جزءا کان ذلک وقت طلوع الفجر في المشرق۔ (أبو ریحان البیروني۔ القانون المسعودي) (۲) وقد عرف بالتجربۃ أن أول الصبح وآخر الشفق إنما یکون إذا کان انحطاط الشمس ثمانیۃ عشر جزءا۔ (شرح چغمینی) (۳) وقد ذکر صاحب التصریح في الفصل الخامس وشارح الملخص الشغمیني في الباب الثالث من المقالۃ الثانیۃ أن أول الصبح واٰخر الشفق إنما یکون إذا کان انحطاط الشمس (أي من الأفق) ثمانیۃ عشر جزءا۔ (مولانا یوسف بنودي، معارف السنن جلد ثانی) (۴) أما الفجر والشفق فإن خطیہما ہو مقنطرۃ ثمانیۃ عشر في کل عرض وفي کل مکان وزمان۔ (أبو علي الحسن بن عیسی بن المجامي۔ تذکرۃ أولي الألباب في عمل صنعۃ الأسطرلاب) (۵) وإن ابتداء طلوع الفجر وانتہاء غروب الشفق یکونان عند انحطاء الشمس عن الأفق ثمانیۃ عشر درجۃ۔ (سید محمد بن عبد الوہاب مراکشي ، إیضاح القول الحق في مقدار انحطاط الشمس وقت طلوع الفجر وغروب الشفق) (۶) إن بدایۃ وقت الفجر، وہو صلاۃ الصبح، یبدأ عندما تکون الشمس تحت الأفق الشرعي بمقدار ۱۸؍ وإن وقت العشا یبدأ عندما تصیر الشمس تحت الأفق الغربی بمقدار ۱۸؍ کذلک۔ (ڈاکٹر حسین کمال الدین، پروفیسر محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی ریاض، تعین مواقیت في زمان ومکان علی سطح الأرض۔) (۷) امام احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ والرضوان نے بھی اپنے رسالہ ’’درء القبح عن درک وقت الصبح‘‘ میں جو کچھ فرمایا ہے اس سے بھی مذکورہ بالا تمام اقوال کی تائید وتصدیق ہی ہوتی ہے۔ مذکورہ اقتباسات کی روشنی میں گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر برطانوی رصد گاہ کی اصطلاحات کو شرعی اصطلاحات پر منطبق کیا جائے تو اسٹرونومیکل ٹوائی لائٹ کا آغاز، صبح صادق کا آغاز ہے۔ اور اسٹرونومیکل ٹوائی لائٹ کا اختتام عشا کے وقت کا آغاز ہے۔ اس صورت میں یہ بات لازم آتی ہے کہ موسم گرما کے مذکورہ بالا ایام (۱۸؍ مئی تا ۲۶؍ جولائی) میں لیسٹر میں شفق ابیض (بقول امام اعظم ابو حنیفہ) غائب نہیں ہوتی ہے اور شرعی رات کا تحقق نہیں ہوتا ہے کیوں کہ شرعی رات کی ابتدا شفق ابیض کے غروب کے بعد ہوتی ہے اور شفق ابیض کا غروب قواعد ہیئت کی روشنی میں آفتاب غروب ہونے کے بعد اس وقت ہوتا ہے جب آفتاب غروب ہو کر جانب مغرب ۱۸؍ درجہ زیر افق چلا جاتا ہے، اسی طرح یہ بات بھی لازم آتی ہے کہ لیسٹر میں مذکورہ بالا ایام میں شرعی صبح صادق کے آغاز کا بھی تحقق نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے صبح صادق کا ابتدائی وقت وہ ہوتا ہے جب سورج جانب مشرق ۱۸؍ درجہ زیر افق ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا تمام تفصیلات وگزارشات کی روشنی میں اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ : ۱۸؍ مئی سے ۲۶؍ جولائی تک کے درمیانی عرصہ میں لیسٹر میں وقت عشا کے آغاز اور صبح صادق کے آغاز کا تعین کس طرح کیا جائے، چوں کہ آج کل ماہ رمضان المبارک جون وجولائی میں آرہا ہے اس لیے ختم سحری کے وقت کا تعین بھی ایک مسئلہ ہے۔ اس سلسلہ میں آپ جو طریقہ بھی تجویز فرمائیں اس کی تائید میں باحوالہ عبارتوں کا اور متعلقہ کتب ومصنفین کے اسما کا بھی ضرور ذکر فرمائیں ، تاکہ فقہاے کرام وعلماے اسلام کے اقوال کی روشنی میں آپ کے مجوزہ طریقہ کو سند عام حاصل ہو جائے۔ اگر چہ یہ مسئلہ ایک خاص مقام وشہر کے بارے میں دریافت کیا جا رہا ہے لیکن برطانیہ کے متعدد شہروں کے مسلمان اسی طرح کی پریشانی سے دوچار ہیں اس لیے امید کی جاتی ہے کہ آپ کے مدلل ومفصل جواب سے دیگر شہروں کے مسلمان بھی مستفید ہو سکیں گے۔

فتاویٰ # 1401

(۱) پورب کے بعض ملکوں میں ایام سرما کی مخصوص تاریخوں کے اندر نماز عصر کا وقت داخل ہی نہیں ہوتا ۔نہ سیدنا امام اعظم کے نزدیک، نہ صاحبین وائمہ ثلاثہ کے نزدیک (رحمہم اللہ تعالی) یعنی کسی چیز کا سایہ، سایہ اصلی کے علاوہ ایک مثل نہیں ہوپاتا ہے کہ سورج غروب ہو جاتا ہے، دریں صورت غروب آفتاب کے بعد نماز عصر پڑھی جائے گی یا نہیں؟ اور اس کی ادایگی بہ نیت قضا ہوگی یا ادا؟ يا پھر وہ نماز فرض ہی نہیں ہوئی، یا ہوئی؟ اگر اس میں ائمہ اسلام کا اختلاف ہو تو اس کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ (۲) ہر سال یہاں کم وبیش پینسٹھ راتیں ایسی آتی ہیں کہ سیدنا امام اعظم کے مسلک میں نماز عشا کا وقت ہی داخل نہیں ہوتا ہے کیوں کہ افق غربی سے شفق ابیض زائل ہوتا ہے، نہ سورج ساری رات اٹھارہ درجے سے نیچے جاتا ہے (بارہ اور اٹھارہ کے درمیان گردش کرتا ہے) ایسی صورت میں احناف کے لیے نماز عشا کی ادایگی کی کیا صورت ہوگی؟ کیا اس خاص مسئلہ میں قول صاحبین کی طرف امام اعظم علیہ الرحمہ کا رجوع صحیح ہے جیسا کہ فتح القدیر اور رد المحتار وغیرہما میں ہے؟ اگر صحیح ہے تو مذکورہ راتوں کے علاوہ بھی ضرورت صحیح (جوبہت کم پائی جاتی ہے ) ومصلحت شرعیہ (ارتفاع نزاع بین المسلمین الحنیفین) وغیرہا کے پیش نظر قول صاحبین پر حنفیوں کو عمل جائز ہے؟ (۳) مذکورہ راتوں میں جب ساری رات سورج اٹھارہ درجہ سے نیچے نہیں ہوتا (صبح کاذب ہوتی ہی نہیں) تو امساک عن الاکل والشرب للصوم کا کیا ہوگا؟ کھا پی سکتے ہیں یا نہیں؟ (۴) یورپ کے اندر بیش تر ممالک میں جہاں کبھی اسلامی حکومت ہوئی ہی نہیں وہاں جمعہ واعیاد نیز سکونت مسلمین کا شرعی حکم کیا ہے؟ (۵) ہالینڈ کی ’’مجلس علما‘‘ نے مقامی موسمی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ستمبر کے آخر ہفتہ سے مارچ کے آخر ہفتہ تک شفق ابیض کے غائب ہونے پر بالاتفاق ابتداے عشا کا وقت تسلیم کیا ہے، اور ابتداے اپریل سے ستمبر کے تیسرے ہفتہ تک شفق احمر کے غائب ہونے کے بعد وقت عشا کی ابتدا تسلیم کیا ہے ۔ ایسا نہ کرنے پر نزاع شدیدو حرج مزید ہے۔ کیا مجلس علما کا یہ فیصلہ قابل عمل ہے ؟ بینوا توجروا۔

فتاویٰ # 1402

جہاں پر چھ ماہ کے دن اور رات ہوتے ہیں وہاں کے مسلمانوں پر روزہ ، نماز ،حج اور زکاۃ فرض ہے؟ اگر ہے تو کس طرح؟

فتاویٰ # 1404

ہماری مسجد میں جمعہ کی اذان دوپہر ۱۲:۳۰ بجے دی جاتی ہے۔ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ دو پہر ۱۲:۳۰ بجے زوال آفتاب کا وقت ہوتا ہے ، اس لیے زوال کے بعد اذان جمعہ دی جانی چاہیے اور اس دوران کوئی بھی نماز نہیں پڑھی جانی چاہیے۔ ایک صاحب نے اکسیر ہدایت ص:۸۶، پر جمعہ کی فضیلت میں بیان فرمایا ہوا یہ اقتباس پیش کیا: دوپہر ڈھلے آتش دوزخ بھڑکائی جاتی ہے مگر جمعہ کے دن نہیں بھڑکاتے۔ اس اقتباس کی روشنی میں دوسرے صاحب کا کہنا ہے کہ زوال آفتاب کے وقت بھی جمعہ کی اذان دی جا سکتی ہے اور نماز بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ مسئلہ کی رو سے جواب مرحمت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1405

جمعہ کے دن زوال کے وقت اذان دینا، یا نماز تحیۃ المسجد، یا نماز تحیۃ الوضو، یا اور کوئی دوسری نفل نماز پڑھنا کیسا ہے؟ چوں کہ یہاں پر بعض کہتے ہیں کہ جمعہ کی فضیلت کی بنا پر وقت زوال نماز جائز ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ وقت زوال کسی دن میں کوئی نماز جائز نہیں ہے جس کی بنا پر اختلاف واقع ہے تفصیلی جواب عنایت فرمائیں اور شکریہ کا موقع دیں۔

فتاویٰ # 1406

شافعی مسجد میں حنفی امام عصر کی نماز اس وقت پڑھتا ہے جب کہ حنفیہ میں موخر کر کے نماز پڑھنا افضل ہے، اگر اس وقت نماز پڑھے تو نماز ہو گی؟ مجھے قوی امید ہے کہ پہلی فرصت میں جواب دیں گے۔

فتاویٰ # 1407

مغرب اور عشا کی نمازوں کے لیے اذانوں کے درمیان چھوٹی بڑی راتوں میں کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کتنے وقت کا فاصلہ ہونا چاہیے ؟ ایک مولوی صاحب کہتے ہیں کہ مغرب اور عشا کی نماز وں کے لیے اذانوں کے درمیان چھوٹی راتوں میں ایک گھنٹہ سترہ منٹ اور بڑی راتوں میں ایک گھنٹہ اڑتیس منٹ کا فاصلہ ہونا چاہیے، کیا یہ قول صحیح ہے؟

فتاویٰ # 1408

عرض یہ ہے کہ اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان نے فتاوی رضویہ جلد دوم میں اوقات نماز کے بیان میں کئی مقام پر لکھا ہے : ان بلاد میں فلاں نماز کا وقت اتنے بجے سے اتنے بجے تک ہے تو ’’ان بلاد‘‘ سے کون شہر مراد ہیں؟

فتاویٰ # 1409

بہار شریعت میں نماز کے اول وقت اور آخر وقت کا جو بیان ہے اس میں یہ ہے کہ مغرب اور فجر کی نماز کا وقت کم سے کم ایک گھنٹہ ۱۸ منٹ اور زیادہ ایک گھنٹہ ۳۶ منٹ ہے ، کیا یہ وقت ہندوستان کے ہر حصہ کے لیے ہے ؟

فتاویٰ # 1410

مغرب کی نماز کا وقت کتنی دیر تک رہتا ہے؟ مغرب کی جماعت کسی مجبوری کی بنا پر چھوٹ گئی تو کوئی شخص اپنی نماز جو پڑھے گا تو یہ نماز اس کی ادا ہوئی یا قضا ہوئی تحریر فرمائیں، اور کتاب کا حوالہ بھی تحریر فرمائیں۔

فتاویٰ # 1411

ہمارے یہاں نماز جمعہ کے لیے اذان اول ۱؍ بجے اور اذان ثانی ۱؍ بج کر ۴۰؍ منٹ پر ہونے کا ہمیشہ سے وقت مقرر ہے، نمازی حضرات جن میں اکثر ملازم وغیرہ ہوتے ہیں اسی مقررہ وقت کے حساب سے شریک نماز جمعہ ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک سنی واعظ تشریف لائے جو دو بجے تک تقریر فرماتے رہے۔دو بجے امام مسجد نے مزید تقریر شروع کر دی۔ تمام مقتدی پریشان تھے کہ یہ تقریر جانے کب ختم ہوگی۔ بالآخر ۲؍ بج کر ۲۰؍ منٹ پر ایک مقتدی نے کہا کہ امام صاحب گھڑی دیکھیے اب تقریر کا ٹائم ہے کیا؟ ۲؍ بج کر ۴۰؍ منٹ پر تقریر ختم ہوئی۔ بعد جمعہ امام صاحب نے مقتدی مذکور کو ڈانتے ہوئے کہا کہ تو منافق ہے تو کافر ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ (۱) بلا ضرورت تقریر لمبی کرنا اور وقت مقررہ سے ۴۵؍ منٹ تاخیر کر کے اذان ثانی دلوا کر مقتدیوں کو پریشان کرنا کیسا ہے؟ (۲) حدیث پاک کے مطابق کسی مسلمان کو کافر ومنافق کہنے والا خود کیا ہے؟ (۳) کسی مسلمان کو مجمع عام میں منافق وکافر کہنے والے کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟ (۴)یہ کہنا کیسا ہے کہ کسی کی پیشانی پر تو مومن یا منافق لکھا ہوا ہے نہیں، جو بار بار گھوپا گھاپی کرے وہ منافق ہی ہے۔ یہاں لوگ بڑی تشویش میں مبتلا ہیں ، اس لیے حکم شریعت جاری فرما کر جواب سے جلد نوازیں۔

فتاویٰ # 1412

راجہ مبارک شاہ بابا کی جامع مسجد میں مختلف اوقات میں نماز جمعہ پڑھائی جاتی ہے۔ نماز جمعہ کا کوئی وقت متعین نہیں ہے جس کی وجہ سے عوام وخواص ومصلیان نماز جمعہ میں بہت بےچینی پائی جاتی ہے ایسی صورت میں نماز جمعہ کے لیے کیا حکم ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب صادر فرمائیں۔

فتاویٰ # 1413

ہمارے امام صاحب جو خیر سے عالم بھی ہیں نماز میں تاخیر کرتے ہیں خاص طور سےجمعہ کی نماز میں وقت نماز سے آدھے آدھے گھنٹے لیٹ ہو جاتے ہیں، ہمارے یہاں جمعہ کی اذان ۱۲؍ ۵۵ پر ہوتی ہے اور خطبہ کا ٹائم ڈیڑھ بجے کا ہے، قبلہ امام صاحب سوا ایک بجے مسجد میں رونق افروز ہوتے ہیں اور پھر تقریر شروع کر تے ہیں۔ اب وہ کب تقریر ختم کر کے خطبۂ جمعہ پڑھیں گے کچھ کہا نہیں جا سکتا، غرض یہ کہ نماز کا ٹائم مقرر نہیں ہونے سے نمازیوں کو پریشانی ہوتی ہے جب کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ :جب تم میں سے کوئی امامت کرے تو قراءت مختصر کرے کیوں کہ تم میں مریض بھی ہیں اور بوڑھے بھی ہیں ۔ کیا ایسے مریض اور بوڑھے جو زیادہ دیر نہ وضو رکھ سکتے ہوں اور نہ بیٹھ سکتے ہوں وہ اس حدیث سے باہر ہیں اور پھر آج کل کے اس زمانے میں لوگوں کو نماز میں وقت دینا ویسے بھی بھاری ہے، سیکڑوں بہانے مجبوری کے موجود ہیں اس حالت کو دیکھتے ہوئے کچھ لوگ دوسری مسجدوں میں جانے لگے ہیں جہاں امام غلط عقائد کے ہیں تو ان کی نماز بوجہ مجبوری ہوگی یا نہیں اور اگر نہیں تو اس کا ذمہ دار کون ؟ کیا نماز کے لیے پابندی وقت صرف مقتدیوں کے لیے ہی ہے اور ائمہ و علما حضرات اس سے بری ہیں؟

فتاویٰ # 1414

زید آیا اور فجر کی نماز ہو رہی تھی وہ بغیر سنت پڑھے ہوئے جماعت میں شریک ہو گیا پھر اس کے بعد سنت ادا کی، کیا اس کا ادا کرنا صحیح ہے؟

فتاویٰ # 1415

زید نے اول وقت میں منفرداً یا جماعت سے نماز عصر ادا کر لی۔ بعد ادایگی نماز عصر نماز نفل پڑھنا تو منع ہے تو کیا کسی وقت کی مثلاً ظہر کی قضا نماز پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ مفصل ومدلل تحریر فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔

فتاویٰ # 1416

نماز فجر کی اذان کے بعد سے اداے فجر فرض نماز تک سواے سنت کے اور کوئی نفل نماز پڑھی جا سکتی ہے یا نہیں؟ مع حوالہ کتب معتبرہ ارقام فرمائیں۔ وعند اللہ ماجور ہوں۔ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1417

تہجد کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے اور کب تک رہتا ہے؟ بالتفصیل تحریر فرمائیں نوازش ہوگی۔

فتاویٰ # 1418

فجر یا عصر کی نماز باجماعت میں کوئی کراہت (تحریمی یا تنزیہی) آجائے تو اس کا اعادہ اسی وقت کيا جائے گا یا سورج طلوع وغروب کے بعد؟

فتاویٰ # 1419

زید کہتا ہے کہ اگر کسی شخص نے طلوع آفتاب سے پہلے نماز شروع کی اور ایک رکعت کے بعد سورج نکل آیا تو نماز فجر ادا ہو جائے گی اور اعادہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ بکر کہتا ہے کہ نماز قطعی نہیں ہوگی اعادہ کی ضرورت ہے۔ بکر اپنے قول کی تائید میں شرح الوقایہ ،جلداول،ص:۳۱ کی یہ عبارت پیش کرتا ہے: لا یجوز صلاۃ وسجدۃ تلاوۃ وصلاۃ جنازۃ عند طلوعہا وقیامہا وغروبہا إلا عصر یومہ‘‘ اور زید یہ بھی پوچھنا چاہتا ہے کہ اگر طلوع آفتاب کے وقت نیندٹوٹی ہے تو نماز کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے اور اپنے قول کی تائید میں بخاری شریف کی اس حدیث کو پیش کرتا ہے : (حدیث) عن أبی ہریرۃ إذا أدرک أحدکم سجدۃ من صلاۃ العصر قبل أن تغرب الشمس فلیتم صلاتہ وإذا أدرک سجدۃ عن صلاۃ الصبح قبل أن تطلع الشمس فلیتم صلاتہ ‘‘۔ صورت مسئولہ میں کون حق پر ہے مدلل مع حوالہ جواب دیں۔

فتاویٰ # 1420

صبح صادق شروع ہونے کے بعد فجر کی سنت سے پہلے اور سنت وفرض کے درمیان قضا نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں کہ نہیں؟ جنتی زیور،ص:۱۹۷ میں درج ہے کہ صبح صادق سے سورج نکلنے تک فجر کی دورکعت سنت اور دو رکعت فرض کے سوا دوسری کوئی بھی نماز نفل پڑھنی منع ہے۔

فتاویٰ # 1421

(۱)عصر اور فجر کے بعد سجدۂ تلاوت ادا کرنا چاہیے کہ نہیں؟ بہت سے لوگ یہ فرماتے ہیں کہ عصر کے بعد قرآن شریف کی تلاوت نہ کرنی چاہیے۔ (۲) اشراق کی نماز کےلیے صبح کی نماز کے بعد کیا اسی جگہ بیٹھا رہنا ضروری ہے جہاں صبح کی نماز پڑھا تھا ، یا سورج طلوع ہونے کے بعد دوسری جگہ اشراق کی نماز ادا کی جا سکتی ہے؟ (۳) سورج کے طلوع وغروب اور زوال کے وقت قرآن شریف کی تلاوت یا تسبیح وغیرہ پڑھی جا سکتی ہے یا نہیں؟ (۴) راستہ چلتے ہوئے ، کسی سواری پر بیٹھے ہوئے تسبیحات کا پڑھنا اور درود شریف کا پڑھنا جائز ہے کہ نہیں؟

فتاویٰ # 1422

(۱) زید عصر کی نماز کے بعد قضا نماز ادا کرتا ہے چاہے کسی روز کی قضا ہو بکر بضد ہے کہ عصر کی نماز کے بعد کوئی نماز جائز نہیں، زید کہتا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے عصر کی نماز کے بعد سوا نفل نماز کے قضا وغیرہ پڑھ لینا شرعاً جائز ہے، ناجائز نہیں ہے۔ اب بتلائیے کہ شرعا کیا حکم ہے ؟ کیا واقعی عصر کی نماز کے بعد قضا نماز ناجائز ہے، اگر ناجائز ہے تو کتاب کا حوالہ دیا جائے تاکہ عوام الناس کرنے سے بچیں۔ (۲) بعض لوگ نماز پڑھ لینے کے بعد مصلے کے ایک کونے کو پلٹ دیتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ایسا نہ کرنے سے اس پر یعنی مصلیٰ پر شیطان نماز پڑھیں گے، کیا یہ بات واقعی صحیح ہے؟ صاف بیان فرمائیں کیوں کہ یہ بات اکثر جاہلوں میں مشہور ہے اور بہار شریعت حصہ سولہ میں ہے کہ یہ بے اصل ہے، آپ بھی بیان فرما دیں کہ یہ صحیح ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1423

سنا ہے رات میں بھی بارہ ساڑھے بارہ بجے رات کا زوال رہتا ہے اور اس وقت بھی کوئی نماز جائز نہیں، کیا یہ صحیح ہے؟ اور اس وقت نماز عشا وقضاے عمری وغیرہ پڑھنا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1424

ملاوی ، افریقہ میں صبح صادق ۴؍ بج کر ۳۶؍ منٹ پر ہے، سحری کا وقت ۴؍ بج کر ۳۱؍ منٹ پر ہے، فجر کی اذان ۴؍ بج کر پچاس منٹ پر ہے، فجر کی جماعت ۵؍ بج کر ۵؍ منٹ پر ہے ۔طلوع آفتاب ۶؍ بج کر ۵؍ منٹ پر ہے، زوال ۱۱؍ بج کر ۳۷؍ منٹ پر ہے، غروب آفتاب ۵؍ بج کر ۱۷؍ منٹ پر ہے۔ یہاں پر لوگ کاروباری رہتے ہیں جو کہ صبح سات بجے اپنی دکانیں کھول دیتے ہیں پھر انھیں آرام نہیں ملتا۔ ۵؍ بج کر ۵؍ منٹ پر فجر کا وقت رکھتے ہیں تاکہ سبھی لوگ شریک ہو سکیں مزید وقت بڑھانے سے تین حصہ لوگ سحری کھا کر سو جاتے ہیں جماعت کثیر کرنے کی غرض سے ۵؍ بج کر ۵؍ منٹ پر فجر کا وقت رکھتے ہیں تاکہ ثواب زیادہ ملے یہ عمرو کا قول ہے۔ زید کا قول ہے کہ فجر کی نماز کا ثواب صحیح اس وقت ملتا ہے جب کہ ہر چیز اپنی اصلیت پر نظر آنے لگے ۔ عمرو کا قول ہے کہ ایسا کرنے سے بہت سے لوگ فجر کی نماز ضائع کردیتے ہیں اس لیے ہم مجبورا فجر کا وقت رمضان میں جلدی رکھتے ہیں تاکہ سبھی لوگ شریک ہو سکیں۔ زید کا قول ہے چاہے لوگ شریک ہوں یا نہ ہوں فجر کی جماعت اس وقت کی جائے جب خوب سویرا ہو جائے۔ فجر کی جماعت میں عجلت صرف ہم رمضان شریف میں کرتے ہیں۔ زید کے اصرار پر عمرو نے فجر کا وقت بڑھا یا تو لوگوں کی شرکت کثیر تعداد میں کم ہو گئی۔ کثیر جماعت کرنے کی غرض سے فجر کا وقت جلدی رکھنا بہتر ہے یا کہ سویرا ہوجائے اور قلیل جماعت ہو ان مجبوریوں کے تحت شرعی حکم کیا ہے؟

فتاویٰ # 1425

زید پیری مریدی کے علاوہ مفتی اور شیخ الہند ہونے کا دعوی کرتا ہے اور کیمیاے سعادت کا حوالہ دیتے ہوئے ایک فتوی دیا ہے کہ جمعہ کے دن زوال نہیں ہوتا ہے حالاں کہ کتاب مذکورہ منگا کر ،ص:۸۴ پر دیکھا گیا تو امام غزالی علیہ الرحمہ نے صراحۃً لکھا ہے کہ اس وقت نماز مت پڑھو لیکن مفتی صاحب نے اپنی طرف سے اضافہ کر کے لکھ دیا کہ لیکن جمعہ کے دن پڑھو جمعہ اس سے بری ہے۔ نیز مشکات ،باب اوقات النہی فصل ثانی میں مروی ہے: قال أبو داؤد أبو الخلیل لم یلق أبو قتادۃ۔ نیز امام صاحب علیہ الرحمہ کی دوسری تصنیف مکاشفۃ القلوب،ص:۶۱۰ پر عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اشارہ کیا ہے کہ یہ حدیث منقطع ہے اس پر عمل نہیں ہے۔ مرأۃ المناجیح میں مفتی احمد یار خاں علیہ الرحمہ نے بھی کچھ اشارہ کیا ہے۔ آیا مسلک حنفی میں روز جمعہ زوال ہوتا ہے؟ اگر ہے تو شیخ الہند صاحب نے جو اپنی طرف سے بڑھا کر کہ ’’لیکن جمعہ کے دن پڑھو جمعہ اس سے بری ہے ‘‘ فتوی دے کر قوم کے اندر انتشار پیدا کر دیا ہے ۔ شخص مذکور مفتی بن سکتا ہے ؟اور شریعت سے اس قدر بے خبر پیر سے بیعت جائز ہے؟ نیز جناب کا یہ بھی فرمان ہے کہ حدیث کا جواب حدیث سے چاہیے ورنہ سب کچھ غلط۔ کیا ایک حنفی مفتی اور پیر کہلانے والے شخص کے لیے یہ قول قیاس سے انکار نہیں ہے۔ اور علماے کرام وائمۂ اربعہ فرماتے ہیں کہ اصول شرع چار ہیں تو مذکورہ قول کے تحت ضروریات دین کا منکر ہوئے کہ نہیں اگر ہوئے تو اس پر کیا حکم ہے؟ دوسری طرف مفتی صاحب شریعت مطہرہ کا مذاق اڑاتے ہوئے رمضان المبارک میں دوزخ بند رہنے کا انکار کرتے ہیں اور چڑھاتے ہوئے مولوی کلیم الدین صاحب کو لکھتے ہیں کہ پورے ماہ رمضان کے دوزخی اور ہزاروں برس والے دوزخی اس بند دوزخ کی حالت میں ادوارہ اسٹیشن لائن پر کلیم صاحب پاتے ہیں، آیا حدیث مشہورہ کا انکار کر کے ضروریات دین کا منکر ہو کر خارج از اسلام ہوئے یا نہیں؟ اور جو حضرات مذکورہ تینوں اقوال کے بے جا حمایت میں اول فول بکتے ہوئے لوگوں کو پریشان کریں ان کے لیے کیا حکم ہے بلا کسی رعایت کے مسئلہ حقہ کا واضح بیان فرما کر احسان فرمائیں، ممنون ومشکور ہوں گے۔

فتاویٰ # 1426

فجر کی نماز کے بعد اشراق تک اگر تلاوت کی جائے نماز اشراق کا وقت ہو جانے کے بعد اشراق کی نماز سورج نکلنے کے کتنی دیر بعد ادا کرنا چاہیے۔

فتاویٰ # 1427

ہمارے علاقے میں نماز مغرب اور نماز عشا کے درمیان صرف ایک گھنٹہ یا اس سے کم کا فرق رکھتے ہیں تو کیا اس وقت عشا کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کر نا ضروری ہے یا نہیں؟ اگر پڑھی تو کیا اعادہ ضروری ہے، یا نہیں؟

فتاویٰ # 1428

(۱)صبح صادق سے قبل جو اذان اور نماز ادا کی جائے گی کیا وہ ادا ہوگی؟ (۲) صبح صادق میں سحری کرنی چاہیے یا صبح کاذب میں اور صبح صادق وکاذب کسے کہتے ہیں؟ (۳) صبح کاذب میں سحری ختم کی گئی اور فورا ہی اذان بھی دے دی گئے اور ۱۰؍ ۱۵؍ منٹ بعد نماز بھی ادا کی گئی جب کہ صبح صادق ہونے میں ۲۰؍ منٹ باقی رہتا ہے ایسی اذان ونماز ہوئی یا نہیں؟ شریعت کا کیا حکم ہے؟ (۴) جن مسجدوں میں صبح صادق سے قبل اذان وجماعت ادا کی جاتی ہو کیا ان مسجدوں میں اذان ونماز دہرائی جائے گی یا نہیں؟ (۵) دوامی نقشہ اور ظہور الاوقات ان دونوں میں سے کون سا نقشہ ازروے شریعت صحیح ہے؟ غور وفکر کر کے جواب دیں۔

فتاویٰ # 1429

نماز فجر کے بعد (بروز عید الفطر) نماز عید الفطر کے قبل عیدگاہ میں کسی قسم کی نماز نفلی وغیر نفلی کا ادا کرنا جائز ہے؟ زید کہتا ہے کہ عید گاہ میں نماز فجر کے بعد کسی قسم کی نماز نماز عید سے قبل پڑھنا ناجائز وحرام ہے، کیا زید صحیح کہتا ہے؟

فتاویٰ # 1430

حضور ﷺ نے کبھی اذان دی ہے یا نہیں؟ اگر حضور نہیں دیتے تھے تو کیا وجہ تھی براے کرم قدرے تفصیل فرمائی جائے۔ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1431

(۱) ہمارے گاؤں کی مسجد میں ایک مؤذن ہے جو اذان کے کلمات اس طرح ادا کرتا ہے اعتراض کے باوجود ہٹ دھرمی پر قائم ہے الفاظ بعینہ تحریر ہیں: اللہ کبر، اللہ کبارک، اشہد ان لا الہ اللِّیہِ، اشہد ان محمد رسولُ اللِیہِ، ایّ علی الصلیہِ، ایّ علی الفلیہِ، لا الہ الا للِیہِ۔ اگر حکم دیں تو اذان ٹیپ کر کے بھیجا جاسکتا ہے۔ (۲) مؤذن صرف اذان دیتا ہے اور چلا جاتا ہے نماز سے سروکار نہیں اگر کبھی اقامت کہنی پڑی تو بعد اقامت صف سے نکل کر گھر یا کسی کام سے چلا جاتا ہے۔ لوگوں کے اعتراض پر جواب دیتا ہے کہ اذان میں دیتا ہوں نماز کی ذمہ داری آپ کی، نہیں دل میں آئے گا نہیں پڑھوں گا، جس چیز کی نوکری ہے ادا کرتا ہوں۔ جواب سے نوازیں اذان سے جماعت کا حکم ہے، اور بے نمازی مؤذن کے اذان کا کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1432

زید ہمارے یہاں مسجد میں کافی عرصہ سے مؤذن ہے لیکن اذان کے الفاظ صحیح ادا نہیں کرپاتا ہے ۔ أشہد أن لا إلہ کو أشہد أن لا إلح‘‘ بڑی حا سے پڑھتا ہے۔ علاوہ ازیں غین وغیرہ بھی ادا نہیں ہوتی ہے اور اس کا متعدد بار جھوٹ بولنا بھی ثابت ہو چکا ہے، امام مسجد کا کھانا محلہ سے آتا ہے، زید ایک وقت میں کئی جگہ امام کی دعوت لوگوں کے گھر جا کر کہہ دیتا ہے اور ایک جگہ کا کھانا امام کو لاکر دیتا ہے بقیہ جگہوں سے خفیہ طور پر اپنے گھر پہنچاتا ہے ، یہ باتیں شرعی طور پر ثابت ہیں۔ لہذا دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید کو منصب مؤذن سبھالنے دیا جائے یا معزول کر دیا جائے؟ اور اگر یہ خرابیاں زید دور نہ کرے اور کچھ لوگوں کو اپنا حمایتی سفارشی بنالے تو اراکین اس سلسلے میں کیا کریں؟ اور اگر اراکین مسجد زید ہی سے اذان دلوائیں تو نماز میں کیا خرابی آئے گی؟ جو خدا اور رسول کا فرمان ہو آگاہ فرما کر مشکور فرمائیں۔ بینوا توجروا۔

فتاویٰ # 1433

زید کا انتقال ہو گیا ان کے دفنانے کے بعد جب سب لوگ جانے لگے تب ایک مولوی صاحب نے اذان پکارا لیکن ’’حی علی الصلاۃ وحی علی الفلاح‘‘ کی جگہ ’’یا حل المشکلات‘‘ و’’یا دافع البلیات‘‘ پکارا۔ بنا بریں ناچیز سمجھنا چاہتا ہے کہ یہ امر مستحسن ہے یا امر قبیح مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1434

اگر کسی مسجد میں اذان ہو چکی ہے لیکن بعد میں کسی آنے والے نے یہ سمجھا کہ ابھی اذان نہیں دی گئی ہے ،اذان دینا شروع کر دیا۔ تو اب جن کو پہلی اذان کی خبر ہے اس کو اطلاع کریں یا اس کو اذان دینے دیں اور اگر مؤذن ثانی کو کسی کے کہنے سے علم ہو گیا کہ اذان ہو چکی ہے تو اب اس کو اذان کو روک دینا چاہیے یا پوری کر لینا چاہیے؟

فتاویٰ # 1435

اذان کے بعد کی دعا ہاتھ اٹھا کر پڑھنی چاہیے یا ہاتھ گراکر ۔ زید کا کہنا ہے کہ اذان کے بعد کی دعا ہاتھ اٹھا کر نہیں پڑھنا چاہیے۔ مستحب اور بہتر طریقہ کیا ہے؟

فتاویٰ # 1436

نماز پنج گانہ کی جماعت کی اقامت کے وقت ’’حي علی الصلاۃ‘‘ یا ’’حی علی الفلاح‘‘ کے وقت اٹھنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ثابت ہے ، دلائل طلب کرنے پر علما دلیل دیتے ہیں کہ ’’تم جب تک مجھے دیکھ نہ لو کھڑے مت ہو‘‘ اس حدیث شریف کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ جب ابو بکر ’’حي علی الصلاۃ‘‘ یا ’’حي علی الفلاح‘‘ پر پہنچتے تھے تو سرکار اقدس ﷺ حجرۂ مبارکہ سے باہر تشریف لاتے تھے۔ لیکن غور طلب سوال یہ ہے کہ بروز جمعہ جب کہ آپ ﷺ خطبہ ارشاد فرماتے اس کے بعد نماز قائم ہوتی تو اقامت ضرور ہوتی ہوگی تو اس وقت آپ ﷺ مع صحابۂ کرام رضوان اللہ اجمعین کے کیا عمل تھا؟ کیا اقامت کے وقت کھڑے رہتے یا بیٹھے رہتے؟ جواب باصواب عنایت فرما کر احسان کریں۔

فتاویٰ # 1437

مسجد کے داہنے طرف اذان کہنا کیسا ہے اور داہنی طرف اگر اذان ہو جائے تو کیا اذان ہو جائے گی؟

فتاویٰ # 1438

نماز کا وقت جس وقت شروع ہو اسی وقت اذان ہونی چاہیے یا کتنی دیر بعد جیسے آج کل عشا کا وقت آٹھ بج کر گیارہ منٹ پر شروع ہوجاتا ہے تو اذان اسی وقت ہو یا کچھ دیر بعد اور جماعت کا وقت اذان سے کتنی دیر بعد رکھا جائے ۔ کہیں ۱۵؍ منٹ، کہیں ۳۰؍ منٹ اذان ہونے کے بعد سے جماعت کا وقت ہوتا ہے آیا یہ صحیح ہے یا غلط؟ جواب مرحمت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1440

(۱) کیا ٹکڑوں میں یعنی کہ تین یا زیادہ حصوں میں اذان کے کسی کلمہ کی ادایگی درست ہے یا پھر اذان دہرائی جائے، یا کیا؟ (۲) کیا ظہر کی اذان ۱؍ بجے اگر بھول سے دیدی گئی ہو تو کیا پھر اذان دہرانی چاہیے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1441

ابھی رمضان المبارک چل رہا تھا ،ہماری مسجد میں اذان کے لیے مائک لگا ہوا ہے ایک دن عین افطار کے وقت لائٹ چلی گئی یہاں کے امام صاحب نے بیک وقت دو اذانیں کہلوائیں ایک تو نیچے اور دوسری مسجد کی چھت سے اس فعل پر باہم لوگوں میں تنازع پیدا ہو گیا ہے لہذا براے کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ فعل صحیح ہے یا غلط اور امام صاحب کے بارے میں شرعی حکم کیا صادر ہوتا ہے ، مدلل جواب سے نواز کر مشکور فرمائیں۔

فتاویٰ # 1442

بلا داڑھی والا اگر اذان پڑھے جب کہ ابھی نماز نہیں پڑھتا ہے۔ اس مسئلہ کے بارے میں قرآن وحدیث کی روشنی میں کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1443

زید کا مکان مسجد سے ملحق ہے ، مسجد کی دیکھ بھال بھی زید ہی کرتا ہے ۔ وقت پر باجماعت نماز کی ادایگی کے لیے مستقل امام بھی مقرر ہے ، لیکن مؤذن مستقل کوئی نہیں ہے چناں چہ کبھی کبھی زید بھی اذان دیا کرتا ہے اگرچہ زید بغیر داڑھی کا ہے اور اب تک زید کے بغیر داڑھی کے ہونے کے باوجود اذان دینے پر کسی نے کسی طرح کا کوئی اعتراض نہیں کیا اور بحسن وخوبی نماز پنج گانہ باجماعت ادا ہوتی رہی۔ بکر بھی اسی مسجد میں برابر نماز ادا کرتا ہے اور زید کے اذان دینے پر کبھی بھی معترض نہیں ہوا۔ مورخہ ۱۰؍ ستمبر ۱۹۹۹ء بروز جمعہ عصر کی نماز کے لیے بھی زید نے ہی اذان دی۔ بکر مسجد میں آیا تو اچانک معترض ہوکر یہ کہتے ہوئے دوبارہ اذان دی کہ بغیر داڑھی والے مؤذن کی اذان پر نماز ادا نہیں ہوگی۔ اور خود اذان دوبارہ دی جب کہ بکر کو بتایا گیا کہ اذان ہو چکی ہے۔اس سے کچھ دن قبل یہی بکر ایک داڑھی والے شخص جس نے مسجد کو آباد کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے کے اذان دینے پر یہ کہہ کر اعتراض کیا کہ تم داڑھی کو تراشتے ہو لہذا تمہاری اذان بھی شرعا درست نہیں ہے حالاں کہ اس شخص کی داڑھی بظاہر ایک مشت معلوم ہوتی ہے بکر بالکل ان پڑھ اور جاہل ہے اس کی اس طرح کی باتوں سے عوام خصوصا نمازیوں کو سخت تکلیف ہے ۔ محلہ کا ماحول خراب ہوتا ہے جو فتنہ کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ براہ کرم مذکورہ مسئلہ کو قرآن وحدیث کی روشنی میں درست کیا ہے بتانے کی زحمت فرمائیں تاکہ ملت میں انتشار نہ پیدا ہو سکے اور یہ بھی بتائیں کہ فتوی کو نہ ماننے والوں کے لیے کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1444

ہماری مسجد کے مؤذن صاحب نے ایک عورت سے شادی کی اور تھوڑے دنوں کے بعد اس عورت کو انھوں نے طلاق دیدی ، اس عورت نے کسی دوسرے آدمی سے شادی کرلی ۔ بعد میں اس شخص نے بھی چھوڑ دیا پھر مؤذن صاحب نے اس عورت کو اپنی پناہ میں لے لیا اور ابھی وہ عورت مؤذن صاحب کے پاس ہی رہتی ہے وہ عورت نہ پہلے پردہ کرتی تھی نہ آج پردہ کرتی ہے۔ ایسی حالت میں آپ مطلع کریں کہ آیا وہ مؤذن کے فرائض انجام دینے کے لائق ہے یا نہیں؟ کیوں کہ انھوں نے اب تک اس عورت سے نکاح نہیں کیا ہے۔ جس پر بیش تر لوگوں کی شکایتیں وصول ہوتی رہتی ہیں لہذا ایسی حالت میں کمیٹی کو کیا کرنا چاہیے ۔ چناں چہ کمیٹی آپ کے مشورے کی متمنی ہے۔

فتاویٰ # 1445

کیا وہ شخص اذان دے سکتا ہے جس کا آپریشن (نس بندی) ہوا ہو یا زبردستی اس کا آپریشن کردیا گیا ہو۔ بکر کہتا ہے کہ میرا آپریشن تو گورنمنٹ نے کیا ہے، میں خود نہیں کروایا ہوں۔ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1446

ایک شخص زید ہے ہر جمعہ کو مسجد میں نماز پڑھنے آتا ہے اور اذان دیتا ہے اور زید کے داڑھی بھی نہیں ہے حالاں کہ اور داڑھی والے ہیں ۔ زید کا اذان دینا کیسا ہے؟ اس مسئلہ کے بارے میں تفصیل سے جواب تحریر فرمائیں۔ اس کے بارے میں جواب تحریر فرمائیں۔

فتاویٰ # 1447

میرے یہاں ایک شخص سنی صحیح العقیدہ ہے نماز، روزہ کا پابند ہے تسبیح وتہلیل کی کثرت کرتا ہے ، نماز کی پابندی کا عالم یہ ہے کہ وقت سے آدھ گھنٹہ پیش تر ہی آکر مسجد میں بیٹھ کر ذکر میں مشغول ہوجاتا ہے مگر وہ شراب کی بھٹی پر ملازمت کیے ہوئے ہے، شراب کی بوتلوں کا شمار کرنا، لکھنا پڑھنا ، بل بنانا، شام کو کُل بِکری کا حساب وکتاب کرنا سب اس کے ذمہ ہے۔ شراب بھٹی پر بنتی بھی ہے اور کھلی ہوئی نیز بند بوتلیں بھی بکتی ہیں۔ دریافت کا اصل مقصد یہ ہے کہ کبھی کبھی مسجد میں امام صاحب کے نہ رہنے پر وہ شخص نماز بھی پڑھا دیتا ہے اور اذان بھی دےدیتا ہے آیا اس کی امامت جائز ہے کہ نہیں، اور جتنی نمازیں اس کی اقتدا میں پڑھی گئیں واجب الاعادہ ہیں کہ نہیں، نیز مسئلہ معلوم ہونے کے بعد اس کی اقتدا جائز ہے کہ نہیں، اس سے چندہ لے کر مسجد مدرسہ یا دیگر دینی کاموں میں خرچ کرنا کیسا ہے؟ شرعاً جواب جلد مرحمت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1448

ایک مؤذن زید پانچوں وقت کی اذان مسجد میں دیتا ہے ظاہر میں کوئی کام نہیں کرتا ہے مسجد ہی میں پڑا رہتا ہے جب مسجد سے باہر لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے تو لوگ اس سے کام دھندھے کے لیے کہتے ہیں تو وہ اس کے جواب میں کہتا ہے : میں نے ہفتہ بھر پہلے ہی سٹہ لگایا تھا یہ(نوٹ دکھاتے ہوئے) سو ڈھیڑھ سو روپے مل گئے ، میاں سب اللہ دیتا ہے میں کسی کی پروا نہیں کرتا ہوں۔ ایسے مؤذن کو مسجد میں اذان دینی چاہیے یا نہیں اور مسلمانوں کو اس معاملے میں کیا صورت اختیار کرنی چاہیے، اور ایک مؤذن کے لیے کیا خوبیاں ہونی چاہیے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1449

غلام حبیب احمد ایک مزدور آدمی ہے، ایک چائے کی دوکان چلا کر اپنی زندگی گزارہ کرتا ہے، اس سے محلہ کی مسجد میں پیش امام صاحب نے اور دیگر اشخاص نے کہا کہ ہماری مسجد کے پیش امام بہت سست ہیں تم ایک ماہ رمضان المبارک میں اذان دےدیا کرو ۔ غلام حبیب نے جواب دیا کہ آپ حضرات اپنی جماعت کے مسجد کے نمازیوں سے مشورہ کر لیں مجھے اذان دینے میں کوئی عذر نہیں ہے ۔ مسجد کے پیش امام صاحب نے اور ایک دیگر شخص صدیق نے جواب دیے کہ ہم نے سب سے مشورہ کر لیا ہے ہم مسجد کے پیش امام کی حیثیت سے اجازت دیتے ہیں موجودہ مؤذن نے بھی اجازت دے دی ہے ۔ پیش امام کے اس حکم کو پاکر غلام حبیب احمد اذان دینے کے لیے تیار ہو گئے، اس نے یہ پیش کش بھی کی کہ وہ بلا اجرت وبلا تنخواہ یہ دینی خدمت انجام دیں گے۔ جمعہ کے دن مسجد کے پیش امام صاحب غلام حبیب احمد کی دکان پر قریب ۹؍ بجے آئے اور کہا کہ جلد تیار ہو جاؤ تمھیں آج اذان دینا ہے۔ غلام حبیب احمد وقت پر مسجد پہنچا اور اس نے مسجد کے مؤذن سے اجازت حاصل کر کے جمعہ کی اذان کہی۔ غلام حبیب کے اذان کہنے پر اسی محلہ کے ایک بااثر بزرگ معترض ہوئے کہ اس مسجد میں مؤذن مقرر ہے تم نے اذان کیوں کہی؟ مسئلہ یہ ہے کہ ’’جو نماز نہ پڑھتا ہو وہ اذان دینے کا حق نہیں رکھتا‘‘۔ ان بزرگ کا رخ دیکھتے ہی امام صاحب بھی بدل گئے۔ مجھے پیش امام کے طرز عمل سے بہت تکلیف پہنچی اور میں نے ان کے پیچھے نماز پڑھنا ترک کر دیا۔ اگر میرا یہ طرز عمل خلاف شرع ہو تو میں توبہ کرنے کو تیار ہوں نیز پیش امام نے ان تمام اشخاص سے سلام وکلام بالکل ترک کردیا جو میرے ہم خیال ہیں اس لیے براے کرم ان بالا حالات کی روشنی میں مجھے شرعی فیصلے سے مطلع فرمائیں۔

فتاویٰ # 1450

مدینہ مسجد میں ایک مؤذن رکھا گیا ہے جو جماعت اسلامی سے یا جماعت اہل حدیث سے تعلق رکھتا ہے اور سب متولیان جانتے ہیں کہ مؤذن ہمارے عقیدہ یعنی سنی نہیں ہے۔ مذکورہ مؤذن پانچوں وقت اذان واقامت پڑھتا ہے اور کبھی کبھی تمام اہل سنت کی امامت بھی کرتا ہے۔ کیا از روے شریعت اس کی اذان واقامت درست ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو اذان واقامت سے جو نماز پڑھی گئی ہوئی یا نہیں؟ کیا اس کا دہرانا لازم ہے، جو نماز اس کے پیچھے پڑھی اس کا کیا حکم ہے، جو یہ جانتے ہوئے نماز ان کے پیچھے پڑھی کہ مؤذن صاحب جماعت اسلامی یا دیوبندی سے تعلق رکھتے ہیں کیا وہ ایمان سے خالی ہو گیا ؟ کیا اس کی بیوی نکاح سے نکل گئی ؟ کیا پھر سے اسلام لانا پڑے گا؟ متولیان مسجد سب جانتے ہیں کہ مؤذن سنی نہیں ہے ان سب پر شریعت کا کیا فتوی ہے؟

فتاویٰ # 1451

زید اذان دے رہا تھا اسی وقت کتا بھونک رہا تھا۔ تو بکر نے کہا کہ تمہارا عقیدہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس لیے کہ جب تم مغرب کی اذان دے رہا تھا تو کتا تمہارے اوپر لعنت پھینک دیا۔ تو میرا یہ کہنا ہے کہ جب کتا بھونکے تو اذان دینا کیسا ہے؟ اس وقت اذان دینا چاہیے کہ رک جانا چاہیے؟ کیا بکر کا یہ کہنا صحیح ہے کہ کتا تمہارے اوپر لعنت پھیک رہا ہے۔ یہ بات بکر نے صحیح کہا یا غلط کہا اور اگر غلط کہا تو کیا فتوی لاگو کیا جائے گا۔

فتاویٰ # 1452

صلاۃ خمسہ کے لیے اگر اذان جماعت خانہ کے اندر سے دیں تو کیسا ہے؟ نیز اذان کہاں سے دینا شریعت کے نقطۂ نظر سے صحیح ہے؟ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1453

(۱) آندھی ،طوفان، اور بچہ پیدا ہونے کے بعد جو اذان دی جاتی ہے اس میں ’’حی علی الصلاۃ ‘‘ و ’’حی علی الفلاح‘‘ پڑھا جائے گا یا ان کلموں کی جگہ دوسرے کلمات استعمال ہوں گے؟ (۲) نابالغ بچہ صف کے بیچ میں اگر کھڑا ہو جائے تو اس کو ہٹادیا جائے گا یا نہیں، اگر ہٹا دیا جائے تو کیا نماز پڑھتے وقت بھی اس کو ہٹایا جا سکتا ہے، اگر نہ ہٹائے اس کے بغل میں بالغ آدمی رہے تو کیا کسی کی نماز میں کوئی خرابی لازم آئے گی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1454

کیا اذان مسجد کے پیچھے دی جا سکتی ہے۔ مسجد کے بائیں جانب ایک مکان ہے جو مسجد کے تھوڑے پیچھے ہے اس مکان میں لاؤڈ اسپیکر رکھنے میں سہولت اور لاؤڈ اسپیکر کی حفاظت ہوتی ہے۔ تو کیا اس مکان یعنی مسجد کے پیچھے اذان دی جا سکتی ہے؟

فتاویٰ # 1455

اذان، تکبیر کبھی کبھی تبلیغی جماعت کے لوگ کہتے ہیں، کیا یہ درست ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں۔

فتاویٰ # 1456

پنج گانہ نماز قائم کرتے وقت مؤذن ہر بار تکبیر کہتا ہے اس طرح سے نماز جنازہ ، نماز تراویح، نماز وتر، نماز عیدودیگر قسم کی باجماعت نمازیں جن میں امام کی اقتدا کی جاتی ہے ، مؤذن تکبیر کیوں نہیں کہتا ہے؟ نماز کے آداب اور احکام کی روشنی میں اس کا فلسفہ کیا ہے؟

فتاویٰ # 1457

ریڈیو سے تلاوت قرآن واذان ہوتی ہے تو کیا اذان کا جواب دینا اور تلاوت قرآن کو سننا واجب ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1458

ہم کچھ لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں اور وہاں نماز باجماعت پڑھتے ہیں مگر اذان نہیں کرتے ہیں جب کہ مسجد کی اذان سنائی پڑتی ہے تو کیا اذان جماعت کے لیے ضروری ہے؟

فتاویٰ # 1459

ضلع لکھیم پور (گاؤں بھیرا) میں رمضان شریف کی آخری رات یعنی چاند رات کی شب کی عشا کی اذان کی صدا یکے بعد دیگرے لوگ دیتے ہیں یعنی ایک شخص وضو کر کے اذان کہتا ہے پھر دوسرا شخص با وضو اذان کہا اسی طرح سات یا گیارہ مرتبہ اذان کہی جاتی ہے ۔ عالم صاحب نے چند بار اذان کہنے سے منع کیا لیکن بھیرا کے باشندے عالم کی شان میں مکروہ الفاظ نکالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے آباو اجداد کرتے چلے آ رہے ہیں اور کئی بار اذان کہنے کا رواج ہے؟ صورت مسئولہ میں چند بار اذان دینے کی شرعا ممانعت فرمائی گئی ہے کہ نہیں؟ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1460

تہجد کی نماز کے لیے اذان دینا اور تہجد کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا کہاں تک صحیح ہے، کیا یہ درست ہے؟

فتاویٰ # 1461

(۱) غیر مذہب کی اذان دوہرانا چاہیے یا نہیں اور اذان میں محمد رسول اللہ پر انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں میں لگانا اور درود شریف پڑھنا چاہیے یا نہیں؟ (۲) زید کے مکان سے کئی مسجدوں کی اذان سنائی دیتی ہو اور زید اذان کے وقت نہ وظیفہ میں ہونہ کسی کام میں ہوتو ہر مسجد کی اذان کو دہرانا ضروری ہے یا صرف پہلی؟ (۳) زید مسجد میں کسی وقت کی اذان پڑھنے ہی والا تھا کہ دوسری مسجد کی اذان سنائی دینے لگی تو اب زید اذان کو دہرائے یا خود اذان پڑھنا شروع کر ے؟ (۴) کیا اس طرح دعا کی جا سکتی ہے کہ : یا اللہ تمام مسلمانوں کو بخش دے، جو بیمار ہوں شفا دے، جو پریشان ہوں ان کی پریشانیاں دور کردے وغیرہ وغیرہ۔ (۵) چار رکعت والی نماز میں پہلی یا تیسری رکعت میں بیٹھ گئے تو یاد آیا ، یا ’’التحیات‘‘ تھوڑا پڑھنے پر یاد آیا تو کھڑے ہو گئے تو کیا سجدۂ سہوہ لازم ہوجائے گا؟ (۶) نماز میں سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی سورہ ملانے سے پہلے رکوع میں جانے لگے، یا رکوع میں پہنچا تو یاد آیا تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے۔ (۷) تراویح نہ پڑھنے والا گنہ گار ہوگا یا نہیں؟ (۸) تراویح تنہا پڑھنے والا وتر آہستہ پڑھے یا بلند آواز سے؟

فتاویٰ # 1462

اذان میں ترنم جائز ہے کہ نہیں اور ترنم کی کیا تعریف ہے اور اذان دینے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟

فتاویٰ # 1463

یہاں جامع مسجد کا جو مائک اذان دینے کے لیے لگا ہوا ہے اذان کے علاوہ کوئی مرجاتا ہے تو اعلان کرتے ہیں، شادی کا اور دعوت کا اعلان اسی مائک سے ہوتا ہے اور میلاد ووعظ کا اعلان ہوتا ہے۔ عمر کا کہنا ہے کہ مسجد سے میلاد شریف کے اعلان کے علاوہ شادی موت اور دوسرا اعلان نہیں ہونا چاہیے۔ شرعا مسجد کا مائک دوسروں کی ضرورت پر استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ شرعا اذان کے علاوہ مسجد کا مائک کن صورتوں میں استعمال ہو سکتا ہے ، آگاہ فرمائیں؟

فتاویٰ # 1465

نجف علی ایک برادر اسلام ہے اس نے اپنی ایک لڑکی کی شادی کی، لڑکی سسرال گئی۔ کچھ دنوں بعد لڑکی نجف علی کے پاس گھر واپس آگئی۔وہی لڑکی ایک ہندو کے گھر میں رات دن رہتی ہے۔ اس کے یہاں کھانا، پینا، بنانا اور اس کے گھرمیں کام کاج میں لگی رہتی ہے۔ رات میں بھی اسی کے گھر میں سوتی ہے، وہی لڑکی نجف علی کے گھر میں ماں باپ کے پاس آتی جاتی ہے، نجف علی کی بیوی بھی اس کے (ہندو کے گھر) آتی جاتی رہتی ہے۔ نجف علی کو چند مسلمانوں نے، جناب صدر عبد القیوم صاحب نے اسے بہت سمجھایا کہ اپنی لڑکی کو جو کہ رات دن ہندو کے گھر میں رہتی ہے پھر تمہارے یہاں بھی آتی جاتی رہتی ہے یہ اچھی چیز نہیں ہے، اپنی لڑکی کو گھر میں اپنے پاس رکھو۔ اگر تم سے نہیں ہو سکتا تو اپنی لڑکی ہمارے گھر کر دو ہم سے کھانا کپڑا لےگی۔ عزت کے ساتھ ہمارے پاس رہے گی۔ پھر بعد میں جیسا ہوگا دیکھا جائے گا۔ مگر نجف علی کسی کی بات نہیں مانا وہی کام چلتا رہا۔ اس وجہ سے نارتھ جھگڑا کھانڈکاری کی جماعت نے نجف علی کو جماعت سے ترک (الگ) کر دیا ہے ۔ علماے دین بذریعہ شریعت اطلاع فرمائیں کہ: (۱) نجف علی مسجد میں اذان دے سکتا ہے یا نہیں؟ (۲) نجف علی مسجد میں تکبیر کہہ سکتا ہے یا نہیں؟ (۳) نجف علی مسجد میں پیش امامت کر سکتا ہے یا نہیں؟ (۴) نجف علی مسجد میں بھرے ہوئے پانی کی ٹنکی سے پانی نکال سکتا ہے یا نہیں؟ (۵) نجف علی میلاد میت میں ،قبرستان جا سکتا ہے یا نہیں؟ (۶) نجف علی سے سلام کرنا کیسا ہے؟ یا سلام کا جواب دینا کیسا ہے؟ (۷) نجف علی کو جماعت سے ترک کردینے کے بعد نجف علی کو یا اس کی بیوی بچوں کو کھانا پینا کھلانا ، کچھ امداد کرنا کیسا ہے؟ علماے دین بذریعہ شریعت اطلاع فرمائیں کہ ایسے شخص (نجف علی) کے لیے شریعت کیا حکم فرماتی ہے؟

فتاویٰ # 1466

جو حی علی الفلاح، و حی علی الصلاۃ پر چپ وراست رخ نہ کرے تو اذان ہوگی؟

فتاویٰ # 1467

ایک شخص گھر میں ٹی وی رکھ کر دیکھتا ہے اور بیوی بچوں کو بھی دکھاتا ہے۔پڑوسی بھی دیکھتے ہیں منع کرنے پر کہتا ہے : میں مسجد سے اذان دینا چھوڑ سکتا ہوں یا مسجد کو چھوڑ سکتا ہوں مگر ٹی وی نہیں چھوڑ سکتا ، مجھے بچوں کی مار نہیں کھانی ہے۔ شخص مذکور لاٹری بھی کھیلتا ہے۔ تو اس شخص سے اذان دلانا کیسا؟

فتاویٰ # 1468

یہاں چند مختلف خیالات رکھنے والے مسلمان بھائی اعتراضات وانکار کرتے ہیں کہ قبل اذان اور قبل اقامت بلند آواز سے درود شریف پڑھنا اور پڑھ کر اذان واقامت بولنا درست نہیں۔ مگر مسجد میں روزانہ بلند آواز سے درود شریف پڑھ کر مائک میں اذان بولی جاتی ہے اور پست آواز سے درود شریف پڑھ کر اقامت بولی جاتی ہے۔ اس کو روکنے کے لیے روزانہ تحقیقات مخالفانہ مسلمان بھائی کر رہے ہیں امید رکھتاہوں کہ براہ کرم اس کا درست طور سے دلیل کے ساتھ تفصیل سے آقاے نامدار تاجدار حرم سرکار مدینہ شفیع المذنبین رحمۃ للعالمین کے صدقہ وطفیل سے مکمل طور سے جواب تحریر کریں تاکہ اطمینان ہو۔ براہ کرم اس پرچہ پر آپ کا مہر لگا کر اور دست خط کر کے جواب تحریر کریں۔ میرے پتہ کے جوابی کارڈ میں رکھ کر روانہ کریں۔

فتاویٰ # 1469

ہمارے قصبہ کی مسجد میں اگست ۱۹۹۷ء سے اذان واقامت کے پہلے مؤذن صاحب بآواز بلند درود شریف اور الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ، الصلاۃ والسلام علیک یا حبیب اللہ کہتے ہیں۔ حاصل طلب چند سوالات ہیں: (۱) مؤذن کا یہ عمل شریعت (قرآن وحدیث کی روشنی میں) صحیح ہے یا غلط ؟اگر صحیح ہے تو اسے اگست ۹۷ء کے پہلے کیوں نہیں کیا گیا، اگر صحیح ہے تو دیگر مقامات پر اہل سنت وجماعت کی مساجد میں کیوں نہیں کیا جاتا؟ (۲) مؤذن کی غیر حاضری میں کوئی شخص اس عمل کے بغیر اذان اور اقامت کہتا ہے تو اسے غلط مانا جاتا ہے، یا ایسے شخص کو اذان واقامت کے لیے نہیں کہا جاتا؟ (۳) اگر یہ عمل صحیح نہیں ہے تو اسے کیسے روکا جائے کیوں کہ منع کرنے والے کا وہابی کہہ کر مذاق اڑا دیا جاتا ہے، یا اس کی بات سنی ہی نہیں جاتی ہے۔ (۴) اگر یہ عمل غلط ہے تو اس کو شروع کرنے والے اور ساتھ دینے والوں کے ساتھ کیا عمل کیا جائے اور یہ کس طرح رد کیا جائے۔ (۵) کیا یہ بدعت ہے؟

فتاویٰ # 1470

ابتداے اذان میں اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر چار بار اور وسط اذان میں ہر ہر جملہ دو دو بار اور اخیر اذان میں لا إلہ إلّا اللہ ایک بار کیوں ؟ جواب مع حوالہ دیا جائے۔

فتاویٰ # 1472

اگر منہ میں دانت نہ ہوں تو ایسے شخص کا اذان دینا درست نہیں۔ اور دوسرا یہ کہ منہ میں دانت نہ ہوں تو ایسے شخص کا ذبح درست نہیں۔ یہ دونوں مسائل بڑی الجھن میں ڈالے ہوئے ہیں۔ از راہ کرم آپ سے گزارش ہے کہ ان دونوں مسائل کو شرعی نقطۂ نظر سے قرآن وحدیث کی روشنی میں حل کریں، عین نوازش ہوگی۔

فتاویٰ # 1474

اذان واقامت سے متعلق ضروری باتیں کیا ہیں؟

فتاویٰ # 1475

(۱)ہمارے یہاں خطبہ کی اذان باہر سے دی جاتی ہے لیکن مؤذن جب اذان کے لیے باہر جاتا ہے اور پھر اقامت کے لیے صف اول میں جاتا ہے تو اس کے آنے اور جانے کی بنا پر لوگوں کی گردن کو پھلانگنا پڑتا ہے(نبی ﷺ نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے) جو کہ تکلیف دینا ہوا، اب اس صورت میں بھی ایک سنت کو ادا کرنے کی غرض سے کیا لوگوں کو تکلیف ہوتی رہے؟ یا یہ مؤذن اس وعید سے مستثنی ہے جواب سے نوازیں گے۔ مزید اذان ثانی کہاں سے دی جائے وضاحت کریں۔ (۲) نبی ﷺ کے زمانے میں خطبہ کی اذان کہاں سے ہوتی تھی؟ (الف) اذان ثانی کب شروع ہوئی اور کس زمانے میں اذان ثانی ہوئی نیز اس وقت اذان ثانی کہاں سے ہوتی تھی؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دور خلافت میں دوسری اذان کا اضافہ کیا ہے ۔ ایک اذان نماز پنج وقتہ کی اذان کی طرح سے مقام ’’زوراء‘‘ سے دلوایا اور خطبہ کی اذان اپنے منبر کے قریب سے دلوایا جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی اذان مینارہ سے اور دوسری خطبہ والی اذان منبر کے قریب سے ہونی چاہیے۔ علامہ بدر الدین عینی حنفی فرماتے ہیں: وعن الحسن بن زیاد عن أبي حنیفۃ ھو أذان المنارۃ؛ لأنہ لو اشتر ط الأذان عند المنبر لفوتہ أداء السنۃ وسماع الخطبۃ۔ حسن بن زیاد امام ابو حنیفہ سے ناقل ہیں کہ کاروبار بند کرنے میں پہلی مینارہ والی اذان کا اعتبار ہوگا کیوں کہ اگر منبر والی اذان کی شرط لگائی جائے تو سنت کی ادایگی اور خطبہ کا سننا چھوٹ جائے گا۔ (بنایہ شرح ہدایہ، جلد اول، ص:۱۰۱۴) اس عبارت میں امام ابو حنیفہ نے پہلی اذان کو ’’اذان المنارۃ‘‘ اور دوسری خطبہ والی اذان کو ’’اذان عند المنبر‘‘ فرمایا ہے جس سے واضح طریقہ پر معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک خطبہ کی اذان منبر کے قریب سے ہی دی جاتی تھی۔ نوٹ: منبر کے قریب سے اذان ہونے کی دلیل بعض حضرات بہت پیش کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خطبہ کی اذان منبر کے قریب سے ہی ہونی چاہیے۔ اب حقیقت کیا ہے، آپ براے کرم قرآن وحدیث نیز ائمۂ اربعہ کے اقوال کو پیش کریں گے۔

فتاویٰ # 1476

حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور دور خلفاے راشدین میں کتنی اذانیں تھیں اور کہاں ہوتی تھیں، نیز اذان خطبہ کہاں ہوتی تھی ،اگر رسول اللہ ﷺ اور خلفاے راشدین رضی اللہ تعالی عنہم کے زمانے میں اذان مسجد کے باہر ہوتی تھی اور ہمارے اماموں نے مسجد کے اندر اذان کو مکروہ فرمایا ہے تو ہمیں اس پر عمل لازم ہے یا رسم ورواج پر۔ اور جو رسم ورواج حدیث شریف اور احکام فقہ سب کے خلاف پڑجائے وہاں مسلمانوں پر پیروی حدیث وفقہ کا حکم ہے یا رسم ورواج پر اڑا رہنا ۔ علما پر لازم ہے یا نہیں کہ سنت مردہ زندہ کریں۔ اگر ہے تو کیا اس وقت ان پر یہ اعتراض ہو سکے گا کہ کیا تم سے پہلے عالم نہ تھے اگر یہ اعتراض ہو سکے گا تو سنت زندہ کرنے کی کیا صورت ہوگی؟ مع دلائل بالتفصیل تحریر فرمائیں، عین کرم ہوگا۔

فتاویٰ # 1477

اذان ثانی جو منبر کے سامنے ہوتی ہے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں منبر کے سامنے ہوتی تھی کہ منبر کے سامنے باہر؟ خلفاے راشدین رضی اللہ تعالی عنہم کے زمانے میں کہاں ہوتی تھی۔ فقہ حنفی کی معتمد کتابوں میں مسجد کے اندر اذان دینے کو منع فرمایا اور مکروہ لکھا ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1478

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے زمانے میں اذان خطبہ جمعہ کس جگہ ہوتی تھی؟

فتاویٰ # 1479

زید کہتا ہے کہ جمعہ کی اذان ثانی مسجد کے اندر منبر کے سامنے دینی چاہیے اور بکر کہتا ہے کہ جمعہ کی اذان ثانی مسجد کے باہر دینی چاہیے۔ ان دونوں میں سے کس کا کہنا بجا ہے؟ شرع مطہر کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ اور زید کہتا ہے کہ غوث پاک نے جمعہ کی اذان ثانی مسجد کے اندر دینے کو جائز لکھا ہے۔ اور حوالے میں کتاب غنیۃ الطالبین کو پیش کرتا ہے اور اس کتاب کے مترجم اپنے کو بریلی شریف منظر اسلام کا مدرس لکھتے ہیں۔ کیا حقیقت میں یہ کتاب غوث اعظم کی ہے؟ اور کیا اس میں حضور غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ نے ایسا لکھا ہے؟ مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1480

(۱) جمعہ کے دن خطبہ کی اذان از روے معتبر احادیث کریمہ اور فقہاے کرام کے مفتی بہ اقوال زریں وفقہ حنفی کی معتمد کتابوں کی روشنی میں(جومشہور بریلوی و دیوبندی اختلاف سے پہلے کی ہوں) کہاں دی جائے مدلل ومفصل مع احادیث وکتب فقہ حنفی مرقوم فرمائیں۔ (۲) جمعہ کی اذان ثانی اندر دینا جائز ہے یا ناجائز ، شق اول کی صورت میں (جائز) سنت یا مستحب وافضل ہے؟ اور شق ثانی کی صورت میں (ناجائز) بھی سنت یا مستحب یا مکروہ؟ جس شق کو اپنائیں براہ کرم مدلل طور پر واضح فرمائیں۔ (۳) علماے کرام کیا لوگوں کے مشورے پر چلیں گے یا عوام الناس علما کی باتوں پر پھر ان علما اور عوام دونوں کو کیا کرنا چاہیے؟ (۴) غلط رسم ورواج پر اڑا رہنا کیسا ہے؟ بقول ایک فریق کے کسی مستحب امر کے اندر رکاوٹ پیدا کرنے سے اس پر عمل کرنا ایک طرح سے ضروری ولازم ہو جاتا ہے، عند الائمہ بینوا؟ (۵) مساجد ومدارس میں خلاف شریعت عام ازیں کہ مستحب وافضلیت کا اختلاف ہو تو اقوام مسلمین کو کیا کرنا چاہیے؟ آیا اکثر واقل کا اس میں بھی خیال رکھنا درست ہے یا نہیں؟ (۶) دنیاوی مفاد ومنافع کے لیے دینی امور کو ترک کرنا کیسا ہے ؟ خواہ مستحب ہی ہوں۔ (۷) علما وعوام دونوں کسی سنت کو مل کر زندہ کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں کہ نہیں یا ان میں سے کوئی ایک بھی اور پھر ان میں سے زیادہ کون حق دار ہیں اور سنت کے زندہ ہونے پر ثواب ہے تو کتنا ؟ بینوا (۸) غیر عالم کو وعظ وتقریر اور مسئلہ بتانا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1481

عن السائب بن یزید قال: كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ۔ اس حدیث سے بظاہر اذان خطبہ مسجد کے دروازے پر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ لیکن فقہاے احناف کی تشریحات اور حدیث مذکور میں تضاد معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ذیل میں ہے: (الف) نور الایضاح میں ہے: والأذان بین یدیہ کالإقامۃ (یعنی خطبہ کی اذان امام کے سامنے اقامت کی طرح کہنا سنت ہے۔) (ب) مراقی الفلاح میں ہے: والأذان بین یدیہ جری بہ التوارث کالإقامۃ بعد الخطبۃ۔ یعنی خطبہ کے بعد اقامت کی طرح خطیب کے سامنے قریب سے خطبہ کی اذان دینے کا معمول چلا آ رہا ہے۔ (ج) امداد الفتاح میں ہے : والأذان بین یدیہ کالإقامۃ سنۃ۔ یعنی خطیب کے سامنے قریب سے اذان دینا اقامت کی طرح سنت ہے۔ (د) ’’ما لا بد منہ‘‘ میں ہے : ’’چوں امام بر منبر بہ نشیند اذان دوم روبروے او گفتہ شود‘‘ ذیل میں لفظ ’’بین یدیہ‘‘ اور ’’علی باب المسجد‘‘ پر اشکال ہے۔ اشکال دور فرما کر لفظ ’’بین یدیہ‘‘ اور ’’علی باب المسجد‘‘ کی شرح کیجیے تاکہ مسئلہ بالکل واضح ہو جائے۔ (۱) آثار السنن میں مذکورہ بالا حدیث نقل کرنے کے بعد تحریر ہے (قال البغوي: علی باب المسجد غیر محفوظ) علی باب المسجد غیر محفوظ سے کیاثابت ہوتا ہے۔ (۲) اگر مذکورہ بالا حدیث معمول بہ ہے تو فقہاے احناف نے اس حدیث سے روگردانی کیوں کی؟ (۳) بین یدیہسے قریب کا سامنا مراد لیا جائے یا دور کا۔ اگر دور کا مراد لیا جائے تو اس حدیث ’’خرج علینا رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- بالہاجرۃ فصلی بالبطحاء الظہر والعصر رکعتین ونصب بین یدیہ عنزۃ ‘‘ میں امام اور سترہ کی دوری کیا ہوگی جیسا کہ علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں: السنۃ أن لا یزید ما بین وبینہا علی ثلثۃ أذرع‘‘۔ یعنی سنت یہ ہے کہ نمازی اور سترہ کے درمیان تین ہاتھ سے زیادہ فاصلہ نہ ہو۔ (۴) کس علت کی وجہ سے بخاری، نسائی مشکات اور خود ابو داؤد کی ایک روایت میں علی باب المسجد کا لفظ نہیں ہے اگر چہ راوی سائب بن یزید ہی ہیں؟ ہر دو حدیثوں اور فقہاے احناف کی عبارتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسی تحقیق پیش کیجیے تاکہ تضاد رفع ہو جائے اور اشکالات ختم ہو کر مسئلہ بالکل واضح ہو جائے۔

فتاویٰ # 1482

اذان ثانی جمعہ کی مسجد کے اندر دی جائے یا باہر؟ زید کا کہنا ہے کہ باہر سے دینا نئی بات ہے جب کہ بکر کا کہنا ہے کہ اندر سے اذان دینا ساری حدیثوں اور کتب فقہ کے بالکل خلاف ہے ، صحیح کیا ہے؟

فتاویٰ # 1483

عرض یہ ہے کہ آپ کا پرچہ میری نظر سے گزرا جس کو پڑھ کر بڑاقلق ہوا کہ دانش وروں کے دماغ میں بھی کذب اور عوام الناس کو ورغلانے کا مادہ پیدا ہو چلا ہے۔ سیدھے سادھے مسلم عوام کو بے سر وپا کی دلیل دے کر انھیں اپنے حلقہ میں شامل کرنے کی ناپاک کوشش کی جاتی ہے جیسا کہ آپ نے کیا ہے۔ ضعیف روایت بیان کر کے لوگوں کو گمراہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا اور اس پر بھی یہ لکھنا کہ فقہاے احناف کی کسی معتبر کتاب میں مسجد کے اندر اذان ثانی (خطبہ کی اذان) منبر کے سامنے دینا ثابت نہیں یہ سراسر کذب بیانی ہے۔ لوگوں کو فریب دینے کے لیے ایسا آپ نے کیا ہے لہذا میں آپ کے حوالہ نمبر (۱) کی روایت نقل کر کے اس پر فقہاے احناف کی راے فراہم کرتا ہوں، آیا یہ روایت صحیح ہے یا غلط، ضعیف ہے یا قوی اور اس سے استدلال کرنا درست ہے یا نہیں، ملاحظہ ہو۔ عن السائب بن یزید قال: كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ وَأَبِى بَكْرٍ وَعُمَرَ. رواہ أبو داؤد،ج:۱،ص:۱۵۵۔ سائب بن یزید سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے اذان دی جاتی تھی مسجد کے دروازے پر جب آپ منبر پر بیٹھ جاتے اور حضرت ابو بکر وعمر کے زمانے میں بھی ایسا ہی رہا۔ لیکن علامہ جمیل صاحب آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ جو روایت آپ مشتہر کروا رہے ہیں بہت ہی ضعیف روایت ہے، وجہ یہ ہے کہ اس کے راوی میں ایک نام محمد بن اسحاق کا آتاہے اور محمد بن اسحاق کو حدیث کے معاملے میں انتہائی ضعیف راوی قرار دیا گیا ہے۔ اب ملاحظہ فرمائیں محدثین کی رائے۔ امام نسائی فرماتے ہیں: أنہ لیس بالقوی۔ (یعنی یہ قوی نہیں) ۔ امام دار قطنی فرماتے ہیں : لا یحتج بہ۔ (اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا)۔ امام مالک نے محمد ابن اسحاق کو ’’دجال من الدجاجلۃ‘‘ (دجالوں میں سے ایک دجال) قرار دیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق محمد ابن اسحاق کا تعلق رفض وتشیع سے تھا۔ (تہذیب التہذیب، ج۹،ص:۴۱، میزان الاعتلال ،ج۳،ص:۳۱۰۔ ) بعض محدثین نے تعدیل بھی کی ہے مگر محدثین کے مابین محمد ابن اسحاق کی جرح وتعدیل کے متعلق اتنا شدید اختلاف ہےکہ کسی دوسرے راوی کے متعلق اتنا اختلاف نظر نہیں آتا۔ اور اصول حدیث کا یہ متفقہ قاعدہ ہے کہ جرح، تعدیل پر مقدم وراجح ہے۔ لہذا اگر کسی حدیث کے کسی راوی کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل مختلف ہوں تو اس کا کم سے کم یہ اثر ضرور ظاہر ہو تا ہے کہ وہ حدیث ضعیف بن جاتی ہے اور اس سے استدلال درست نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے ابو داؤد شریف کی مندرجہ بالا روایت قابل استدلال نہیں کیوں کہ اس کے سلسلہ روات میں محمد بن اسحاق کی موجودگی نے اسے ضعیف اور ناقابل استدلال بنا دیا ۔ اس کے علاوہ ابو داؤد شریف میں اس حدیث کا سلسلہ سند یوں بیان کیا ہے: ثـنا النفیلی حدثنا محمد بن سلمۃ عن محمد بن اسحاق عن الزہري عن سائب بن یزید۔ (ج اول،ص:۱۵۵) حدیث بیان کی ہم سے نفیلی نے انھوں نے کہا حدیث بیان کی مجھ سے محمد بن سلمہ نے انھوں نے محمد بن اسحق سے انھوں نے امام زہری سے انھوں نے سائب بن یزید سے۔ یعنی محمد بن اسحق نے شہاب زہری سے انھوں نے صحابی رسول حضرت سائب بن یزید سے اس روایت کو نقل کیا ہے۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ اس روایت کو شہاب زہری سے نقل کرنے والے تنہا محمد بن اسحق نہیں، شہاب زہری کے اور بھی کئی شاگرد ہیں مگر ’’علی باب المسجد‘‘ (مسجد کے دروازہ پر) کے لفظ کسی نے بھی راویت نہیں کیا۔ یہ الفاظ صرف محمد بن اسحاق کی روایت میں ہیں،جب کہ حدیث کے باب میں امام زہری کے دیگر شاگرد محمد بن اسحاق سے کہیں زیادہ ثقہ اور قابل اعتماد مانے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے ’’علی باب المسجد‘‘ کے الفاظ میں محمد بن اسحاق کے تفرد نے اس روایت کو غیر محفوظ اور شاذ بنا دیا اور یہ بھی ضعیف روایتوں کی ایک قسم ہے۔ مقدمہ مشکات شریف میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: والشاذ في اللغۃ من تفرد عن الجماعۃ وخرج منہا۔ وفي الاصطلاح ما روی مخالفا لما رواہ الثقات فإن لم یکن رواتہ ثقۃ فہو مردود، وإن کان ثقۃ فسبیلہ الترجیح بمزید حفظ وضبط أو کثرۃ عدد ووجوہ آخر من الترجیحات، فالراجح یسمی محفوظا، والمرجوح شاذا۔ (مشکوۃ شریف،ص:۴) شاذ لغت میں اسے کہتے ہیں جو ثقہ راویوں کی روایت کے خلاف ہو پس اگر شاذ کے راوی غیر ثقہ ہوں تو وہ مردود ہے اور اگر وہ ثقہ ہوں تو حفظ وضبط اورکثرت تعداد اور دیگر وجوہ سے دونوں روایتوں کے درمیان ترجیح ہوگی ۔ راجح روایت کو محفوظ اور مرجوح کو شاذ کہا جائے گا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں: فالراجح یقال لہ المحفوظ ومقابلہ ہو المرجوح یقال لہ الشاذ۔ (شرح نخبۃ الفکر،ص:۳۹) محمد بن اسحق حدیث کے باب میں ثقہ بھی نہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ اپنی روایت کے ذریعے ثقات کی مخالفت کردی، اس لحاظ سے یہ حدیث نہ صرف شاذ ہوئی بلکہ شاذ کی ادنی قسم ’’مردود‘‘ میں شامل ہوئی جیسا کہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے۔ اب یہ پتہ لگانے کے لیے کہ محمد بن اسحاق نے الفاظ روایت ’’علی باب المسجد‘‘ کے ذریعہ ثقات کی مخالفت کی ہے یا نہیں۔ محدث کبیر علامہ محمد بن علی نیموی کی آثار السنن جزء ثانی ملاحظہ کیجیے: علامہ محمد بن نیموی محمد بن اسحق کی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’علی باب المسجد‘‘ غیر محفوظ ۔ (آثار السنن ج۲،ص۹۴) علی باب لمسجد غیر محفوظ ہے۔ پھر حاشیہ التعلیق الحسن میں لکھتے ہیں: قولہ: غیر محفوظ، قلت: تفرد بہ محمد بن اسحاق عن زہري عن السائب بن یزید وخالفہ غیر واحد من أصحاب الزہري یونس، عقیل، الماجشون عند البخاري وغیرہ، وابن أبي الذئب عند أحمد وأبي داؤد وابن ماجہ، وصالح وسلیمان التیمي عند النسائي کلہم عن الزہري عن السائب بن یزید بدون ہذا اللفظ، وقد رواہ محمد بن اسحاق أیضا عن الزہري بدون ہذا اللفظ في روایۃ عند أحمد بلفظ کان بلال یؤذن إذا جلس رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- علی المنبر یوم الجمعۃ ویقیم إذا نزل ولأبي بکر وعمر رضی اللہ تعالی عنہما حتی کان عثمان ۔ میں کہتا ہوں کہ ان الفاظ کو زہری سے وہ سائب بن یزید سے روایت کرنے میں محمد بن اسحاق تنہا ہے اور زہری کے کئی شاگر اس کے مخالف ہیں۔ مثلا یونس، عقیل، ماجشون، بخاری وغیرہ میں، اور ابن ابی الذئب مسند احمد، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں، اور صالح اور سلیمان تیمی نسائی میں یہ سب کے سب اس روایت کو زہری سے سائب بن یزید کی سند سے نقل کرتے ہیں۔ مگر ان کی روایتوں میں یہ الفاظ (علی باب المسجد) نہیں ہیں۔ خود محمد بن اسحاق نے بھی مسند احمد میں ایک جگہ ان الفاظ کے بغیر نقل کیا ہے وہ یہ کہ: حضرت بلال اذان دیتے تھے جمعہ کے دن جب رسول اللہ ﷺ منبر پر بیٹھتے، اور اقامت کہتے جب منبر سے اتر تے۔ ایسے ہی حضرت ابو بکر وعمر کے زمانے میں بھی رہا یہاں تک کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک اور اذان کا حکم فرمایا۔ علامہ نیموی کہتے ہیں کہ محمد بن اسحق کی اس روایت کا ابتدائی حصہ آخری حصہ کے متعارض ہے کیوں کہ روایت کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں: کان یؤذن بین یدي رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- إذا جلس علی المنبر ۔ رسول اللہ ﷺ کے سامنے اذان دی جاتی تھی جب آپ منبر پر بیٹھ جاتے تھے اور آخری الفاظ یہ ہے ’’علی باب المسجد‘‘ ۔ مسجد کے دروازے پر ۔ ظاہری مفہوم کے اعتبار سے ’’سامنے ‘‘ اس حصہ کو کہا جاتا ہے جو منبر کے پاس والی صف کا حصہ ہو اور کئی صفوں کے بعد دروازہ والے حصہ کو سامنے نہیں کہا جاتا۔ (حوالہ مذکورہ) حقیقت یہ ہے کہ اگر محمد بن اسحق کی یہ روایت اسقام وعلل سے خالی اور لائق استناد وقابل استدلال ہوتی تو فقہاے احناف اسے ضرور قبول کرتے لیکن فقہاے احناف کا بالاتفاق اسے رد کردینا اور مسجد کے دروازے کے بجاے منبر کے پاس خطیب کے سامنے اذان ثانی کی عبارتیں لانا صریح دلیل ہے کہ ائمہ احناف اس روایت کو ضعیف سمجھتے ہیں اور اس سے استدلال درست نہیں سمجھتے۔ اور پوری امت کا توارث وتعامل بھی یہی ہے جو بجاے خود حجت شرعی ہے۔ مگر مولانا جمیل صاحب اشرفی کو اپنی خود کی اندھی تقلید کی سوجھتی ہے اور جناب اس ضعیف حدیث کا سہارا لے کر استدلال کرتے ہیں جس حدیث کو بالاتفاق فقہاے احناف ضعیف کہتے ہیں۔ علامہ نیموی کا ایک استدلال ملاحظہ ہو۔ اذان ثانی مسجد میں منبر کے سامنے ہونے کے متعلق اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو حضرت سائب بن یزید سے مروی ہے: عن السائب بن یزید قال: كَانَ بلال يُؤَذَّنُ إذا جلس رَسُولُ الله -صلى الله عليه وسلم- عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فإذا نزل أقام ثم کان کذلک في زمن أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ.(نسائی:ج۱،ص:۲۰۷) سائب بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت بلال اذان دیتے تھے جب رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن منبر پر بیٹھتے پس جب اترتے تو اقامت کہتے پھر حضرت ابو بکر وعمر کے زمانۂ خلافت میں بھی اسی طر ح رہا۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ خطبہ کی اذان مسجد میں حضور کے سامنے منبر کے پاس ہوا کرتی تھی۔ ورنہ اگر حضرت بلال مسجد کے باہر دروازے پر اذان دیتے تو اندر آنے اور اقامت کہنے کے لیے لازما لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آنا پڑتا۔ بلکہ جانا پڑتا گردنیں پھلانگ کر، اور آنا بھی پڑتا۔ جب کہ حضور ﷺ نے جمعہ میں بطور خاص گردنوں کو پھلانگ کر آنے جانے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے تو کیا یہ ممکن تھا کہ ایک طرف حضور گردنوں کو پھلانگنے پر غصہ کا اظہار فرمائیں اور سختی سے منع کریں اور دوسری طرف حضرت بلال سے وہی کام کرائیں۔ معلوم ہوا کہ حضرت بلال منبر کے سامنے اذان دیا کرتے تھے وہیں موجود بھی رہتے تھے اور خطبہ کے بعد اقامت بھی کہہ دیتے تھے۔ کہیں آنے جانے کی نوبت نہیں آتی تھی کہ گردنوں کو پھلانگنا لازم آئے۔ جمعہ کے دن گردنیں پھلانگ کر آنے جانے کی ممانعت بہت سی احادیث میں وارد ہے۔ ایک حدیث درج ذیل ہے: عن معاذ بن أنس الجہني عن أبیہ قال: قال رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم-: من تخطی رقاب الناس یوم الجمعۃ اتخذ جسرا إلی جہنم۔ (ترمذی، ج۱، ص۶۷) معاذ بن انس الجہنی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگیں اس نےجہنم کی جانب پل باندھا (بنایا)۔ اب مولانا جمیل صاحب حتماً وایماناً یہ بتائیں کہ کیا یہ حدیث ثقہ ہے اور اس سے استدلال درست ہے میں تو سمجھتا ہوں کہ اس سے قطعی استدلال درست نہیں جیسا کہ مذکورہ بالا روایتوں سے پتہ چلتا ہے ، لہذا جمیل صاحب فوراً توبہ استغفار کیجیے۔ اس امر پر کہ فقہاے احناف کے یہاں کی معتبر کتابوں میں مسجد کے اندر اذان ثانی دینا مکروہ ہے اور بدعت ۔ بدعت اس لیے لکھا کہ آپ کے احمد رضا صاحب مسجد کے اندر خطیب کے سامنے اذان دینا بدعت گردانتے ہیں ورنہ عتاب الہی سے ڈریے۔

فتاویٰ # 1484

ہماری بستی کی مسجد کافی بڑی ہے ، ایک اندرونی حصہ ہے، ایک دالان ہے اور ایک صحن ہے۔ اندرونی حصہ کے بعد جو دالان ہے اس میں تین در ہیں۔ دیواروں کے آثار موٹے ہیں اور دروں کے دروازے چھوٹے ہیں جس کی وجہ سے منبر پر بیٹھا ہوا امام باہر سے نظر نہیں آتا۔ مسئلہ اس وقت اس مسجد میں بیرون مسجد اذان ثانی کا ہے۔ خیال رہے کہ اس مسجد میں امام کے بالمقابل پہلی صف میں کھڑے ہو کر تقریبا پچاس ساٹھ سال سے مؤذن اذان پڑھتا ہے۔ اس کے بعد امام خطبہ پڑھتا ہے اس کے بعد نماز ہوتی ہے۔ معلومات کے مطابق بیرون مسجد جو اذان ثانی ہوگی وہ امام کے سامنے ہونی چاہیے لیکن دیوار اور دروازہ درمیان میں حائل ہونے کے باعث اذان بیرون مسجد نہیں ہو سکتی اور پرانے ہی طریقہ سے اندرون مسجد اذان و خطبہ ونماز جمعہ ہوتی ہے ۔ کیا ایسا کرنے سے نماز میں کوئی خامی یا کمی ہوتی ہے، یہاں پر بیرون مسجد اذان ہونے پر انتشار بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ مہربانی فرماکر از روے شرع قرآن وحدیث کی روشنی میں اس سوال کا جواب مرحمت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1485

(۱) جو شخص اذان ثانی باہر پڑھنے کا سخت مخالف ہو اور یہ کہے کہ اگرچہ خلاف سنت ہے اوراذان ثانی باہر پڑھنا چاہیے لیکن میں باہر نہیں ہونے دوں گا یہ تو باپ دادا کے زمانے سے اندر ہوتی چلی آئی ہے۔ ایسے شخص پر شریعت کا کیا حکم ہے؟ (۲) جو لوگ کہتے ہیں کہ اذان مسجد کے اندر ہو تب بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے اور مسجد کے باہر ہو تب بھی کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن جس جگہ جہاں پر ہو رہی ہے وہیں پر ہو تو زیادہ بہتر ، ایسے لوگوں کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1486

میرے یہاں اب تک نماز پنج گانہ کی اذان مسجد کے اندر یعنی پہلی صف والے جہاں سجدہ کرتے ہیں وہاں ہوتی تھی اور نماز جمعہ کے خطبہ کی اذان جب امام منبر پر تشریف فرما ہوتے تو مؤذن منبر کے قریب کھڑے ہو کر اذان دیتے تھے۔ مگر ایک مولوی ہمارے یہاں عربی مدرسہ میں بچوں کی تعلیم کے غرض سے آئے رفتہ رفتہ انھوں نے نماز پنج گانہ کی اذان صحن کے کنارے مقرر کر دیے، اور خطبہ کی اذان منبر کے سامنے جو مسجد کا دروازہ ہے وہاں مقرر کر دیے ۔ یہ ہمارے لیے ہمارے علاقے والوں کے لیے ایک نئی چیز ہے آج تک ایسا نہ ہوا جب مولوی صاحب سے دلیل طلب کیا تو انھوں نے امام اہل سنت مجدد دین وملت اعلی حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی فتاوی رضویہ جلد دوم میں سنن ابو داؤد شریف کی دلیل ، اور بھی کتب کی دلیل پیش کرتے ہیں لیکن شر کرنے والوں میں سے بعض اپنے ہی جوہم لوگوں کے ذہن کو خراب کرتے ہیں لہذا شرعی اصول کیا ہے اس سے آگاہ کریں، صد بار شکر گزار ہوں گے۔

فتاویٰ # 1487

(۱) کیا فرماتے ہیں مفتیان دین متین وعلماے کرام امام صاحب کے اس قول پر جو مندرجہ ذیل فتوے کو سن کر ادا کیا۔ فروری ۱۹۷۹ء ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور، فتوی حضرت مولانا مفتی محمد شریف الحق صاحب کا خطبہ سے متعلق ’’جمعہ کی اذان خطبہ خارج مسجد کی جائے اور اندرون مسجد اذان دلوانی یا دینی خلاف سنت ہے‘‘۔ یہ فتوی چند لوگوں کے سامنے پڑھ کر سنایا۔ امام صاحب سے کہا کہیے جہاں سے آپ فارغ ہیں یہ وہیں کا فتوی ہے، کہیے کیا کہتے ہیں، کچھ دیر بعد انتہائی نحیف آواز سے بولے’’وہاں بھی تو اندرون مسجد اذان ہوتی ہے، ویسے مفتی صاحب متشدد ہیں‘‘۔ میں نے کہا تعجب ہے، اہل سنت کے مسلک کا ٹھوس ترجمان، انتہائی ذمہ دار ماہنامہ اشرفیہ میں ہمارا ایک مفتی ایسی غلط بات لکھ دے جو عربک یونیورسٹی میں نہ ہو ، انتہائی تعجب خیز بات لگتی ہے۔ امام صاحب ! میں دریافت کروں۔ کافی کہنے پر دبی زبان سے کہا پوچھ لیں۔ وہ سوچے کون پوچھا پوچھی کرے گا ، بات آئی گئی ہو جائے گی لیکن میں نے آپ تک سوال بھیجا اور یہ فتوی آیا جسے براؤں شریف اور بریلی شریف بھی تصدیق کے لیے بھیجا، سبھوں نے آپ کے دیے فتوی کی تصدیق کی، مفتی صاحب کا فتوی صحیح ہے اسی پر عمل کیا جائے۔کہیے تو اس کی فوٹو کاپی بھیج دوں تاکہ شک نہ رہے، آپ کے بھیجے ہوئے فتوے کو جب ہم نے امام صاحب سے تخلیہ میں کہا ۔ صرف اتنا کہ آپ کا کہنا تھا اذان اندر ہوتی ہے اور جواب یہ آیا: ’’مبارک پور کی جامع مسجد میں بحمدہ تعالی حضور حافظ ملت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی حیات مبارکہ ہی سے اذان خطبہ مسجد کے باہر ہوتی ہے۔‘‘ سنا تو یہ کہتے ہوئے دوسری اور کروٹ بدل لیا کہ ’’میرے وقت میں نہیں ہوتی تھی اب ہو رہی ہو تو نہیں معلوم۔‘‘ امام صاحب کو وہاں سے فارغ ہوئے لگ بھگ ۱۸، ۱۹ برس ہوئے ہوں گے اس سے ایک دو برس زیادہ بھی یا کم۔ اب ہمیں خاموش ہونا پڑا، اس وقت تک کے لیے کہ اصل حقیقت پھر دریافت کر لوں کہ کب سے اذان ثانی باہر ہو رہی ہے ، مہربانی فرماکر سال نوٹ فرمائیں۔ اگر پھر امام صاحب کی بات جھوٹ ہو تو ان پر شریعت کیا شرعی فیصلہ نافذ کرتی ہے۔ آپ کا بھیجا ہوا فتوی مندرجہ ذیل ہے : ’’امام صریح جھوٹ بولا ہے ، مبارک پور کی جامع مسجد میں بحمدہ تعالی حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ کی حیات مبارکہ ہی سے اذان خطبہ مسجد کے باہر ہوتی ہے‘‘۔ جس کا جی چاہے آکر دیکھ لے۔ امام پر فرض ہے کہ علانیہ توبہ کرے، اور اگر توبہ نہیں کرتا تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس کو امامت سے علاحدہ کریں۔ وہ علانیہ صریح جھوٹ بولنے کی وجہ سے فاسق معلن ہو گیا۔ لوگوں کی یہ لیپا پوتی کہ امام صاحب نے رو میں کہہ دیا جانے دو، دین میں مداہنت ہے، یہ لوگ امام کی بے جا حمایت کرکے اور دین میں مداہنت کر کے خود گنہ گار ہوئے۔ قرآن مجید میں ہے: ’’اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْ١ؕ ‘‘۔ واللہ تعالی اعلم (۲) کیا فرماتے ہیں مفتیان دین وعلماے ملت: ایک مسجد کے امام جو عالم دین (یعنی نائب رسول) ہیں ان کا عمل مسلمانوں کے لیے قابل نمونہ ہوتا ہے افسوس جب یہی مسائل شرعی کو کوئی خاص اہمیت نہ دیں، تو ظاہر بات ہے مقتدیوں اور شہر کے دوسرے مسلمانوں پر اس کا غلط اثر ہوگا۔ امام کی غلطیاں ملاحظہ ہوں: تخلیہ میں کئی بار امام صاحب سے ہم نے کہا مسجد عبادت کے لیے ہے نہ کہ سونے ، لیٹنے اور پیر پسار کر لیٹنے کے لیے ، قہقہہ لگانا مسجد میں۔ پان کھانا مسجد میں، دنیاوی گفتگو کرنی مسجد میں آپ نہ کریں۔فتوی مسجد میں آپ ہی کا لگایا ہوا ہے پھر بھی آپ ایسا کرتے ہیں، نہ ہی آپ مسجد میں یہ سارے اعمال کریں نہ کسی دوسرے کو کرنے دیں ، بلکہ جمعہ میں آداب مساجد کیا ہیں ظاہر کریں۔ کچھ دنوں تک تو یہ سلسلہ بند رہا بعد کو پھر شروع ہو گیا۔ میں نے کہا: آپ کے شاگردان مسجد میں سوتے ہیں جب کہ صحن مسجد اور کمرے میں جگہ ہے وہاں سونے کو کہیں۔ لیکن کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ پہلے چمڑے کا بیلٹ لگاتے تھے اب چین کی گھڑی لگاتے ہیں جب کہا تو جواب ملا دوران نماز اتار دینی چاہیے بعد کو پہن لینے میں حرج نہیں جب کہ ایک عالم دین امام مسجد کو مطلق چین کی گھڑی نہیں پہننی چاہیے۔

فتاویٰ # 1488

ہماری مسجد میں ایک مولانا صاحب نماز جمعہ پڑھانے سے پیش تر خطبہ کی اذان خارج از مسجد دلوایا کرتے تھے چند ماہ بعد کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ جمعہ کی اذان ثانی مسجد کے اندر ہونی چاہیے اس پر مولانا مذکور نے کہا کہ از روے شرع خطبہ کی اذان (یعنی جمعہ کے دن اذان ثانی) خارج از مسجد درست ہے ۔ مولانا صاحب بار بار کہتے رہے کہ کتاب دکھانے کے لیے تیار ہوں، آپ نماز پڑھ لیجیے۔اس پر بھی لوگوں نے نہیں مانا اور گڑبڑی مچائی اس روز سے بروز جمعہ مسجد میں دو جماعتیں ہوتی ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ الف: از روے شرع خطبہ کی اذان جمعہ کے دن کہاں دی جائے؟ ب: خطبہ کی اذان خارج از مسجد دے کر اگر نماز جمعہ پڑھی جائے تو کیا یہ نماز نہ ہوگی؟ شرعی جواب مرحمت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1489

زید ایک مسجد کا امام وخطیب ہے اس سے بکر نے کہاں کہ مسجد کے دروازہ پر اذان دی جانی چاہیے اس لیے کہ سنت یہی ہے ۔ ثبوت کے طور پر اس نے اعلی حضرت کی کتاب ’’احکام شریعت‘‘ کھول کر دکھایا۔ تو زید نے کہا کہ یہ سب ٹھیک ہے لیکن اگر میں نے اس سلسلے میں زبان کھولی تو میرے مخالفین اس کا فائدہ اٹھائیں گے ، عوام میں انتشار ہو جائے گا اور میری امامت بھی چھن جائے گی۔ روزی ، روٹی کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔اس لیے کہ جب سے یہ مسجد بنی ہے اس میں شروع سے ہی منبر کے پاس ہی اذان دینے کی رسم چلی آرہی ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ عوام میں انتشار کے خوف سے زید کا کہنا درست ہے یا نہیں؟ یہاں واضح کردوں کہ مسجد کے اصلی دروازہ کا رخ جنوب کی طرف ہے اور مشرق کی طرف کارخانہ کی فصیل ہے لہذا ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

فتاویٰ # 1490

فرقۂ ملعونہ وہابیہ اذان کے خطبہ کے متعلق پہلے ’’خطیب کے آگے اور خطیب کے سامنے‘‘ کے لفظوں سے استدلال کرتے کرتے ناک گھستے رہے مگر علماے اہل سنت کے مبرہن دلائل کے آگے کچھ نہ چلی تو اب پاس، قریب اور نزدیک آواز سے اپنا مقصد باطل اور مطلب فاسد، لوگوں میں پھیلا کر سنت سے دور کر رہے ہیں، چناں چہ اس سلسلے میں گمراہ گروں نے ’’مہو چھاونی‘‘ کا ایک فتوی شائع کیا ہے جس میں اس قسم کی بکواس کی گئی ہے۔ فتوی کی فوٹو کاپی ساتھ میں حاضر خدمت ہے۔ اس فتوی کا علمی تحقیقی اور تفصیلی جائزہ لے کر تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔ بینوا وتوجروا

فتاویٰ # 1491

بعض لوگ خطبہ کی اذان کو منبر کے قریب دینے کو غلط کہتے ہیں اور ساتھ ہی فقہی کتابوں کی دلیل پیش کرتے ہیں کہ مسجد کے اندر اذان دینا مکروہ لکھا ہے جیسا کہ فتاوی قاضی خاں ،ج۱، فتاوی عالمگیری،ج۱،ص:۵۵ اور بحر الرائق جلد اول،ص:۲۶۸، فتح القدیر،ج۱،ص:۲۱۵ میں اس کی تصریح موجود ہے جیسا -مسجد کے اندر اذان کے مکروہ ہونے کے سلسلے میں فقہ کی کتابوں کے حوالے کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ۔ بعض فقہا ے کرام نے پنج وقتہ نماز کی اذان کے لیے کراہت کی تصریح کی ہے اس کے سوا کچھ نہیں ۔ پانچ وقت کی اذان سے مقصد مسجد سے باہر والے لوگوں کو آگاہ کرنا ہوتا ہے گویا پنج وقتہ اذان کو مسجد کے اندر مکروہ بتایا ہے کسی نے خاص خطبہ کی اذان کے سلسلے میں یہ بات نہیں لکھی ہے۔ دوسری بات یہ ہے پنج وقتی اذان کا دینا بھی مسجد کے اندر فقہاے احناف کے نزدیک مکروہ نہیں بتاتے جیسا کہ علامہ قہستانی جامع الرموز میں فرماتے ہیں: جلالین میں لکھا ہے ’’مسجد کے اندر یا اس کا جو حصہ اس کے حکم میں آتا ہے اذان دینا بلا کراہت جائز ہے البتہ مسجد سے دور نہ دینا چاہیے۔ (جامع الرموز) امام سرخسی علیہ الرحمہ مبسوط میں تحریر فرماتے ہیں : ’’والمعتبر الأذان الأول بعد زوال الشمس سواء کان علی المنبر أو علی الزوراء۔‘‘ زوال کے بعد کا روبار بندکرنے میں اعتبار پہلی اذان کا ہے خواہ وہ منبر پر دی جائے یا زوراء پر۔ حضرت طلق بن علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : فخرجنا حتی قدمنا بلدنا فکسرنا بیعتنا ثم نضحنا مکانہا واتخذناہا مسجدا فنادینا فیہ بالأذان۔ (نسائی،ج۱،ص:۸۱) پھر ہم لوگ بارگاہ نبوت سے چلے اپنے شہر میں داخل ہوئے اس کے بعد اس جگہ پر آپ کا عطا کردہ پانی چھڑکا اس کے بعد مسجد بنایا اور مسجد میں اذان پکارا۔ اس حدیث میں صحابی رسول حضرت طلق بن علی کا مسجد کے اندر اذان دینا جس طرح مذکور ہے اس طرح خاص مسجد نبوی میں بھی مسجد کے اندر اس روایت سے ثابت ہوتا ہے۔ خرج رجل من المسجد بعد ما أذن فیہ فقال أبو ہریرۃ أما ہذا فقد عصی أبا القاسم ﷺ۔ (رواہ مسلم، مشکوۃ،ج۱،ص:۹۷، ترمذی،ج۱،ص:۳۸) ایک آدمی مسجد نبوی سے اس وقت نکلا جب کہ اس کے اندر اذان دی گئی تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اس شخص نے حضور ﷺ کی نافرمانی کی کہ اذان ہونے کے بعد مسجد سے نکل گیا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ، علامہ داؤدی کا بیان نقل فرماتے ہیں، داؤدی نے نقل کیا ہے کہ دور عثمانی سے پہلے اذان مسجد کے فرش سے ہوتی تھی۔ علامہ بدر الدین عینی حنفی بخاری کی شرح عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں ’’جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا دور خلافت آیا تو انھوں نے اپنے قریب سامنے اذان دینے کا حکم فرمایا جیسا کہ آں حضرت ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے قریب سے مؤذن اذان دیتا تھا ۔ علامہ بدر الدین عینی حنفی تحریر فرماتے ہیں ’’حسن بن زیاد امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ناقل ہیں کہ کاروبار بندکرنے میں پہلی بار والی اذان کا اعتبار ہوگا کیوں کہ منبر والی اذان کی شرط لگائی جائے تو سنت کی ادایگی اور خطبہ کا سننا چھوٹ جائے گا بلکہ کبھی جمعہ بھی فوت ہو جائے گا۔ نیز علامہ قرطبی (متوفی ۶۷۱ھ ) اپنی تفسیر ’’الجامع لأحکام القران‘‘ ج۱۸،ص:۱۰۱، مطبوعہ دار التراث العلمی، بیروت میں علامہ ابن عربی (متوفی ۵۴۳ھ) کے حوالے سے نقل کیا ہے فرماتے ہیں ’’پہلی اذان نو ایجاد ہے ۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو جاری کیا ہے مدینہ کے وسیع ہو جانے اور آبادی کے بڑھ جانے کے سبب سے تاکہ لوگ خطبہ کی حاضری کے لیے تیار ہو جائیں اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ مسجد کی اذان سے پہلے بازار میں آواز لگوادیتے تھے تاکہ لوگ بازار سے اٹھ کر آجائیں تب مسجد میں اذان ہوتی تھی۔ مندرجہ بالا حوالہ سے معلوم ہوتا ہے منبر کے نزدیک مسجد کے اندر اذان دینا جائز ہے۔ تو مسجد میں منبر کے نزدیک خطبے کی اذان دینا کیوں مکروہ ہوا؟ جب کہ مسجد کے اندر اذان دینا متعدد فقہا اور حدیث شریف سے ثابت ہے۔ علماو مفتیان دین مذکورہ بالا حوالے کو دیکھتے ہوئے خطبہ کی اذان کے لیے کیا حکم صادر فرماتے ہیں ؟ براے کرم صحیح وضاحت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں اور ملت اسلامیہ کے آپسی اختلاف اور اندرونی کش مکش کو دور کریں۔

فتاویٰ # 1492

اگر اذان ثانی داخل مسجد دی جائے تو نماز کی صحت میں کوئی فرق، کراہت یا نقصان واقع ہوگا؟

فتاویٰ # 1493

جمعہ کے خطبہ کی اذان منبر سے متصل اندرون مسجد دینی سنت ہے یا بدعت اصل حقیقت کیا ہے؟ عوام کا کہنا ہے کہ عرصہ سے اندرون مسجد ہی اذان ہوتی چلی آ رہی ہے نہ کسی سے سنا نہ ہی اتنے علماے کرام آئے کبھی بتایا ، پہلی بار یہاں آپ سے سن رہے ہیں یہ تو بدعت ہے سنت نہیں۔ بتایا جائے خطبہ کی اذان کہاں دلائی جائے کیا یہ سنت غیر مؤکدہ ہے یا مؤکدہ اور اگر اپنے ہی سنی عالم مہمل تاویلات کریں اس مسئلہ کے حل نہ کرنے میں تو شریعت کا ان پر کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1494

زید تمام عمر اذان خطبہ مسجد کے اندر کہلایا یہاں تک کہ اسی حال پر انتقال بھی ہوا ۔ اور علماے کرام اور عالم اہل سنت فرماتے ہیں کہ اذان خطبۂ جمعہ مسجد کے اندر کہنا مکروہ تحریمی ہے اور مکروہ تحریمی کو پابندی سے کرنے والا فاسق ہو جاتا ہے اور زید کو اس کے عقیدت مند ولی بزرگ مانتے ہیں۔ لہذا زید اور اس کے عقیدت مندوں پر شریعت کا کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1495

نماز جمعہ کی اذان ثانی مسجد کے دروازے پر ہوتی ہے لیکن بکر کا کہنا ہے کہ دروازے پر اذان دینا جائز نہیں، نہ کسی کتاب میں نہ اسلاف سے کہیں حکم ملتا ہے آیا بکر کا یہ کہنا غلط ہے یا صحیح؟

فتاویٰ # 1496

زید ایک مسجد کا امام ہے جس مسجد میں جمعہ کی اذان ثانی ایک مدت سے اندر ہوتی رہی ہے حالاں کہ وہاں کے تمام لوگ سنی صحیح العقیدہ ہیں تو عمر جو اسی علاقے کا ہے وہاں کے تمام لوگوں کو اذان ثانی کے مسئلے سے آگاہ کیا کہ اذان ثانی مسجد سے باہر دینا سنت رسول اللہﷺ و خلفاے راشدین ہے۔ لہذا اذان باہر سے ہونے لگی لیکن کچھ دنوں کے بعد عمر کے غائبانہ میں پھر امام اذان ثانی کو اندر دلوانا شروع کر دیا تو لوگوں نے سوال کیا کہ آپ اندر کیوں دلوارہے ہیں حالاں کہ یہ سنت کے خلاف ہے تو اس نے جواب دیا کہ یہاں جمعہ میں دیوبندی اور وہابی بھی آیا کرتے ہیں لہذا یہی مناسب ہے ۔ اس کے بعد اس نے جمعہ میں ایک ایسے مولوی سے تقریر کرایا جو مسجد کے اندر اور باہر اذان ثانی کے جواز پر تقریر کی ۔ اس کے بعد اگلے جمعہ عمر اور تمام لوگوں نے اظہار کیا اور کہا کہ اذان باہر سے فرمان رسول ﷺ کے مطابق ہو لیکن امام نے اس وقت برجستہ کہا کہ میں ہرگز اذان باہر سے نہیں دلوا سکتا ہوں اس کے لیے جو کچھ بھی ہو ۔ لہذا قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ایسے امام کے لیے شریعت مطہرہ کیا حکم نافذ فرماتی ہے اور عوام کے اوپر کیا لازم ہے؟ دریافت طلب امر یہ ہے کہ : (۱) اذان ثانی باہر ہونے کے متعلق احادیث کریمہ کی روشنی میں بے شمار کتابیں ہوتے ہوئے بھی امام نے انکار کیا اس کے لیےحکم فرمائیں۔ (۲) ایسے امام کی جو شخص پیروی اور طرف داری کرے اس کے لیے بھی حکم فرمائیں اور عوام پر کیا ضروری ہے؟

فتاویٰ # 1497

احمد آباد میں ایک مسجد ایسی ہے جہاں پر منبر کے محاذات میں دیوار پڑی ہے ، کوئی ایسی جگہ جہاں خارج مسجد واقع ہو منبر کے سامنے نہیں۔ اس صورت میں اذان ثانی جمعہ کے روز صحن میں دے سکتے ہیں؟ کیا صحن خارج مسجد ہے یا داخل مسجد، خلاصہ تحریر فرمائیں۔

فتاویٰ # 1498

جمعہ میں خطبہ کی اذان اندرون مسجد دینا کیا خلاف سنت ہےاور بدعت سیئہ ہے ۔ خارج مسجد دینی اگر سنت ہے تو فقہاے کرام اور حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ عوام کو بتایا جائے کہ حقیقت کیا ہے ۔ ایسے تو معلوم ہے کہ یہ سنت ہے ویسے امام صاحب کے حلقہ میں بیٹھنے والے حضرات کو کامل یقین ہو گیا ۔ جب ہم نے دکھایا کہ یہ سنت ہے، پھر بھی مہر شدہ یہ بھی بتایا جائے کہ امام صاحب کسی وجہ سے مسجد سے باہر اذان دلوانا نہیں چاہتے خواہ اپنی سبکی کی وجہ سے یا عوام یا آپس میں انتشار ہونے کی وجہ کر جب کہ متولی میرے والد محترم خود راقم الحروف امام کے ساتھ روزانہ اٹھنے بیٹھنے والے بزرگ اور چند شیروان جاں نثاران اسلام کلی طور پر رضا مند کہ امام صاحب کو ایسا کرنا چاہیے جب کہ یہ سنت ہے، ہم سنی ہیں ڈر اور خوف وانتشار کس بات کا یہ خود مختار مسجد وقف شدہ ہے۔ جب متولی راضی ہم سبھی ہر پہلو سے تیار پھر خاموش کیوں؟ انھیں ایسا کرنا چاہیے، کچھ ہونے کا سوال نہیں نہ کبھی اس مسجد میں کسی کی دال گلی ہے نہ آج گل سکتی ہے باطل کا گزریہاں نہیں تو پھر خاموشی کیوں لیکن امام صاحب کبھی تو یہ کہہ گئے بہت دھیمے لہجہ میں کہ ہونی تو باہر ہی چاہیے پھر خاموش، کبھی کہہ گئے بات جب زیادہ بڑھائی گئی وہی پرانی بات آپسی انتشار کا سہارا لیا، کیا معنی رکھتا ہے۔ امام صاحب گھر چلے گئے ہیں چھٹیوں پر۔ بتایا جائے حق ہم پر واضح ہو جانے کے بعدکیا ہم اس کو نافذ نہ کریں اور شریعت کیا فتوی دیتی ہے ایسے امام پر کہ اسے مسئلہ حقیقی معلوم ہو مگر مصلحت پسندی کا خواہ مخواہ سہارلے ۔ یاد رہے میں نے کسی مسئلہ کو اٹھایا حق پسند حضرات نے ساتھ دیا ، اللہ انھیں دین ودنیا کی نعمتوں سے سرفراز کرے ۔ امام صاحب نے سلسلہ گفتگو مجھ سے منقطع کر دی ۔ اگر میری غلطی ہے تو بھری محفل میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے مجھے قطعی شرم کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوگی۔ یہ میرے اسلاف کا انمول کر دار رہاہے لیکن اگر میں اس مسئلہ پر غلط نہیں تو قیامت کی صبح تک نہ معافی مانگ سکتا ہوں نہ ہی خود گفتگو میں پہل کر سکتا ہوں۔ خود راقم الحروف نے حق پسندی کی خاطر اپنے حقیقی ماموں کو نہیں چھوڑا پھر دوسرے کے لیے بچیں۔ بہر کیف تفصیل کھول کر رکھ دوں ،فیصلہ فتوی شریعت مطہرہ کیا دیتی ہے، دے کر احسان فرمائیں۔

فتاویٰ # 1499

خطبہ کی اذان میں ’’أشہد أن محمدا رسول اللہ‘‘ پر ’’صلی اللہ تعالی علیہ وسلم‘‘ زور سے کہنا چاہیے یا نہیں اور اس وقت سرکار کا نام سن کر انگوٹھا چومنا درست ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1500

جمعہ کے دن ۱۲:۳۰ بجے اذان کہنا جب کہ زوال آفتاب ۱۲:۴۹ بجے لکھا گیا ہے ،جائز ہے یا نہیں۔ ایسی اذان کے بعد نماز پڑھنا جو کہ وقت سے پہلے ہے صحیح ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1501

خطبہ پڑھنے کے بعد سنت نماز پڑھی جائے گی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1502

خطبہ جمعہ میں عربی وفارسی یا اردو اشعار منبر کے اوپر پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ جواب مع حوالہ ارشاد فرمائیں۔

فتاویٰ # 1503

(۱) جمعہ کی اذان ثانی جو منبر کے سامنے ہوتی ہے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مسجد کے اندر ہوتی تھی یا باہر؟ (۲) خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے میں کہاں ہوتی تھی؟ (۳) ہماری جامع مسجد شہابیہ چشتی جس کے وجود کی عمر اب تک دو سال ہوئی ہے پہلے اذان ثانی اندرون مسجد ہوتی تھی ۔ اب امام صاحب نے خارج مسجد منبر کے سامنے کر دیے ہیں جس بنا پر زید خوب کود پھاند کر طرح طرح سے فتنہ پیدا کر دیا اور الٹے سیدھے دلائل کی لمبی فہرست پیش کر دی جس کے اختتام میں زید نے گستاخی نائب رسول اور اولیاے کرام کی کی ہے ۔ موصوف کی گستاخانہ تحریر ملاحظہ فرمائیں: قول زید: اس طویل ریکارڈ پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جو رضا خوانی مولوی اور ان کے بھاڑے کے ٹٹو بات بات پر کفر وارتداد کی توپ لگا دیتے ہیں وہ خود کیا ہیں اور علم وتحقیق کے میدان میں ان کا کیا مقام ہے تمام اہل سنت کو چاہیے کہ وہ ان حوالوں کے معیار پر اپنے عقیدہ کا جائزہ لیں۔ رضا خوانیت کے لاش لادے پھرنے والے لوگوں سے الگ ہو جائیں ۔ اخیر میں یوں دستخط ہے۔ (فضل بدایونی) اذان ثانی خارج مسجد کرادینے کی بنیاد پر زید جملہ ارکان مسجد شہابیہ چشتیہ کو منافق قرار دیتا ہے جیسا کہ ہماری کمیٹی کے صاحب نے موصوف بدایونی کو سلام کیا جس کا جواب نہ دیا اور یہ کہہ دیا کہ ہم منافقوں کے سلام کا جواب نہیں دیتے ہیں، لہذا زید ان اقوال کے پیش نظر عند الشرع کس مقام کے رہے؟ اور اب ہم اذان ثانی کہاں دلوائیں، خلاصہ جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1504

(۱) آپ نے ابو داؤد شریف کی جو حدیث بطور حوالہ نقل فرمائی ہے اس میں علی باب المسجد کا لفظ موجود ہے ، اس کا کیا ترجمہ ہوگا؟ خارج مسجد کا ترجمہ کن الفاظ سے مترشح ہے ۔ کیوں کہ علی باب المسجد کا اطلاق اندرون مسجد پر ہوتا ہے نہ کہ بیرون مسجد پر اور اگر اس کو مبہم سمجھا جائے تو اس سے دو مطلب اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اول یہ کہ عند باب المسجد یعنی مسجد کے دروازے کے قریب۔ یا فوق باب المسجد یعنی مسجد کے دروازے کے اوپر لیکن خارج مسجد کا ترشح کسی کنایہ سے بھی نہیں ہوتا۔ (۲) یہ کہ کتب فقہ میں عند المنبر اور بین یدی الخطیب کے جو الفاظ آئے ہیں اس کی کیا توجیہ ہے؟ بین یدی الخطیب کی توجیہ تو کچھ ہو سکتی ہے کہ اذان خطیب سے دور دی جائے لیکن عند المنبر کی کیا تاویل ہے؟ کیا عند کے معی لغت میں کچھ اور بھی ہیں۔

فتاویٰ # 1505

بحوالہ آپ کے جواب فتوی ۲۷؍ شوال ۱۳۹۹ھ بسلسلہ اذان خطبہ اندرون مسجد یا بیرون مسجد۔ آپ نے اپنے فتوی میں لکھا ہے کہ ’’خطبہ کی اذان مسجد کے باہر خطیب کے سامنے ہو۔ یہی سنت ہے‘‘۔ (۱) آپ کے فتوے کے یہ الفاظ غور طلب ہیں کہ مسجد کے باہر ہونا اور خطیب کے سامنے ہونا ضروری تو نہیں؟ کیوں کہ خطبہ کے لیے جو منبر مسجدوں میں بنایا جاتا ہے وہ اندرون مسجد ہوتا ہے ۔ مؤذن اگر باہر سے اذان دےگا تو خطیب کا سامنا کیسے ہو سکتا ہے ؟ اس کا واضح مطلب یہ نکلتا ہے کہ اب تک جو مساجد بنائی گئیں ہیں وہ سنت کے موافق نہیں کیوں کہ ان میں اذان خطبہ کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے اور اب تک اندرون مسجد منبر کے سامنے اذان خطبہ سنت کے خلاف دی جاتی رہی یا یہ کہ آپ کا فتوی غلط ہے۔ دو باتوں میں سے ایک کو ماننا ہی پڑے گا۔ اگر آپ کے فتوے کو مان لیا جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آج کل جملہ بلاد اسلامیہ ، حرمین شریفین میں جو اذان خطبہ اندرون مسجد منبر کے سامنے ہوتی ہے وہ نعوذ باللہ سنت کے خلاف ہے حالاں کہ ایسا نہیں ہو سکتا جملہ بلاد اسلامیہ ، حرمین شریفین کے مسلمان کسی غیر سنت فعل پر عملاً متفق ہوں۔ اور اگر بقول آپ کے فتوی کے اذان خطبہ بیرون مسجد مان لیا جائے تو یہ اعتراض اٹھتا ہے کہ اب تک یہ طریقہ سنت کہاں تھا؟ علما نے کیوں اس پر عمل نہیں کیا اور نہ کرایا؟ (۲) آپ نے جو حدیث ابو داؤد شریف کی حوالہ میں نقل کی ہے اس کے راویوں میں ایک راوی ابو اسحاق بھی ہیں جو ضعیف راوی ہیں۔ آپ کی پیش کردہ رواۃ کے برعکس علامہ عینی نے قول صاحب ہدایہ ذلک جری الثوارث کے تحت یہ لکھا ہے کہ منبر کے سامنے اذان خطبہ دینا حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے سے توارث کے درجہ میں ہے۔ نیز اکابر فقہاے حنفیہ مثلاً شامی نے اذان خطبہ کے سلسلہ میں بھی یہی لکھا ہے کہ منبر کے پاس ہونی چاہیے(ص:۸۶۰- طحطاوی،ص:۲۸۲) وقال الطحطاوي : والمعتبر ہو الأذان الثاني بین یدي المنبر لأنہ کان في زمنہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم والشیخین بعدہ۔ علامہ عینی نے تو شرح ہدایہ، ص:۱۰۱۴ پر یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اگر اذان خطبہ مسجد کے باہر کہیں اور دی جائے ،مثلا منارہ یا بیرون مسجد وغیرہ تو اس سے اداے سنت کا فوت ہونا ہو سکتا ہے۔ بہر حال آپ کی تحریر کردہ حدیث کے برعکس فقہ حنفیہ کی معتبر کتابوں سے یہی ثابت ہے اذان خطبہ منبر کے پاس خطیب کے سامنے ہونی چاہیے۔ نیز اجماع علماے حنفیہ بھی اور عمل حرمین شریفین بھی اس پر ہے کہ اذان خطبہ منبر کے پاس خطیب کے سامنے ہوتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ اگر آپ کے فتوے کو سنت کے موافق مانا جائے تو اجماع صحابہ اور امت ، اقوال جمہور علماے حنفیہ اور عمل حرمین شریفین کا ابطال لازم آئے گا۔ آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہے۔ براے کرم جلد از جلد حوالے دیں نیز امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خاں قادری حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے اقوال عالیہ بھی اس کے سلسلے میں تحریر میں لائیں کہ اطمینان کلی ہو اور اس کے موافق عمل کیا جائے۔ فقط والسلام

فتاویٰ # 1506

نماز کےلیے اذان مسجد میں کس جانب سے دی جائے اور کہاں سے دی جائے ؟

فتاویٰ # 1507

السلام عیکم نمازِ جنازہ میں قہقہہ سے وضو کیو نہیں ٹوٹتا ولمکمل وضاحت کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں؟؟؟؟

فتاویٰ # 1508

مؤذن یا مکبر جب نماز کے لیے اقامت کہے تو امام اور مقتدیوں کو کس وقت کھڑا ہونا چاہیے آیا ابتداے اقامت یعنی اللہ اکبر اللہ اکبر کے وقت ہی، یا أشہد أن محمدا رسول اللہ ، یا حي علی الفلاح کے وقت- اولیٰ، افضل اور سنت طریقہ کیا ہے۔ احادیث شریفہ اور مستند فقہی حوالاجات کے ساتھ جواب مرحمت فرمایا جائے۔

فتاویٰ # 1509

عرض یہ ہے کہ اقامت کے وقت مقتدیوں کا بیٹھنا ضروری ہے؟ اور جب ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کہا جائے اس وقت کھڑا ہونا چاہیے اور اگر کوئی بعد میں آئے اورکھڑا ہے تو بیٹھ جانا ضروری ہے؟ کیا نبی علیہ الصلاۃ والسلام اقامت کے وقت بیٹھے رہتے تھے اور جب مکبر ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کہتا تھا اس وقت آپ کھڑے ہو کر صفیں سیدھی کراتے تھے۔ آپ سے التماس ہے کہ نبی کریم ﷺ کا عمل اور احناف کس پر عمل کرنے کو کہتے ہیں اور خلفاے راشدین کا عمل کیا رہا ہے مدلل ومفصل تحریر فرمائیں نوازش ہوگی۔

فتاویٰ # 1510

ہمارے یہاں امام صاحب پنج وقتہ نمازوں کی اقامت کے درمیان آتے ہیں اور مصلیٰ پر بیٹھ جاتے ہیں پھر ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر اٹھتے ہیں ۔ اسی طرح جمعہ کے خطبہ کے بعد جب اقامت شروع ہوجاتی ہے تو وہ منبر سے اتر کر مصلیٰ پر بیٹھ جاتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ فتاوی رضویہ میں ہے کہ کھڑے ہو کر تکبیر سننا مکروہ ہے۔مگر ایک عالم یہاں ہیں جو اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ امام کو اقامت شروع ہونے کے بعد نہیں بیٹھنا چاہیے وہ بھی فتاوی رضویہ کا حوالہ دیتے ہیں جس میں ہے اگر وہ تکبیر ہونے میں چلا تو اسے بیٹھنے کی بھی حاجت نہیں مصلی پر جائے اور ’’حي علی الفلاح‘‘ یا ختم تکبیر پر تکبیر تحریمہ کہے یوں ہی بعد خطبہ اسے اختیار ہے۔ کہیں منقول نہیں کہ خطبہ فرما کر تکبیر ہونے تک جلوس فرماتے ہیں۔ بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث یا فقہ کی کسی کتاب میں بھی یہ صراحت نہیں ہے کہ تکبیر کھڑے ہو کر سننا مکروہ ہے ۔فتاوی رضویہ کی دونوں عبارتیں ایک دوسرے کے خلاف ہیں اس کی وضاحت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1511

فرض نمازوں کے لیے جب تکبیر کہی جاتی ہے امام صاحب کا کہنا ہے کہ تمام مصلی ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہوں کیوں کہ یہی سنت ہے جب کہ فقہ کی کتابوں میں امام کے لیے یہ بھی ہدایت ہے کہ وہ ’’قد قامت الصلاۃ‘‘ سے کچھ قبل تکبیر تحریمہ کہے لیکن امام صاحب اس پر عمل نہیں کرتے تو کیا ’’قد قامت الصلاۃ‘‘ سے کچھ قبل تکبیر کہنا سنت نہیں ہے، اور اگر ہے تو اس پر عمل کیوں نہیں ہے؟

فتاویٰ # 1512

زید کا کہنا ہے کہ اقامت کے وقت کھڑا رہنا چاہیے، بیٹھنا نئی بات ہے جب کہ بکر کا کہنا ہے کہ اقامت کے وقت مقتدی اور امام کا ’’حي علی الصلاۃ ‘‘، ’’حي علی الفلاح‘‘ سے پہلے کھڑا ہونا مکروہ ہے۔ ان دونوں مسئلوں میں بکر کا چیلنج ہے کہ کسی بھی حدیث اور فقہ کی کتاب سے اگر زید اپنے دعوے کو ثابت کر دےگا تو ہر ایک دعوے کی دلیل پر دس دس ہزار روپیہ انعام دے گا۔ آپ سے گزارش ہے کہ مسئلوں کی تقدیر کو حدیث اور فقہ سے واضح کر -------کے جواب عنایت فرمائیں۔ ایک مفتی کا جواب------ اس مسئلہ میں اصل حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ روایت ہے کہ: قال رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم-: إذا أقیمت الصلاۃ فلا تقوموا حتی تروني۔ جو بخاری، مسلم، ابو داؤد اور ترمذی وغیرہ میں موجود ہے لہذا خلاصہ ما في الباب یہ ہے کہ وقت اقامت مقتدی اور امام کے کھڑے ہونے نہ ہونے کا دارومدار امام کی حالت پر ہے اگر مصلیٰ کے قریب موجود ہے تو احناف کے نزدیک زیادہ صحیح یہ ہے کہ صرف مقیم کھڑے ہو کر اقامت کہے اور جب ’’حي علی الفلاح‘‘ پر پہنچے تو سب کھڑے ہو جائیں، اور اگر امام موجود نہ ہو تو جب تک امام کو آتا نہ دیکھیں کوئی کھڑا نہ ہو۔ پھر اگر امام مقتدیوں کی پشت کی طرف سے آئے تو جس صف سے گزرتا جائے وہ صف کھڑی ہوتی جائے ،اور اگر امام مقتدیوں کے سامنے سے آئے تواسے آتا دیکھ کر تمام مقتدی کھڑے ہو جائیں، اور اگر امام ہی اقامت کہہ رہا ہو تو اگر مسجد میں ہو تب تو کوئی مقتدی اقامت ختم ہونے سے پہلے کھڑا نہ ہو اور اگر امام خارج مسجد اقامت کہہ رہا ہو تو جب تک وہ مسجد میں داخل نہ ہو جائے مقتدی کھڑا نہ ہو۔ عالمگیری جلد اول میں ہے: إن کان المؤذن غیر الإمام وکان القوم مع الإمام في المسجد فإنہ یقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن حي علی الفلاح عند علمائنا الثلاثۃ وہو الصحیح فأما إذا کان الإمام خارج المسجد فإن دخل المسجد من قبل الصفوف فکلما جاوز صفا قام ذلک الصف وإلیہ شمس الأئمۃ الحلواني والسرخسي وشیخ الإسلام خواہر زادہ۔ وإن کان الإمام دخل المسجد من قدامہم یقومون کما رأوا الإمام۔ فإن کان الإمام والمؤذن واحدا فإن أقام في المسجد فالقوم لا یقومون ما لم یفرغ عن الإقامۃ وإن کان خارج المسجد فمشائخنا اتفقوا علی أنہم لا یقومون ما لم یدخل الإمام المسجد۔ انتہی جواب ہذا میں آیا یہ کہ جواب قرآن وحدیث کی روشنی میں صحیح ہے یا نہیں۔ اور اگر نہیں تو اس مفتی کے بارے میں شریعت اسلامیہ کے تحت کیا حکم ہے ؟ کیا ایسے مفتی کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں مدلل تحریر فرمائیں۔

فتاویٰ # 1513

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ حضرات مصلین جماعت میں شامل ہونے کے لیے اس وقت کھڑے ہوں جب کہ مؤذن اقامت کہتے ہوئے ’’حي علی الفلاح‘‘ کو پہنچ جائے اور امام تکبیر اولی اس وقت کہے جب کہ مؤذن ’’قد قامت الصلاۃ‘‘ کہہ لے، اس کی وجہ علما یہ بیان کرتےہیں کہ تکبیر کھڑے ہو کر سننا مکروہ ہے۔ بیٹھ کر تکبیر سننا موجب ثواب وبرکت ہے، اور ایک طرف حدیث یہ بتلاتی ہے کہ صفوں کو سیدھی کرو بغیر صفوں کے درست کیے ہوئے نماز صحیح نہیں ہوتی تو اب اس جگہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کس طرح عمل کیا جائے، صفوں کو درست کرنے کے لیے تو تکبیر سے پہلے اٹھنا ہوگا یا نہیں تو امام کا تکبیر اولی قد قامت الصلاۃ پر نہیں بلکہ تکبیر کے اتمام پر کہنا ہوگا بہر صورت کسی بھی ایک کا ترک ہوگا جو اب تفصیل سے عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1514

اقامت بیٹھ کر سننا سنت رسول ہے یا سنت صحابہ؟ مشکوۃ غالبا،ص:۶۴ پر جو حدیث مبارکہ ہے ’’ولا تقوموا حتی تروني إلخ‘‘۔ دیوبندی کا کہنا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہو گئی ۔ کیا یہ صحیح ہے لہذا اقامت کے بارے میں عقلی ونقلی دلیل ضرور عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1515

بعد سلام وآداب وقدم بوسی کے التماس خدمت اقدس میں ایں کہ ایک دیوبندی کا دیوبند کے یہاں سے منگوایا ہوا فتوی کا پرچہ حضور کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں اس کا مفصل ومدلل منہ توڑ جواب قرآن وحدیث کی روشنی میں عنایت فرما کر سنیوں کی نگہ بانی فرمائیں، عین کرم ہوگا۔ ایک یہاں پکا شیطان رہتا ہے جو پہلے سے سبھوں کو شیطانیت میں ڈبورہا ہے اور آج بھی کوشش میں لگا رہتا ہے مگر اللہ کا شکر ہے ،حبیب کا کرم ہے ، آپ بزرگوں کی دعا ہے کہ قریب دو سال سے اشرفیہ کا فارغ آپ کا خادم یہاں آیا جیسے سنیت کو جان میں جان آئی اور دیوبندیت مرجھائی۔ اب سنیت حاوی ہے مگر قوم جاہل ہے، شیطان اپنا کام کرتا رہتا ہے پھر بھی اللہ کے حبیب کے صدقے بہت کامیابی ہے ، زیادہ دعا چاہیے، تمامی حضرات کو سلام عرض ہو۔ اور ہجڑے کی نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟ اس کا جواب مرحمت فرمائیں۔اور دیوبندی یا دیوبندی کے ماننے والے کے یہاں میلاد پاک پڑھنا کیسا ہے اور کچھ لوگ اپنے کو سنی کہتے ہیں اور ظاہر میں دیوبندیت کو اپنا رکھا ہے ان کے یہاں میلاد پاک پڑھنا اور جانا کیسا ہے؟ امام ومقتدی نماز کے لیے کس وقت کھڑے ہوں؟ جواب تحریر فرمائیں۔ فقط والسلام----------------- ایک استفتا اور اس کا جواب------------------ اقامت کے وقت مقتدیوں کو نماز کے لیے کس وقت کھڑا ہونا چاہیے؟ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب مکبر ’’حي علی الفلاح‘‘ کہے اس وقت امام اور مقتدیوں کو نماز کے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔ جو لوگ اس کے خلاف شروع ہی سے کھڑے ہوتے ہیں ان کو یہ لوگ برا سمجھتے ہیں اور ان کو طرح طرح سے ملعون کرتے ہیں یہ کہاں تک درست ہے؟ المستفتی: قمر الدین انصاری ، کان پور---------------------------- ------ دیو بندی مفتی کا جواب، الجواب ـــــــــــــــــــــــــــــ: ’’حي علی الفلاح‘‘ پر ہی امام اور مقتدیوں کے کھڑے ہونے کو ضروری قرار دینا اور شروع اقامت پر کھڑے ہونے کو غلط اور ناجائز سمجھنا حدیث اور فقہ حنفی کی غلط ترجمانی ہے۔ حدیث وفقہ کی مستند کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے لیے ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہونے کو کسی وقت بھی ضروری نہیں سمجھا گیا بلکہ اس کے برخلاف شروع تکبیر پر کھڑے ہونے کو بہتر سمجھا گیا ہے۔ قرآن پا ک میں ارشاد باری ہے: فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِ١ؕ ۔ نیکیوں کی طرف سبقت کرو۔ ایک دوسری آیت میں ہے: اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ ۔ جب جمعہ کی نماز کے لیے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو ۔ ان آیات کا تقاضا ہے کہ اذان واقامت شروع ہوتے ہی نماز کی طرف بڑھنا اور اس کے لیے کھڑا ہونا چاہیے ۔ معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام کا معمول اس کے ہی مطابق تھا۔ مشہور تابعی، امام حدیث، ابن شہاب زہری فرماتے ہیں: إن الناس کانوا ساعۃ یقول المؤذن اللہ أکبر یقومون إلی الصلاۃ (بذل المجہود شرح أبي داؤد،ج اول،ص:۲۶۰۔ ) جیسے مؤذن اللہ اکبر کہتا تمام صحابۂ کرام نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے ۔ مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ: جب اقامت شروع ہوتی تھی تو ہم لوگ کھڑے ہوجاتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کے حجرے سے نکلنے سے پہلے صفوں کی درستگی کر لیتے تھے۔ (مسلم شریف،ج:اول،ص:۲۲۰) جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ شروع تکبیر پر کھڑا ہونا ناجائز اور غلط ہے اور ’’حي علی الفلاح‘‘ پر ہی امام ومقتدیوں کو نماز کے لیے کھڑا ہونا چاہیے وہ عہد نبوی اور اس کے بعد بھی صحابۂ کرام کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں سوچیں کہ ان کا یہ طریقہ فکر وعمل کہاں تک درست ہے؟ شروع تکبیر ہی پر کھڑے ہونے کا حکم فقہ حنفی کی مستند ومعتبر کتب فتاوی سے بھی ملتا ہے۔ چناں چہ فقہ حنفی کی مشہور ومستند متداول کتاب در مختار اور شامی جلد اول کے ص:۳۲۲ پر عبارت موجود ہے ۔ اگر امام سامنے سے مسجد میں داخل ہو تو امام پر نظر پڑتے ہی سارے مقتدیوں کو کھڑے ہوجانا چاہیے، اور اگر امام مقتدیوں کی پشت کی جانب سے مصلے کی طرف بڑھے تو جس جس صف سے امام گزرتا جائے وہ صف کھڑی ہوتی جائے۔ حتی کہ امام کے مصلے پر پہنچنے پر تمام صفیں کھڑی ہو چکی ہوں۔ان صورتوں میں کہیں بھی ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ شروع ہی سے کھڑے ہونے میں ایک دوسرے انتہائی اہم حکم شرعی کی رعایت پورے طور پر ہو سکتی ہے اور وہ ہے صفوں کو سیدھا اور درست رکھنا ۔ حضور اقدس ﷺ اور حضرات صحابہ کو اس کا بڑا اہتمام تھا اور احادیث سے اس کی بڑی تاکید اور ضرورت ثابت ہوتی ہے۔ مسلم شریف کی روایت ہے ، حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: اپنی صفوں کوسیدھا کرو اس لیے کہ صفوں کی درستگی تکمیل نماز کا جزو ہے۔( مسلم شریف ج اول،ص:۳۸۳) ایک حدیث پاک میں اس کا اہتمام نہ کرنے پر سخت وعید وارد ہوئی ہے، ارشاد نبوی ہے: صفوں کو ضرور سیدھا اور درست رکھو ورنہ تمھارے دلوں کے درمیان ٹیڑھا پن او رکجی یعنی مخالفت پیدا ہو جائے گی۔ ظاہر ہے کہ اس افضلیت کا حاصل کرنا اور اس کے ترک پر جو وعید ہے اس سے بچنا پورے طور پر اسی وقت ممکن ہے جب کہ شروع تکبیر سے ہی کھڑے ہونے کا اہتمام کیا جائے۔ اس لیے کہ اگر ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہونے کا اہتمام رکھا جائے گا تو اگر اقامت کے ختم ہوتے ہی یا مستحب سمجھتے ہوئے ’’قد قامت الصلاۃ‘‘ پر نیت باندھ لے گا تو اس کا موقع ہی نہ رہ جائے گا اور اگر اس کے بعد اہتمام کیا جائے گا تو لامحالہ اقامت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان فصل لازم آئے گا جو خلاف اولی ہے۔ اور ایسی صورت میں ایک فضیلت کے پیچھے دوسری فضیلت کا ترک لازم آئے گا۔ جو حضرات شروع تکبیر سے کھڑے ہونے کو غلط سمجھتے ہیں وہ اپنے طریقہ فکر وعمل کے سلسلے میں در مختار کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں: والقیام للإمام ومؤتم حین قیل: ’’حي علی الفلاح‘‘ إن کان الإمام بقرب المحراب۔ (ج:۱،ص:۳۲۲) اگر امام محراب کے پاس ہو تو ’’حي علی الفلاح‘‘ کہنے کے وقت امام اور مقتدیوں کو کھڑا ہونا چاہیے۔ اس عبارت کی تشریح کرتے ہوئے طحطاوی شرح در مختار میں فرماتے ہیں:یہ حکم اس لیے فرمایا گیا کہ نیکی کے حکم پر عمل کرنے میں جلدی کی جائے اور ظاہر مطلب اس کا یہ ہے کہ اس کے بعد تاخیر سے بچا جائے نہ یہ کہ اس سے پہلے نہ کھڑا ہوا جائے بلکہ اگر ابتداے اقامت ہی میں کھڑا ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ (طحطاوی علی الدر مختار ،جلد اول، ص:۲۱۵ ) علامہ طحطاوی کی اس تشریح کو سامنے رکھ کر ہی کہا جائے گا کہ انھوں نے مراقی الفلاح کے حاشیہ میں ابتداے اقامت میں کھڑے ہونے کے متعلق جو بحوالہ مضمرات ایک قول کراہت کا نقل کیا ہے وہ معتبر نہیں ہے اس لیے کہ دوسرے مواقع پر خود طحطاوی نے اس کے خلاف لکھا ہے، مزید یہ کہ کسی اور کتاب سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ کراہت کے سلسلے میں حضور کا یہ ارشاد پیش کرنا : لا تقوموا حتی ترونی۔ جب تک مجھے دیکھ نہ لو مت کھڑے ہو ۔انتہائی بے جا اور غلط استدلال ہے بلکہ بے محل ہے ۔ آپ کے ارشاد مبارک کا اس حکم فقہی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس ارشاد مبارک کا محل تو وہ ہے کہ ایک مرتبہ اقامت پر صحابۂ کرام نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور آپ کا ایک معمول مبارک یہ تھا کہ کبھی کبھی اقامت ہونے پر اپنے حجرۂ مبارکہ سے تشریف لاتے ۔ اس دن اتفاق سے کسی وجہ سے آپ کو دیر ہو گئی اور اقامت ختم ہو گئی ۔ اس پر صحابہ میں تھوڑی سی الجھن پیدا ہو گئی پھر آپ تشریف لائے تو صحابۂ کرام کی بے چینی اور انتظار دیکھ کر آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھے دیکھ کر ہی نماز کے لیے کھڑا ہوا کرو کہ کبھی کسی ضرورت سے آنے میں دیر ہو جاتی ہے تو اس میں ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہونے کا کہاں تذکرہ ہے؟ اگر مذکورہ بالا در مختار کی عبارت کا ظاہری مفہوم لیا جائے تب بھی اس عبارت کی رو سے جو در مختار کے علاوہ اور بھی متون فقہ میں ہے اس کو ضروری نہیں کہا جا سکتا اس لیے کہ فقہا نے اور خود صاحب در مختار نے آداب کا عنوان قائم کرکے یہ اور دیگر احکام مثلا قد قامت الصلاۃ پر بھی نماز شروع کر دینا وغیرہ ذکر کیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ’’حي علی الفلاح‘‘ پر نماز کے لیے کھڑا ہونا مستحب ہے وہ بھی صاحب در مختار نے مقید کیا ہے اس بات کے ساتھ کے اگر امام سامنے سے آئے تو سب دیکھتے ہی کھڑے ہو جائیں اور اگر پشت سے آئے تو صف بہ صف لوگ کھڑے ہوتے جائیں۔ اس قول کی شرح میں لکھا ہے یعنی اس وقت جب کہ امام محراب کے پاس نہ ہو بلکہ مسجد کے کسی اور حصے میں ہو یا مسجد کے باہر ہو اور عین اقامت کے وقت مسجد میں آئے۔ شامی جلد اول،ص:۳۲۲۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ حکم صرف ایک صورت میں ہے جب کہ امام محراب کے پاس ہی بیٹھا ہو تو ’’حي علی الفلاح‘‘ پر سب کا کھڑا ہونا مستحب ہے ۔ حضرات فقہا نے اگر کہیں محض اس صورت کو لکھ دیا ہے تو وہ عام حالت کی رعایت کرتے ہوئے اکثر امام مسجد میں محراب کے پاس موجود ہوتے ہیں اور سب نے اسے مستحب ہی بتایا ہے اور مستحب کا حکم یہ ہے کہ اس کے کرنے پر ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے پر نہ کوئی سزا نہ ملامت ۔ (شامی،جلد اول،ص:۲۴، ص:۳۲۲،ص۳۳۹) اس سے معلوم ہوا کہ اگر ایسا کیا جائے تو یہ بھی ایک کار ثواب ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے یعنی ابتداے اقامت میں ہی کھڑا ہو جایا جائے تو یہ بھی جائز ودرست ہے نہ اس پر کوئی گناہ اور نہ طعن وتشنیع وغیرہ جائز ہے۔ جب کہ یہاں ایک مستحب کی رعایت سے ایک دوسرے اہم حکم شرعی پر عمل کرنے میں خلل پڑ تا ہے یعنی صفوں کی درستگی جیسا کہ تفصیل سے عرض کیا جا چکا تو صفوں کی درستگی کا لحاظ کرنا زیادہ مہتم بالشان ہوگا اور شروع سے کھڑا ہونا افضل ہوگا جیسے ’’قد قامت الصلاۃ‘‘ پر نماز شروع کردینا مستحب ہے۔ تمام کتب فقہ میں اوپر والے مسئلہ کے ذکر کے بعد اسی مسئلہ کا ذکر ہے لیکن فقہا نے اولی اور اصح یہ قرار دیا ہے کہ اقامت ختم ہونے پر نماز شروع کی جائے تاکہ مکبر کو امام کے ساتھ تکبیر تحریمہ مل جائے۔ (درمختار وشامی،ج:۱،ص:۳۲۶) اور اس حکم پر عمل میں اصرار اس عمل کو کار ثواب تو در کنار عذاب بنا دیتا ہے؛ اس لیے کہ فقہا کا مشہور ومسلمہ قاعدہ ہے کہ مستحب کو اگر اس کے درجہ سے بڑھا دیا جائے یعنی اس کا حکم یہ ہے کہ کرو تو ثواب نہ کرو تو کوئی حرج نہیں اور معاملہ یہ کر دیا جائے کہ اس کے نہ کرنے پر ملامت کی جانے لگے اور اس کا کرنا ضروری سمجھا جانے لگے تو مستحب مکروہ تحریمی بن جاتا ہے۔ اور پھر اس کا ترک کر دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ مجمع البحار،جلد دوم، ص:۲۴۲ اور عالمگیری وغیرہ میں بھی ایسا ہی مذکور ہے ۔ اس وقت جن لوگوں کا ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہونے کا عمل ہے ان کا اس مسئلہ میں جو حال ہے وہ ظاہر ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو ترک کر دیا جائے ۔ ان گزارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سلسلہ میں جو عمل ہمیشہ سے چلا آرہا ہے اور جو فقہا کی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے اسی کو اختیار کیا جائے اور اس سلسلہ میں کمی زیادتی، زور زبردستی سے کام لے کر کسی ایک صورت پر اصرار نہ کیا جائے جب کہ وہ بوجوہ آج کل کے حالات میں مکروہ تحریمی یعنی حرام کے قریب ہے۔إن أرید إلا الإصلاح ما استطعت وما توفیقی إلا باللہ فقط واللہ تعالی اعلم۔ منظور احمد مفتی مدرسہ جامع العلوم، کان پور، ۱۴؍ محرم الحرام، ۱۳۹۶ھ الجواب صحیح محمد نصیر الدین صدر مدرس مدرسہ جامع العلوم، کان پور الجواب صحیح انوار احمد جامعی مدرسہ جامع العلوم ،کان پور الجواب صحیح محمد عبید اللہ الحافظ القاسمی الجواب صحیح۔ جماعت کھڑی ہونے سے پہلے امام کا مصلے پر پابندی کے ساتھ آکر بیٹھنا بھی خلاف سنت ہے ۔ حضور پہلے سے آکر مصلے پر نہیں بیٹھا کرتے تھے جیسا کہ جواب میں مفصل بیان کیا گیا۔ اللہ تعالی اتباع سنت کی پوری توفیق عطا فرمائے، آمین

فتاویٰ # 1516

زید اس مسئلہ کو درست کہتا ہے لیکن بکر درست نہیں کہتا۔ براے کرم کتاب وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ عین نوازش ہوگی۔ عَن جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُول اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: إِنَّ بِلَالًا كَانَ يُرَاقِبُ خُرُوجَ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَأَوَّلَ مَا يَرَاهُ يَشْرَعُ فِي الْإِقَامَةِ قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ غَالِبُ النَّاسِ، ثُمَّ إِذَا رَأَوْهُ قَامُوا فَلَا يَقُومُ فِي مَقَامِهِ حَتَّى تَعْتَدِلَ صُفُوفُهُمْ۔ قُلْتُ وَيَشْهَدُ لَهُ مَا رَوَاهُ عبد الرَّزَّاق عَن ابن جريج عَن ابن شِهَابٍ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا سَاعَةَ يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ اللَّهُ أَكْبَرُ يَقُومُونَ إِلَى الصَّلَاةِ فَلَا يَأْتِي النَّبِيُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- مَقَامَهُ حَتَّى تَعْتَدِلَ الصُّفُوفُ۔(بذل المجہود شرح أبو داؤد،ج:۱ص:۳۰۷) ترجمہ: بے شک بلال انتظار کرتے تھے نبی ﷺ کے نکلنے کا لہذا جیسے ہی حضور کو دیکھتے اقامت شروع کر دیتے تھے اس سے پہلے کہ اکثر لوگ آپ کو دیکھتے پھر جب لوگ حضور کو دیکھ لیتے کھڑے ہو جاتے پس حضور اپنے مقام (مصلیٰ) پر نہیں کھڑے ہوتے یہاں تک کہ ان کی صفیں سیدھی کر دی جاتیں اور اس کی شہادت اس سے بھی ہوتی ہے جسے عبد الرزاق نے ابن جریج سے انھوں نے ابن شہاب سے نقل کی ہے کہ لوگ اس وقت کھڑے ہوتے تھے جب مؤذن اللہ اکبر کہتا تھا نماز کے لیے۔ پس نہیں آتے تھے نبی ﷺ اپنے مقام پر (مصلےٰ) یہاں تک کہ صفیں سیدھی کر دی جاتی تھیں۔ حضرت انس بن مالک نے روایت بیان کی کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس نے میرے حکم اور فرمان سے انکار کیا وہ میرا نہیں (یعنی میرا امتی نہیں)۔ (بخاری شریف،ج۲،ص:۷۵۷) ایک حدیث میں عبد اللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ دو آدمیوں میں پانی پر جھگڑا ہو رہا تھا وہ دونوں حضور کے پاس گئے ۔ آپ نے فیصلہ یہودی کے حق میں کر دیا تو مسلمان نے آپ کا فیصلہ نہیں مانا اور حضرت عمر کے پاس گئے تو یہودی نے کہا کہ حضور نے میرے حق میں فیصلہ دیا ہے تو حضرت عمر نے اس مسلمان کی گردن اڑادی تب یہ آیت نازل ہوئی: فلا وربک لا یومنون۔ (پارہ :۵، تفسیر روح البیان،ص:۶۵، رکوع،۹) جس کا ترجمہ یہ ہے : تیرے رب کی قسم تیرے حکم کو نہیں ماننے والا یعنی تیری بات کو نہیں ماننے والا ، آپ کے فیصلے کو نہیں مانے والا مومن مسلمان نہیں۔ امام اعظم رحمہ اللہ کا قول ہے:أترکوا قولي بخبر رسول اللہ ﷺ۔ اگر آپ کی حدیث کے خلاف میرا قول ٹکراتا ہو تو میرا قول چھوڑ دینا۔ بھائیو! آپ نے حضور کے فرمان سے انکار کرنا پڑھ لیا اور اللہ اکبر کی حدیث پڑھ لی اور امام اعظم کا قول بھی پڑھ لیا اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص اپنی ضد پر اڑا رہے وہ اپنی عاقبت خراب کر رہا ہے اور دوسروں کی بھی۔ جو اس حدیث کو، قرآن کو اور قول کو جھٹلائے وہ ہمارے پاس آکر دیکھ سکتا ہے اور جو غلط ثابت کر دے اس کو دس ہزار روپیہ کا انعام دیا جائے گا۔

فتاویٰ # 1517

ایک مسجد اہل سنت کی خود مختار وقف شدہ وہاں جمعہ کے روز شروع تکبیر ہی سے امام صاحب کھڑے ہو جاتے ہیں تو مقتدی حضرات بھی کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جب حقیقت معلوم ہوئی کہ جمہور فقہاے کرام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ شروع اقامت سے کھڑا ہونا منع ہے۔ صدر الشریعہ نے بھی اپنی کتاب بہار شریعت حصہ سوئم،ص:۳۴ میں فتوی دیا کہ ایسا ہی ہونا چاہیے، شروع تکبیر سے اٹھنے کا رواج غلط ہے، تو امام صاحب سے کہا گیا جمہور فقہا ـــــ جو ہمارے مقدس اسلاف کرام ہیں ـــــ کی باتوں کو نظر انداز نہ کیا جائے اور اعلان کیجیے صحیح مسئلہ بیٹھنا ہے اور خود بھی بیٹھیے ہم سبھی آپ کے ساتھ ہیں۔ امام صاحب نے جواب کئی دیے عوام کے لیے نئی چیز ہے، تاویل کو کاٹا تو کہنے لگے آپس میں انتشار ہو جائے گا۔ اس کا بھی جواب دیا تو کہنے لگے اس کے نہ کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا یہ فرض وواجب تو ہے نہیں۔ یہاں تو ابھی فرض ہی پورا ادا نہیں ہوتا، غرض کہ مختلف تاویلات کیا ۔ یہ مسئلہ کو ہلکا کرنا نہ ہوا عوام ناواقف کے سامنے، از راہ کرم بتایا جائے کہ ’’حي علی الفلاح‘‘ کے وقت یا ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کے وقت کھڑا ہونے کے متعلق جمہور فقہاے کرام کا فیصلہ ہے یا نہیں حدیث میں اس کا ثبوت ہے کہ نہیں اگر ہے یقینا ہے تو دو چار مشہور حوالوں کو پیش کر دیں اور ساتھ ہی ساتھ کہ امام پر شریعت کیا فتوی دیتی ہے؟ کیا ایک نائب رسول کا یہی کردار ہونا چاہیے؟

فتاویٰ # 1518

ایک مرتبہ زید اور بکر کے مابین مسئلہ ’’حي علی الفلاح‘‘ پر گفتگو ہوئی زید کا کہنا ہے کہ تکبیر کے وقت ’’حي علی الفلاح‘‘ و’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر کھڑا ہونا چاہیے۔ اس سے قبل کھڑا ہونا مکروہ ہے۔ اس کے جواب میں بکر نے کہا یہ کوئی ضروری نہیں اس سے قبل بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔ زید نے ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہونے کے بارے میں کتب فقہ سے ثبوت پیش کر دیا اور کہا کہ اب آپ کو یہ ماننا ہوگا کہ ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر کھڑا ہونا چاہیے۔ اس کے جواب میں بکر نے یہ کہا میں بھی اس کے عدم جواز کے بارے میں ثبوت دے سکتا ہوں ۔ چند دن اس بات کو گزر گئے تو زید نے عدم جواز کا ثبوت مانگا تو بکر طیش میں آکر یہ کہتا ہے دس بارہ آدمیوں کے سامنے کہ ’’ایک کتاب آسمان سے نازل ہونے والی ہے جب وہ نازل ہو جائے گی تو اس میں ثبوت دکھا دوں گا‘‘۔ از روے شرع بکر کا مندرجہ بالا کلمات کہنا کیسا ہے جب کہ بکر اپنے آپ کو دین کا ذمہ دار آدمی سمجھتا ہے نیز مسجد کی امامت اور اپنے آپ کو پیر کہتا ہے۔ اس شخص کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1519

ہم لوگ تکبیر کے وقت صف بستہ کھڑے رہتے تھے لیکن کچھ اہل علم کے بتانے کے مطابق اقامت کے وقت بیٹھنے لگے اور ’’حي علی الصلاۃ‘‘ و ’’حي علی الفلاح‘‘ کے وقت کھڑے ہونے لگے اور انھیں لوگوں کے مطابق جمعہ کی اذان ثانی بھی مسجد سے باہر دینے لگے لیکن ایک خانقاہ کے سجادہ نشین ہمارے یہاں تشریف لائے اور اقامت کے وقت بیٹھنے اور خارج مسجد اذان سے اختلاف کیا کہ کوئی ضرورت نہیں ہے۔ان کے مریدین نے تو اقامت کے وقت بیٹھنا چھوڑ دیا ہے لیکن عام مقتدی ابھی بیٹھنے کے پابند ہیں اور تمام لوگوں کا خیال ہے کہ پہلے ہم لوگ کھڑے ہوتے تھے اور کچھ اہل علم کے بتانے سے بیٹھتے ہیں پھر کچھ لوگوں کے کہنے سے کھڑے ہونے لگیں یہ درست نہیں ہے۔ لہذا ہم لوگوں کو فتوی ملنا چاہیے کہ درست کیا ہے؟ ہم لوگ اسی پر عمل کریں گے اس لیے براے کرم کتاب وسنت کی روشنی میں مفتی بہ قول سے ہم لوگوں کے اس عقدہ کو حل کیا جائے۔ بینوا وتوجروا۔ -----مفتی عبد الواجد صاحب ادارہ شرعیہ کا جواب----- -الجواب ـــــــــــــــــــ:---- ھو الھادي إلی الصواب تکبیر اقامت بیٹھ کر سننا اور ’’حي علی الفلاح‘‘ کے وقت قیام ایسا متفق علیہ ہے کہ متون فقہ تک میں مذکور ہے۔ اس کا اختلاف وہی کرے گا جسے حنفیت سے عناد ہے۔ خود امام اعظم سیدنا ابو حنیفہ، رئیس القضاۃ امام ابو یوسف اور امام المحققین سیدنا امام محمد رحمہم اللہ تعالی کے اقوال کریمہ اس کے متعلق موجود ہیں۔ ائمۂ احناف میں سے امام حسن اور امام زفر رحمہما اللہ تعالی نے اگرچہ ائمۂ ثلاثہ کا خلاف کیا مگر وہ بھی یہ نہیں فرماتے ہیں کہ ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کے قبل کھڑا ہونا چاہیے بلکہ ان کے نزدیک ’’قد قامت الصلاۃ‘‘ پر کھڑا ہونا چاہیے۔ رد المحتار میں ہے: قَالَ فِي الذَّخِيرَةِ : يَقُومُ الْإِمَامُ وَالْقَوْمُ إذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ عِنْدَ عُلَمَائِنَا الثَّلَاثَة . وَقَالَ الْحَسَنُ بْنُ زِيَادٍ وَزُفَرُ : إذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ قَامُوا إلَى الصَّفِّ وَإِذَا قَالَ مَرَّةً ثَانِيَةً كَبَّرُوا وَالصَّحِيحُ قَوْلُ عُلَمَائِنَا الثَّلَاثَةِ . ا هـ . جو لوگ ابتداے تکبیر یا اس سے پہلے ہی کھڑے ہونے پر زور دیتے ہیں وہ سنت خور بدعت کو رواج دینے والے اور کراہت کے مرتکب ہیں ۔ عالم گیری میں ہے: إذَا دَخَلَ الرَّجُلُ عِنْدَ الْإِقَامَةِ يُكْرَهُ لَهُ الِانْتِظَارُ قَائِمًا وَلَكِنْ يَقْعُدُ ثُمَّ يَقُومُ إذَا بَلَغَ الْمُؤَذِّنُ قَوْلَهُ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ . كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ . • ہر اذان کا خارج مسجد ہونا مسنون ہے کہ اہل محلہ اسے سن سکیں، فتاوی عالمگیری میں ہے: وَالسُّنَّةُ أَنْ يُؤَذِّنَ فِي مَوْضِعٍ عَالٍ يَكُونُ أَسْمَعَ لِجِيرَانِهِ اور کوئی بھی اذان مسجد میں کہنا مکروہ ہے۔ فتاوی خانیہ،ص:۷۸، فتاوی خلاصہ، ص:۶۲ اور خزانۃ المفتین،ص:۵۵ وغیرہ میں ہے: لا یؤذن في المسجد۔ اور طحطاوی وغیرہ میں ہے: ویکرہ أن یؤذن في المسجد۔ پھر خاص جمعہ کے اذان خطبہ کے متعلق ابو داؤد شریف میں سیدنا سائب ابن یزید رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت صریحہ صحیحہ میں موجود ہے کہ نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم جب خطبہ دینے کے لیے منبر شریف پر رونق افروز ہوتے تو آپ کے سامنے دروازہ مسجد پر اذان ہوتی تھی۔ إذا جلس النبی -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- علی المنبر یوم الجمعۃ کان یوذن بین یدیہ علی باب المسجد إلخ۔ پس آپ حضرات کا دونوں عمل سنت کے مطابق اور شریعت مطہرہ کے موافق ہے مولاے کائنات استقامت عطا فرمائے۔ واللہ تعالی أعلم ورسولہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری)) -----شاہ بھولے میاں سے سوال----- سوال نمبر (۱): نماز میں تکبیر کے وقت ’’حي علی الفلاح‘‘ پر آں حضور ﷺ کا مصلی پر اول سے بیٹھنے پر کس حدیث میں ہے؟ اگر حدیث سے ثابت نہیں تو ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑا ہونا سنت رسول کیسے ہے؟ (۲) امام جمعہ کے روبرو اذان جمعہ دینا کس طرح صحیح ہے ،آں جناب نے جو ہم لوگوں کو بتایا ہے کہ ابتداے تکبیر سے کھڑا ہونا مسنون اور امام جمعہ کے روبرو اذان دینا متفقہ جائز ہے۔ عبد الواجد صاحب نے ایسے قائل کو بدعت پھیلانے والا،خبیث ،باغی لکھا ہے۔ جواب مفصل تحریر فرمائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ----شاہ بھولے میاں کا جواب----- -الجواب ـــــــــــــــ:----- (۱) سرکار ابد قرار ﷺ مصلے پر اول تشریف رکھ کر پھر’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر کھڑے کسی وقت بھی نہ ہوئے۔ اس کو عمل رسول جو کہتا ہے بے دین ہے حقیقت یہ ہے کہ پہلے سے آں حضور علیہ الصلاۃ والتسلیم کی اقتدا میں لوگ صف میں کھڑے ہو جاتے تھے اس پر آں حضور نے فرمایا: لا تقوموا حتی تروني۔ ترجمہ: پہلے سے اقتدا میں کھڑے نہ ہوا کرو بلکہ جب ہم کو آتا دیکھو اس وقت کھڑے ہو۔ یاد رہے کہ عمل رسول کیا ہدایت امت کو کر رہا ہے امام نووی استاد امام مسلم صاحب سے اس کی تشریح سنیے کہ ’’یہ ممانعت اس لیے فرمائی کہ انتظار تشریف آوری رسول میں پہلے سے کھڑا نہ ہو جاؤ تاکہ یہ نہ تو گراں گزرے نہ تو آں حضور کے سبب طول قیام کرنے کا سبب ہو کیوں کہ کبھی آپ کو بعد تکبیر تاخیر ہو جاتی تھی۔ النہي عن القیام قبل أن یروہ لئلا یطول علیہم القیام ولأنہ قد یعرض لہ عارض فیتأخر بسببہ۔ دوسری حدیث بھی ایسا فیصلہ کر رہی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ آں حضور کو تشریف لاتے دیکھ کر تکبیر شروع کی جاتی اور تکبیر شروع ہونے ہی پر ہم لوگ کھڑے ہو کر صف درست کر لیا کرتےقبل اس کے کہ آں حضور مصلےٰ پر تشریف لا سکیں۔ عن أبي ہریرۃ أن الصلاۃ کانت تقام لرسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- فیأخذ الناس مصافہم قبل أن یقوم النبي -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- مقامہ۔ (مسلم شریف، جلد اول، ص:۳۲۰) خود سمجھ لیجیے کہ اس فقیر نے آپ لوگوں سے ایک صحابی جلیل کی شہادت سے جماعت صحابہ کا عمل بتایا ہے۔ اس کا منکر کیا ہے ؟ ایسے عمل صحابہ پر عمل کرنے والے کو بدعتی اور حقیقت سے باغی کہنے والا خود کیا ہے؟ تیسرے امام نووی علیہ الرحمہ راقم کہ امام قاضی عیاض نے عامہ علما اور امام مالک علیہ الرحمہ سے نقل کیا ہے کہ جب مؤذن تکبیر شروع کرے تو شروع تکبیر کرتے ہی مقتدی لوگوں کا کھڑا ہوجانا مستحب ہے۔ ونقل قاضی عیاض عن مالک رحمۃ اللہ علیہ وعامۃ العلماء أنہ یستحب أن یقوموا إذا أخذ المؤذن في الصلاۃ۔ (مسلم شریف، کتاب الصلاۃ، جلد اول، ص:۳۲۰) یہ عامہ علما ، یہ امام مالک علیہم الرحمہ کا فتوی اجماع ہے کہ تکبیر شروع ہوتے ہی کھڑا ہونا ہی مستحب ہے۔ فرمائیے فقیر نے جو کہا اور عامہ علما اور امام مالک کا اجماع بتایا ۔ چو تھے۔ فتاوی عالمگیری ،جلد اول، کتاب الصلاۃ، ص:۲۶ شمس الائمہ امام حلوانی علیہ الرحمہ نے افضلیت کہا ہے اس میں یہ اخبار نقل کیا ہے کہ امام اعظم علیہ الرحمہ کے نزدیک تکبیر شروع ہوتے ہی کھڑا ہو جانا افضل ہے اگر کوئی بیٹھ رہا تو یہ جائز ہے کہ ’’حي علی الفلاح‘‘ پر اٹھے۔ وذکر الإمام الحلواني الخلاف في الأفضلیۃ حتی أن عند أبي حنیفۃ رحمہ اللہ إن جلس جاز والأفضل أن لا یجلس۔ خود سمجھ لیجیے کہ واجد صاحب کا یہ جملہ کیسے صحابہ، اماموں اور علما پر ہے اور فقیر نے وہی کہا تھا جو میرے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا حکم تھا۔ اس کے منکر پہلے ان اماموں کے فتوی غلط کر سکتے تو ہم سے بات کریں۔ ----الجواب ـــــــــــــــــ:----- (۲)فتح القدیر میں ہے امام ابن الہمام نے خطیب کے روبرو اذان دوم ہونا جائز لکھا ہے پھر صفحہ ستر فتاوی عالمگیری ، کتاب الصلاۃ میں ہے کہ جب امام منبر پر بیٹھے تو اس کے روبرو اذان دی جائے اور خطبہ ختم کرنے پر تکبیر کہی جائے۔ یہ مذکورہ صورت میراث کے بطور ہم اہل سنت میں معمول چل رہی ہے۔ وإذا جلس علی المنبر أذن بین یدیہ وأقیم بعد تمام الخطبۃ وبذلک جری التوارث کذا في البحر الرائق۔ بحر الرائق وعالمگیری کا یہ فتوی کہ امام کے روبرو جمعہ کی اذان دوم اہل سنت میں میراث کی طرح موروثی ہے۔ اجماع مومنین کا آئینہ اور اجماع کا منکر کافر متفقہ ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ اس جمعہ کی خصوصیت کے علاوہ ہر اذان فناے مسجد یا اذان دینے کی جگہ دی جائے۔ سوچ لیجیے کہ فقیر نے اہل سنت کی وہ موروثی حقیقت جس کو مفتیان متقدمین فقہا نے میراث بنایا ہے آپ لوگوں کو بتایا کیا غلط بتایا؟ پھر اس کے منکرین فقہا پر حملہ کر کے کب بے دین نہ ہوا۔ آخری چیز یہ ہے کہ امام دوراں مولانا شاہ فضل رحمٰن محمدی قادری کے دور میں آپ سے بڑا غوث محقق کوئی نہیں نہ قیوم دوراں مولینا شاہ احمد میاں صاحب سے تھا۔ اسی طرح سیدنا حاجی وارث علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ بھی ہیں۔ کیا یہ رائٹر بتا سکے گا کہ یہ حضرات ایسی شریعت سے معاذ اللہ واقف نہ تھے۔ اسی طرح بابا نظام الدین اولیا، بابا علاء الدین صابر کلیری، حضرت چراغ دہلوی، حضرت خواجہ غریب نواز اور سیدنا خواجہ عبد الباقی اور حضرت مجدد الف ثانی ، شیخ احمد فاروقی اور فیصل دوم حضرت خواجہ محمد معصوم ایشاں، حضرت خواجہ محمد آفاق شاہ صاحب، محدث دہلوی، حضرت نیاز احمد صاحب،نیاز بے نیازی بریلی سے اس دور میں کوئی بزرگ امام چھٹ کر روبرو اذان دوم جاری رکھی۔ پھر یہ سب نہ جانیں۔ دستخط شاہ بھولے میاں فضلی، مسند نشیں دربار فضل رحمانی------

فتاویٰ # 1521

ایک جماعت اپنے امام سے یہ کہتی ہے کہ امام صاحب آپ حجرہ شریف سے مکبر کے اللہ اکبر کہنے سے پہلے مصلے پر چلے آئیں۔ اس کی دلیل میں صحیح مسلم شریف مترجم جلد اول،ص:۵۲۰ ،کتاب المساجد کی یہ دو عبارتیں پیش کرتے ہیں: (1) عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ الصَّلاَةَ كَانَتْ تُقَامُ لِرَسُولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- فَيَأْخُذُ النَّاسُ مَصَافَّهُمْ قَبْلَ أَنْ يَقُومَ النَّبِيُّ -صلى الله عليه وسلم- مَقَامَهُ. (2) عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ بِلاَلٌ يُؤَذِّنُ إِذَا دَحَضَتْ فَلاَ يُقِيمُ حَتَّى يَخْرُجَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- فَإِذَا خَرَجَ أَقَامَ الصَّلاَةَ حِينَ يَرَاهُ. دوسری جماعت یہ کہتی ہے کہ امام صاحب آپ حجرے سے مکبر کے ’’حي علی الفلاح‘‘ کہنے پر ہی مصلے پر آئیں اس کی دلیل میں بخاری ومسلم ومشکاۃ،ص: ۶۷ ،مطبوعہ کتب خانہ رشیدیہ دہلی کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں: عَنْ أَبِى قَتَادَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم-: « إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي قَد خَرَجْتُ». مؤطا شریف،ص:۸۶، ۸۷ کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں: ینبغي للقوم إذا قال المؤذن ’’حي علی الفلاح‘‘ أن یقوموا إلی الصلاۃ فیصفوا ویسووا الصفوف۔ شرح وقایہ اول،ص:۱۵۵ کی یہ عبارت : یقوم الإمام والقوم عند ’’حي علی الصلاۃ‘‘۔ کتاب محیط کی یہ عبارت: یقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن ’’حي علی الفلاح‘‘ عند علمائنا الثلاثۃ ہو الصحیح۔ کتاب مضمرات کی یہ عبارت بھی پیش کرتے ہیں کہ إذا دخل الرجل عند الإقامۃ یکرہ لہ الانتظار قائما لکن یقعد ثم یقوم إذا بلغ المؤذن قولہ ’’حي علی الفلاح‘‘۔ کتاب وسنت کے اعتبار سے امام صاحب کے لیے کیا حکم ہے اور امام کس وقت باہر نکلے؟

فتاویٰ # 1522

ایک لڑکا انیس (۱۹) سال کا ہے ، دونوں آنکھ سے معذور ہے، پانچوں وقت اذان دیتا ہے، مگر اقامت نہیں کہتا، بعض لوگوں کا کہناہے کہ نابینا کی اقامت صحیح نہیں، اس بارے میں صحیح مسئلہ کیا ہے ؟ اور مؤذن کی اجازت کے بغیر دوسرے کو اقامت کہنا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1523

(۱) امام اپنے مقتدیوں کے ساتھ مسجد کے اندر تکبیر کے وقت موجود ہے تو امام اعظم، امام ابویوسف، امام محمد رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک شروع سے کھڑا ہونا مستحب ہے یا ’’حي علی الصلاۃ ، حي علی الفلاح‘‘ کے وقت؟ (۲) اقامت کے وقت ’’حي علی الصلاۃ‘‘ ‘’حي علی الفلاح‘‘ تک بیٹھا رہنا مذہب احناف میں اگر مکروہ ہے تو براے کرم اس کو اصل عبارت مع ترجمہ وحوالہ کےساتھ تحریر فرمائیں۔ ۔۔۔۔دار العلوم دیوبند کا جواب۔۔۔۔ الجواب ـــــــــــــــ: (۱) سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس معاملہ میں حضرت نبی اکرم ﷺ اور حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا معمول کیا تھا؟ چناں چہ مسلم شریف اور دیگر کتب حدیث میں صاف صاف یہ موجود ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ انتظار فرماتے رہتے تھے اور جیسے ہی حضرت نبی اکرم ﷺ حجرہ شریف سے قدم مبارک باہر نکالتے اسی وقت حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ تکبیر شروع فرمادیتے، اور حضرات صحابۂ کرام اسی وقت کھڑے ہو جاتے تھے حتی کہ حضرت نبی اکرم ﷺ کے مصلے شریف تک پہنچنے پر صفیں بالکل درست ہو جاتی تھیں۔ اور جو طریقہ آج کل ہندوستان وغیرہ میں رائج ہوا ہے کہ امام مصلی پر آکر بیٹھتا ہے اور مقتدی سب بیٹھے رہتے ہیں پھر ایک شخص کھڑا ہو کر اقامت کہتا ہے اور ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر سب کھڑے ہوتے ہیں اور جو اس سے پہلے کھڑا ہو جائے اس پر طعن کرتے ہیں یعنی اس کو وجوب کا درجہ دے رکھا ہے۔ یہ شکل تو کہیں بھی ثابت نہیں بالکل خلاف سنت اور سنت قبیح ہے۔ حضرت نبی اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا معمول اور حضرات فقہاے کرام رحمہم اللہ تعالی کے اقوال ومذاہب پر بحث شرح حدیث اعلاء السنن میں چار صفحوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ نقل عبارت کی گنجائش نہیں۔ ’’جواہر الفقہ‘‘ (اردو) میں اس پر عمدہ کلام ہے۔ (۲) نمبر ۱ کے تحت جواب آگیا۔ فقط واللہ سبحانہ تعالی اعلم۔

فتاویٰ # 1524

(الف) حضور ﷺ اقامت شروع ہونے کے بعد تشریف لاتے تھے یا پہلے اگر اقامت شروع ہونے کے بعد تشریف لاتے تھے تو تشریف لا کر صفوں کی اصلاح اور اس کی درستگی میں مشغول ہو جاتے تھے یا (ب) تشریف لا کر مصلی پر بیٹھ جاتے تھے اور ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر قیام فرماتے تھے ۔ (ج) اور اقامت سے پہلے تشریف لاتے تھے تو (د) اقامت کے وقت کھڑے رہتے تھے یا (ہ) مصلے پر بیٹھ جاتے تھے اور ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کے وقت کھڑے ہوتے تھے۔ (و) لا تقوموا حتی تروني ۔ حضور نے کب اور کیوں ارشاد فرمایا تھا؟ اس کا مطلب کیا ہے؟ (ز) سووا صفوفکم فإن تسویۃ الصفوف من إقامۃ الصلاۃ۔ کیا ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر قیام کرنے سے اس حدیث کو معطل کرنا لازم نہیں آتا؟ (ح) ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کے وقت یا اس سے پہلے کھڑا ہونا استحبابی مسئلہ ہے یا فرض اور واجب؟ ’’حي علی الصلاۃ‘‘ سے پہلے کھڑا ہونے والا فرض کا تارک ہے یا مستحب کا؟ -----بدر احمد مجیبی پھلواری کا جواب-----الجواب ــــــــــــ: رسول اللہ ﷺ عموماً اقامت سے قبل مسجد میں تشریف لے آتے تھے حضرت بلال منتظر رہتے۔ جب آپ حجرۂ مبارکہ سے باہر تشریف لاتے تو حضرت بلال آپ کو دیکھ کر اقامت شروع کر دیتے۔ حضرت جابر بن سمرہ سے مروی ہے : قال: کان بلال یوذن ثم یمہل فإذا رأی النبي -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- قد خرج أقام الصلاۃ۔ (أبو داؤد ، جلد اول، باب في الأذان ینتظر الإمام) (الف، ب) کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ اقامت شروع ہونے کے بعد تشریف آوری ہوتی۔ ایک بار کا واقعہ ہے کہ تشریف لانے سے قبل اقامت شروع ہو چکی تھی اور صفیں درست ہو رہی تھیں اس وقت حضور ﷺ حجرہ سے باہر تشریف لائے مگر اس حدیث سے بیٹھنے کا ثبوت نہیں ہے بلکہ تعدیل صف کا ذکر ہے۔ مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے : أقیمت الصلاۃ فقمنا فعدلنا الصفوف قبل أن یخرج إلینا رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- ۔ ( مسلم،ص:۲۲۰) (ج، د، ہ) قبل اقامت یا اقامت کے درمیان آپ کا حجرۂ مبارکہ سے باہر تشریف لا کر مصلی پر بیٹھ جانا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے بلکہ اقامت شروع کرتے ہی صفیں درست کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ امام ابن شہاب زہری سے مروی ہے : إن الناس کانوا ساعۃ یقول المؤذن اللہ أکبر اللہ أکبر یقیم الصلاۃ یقومون الناس إلی الصلاۃ فلا یاتي النبي -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- مقامہ حتی یعدل الصفوف۔ (مصنف عبد الرزاق،ص:۵۰۷) یہ حدیث مرسل ہے یعنی اس میں تابعی براہ راست نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں اور مرسل احادیث احناف، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک مطلقاً قابل قبول اور قابل احتجاج ہے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں : قال مالک في المشہور عنہ وأبو حنیفۃ وأصحابہ وغیرہم من أئمۃ العلماء کأحمد في المشہور عنہ: إنہ صحیح مجتہد بہ، بل حکم ابن جریر إجماع التابعین بأثرہم علی قبولہ۔ (و) بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ اقامت شروع ہو گئی اور حجرۂ مبارکہ سے تشریف آوری سے قبل ہی صحابہ کھڑے ہو گئے ایسے ہی کسی موقع پر باہر تشریف آوری سے قبل کھڑے ہو جانے سے منع فرما دیا گیا کہ جب مجھے حجرہ سے نکلتا ہوا دیکھو اس وقت کھڑے ہونا۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی مشہور حدیث ہے : اذا أقیمت الصلاۃ فلا تقوموا حتی تروني۔ (ترمذی شریف،ص:۷۶) یہ حدیث اس مسئلہ سے متعلق ہے کہ امام مسجد میں موجود نہیں ہے مؤذن نے اقامت شروع کر دی ہے تو اب مقتدی حضرات کب کھڑے ہوں اس حدیث سے وضاحت ہوئی کہ جب تک امام کو آتا ہوا دیکھ نہ لیں کھڑے نہ ہوں اور جب امام کو دیکھ لیں تو پھر بیٹھے نہ رہیں۔ کھڑے ہو جائیں اقامت شروع ہونے کے بعد امام آیا ہے اور اس کو دیکھنے کے باوجود ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کے انتظار میں بیٹھے رہنا اس حدیث کے خلاف ہے ۔ علامہ عینی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: لابد فیہ من التقویم بتقدیرہ لا تقوموا حتی تروني خرجت فإذا رأیتموني خرجت فقوموا۔(عمدۃ القاری شرح بخاری، ص:۶۷۶) تمام شراح حدیث اور فقہاے کرام بھی حدیث ابی قتادہ کو مسجد میں امام کی عدم موجودگی کے مسئلہ ہی سے متعلق مانتے ہیں اور وہیں اس کو ذکر کرتے ہیں اس کو امام کی موجودگی والے مسئلہ سے جوڑنا سراسر ناواقفیت پر مبنی ہے۔ سووا صفوفکم فإن تسویۃ الصفوف من إقامۃ الصلاۃ۔ سے صفوں کی درستگی کی سنیت معلوم ہوتی ہے جب ’’حي علی الصلاۃ‘‘ و’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہوکر لا إلہ إلا اللہ کے فوراً بعد نماز شروع کر دی جائے گی تو صراحۃً اس حدیث کی تعطیل لازم آئے گی۔ تسویۃ صفوف کا یہ مطلب کسی فقیہ نے نہیں بیان کیا ہےکہ لوگ آکر صف بستہ بیٹھ جائیں اور ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر کھڑے ہوں بلکہ حدیث میں بھی ’’فقمنا فعدلنا الصفوف‘‘ جیسے الفاظ ملتے ہیں جن سے وضاحت ہوتی ہے کہ صفوں کی درستگی کھڑے ہی ہو کر ہوتی ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں : ’’فقمنا فعدلنا الصفوف‘‘ إشارۃ إلی أن ہذہ سنۃ معہودۃ۔ (نووی شرح مسلم، ج:۱،ص:۲۲۰) (ح) ابتداے اقامت ہی میں کھڑے ہو جانا مستحب ومسنون اور ثابت بالسنۃ ہے اور ‘’حي علی الصلاۃ‘‘ و’’حي علی الفلاح‘‘ سے قبل تک بیٹھیں اور اس وقت کھڑے ہو جائیں ، یہ صرف جواز کی صورت ہے ‘’حي علی الصلاۃ‘‘ سے قبل ابتداے اقامت ہی میں کھڑا ہوجانے والا شخص نہ فرض کا تارک ہے اور نہ سنت ومستحب کا بلکہ وہ عامل بالسنۃ ہے چوں کہ جوابات صرف حدیث شریف کے حوالے سے طلب کیے گئے ہیں اس لیے حوالے میں صرف احادیث پیش کی گئی ہیں اور شراح کی عبارتیں ورنہ فقہا سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ المجیب بدر احمد مجیبی، خانقاہ مجبیہ پھلواری شریف

فتاویٰ # 1525

إن بلالا کان یرقب خروج النبي ﷺ فأول ما یراہ یشرع في الإقامۃ قبل أن یراہ غالب الناس ثم إذا رأوہ قاموا فلا یقوم في مکانہ حتی تعتدل صفوفہم قلت ویشہد لہ ما رواہ عبد الرزاق عن ابن جریح عن ابن شہاب أن الناس کانوا ساعۃ یقول المؤذن اللہ أکبر یقومون إلی الصلاۃ فلا یاتی النبي -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- مقامہ حتی تعتدل الصفوف إھ ۔ (بذل المجہود شرح ابو داؤد،ج۱،ص:۳۰۷) ترجمہ: بے شک بلال انتظار کرتے تھے نبی ﷺ کے نکلنے کا لہذا جیسے ہی حضور کو دیکھتے اقامت شروع کر دیتے تھے اس سے پہلے کہ اکثر لوگ حضور کو دیکھتے ۔ پھر جب لوگ حضور کو دیکھ لیتے کھڑے ہو جاتے پس حضور اپنے مقام (مصلی) پر نہیں کھڑے ہوتے یہاں تک کہ ان کی صفیں سیدھی کر دےجاتی ۔ اوراس کی شہادت اس سے بھی ہوتی ہے جسے عبد الرزاق نے ابن جریح سے انھوں نے ابن شہاب سے روایت نقل کی ہے کہ لوگ اس وقت کھڑے ہوتے تھے جب مؤذن اللہ اکبر کہتا تھا نماز کےلیے، پس نہیں آتے تھے نبی ﷺ اپنے مقام پر (مصلے) یہاں تک کہ صفیں سیدھی کر دی جاتی تھیں۔ (بذل المجہود،ج:۱،ص:۳۰۷) نوٹ: جو حضرات بھی اس حدیث کو متروک العمل (پورے عرب وعجم میں) باحوالہ غلط ثابت کردیں یا عرب وعجم میں عامل نہ ہونا ثابت کردیں ان حضرات کو دس ہزار روپے نقد انعام دیا جائے گا۔ حوالہ یا ثبوت دے کر اس پتہ پر حاصل کرلیں۔

فتاویٰ # 1526

اقامت کے وقت مقتدی نماز کے لیے کس وقت کھڑا ہو؟ زید کا کہنا ہے کہ تکبیر شروع ہوتے ہی مقتدی کو نماز کے لیے کھڑا ہو جانا چاہیے۔ بکر نے کہا یہ طریقہ خلاف سنت ہے۔ مقتدی کو نماز کے لیے اس وقت کھڑا ہونا چاہیے جب مؤذن ’’حي علی الفلاح‘‘ کہے۔ اقامت شروع ہوتے ہی نماز کے لیے کھڑا ہونا یعنی کھڑے ہوکر نماز کا انتظار کرنا مکروہ ہے۔ زید نے کہا یہ نیا مسئلہ تمہارے مسلک والوں کا ہے ہم اس کو نہیں مانتے، اس کے لیے کوئی معتبر حدیث کی کتاب دکھاؤ۔ بکر نے زید کے سامنے مالابد منہ، فتاوی برکاتیہ وغیرہ وغیرہ چھ سات کتابوں کو لاکر دکھادیا۔ زید نے کہا یہ کتابیں تمہارے مسلک والوں کی ایجاد کی ہوئی ہیں ہم ان کو نہیں مانتے۔ مجھے کوئی معتبر حدیث شریف دکھاؤ۔ ادھر زید یہ بھی دعوی کرتا ہے کہ میں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مسلک کو مانتا ہوں اور اسی پر چلتا ہوں۔(زید کا جملہ غور طلب ہے) اب یہ مسئلہ بڑا سنگین ہو چکا ہے لہذا حضور والا سے میری التماس ہے کہ تفصیل سے جواب تحریر فرما کر سکون قلب عنایت فرمائیں ۔

فتاویٰ # 1527

جماعت سے نماز ہو گئی ہے ، پھر اکیلا اور نماز فرض پڑھنا ہے تو تکبیر کر کے پڑھنا چاہیے یا بغیر تکبیر کے پڑھنا چاہیے؟

فتاویٰ # 1528

زید کا کہنا ہے کہ انگوٹھا چومنا بےشک حکم استحباب کا رکھتا ہے اور خود زید بھی اس کا عامل ہے کہ بوقت اذان وتکبیر کے انگوٹھا چومتا ہے لیکن اس کا یہ کہنا ہے کہ جس وقت خطبہ کی اذان ہو اس وقت اور جس وقت آیت شریفہ :’’ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ ، الآیۃ۔۔۔‘‘ پڑھی جائے اس وقت نہیں چومنا چاہیے کیوں کہ خطبہ کا سننا فرض ہے۔ اور جس وقت قرآن شریف پڑھا جائے اس کا سننا اور خاموش رہنا بھی ضروری ہے۔ اور یہ استدلال پیش کرتا ہے: وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۰۰۲۰۴ ۔ لہذا زید کا یہ کہنا کہ ان موقعوں پر اگر استحباب پر عمل کیا جائے گا ، یعنی انگوٹھے چومے جائیں گے تو تارک فرض ہوگا۔ تو بجاے ثواب کے گناہ ہوگا۔ لہذا ان موقعوں پر انگوٹھے نہیں چومنا چاہیے۔بکر کا یہ کہنا ہے کہ نہیں انگوٹھے چومنے پر اس قسم کا حکم صادر نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ علماے کرام نے ان مقامات پر ایسا فعل کرنے پر گناہ نہیں لکھا ہے۔ لہذا یہ اس چیز کو نہیں پسند کرتا اور نہ ہی اس قسم کا حکم لوگوں کو بتلانا بکر کو پسند ہے۔ اب سوال یہی ہے کہ زید کا قول کہاں تک صحیح ہے اور بکر کا قول کہاں تک صحیح ہے براے کرم استدلال کے ساتھ جو صحیح حکم ہو وہ تحریر فرمادیں۔ ان شاء اللہ الکریم اس پر عمل ہوگا۔ کیوں کہ ہمارا اصلی مقصد صحیح بات معلوم کرنا ہے۔ بینوا توجروا۔

فتاویٰ # 1529

جمعہ کی اذان ثانی میں ’’أشہد أن محمدا رسول اللہ‘‘ پر انگوٹھا چومنا خلاف سنت ہے کہ نہیں اگر ہے تو کیوں؟ اگر نہیں ہے تو کیوں؟ دونوں کی وجہ قرآن وحدیث کی روشنی میں عبارت وحوالہ نمبر کے مدلل تحریر فرمائیں یوں تو خطیب کو معلوم ہے کہ خطبہ کی اذان ثانی میں انگوٹھا چومنا خلاف سنت ہے اور اس کی زبان سے بھول کر نکل گیا ’’حرام‘‘ اور وہ اپنی اس غلطی کا بھی اعتراف کر رہا ہے اب اس حالت میں خطیب پر شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے نیز عوام اس پر وہابیت کا فتوی لگائے تو عوام پر شریعت کا کیا حکم ہے ؟

فتاویٰ # 1530

خطبہ کی اذان میں ’’أشہد أن محمدا رسول اللہ‘‘ پر انگوٹھا چومنا مقتدی و امام پر واجب ہے کہ نہیں؟ اور بعد اذان دعا مانگنا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1531

اذان میں حضور ﷺ کا نام نامی اسم گرامی آنے پر انگوٹھا چومنا درست ہے کہ نہیں یہ صرف جمعہ کی نماز ہی میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ کہاں تک درست ہے ، مہربانی فرما کر بحوالہ کتب ہماری رہنمائی فرمائیں۔ امید ہے کہ کافی شافی جواب سے ممنون ومشکور فرمائیں گے۔

فتاویٰ # 1532

(۱) ہر اذان کے بعد جماعت سے کچھ پہلے صلاۃ وسلام حضور سرور عالم پر تین مرتبہ اذان کی جگہ سے پکارنا حدیث کی روشنی میں ٹھیک ہے یا کہ نہیں؟ (۲) ہر فرض نماز کے فوراً بعد تسبیح ’’حق لا إلہ إلا اللہ‘‘ تین بار اور ’’محمد رسول اللہ‘‘ ایک بار امام اور مقتدیوں سمیت پکارنا کہاں تک درست ہے ؟ اگر درست ہے تو اس کی مخالفت کرنے والے امام کی اقتدا جائز ہے کہ نہیں ؟ حدیث کے حوالے سے مطلع فرمائیں۔

فتاویٰ # 1533

ہماری مسجد میں آج تقریباً چار مہینے سے صلاۃ پڑھی جاتی ہے اس پر بعض لوگوں کو اعتراض ہے اور ان لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ یہ بدعت ہے۔ یہ چیز حضور ﷺ کے زمانۂ مبارکہ میں نہ تھی۔آیا جو لوگ صلاۃ کے منکر ہیں اور صلاۃ پر پابندی لگاتے ہیں اور صلاۃ کو برا جانتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟ کیا صلاۃ پڑھنا باعث ثواب ہے یا نہیں؟ اس کا جواب احادیث اور مسائل فقہ کی معتبر کتابوں سے حوالہ دیتے ہوئے جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1535

(۱) زید جو عالم وقاری ہیں ہماری مسجد کے امام ہیں اور مدرسے میں خدمت تدریس انجام دیتے ہیں۔ ایک دن وقت عشا قبل جماعت موصوف صلاۃ کہنے کے لیے کھڑے ہوئے فوراً بکر نے انھیں پکڑ لیا اور کہا یہ فضول خرچی ہے بالآخر امام صاحب کو ٹھوکر مار دی جس میں ایک عالم دین کی سخت توہین ہوئی لہذا بکر کے لیے شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے آیا ایسے شخص کی اذان واقامت درست ہے اگر نہیں تو اذان کا اعادہ ضروری ہے یا نہیں پھر ایسے شخص سے مصلیان کیسا سلوک کریں نیز شرعاً مجرم ہے یا نہیں اگر ہے تو اس پر شریعت کیا سزا نافذ کرتی ہے؟ (۲) قبل جماعت صلاۃ پڑھنے کی کیا حقیقت ہے اور اس کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی مع السند تحریر کریں۔ (۳) أشہد أن لا إلہ إلا اللہ پر کلمہ کی انگلی اٹھانا جو عوام میں رائج ہے اس کی کیا سند ہے؟ مذکورہ بالا مسائل کے جوابات بالتفصیل تحریر فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں ۔ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1536

کیا ہر نماز سے قبل اذان کے بعد صلاۃ کا پکارنا ضروری ہے۔ زید کہتا ہے کہ یہ بدعت ہے اور سرکار نے ہر بدعت کو حرام فرمایا ہے اور ائمۂ متقدمین نے بھی اسے جائز نہیں قرار دیا ہے جب کہ بکر کہتا ہے کہ ائمۂ متاخرین نے اسے جائز فرمایا ہے بقول زید کے ائمۂ متقدمین کے ہوتے ہوئے متاخرین کی اقتدا ضروری نہیں۔ ایسی صورت میں کس کی بات مانی جائے؟

فتاویٰ # 1537

(۱) ہمارے یہاں بعض مساجد میں فجر کی اذان کے کچھ دیر بعد مؤذن یا کوئی دوسرا شخص جماعت سے دس، پندرہ منٹ پہلے یہ آواز لگاتا ہے: ’’حضرات! جماعت میں صرف دس منٹ باقی ہے۔‘‘ (یا پندرہ منٹ) کیا شرعاً اس طرح روزانہ پکارنا جائز ہے؟ جب کہ بلا نکیر یہ عمل جاری ہے۔ (۲) زید نے ، ’’پندرہ منٹ باقی ہے‘‘ والے اعلان کے بجاے ’’الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ یا حبیب اللہ وغیرہ‘‘ درود شریف کے کلمات کو کہنا شروع کر دیا ہے۔ تو بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ نیا نیا مسئلہ کہاں سے آگیا۔ جب کہ یہ ’’پندرہ منٹ باقی ہے‘‘ میں کوئی نہیں بولتا۔ اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے۔

فتاویٰ # 1538

بعد دفنِ میت قبر پر اذان دینا جائز ہے یا نہیں؟ زید کہتا ہے کہ سنی قبرستان میں بعد دفن میت اذان دینا جائز ومستحب اور ثواب ہے مگر بکر کہتا ہے کہ بدعت وناجائز ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ اس کے جواز میں کوئی حدیث نہیں اور قبر پر اذان دینے سے منع کرتا ہے۔ ان دونوں میں کس کا قول صحیح ہے۔ اسی مسئلہ میں علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا قول کہاں تک معتبر ہے؟ کیاو ہ حنفی المسلک تھے؟ مع حوالہ اس پر روشنی ڈال کر رہنمائی فرمائیں۔ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1539

قبر پر اذان دینا بعد دفن میت درست ہے یا نہیں؟ اگر درست ہے تو کس حدیث سے ثابت ہے؟ مدلل ومفصل قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1540

ہمارے یہاں میت کے دفن کرنے کے بعد حال ہی میں اذان دینے کا رواج شروع کیا گیا ہے۔ کتاب وسنت کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں، نوازش ہوگی۔

فتاویٰ # 1541

ایک پیر کا کہنا ہے کہ اذان قبر کعبہ کی طرف منہ کر کے نہ پڑھی جائے بلکہ کعبہ کی طرف پیٹھ کر کے پڑھی جائے ورنہ صاحب قبر کو سر اٹھا کر دیکھنا ہوگا تو صاحب قبر کو تکلیف ہوگی۔ فقیر نے جواب دیا کہ اذان کعبہ شریف کی طرف منہ کر کے پڑھنا ضروری ہے لیکن پھر بھی اصرار ہے لہذا کیا حکم ہے؟ کیا اذان کے بعد جو صلاۃ پڑھی جاتی ہے وہ بھی خارج مسجد ہی پڑھی جائے، براے کرم فقیر کا خلجان دور کیجیے، کرم ہوگا۔

فتاویٰ # 1542

ایک شخص مسلمان ہے، دینی مسائل سے اچھی طرح واقف ہے دوسروں کو مسائل بتاتا ہے مگر خود مسائل پر عمل نہیں کرتا ،ایک وقت کی نماز نہیں پڑھتا، اس کے قریب میں مسجد ہے اس میں نماز جمعہ اور پنج وقتہ نماز ہوتی ہے ، جمعہ کی نماز بھی نہیں پڑھتا اور کہتا ہے کہ علماے کرام اور مولوی حضرات نے مسلمانوں کو نماز پڑھا کر بزدل بنا دیا ہے، ایسے شخص کے بارے میں حکم شرع کیا ہے؟

فتاویٰ # 1543

زید کہتا ہے کہ قرآن میں جو دعوی ہے کہ ’’نماز روک دیتی ہے تمام بے حیائیوں اور بری باتوں سے‘‘ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں، چوری بھی کرتے ہیں، جوا بھی کھیلتے ہیں، شراب بھی پیتے ہیں۔ ایک بھی برائی ان سے دور نہیں ہوتی۔ قرآن کا اعلان جھوٹا ہے۔ اور لوگ ایسی باتوں کو سنتے ہیں، ایسے لوگوں اور زید کے لیے شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ جواب سے مطلع فرمائیں اور عند اللہ ماجور ہوں۔

فتاویٰ # 1544

زید نے بکر کو کہا نماز پڑھو اس پر بکر کہتا ہے تم کتنے بڑے نمازی کے بیٹے ہو۔ بکر کی یہ بولی عند الشرع قابل گرفت ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1545

اگر خدا نخواستہ آپ بے نمازی ہیں تو قرآن پاک کا فیصلہ ہے کہ آپ مشرک ہیں، آپ کو کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ آپ ظالم ہیں آپ کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اگر آپ خدا نخواستہ بے نمازی ہیں تو حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ آپ کافر ہیں، آپ مشرک ہیں، آپ جہنم میں فرعون، ہامان، قارون اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوں گے۔ اور اگر خدا نخواستہ آپ بے نمازی ہیں تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے نزدیک آپ کی سزا یہ ہے کہ آپ کو قید کر لیا جائے یہاں تک کہ قید میں مر جائیں۔ امام شافعی کا حکم یہ ہے کہ تلوار سے آپ کی گردن اڑادی جائے۔ امام احمد بن حنبل کا فتوی یہ ہے کہ آپ صریح کافر ہیں، آپ کی سزا یہ ہے کہ آپ کو مرتد کی طرح قتل کیا جائے، آپ کی ساری جائداد بحق بیت المال ضبط کر لی جائے نہ آپ کا جنازہ پڑھا جائے نہ آپ کو مسلمانوں کے قبر ستان میں دفن کیا جائے۔

فتاویٰ # 1546

زید نے بکر سے کہا کہ متقی ، زاہد اور زیادہ علم والے دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔ اس گفتگو پر بکر نے ہاں کہا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید کا یہ کہنا اور بکر کا ہاں کرنا ازروے شرع درست ہے یا نہیں اور شریعت مطہرہ کا ان دونوں کے لیے کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1547

زید پوری رات اپنی بیوی سے پیار ومحبت کی باتوں میں گزارتا ہے اور پھر نماز فجر کے وقت خواب غفلت میں گزارتا ہے۔ اس کی یہ روش از روے شرع کیسی ہے؟ حالاں کہ زید تعلیم یافتہ شخص ہے۔ بیوی سے صحبت کب اور کیسے کیا جائےاور اس کے لیے کون سا وقت افضل ہے۔ اور کتنے دنوں پر جماع کرنا چاہیے؟ بیوی حالت حیض میں ہو اس حالت میں زوجین کا ایک بستر پر رات گزارنا اور نمازیں ضائع کرنا کیسا ہے؟ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1548

بغیر عمامہ یعنی صافہ کے امام نماز پڑھائے نماز میں کمی واقع ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1549

نماز کی شرطیں بتائیں جن کے بغیر نماز ہوگی ہی نہیں؟

فتاویٰ # 1550

زید مسجد میں ملازمت کرتا ہے ۔ ایک شب اس نے اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کی فارغ ہونے کے بعد تیمم کیا پھر تھوڑی دیر بعد چھوٹا استنجا کیا اور سوگیا صبح سو کر اٹھا تو جماعت کا وقت بالکل قریب تھا اس نے جلدی سے وضو کیا اور دو رکعت سنت پڑھا اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ غسل کرتا اور زید کے علاوہ مسجد میں کوئی آدمی امام بننے کےلائق نہیں تھا۔ اب مجبورا زید کو نماز پڑھانی پڑی۔ اب شرعاً زید کے لیے کیا حکم ہے؟ نماز ہو گئی یا نہیں؟ اگر نہیں ہوئی تو زید نماز کی قضا کس طرح کرے جب کہ مقتدیوں کی تعداد کا صحیح اندازہ نہیں۔ مفصل بیان فرمائیں۔ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1551

زید کی لنگی گھٹنوں کے اوپر دیکھ کر بکر نے کہا ’’گھٹنوں سے نیچی رکھو ‘‘ اس پر زید نے کہا : ’’وہ سب باتیں بالاے طاق رکھو‘‘۔ اب ارشاد ہو کہ زید پر شریعت کا کون حکم نافذ ہوگا؟

فتاویٰ # 1552

مسجد دال منڈی قصبہ پڈرونہ قطب نما سے ۲۰؍ ڈگری ٹیڑھی ہے ۔ مسجد کے اندرونی حصہ میں ڈھائی صف ہوتی ہے ، اگر قطب نما کے موافق عمل کیا جائے تو صرف ایک ہی صف ہوگی۔ مصلیان مذکورہ مسجد کا کہنا ہے کہ پنج وقتہ تو ہم موافق قطب نما نمازیں ادا کریں گے مگر جمعہ کے روز دشواری ہے ۔ ایسی صورت میں خواہ کوئی بھی نماز ہو موافق قطب ادا کی جائے گی یا صف ہر صورت سیدھی کی جائے ؟ فقہ کی روشنی میں مدلل ومفصل جواب مرحمت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1553

کیا فرماتے ہیں علماے دین کہ ہم لوگوں نے ایک مسجد تعمیر کی، پہلے وہ ایک پرانی مسجد تھی۔ اب از سر نو بنائی گئی۔ جب مسجد مکمل بن گئی تو زید ایک عالم دین نے قطب نما لگایا تو بتایا مسجد دکھن طرف ایک ڈیڑھ ہاتھ ٹیڑھی ہے یا غالباً دو ہاتھ ،فوراً توڑ دو اس میں نماز قطعا نہیں ہوتی۔ واضح ہو کہ اس بستی کے مسلمانوں میں ایک عجب کش مکش پائی جا رہی ہے تمام مسلمانوں میں دو گروپ سامنے ابھر کر آگئے ہیں۔ خدارا قرآن وحدیث وفقہ کی رو سے مدلل جواب فرمائیں۔

فتاویٰ # 1554

جب نمازی نماز پڑھتا ہے تو اپنا رخ سمت کعبہ کرتا ہے ۔کیا کعبہ کے علاوہ کسی سمت رخ کر کے نماز ادا نہیں ہوگی۔ اگر نہیں ہوگی تو پھر کیوں؟قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل جواب دیا جائے۔

فتاویٰ # 1555

علماے دین وشرع متین اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں: یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ مسجد کا رخ قبلہ کی طرف نہیں ہے ویسے تحقیق کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اکتیس ڈگری پچھّم کے رخ سے کم ہے۔ کیا اس صورت میں لوگوں کی نماز ہوتی ہے یا نہیں؟ یہاں کے لوگ ابھی تک مسجد کے رخ ہی سے نماز پڑھتے ہیں اور صحن میں بھی جگہ کافی ہے۔

فتاویٰ # 1556

ایک دروغ گو جھوٹی گواہی کے ذریعہ یہاں کے حافظ وپیش امام کے اوپر زنا کا بہتان جھوٹے الزام کے ذریعہ ثابت کر رہا تھا جو کہ بعد میں جھوٹ وغلط ہی ثابت ہوا۔ جھوٹی گواہی کے دوران زید نے غصہ میں جب کہ جھوٹا گواہ کعبہ شریف کی قسم کھاکر جھوٹی گواہی دے رہا تھا۔ زید نے کہا کہ جھوٹے تمہارے کعبہ کی ایسی کی تیسی یعنی گالی دے رہا تھا جھوٹے گواہ کو مگر زبان سے کعبہ شریف کا بھی نام نکل گیا جس پر بعد میں زید کو شرمندگی ہے اور توبہ استغفار بھی کر چکا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ زید کو تجدید ایمان وتجدید نکاح کرنا ہوگا۔ اس لیے اس کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا قانون ہے آگاہ فرمائیں نوازش ہوگی۔ فقط

فتاویٰ # 1557

سنت کی نیت کس طرح کرنی چاہیے ایک طریقہ تو یہ ہے: ’’نیت کرتا ہوں میں دو یا چار رکعت نماز سنت رسول اللہ ﷺ کی واسطے اللہ تعالی کے میرا منہ کعبہ شریف کی طرف اللہ اکبر‘‘۔ دوسرا طریقہ یہ ہے : ’’نیت کرتا ہوں میں دو یا چار رکعت نماز سنت رسول اللہ ﷺ کی واسطے رسول اللہ ﷺ کے میرا منہ کعبہ شریف کی طرف اللہ اکبر‘‘۔ ان دونوں طریقوں میں سے کون سا طریقہ درست ہے؟ نیز ایک اور طریقہ سے ہم لوگ نیت کرتے ہیں ’’نیت کی میں نے چار رکعت نماز سنت ظہر کی واسطے اللہ تعالی کے میرا منہ کعبہ شریف کی طرف اللہ اکبر‘‘۔ ان طریقوں میں کون سا طریقہ درست ہے؟ نیز صحیح طریقہ نیت کیا ہے؟

فتاویٰ # 1558

ماہنامہ اشرفیہ بابت ماہ جولائی میں سائل نے سنت کی نیت کا تین طریقہ ذکر کیا تھا۔ (۱) نیت کرتا ہوں میں دو یا چار رکعت نماز سنت رسول اللہ ﷺ کی واسطے اللہ تعالی کے میرا منہ کعبہ شریف کی طرف۔ آپ نے اس طریقہ کو ناقص لکھا ہے ۔ چوں کہ عوام ہمیشہ سے اسی طرح نیت کرتے آئے ہیں اس لیے کچھ لوگوں نے عوام کو الجھن میں ڈال دیا ہے۔ خصوصاً دیوبندی برادری اسے بہت اچھال رہی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ناقص اس لیے کہا کہ اس میں ’’سنت رسول اللہ ‘‘ کہا گیا ہے اور یہ کہنا جائز نہیں جیسا کہ ہمارا مذہب ہے۔ ہم پہلے سے سنیوں کو منع کرتے تھے۔ مگر سنی اپنی ضد کی وجہ سے نہیں مانتے تھے لیکن اب ان کے مفتی صاحب نے بھی ہماری تائید کردی کہ ’’سنت رسول اللہ‘‘ کہنا ناقص ہے۔

فتاویٰ # 1559

امام نماز پڑھاتے وقت نیت کس طرح کرے۔ عربی اور اردو میں نیت لکھیے۔

فتاویٰ # 1560

نماز پڑھنے کا طریقہ بیان کردیں۔

فتاویٰ # 1561

حنفی طریقہ کے مطابق نماز میں مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے ہیں اور عورت سینہ پر تو پھر ہجڑے کو کہاں ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا چاہیے۔

فتاویٰ # 1562

در مختار میں ص:۵۷ میں ہے: والمرأة تنخفض فلا تبدي عضديها وتلصق بطنها بفخذيها؛ لأنه أستر.وحررنا في الخزائن أنها تخالف الرجل في خمسة وعشرين۔ مودبانہ گزارش ہے کہ در مختار نے نماز میں عورت جو مرد کی پچیس جگہوں میں مخالفت کرے گی خزائن کے حوالہ سے تحریر فرمایا ہے۔ وہ پچیس جگہیں کون کون ہیں اس کی مکمل تشریح فرمائیں۔ بینوا من الحوالة

فتاویٰ # 1563

نماز میں کتنی چیزیں فرض ہیں؟

فتاویٰ # 1564

نماز پڑھتے پڑھتے اگر دایاں پیر کھسک کر ایک جگہ سے دوسری جگہ چلا جائے تو نماز ہوگی یا نہیں، جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1565

(۱) امام جہری نماز میں قراءت میں چھ سات آیتیں پڑھتا ہے اس کے بعد بھی مقتدیوں میں سے ایک کا کہنا ہے کم سے کم ایک رکوع پڑھا کرو تاکہ اگر کوئی آتا ہو تو وہ بھی جماعت میں شامل ہو سکے، تو امام کا ایسا کرنا درست ہے کہ نماز کی حالت میں کسی کا انتظار کرے اور قراءت لمبی کرے ۔ حدیث کی روشنی میں مطلع کریں۔ (۲) ظہر اور عصر کی فرض نماز میں قراءت چاروں رکعت میں کی جائے گی یا دو رکعت ميں؟ حدیث کی روشنی میں مطلع کریں۔

فتاویٰ # 1566

فَاقْرَءُوْاوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ١ؕ ۔ لا صلاۃ إلا بفاتحۃ الکتاب۔ کی توضیح ۔ اگر کوئی صرف فاتحہ پڑھ لے تو نماز ہوگی یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں حالاں کہ صرف فاتحہ پڑھنے کی صورت میں قرآن وحدیث دونوں پر عمل ہو جا رہا ہے؟ مکمل وضاحت کریں۔

فتاویٰ # 1567

نماز میں ثنا کے بعد بسم اللہ، بسم اللہ کے بعد سورۂ فاتحہ۔ فاتحہ کے بعد اگر ’’ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ‘‘پڑھنا ہے تو بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے کہ نہیں؟ جب کہ کلام پاک میں ہر سورہ میں بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے۔ مگر میں تو ثنا کے بعد بسم اللہ پڑھتا ہوں اب اگر سورۂ اخلاص پڑھتا ہوں تو بسم اللہ نہیں پڑھتا ہوں نماز ہوئی یا نہیں؟ آگاہ کیا جائے۔

فتاویٰ # 1568

کیا پہلی رکعت میں سورہ ’’والعصر‘‘ اور دوسری رکعت میں سورہ کافرون پڑھ سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟

فتاویٰ # 1569

(۱) امام فرض کی نماز پڑھارہا ہو تو کیا ہر کعت میں سورۂ فاتحہ کے پہلے بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے اگر امام نے فاتحہ کے پہلے بسم اللہ پڑھا اور فاتحہ کے بعد بسم اللہ آہستہ سے پڑھنا بھول گیا اور سورہ شروع کر دی تو سجدہ سہو واجب ہوگا؟ جیسا کہ قانون شریعت میں فاتحہ کے بعد آمین اور بسم اللہ پڑھنا واجب میں شمار کیا گیا۔ براے مہربانی جواب سے نوازیں۔ (۲)کسی شخص کی عادت ہو گئی ہو کہ جب نماز پڑھتا ہے تو سری نماز میں سورۂ فاتحہ کی کوئی آیت مکرر کر دیتا ہے اور التحیات اور درود شریف پڑھنے میں بھی اس کی یہی عادت ہے تو کیا ایسی حالت میں اس شخص پر سجدۂ سہو واجب ہو گا؟ اور اگر یہ شخص امام ہو تو اس کے متعلق فقہا کا کیا حکم ہے؟ یہ عادت اسے شک کی بنیاد پر ہے اور اس عادت کو ختم کرنےکا کیا علاج ہے؟

فتاویٰ # 1570

تجوید کی کتاب ’’فوائد مکیہ‘‘ میں لکھا ہے کہ حافہ ٔ لسان جب ڈاڑھ سے ملتا ہے تو ضاد ادا ہوتا ہے۔ اور کتب فقہ کے جزئیات سے پتہ چلتا ہے کہ حروف کی ادایگی اپنے مخارج سے ضروری ہے ورنہ بعض صورتوں میں نماز فاسد ہو جاتی ہے۔ دریں صورت کوئی شخص سورۂ فاتحہ میں ’’ضالین‘‘ کے بجاے ’’دالین‘‘ پڑھتا ہے تو اس کے بارے میں شریعت حقہ کا کیا حکم ہے؟ اور ایسے شخص کی امامت کا کیا حکم ہوگا؟ جب کہ اس کے مقتدیوں میں سے بعض، حروف کو اپنے مخارج سے ادا کرنے پر مکمل قدرت رکھتے ہیں۔ اس کے مقتدیوں کی نماز ہوگی یا نہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ سورۂ فاتحہ میں ’’دآلین‘‘ پڑھا جائے اور بقیہ جگہوں میں ضاد ہی پڑھیں یہ فرق کرنا کہاں تک صحیح ہے ؟ جواب با صواب سے مع حوالہ کتب فقہ معتبرہ سے نوازیں۔

فتاویٰ # 1571

گونگا پر نماز واجب ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کس طرح اس پر نماز کے احکام نافذ کیے جائیں گے، اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ کیا سوالات سے بری الذمہ عند اللہ مامون ہوگا؟

فتاویٰ # 1572

عرض یہ ہے کہ سورۂ ناس کے بارے میں میں آپ سے اصلاح چاہتا ہوں وہ یہ کہ سورۂ ناس کو الٹا کس طرح پڑھاجاتا ہے لکھ کر روانہ کریں۔ عین نوازش ہوگی، ممنون ومشکور ہوں گا۔

فتاویٰ # 1573

نماز مغرب میں پہلی رکعت میں ایک بڑی آیت اور دوسری رکعت میں دو چھوٹی آیت پڑھی۔ بعد نماز کے ایک شخص نے کہا کہ نماز نہیں ہوئی ۔ دوسری رکعت میں بھی تین آیت پڑھنا چاہیے۔ شرعی جواب تحریر فرمائیں۔ نماز میں ایک بڑی آیت اور چھوٹی تین آیت پڑھنے سے نماز ہو جاتی ہے۔ بڑی آیت کتنے حرف والی ہو جس کو بڑی آیت مانیں۔ زید نے کہا بڑی آیت چالیس حرفوں والی ہے۔ بکر نے کہا نہیں۔ اس سے بھی بڑی آیت پڑھنی چاہیے۔ اس کا شرعی جواب تحریر فرمائیں کہ بڑی آیت کتنے حروف والی ہو؟

فتاویٰ # 1574

(۱) نماز ظہر اور نماز عصر میں قراءت سری کیوں ہوتی ہے اور مغرب وعشا وفجر میں قراءت جہری کیوں ہوتی ہے؟ (۲) مغرب وعشا کی پہلی دو رکعتوں میں قراءت جہری اور بقیہ رکعتوں میں قراءت سری کیوں ہوتی ہے اور یہ عقل وقیاس کے مخالف ہے۔ (۳) نماز فجر میں دو اور نماز ظہر میں چار، عصر میں چار مغرب میں تین اور عشا میں چار رکعتیں کیوں فرض ہوئیں۔ قیاس تو یہی چاہتا ہے کہ ہر وقت کی نماز کی رکعتیں برابر برابر ہوں۔

فتاویٰ # 1575

نماز میں سورۂ فاتحہ کے بعد جو سورت پڑھی جاتی ہے کیا اس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بالجہر پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1576

بسم اللہ جزو ہر سورت ہے یا جزو قران؟ امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ قراءت میں امام عاصم کوفی تابعی کے تلامذہ میں سے ہیں اور امام عاصم رضی اللہ تعالی عنہ جزو ہر سورت کے قائل ہیں اور امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ جزو قران کے قائل ہیں تو ان دونوں قولوں میں تطبیق کی کیا صورت ہے؟ ابن حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کردہ یہ حدیث کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں سورۂ فاتحہ کے شروع میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھا اور اسے آیت بھی شمار کیا پس یہ سورۂ فاتحہ کی مستقل آیت ہے۔ قرآن کی سات لغتوں میں سے ایک لغت میں جس کے تواتر پر سب کا اتفاق ہے ’’الخ‘‘ اس حدیث کی تشریح اور وضاحت فرمائیں۔ بسملہ قرآن ہے یا غیر قرآن مع حوالاجات مدلل ومفصل طور پر بیان فرمائیں ۔ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1577

زید نے جمعہ کی نماز پہلی رکعت میں بعد فاتحہ سورۂ رحمٰن کی تلاوت کی اور ’’ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِۙ۰۰۱۴ وَ خَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍۚ۰۰۱۵ فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۰۰۱۶ ‘‘ تک تلاوت کر کے رکوع وسجود کے ذریعہ رکعت پوری کی اوردوسری رکعت میں بعد فاتحہ رب المشرقین ورب پر بھول گیا اور تین مرتبہ اتنا الفاظ دہرایا پھر اوپر کی آیت گذشتہ خَلَقَ الْاِنْسَانَ سے شروع کی اور اسی آیت پر آکر یعنی ’’ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَ رَبُّ الْمَغْرِبَيْنِۚ۰۰۱۷ فَبِاَيِّ اٰلَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ۰۰۱۸ ‘‘پر پہنچ کر رکوع وسجود کر کے نماز پوری کی ۔ بعد سلام بکر نے کہا کہ امام صاحب کیا نماز ہو گئی جب کہ دوسری رکعت میں آپ بھول گئے اور تین مرتبہ اسی ایک الفاظ ’’رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَ رَبُّ ‘‘ کو دہراتے رہے بعدہ یاد داشت کے لیے اوپر سے آپ نے تلاوت کی اس حساب سے میرے خیال میں نماز نہیں ہوئی کیوں کہ آپ نے نہ تو تین آیت تلاوت کی اور نہ ہی سجدۂ سہو کیا اس پر زید نے کہا کہ تم کو مسئلہ کیا معلوم نماز ہو گئی۔ اب آپ سے التماس ہے کہ اس مسئلہ میں جو صحیح ہو ارسال فرمائیں۔

فتاویٰ # 1578

نمازمیں سورۂ العصر کے بعد، سورۂ فیل یا کوثر جان بوجھ کر پڑھنا کیسا ہے؟ اسی طرح سورۂ قریش کے بعد سورۂ کوثر پڑھنا کیسا ہے؟ کہ سورۂ عصر کے بعد اس سے بڑی سورت ہے، اور سورہ قریش کے بعد بھی اس سے بڑی سورہ ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ چھوٹی سورہ کے بعد بڑی سورہ نہ پڑھی جائے۔

فتاویٰ # 1579

چند دعائیہ کلمات بلی وأنا علی ذلک من الشاہدین، أنا أشہد بہ ‘‘ ان دو کلمات اور اس طرح کے دیگر میں بھی کیا ’’أنا‘‘ کی جگہ ’’أن‘‘ ہی سے وصل کریں؟

فتاویٰ # 1580

چار رکعت سنت نماز کی پہلی رکعت میں سورۂ ناس پڑھ دی اب بقیہ رکعتوں میں کون سی سورت ملا کر پڑھے؟ جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1581

کیا فرماتے ہیں علماے کرام اس مسئلہ میں قرآن وحدیث کی روشنی میں کہ : (۱)نماز میں سنت ترک کرنے سے نماز ہو جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر رکوع میں گئے اور اتنی دیر ٹھہرے رہے جیسے کہ ہم نے ایک آیت پڑھ لی ہو لیکن رکوع میں نہ ہی سبحان ربي العظیم کہا اور نہ ہی سجدہ میں سبحان ربي الأعلی تو کیا نماز ہو جائے گی؟ (۲) دونوں تسبیح ’’سبحان ربي العظیم ، سبحان ربي الأعلی‘‘ یہ سنت مؤکدہ ہے یا غیر مؤکدہ اور نماز میں مؤکدہ کو ترک کیا تو کیا نماز ہو جائے گی ؟ اور ترک کرنے سے گناہ کی مقدار کیا ہوگی؟ (۳) کسی بزرگ کے روضہ پر کوئی عقیدت مند حاضر ہوا اور قبر پر سر رکھ دیا یا بوسہ دیا تو کیا قبر پر سر رکھنے سے سجدہ ہو جائے گا اور ہوگا تو وہ کون سا سجدہ ہے؟

فتاویٰ # 1582

(۱) سجدہ کی حالت میں دونوں پاؤں کی پوری انگلیوں کا لگانا سنت، تین لگانا واجب اور ایک لگانا فرض ہے۔ مگر دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا صرف تین بار سجدہ کی تسبیح پڑھنے تک لگانا کافی ہے یا سجدہ سے سر اٹھانے تک بھی لگانا ضروری ہے؟ اگر کسی کی انگلیاں صرف تین بار سجدہ کی تسبیح کہنے تک لگی رہیں اس کے بعد اس کی انگلیاں زمین سے نہ لگیں او ر وہ شخص اور بھی سجدہ کی حالت میں ہے ۔ تین سے زیادہ تسبیح پڑھ رہاہے تو کیا ایسے شخص کا سجدہ ونماز ہوئی کہ نہیں؟ (۲) بغیر فرض نماز کے کوئی نفل قبول نہیں کیا یہ حدیث ہے؟ یا مسئلہ ہے یا کیا اور اس کے معنی کیا ہیں؟ (۳) جن کے ذمہ فرائض ہیں ان کے ذکر، تسبیح، دعا، صدقہ، خیرات قربانی وغیرہ کوئی نیکی بھی قبول ہے کہ نہیں؟ ان سوالوں کے جواب تحریر فرماکر رہنمائی فرمائیں۔

فتاویٰ # 1583

حالت سجدہ میں کم از کم انگوٹھا اور اس سے متصل انگلی کے پیٹ کا حصہ لگنا اگر ضروری ہے تو عورتیں کس حکم کے تحت مستثنی قرار دی گئیں یا عورتیں بھی مردوں کی طرح سجدہ کریں؟

فتاویٰ # 1584

تشہد پڑھنے کے بعد شہادت کی انگلی کلمہ ’’لا‘‘ پڑھتے ہوئے اٹھا کر گرانے کے بعد سیدھی رکھنی چاہیے یا موڑنا درست ہے؟ تحریر فرمائیں۔

فتاویٰ # 1585

نماز میں کتنے فرائض ہیں صحیح مسلک میں ۔ اور خروج بصنعہ فرض ہے یا واجب اور خروج بصنعہ میں لفظ ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘کہنا واجب ہے یا کیا؟ اگر کوئی نماز پوری کر کے عمداً یوں ہی چل دے بغیر کلمہ سلام کہے نماز ہوگی یا نہیں ؟ تمام صورتوں کو ذکر فرمائیں۔

فتاویٰ # 1586

حالت نماز میں سلام کرنا کسی کو جائز نہیں ہے تو پھر نمازی نماز کے اخیر میں اپنے دائیں بائیں کیوں سلام کرتا ہے؟ اور سلام اپنے دائیں بائیں فرشتے اور نمازیوں کو سلام کرنا بھی ہے تو سلام کا جواب دینا واجب ہے، کوئی تو سلام کا جواب دیتا بھی نہیں ہے۔ جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1587

بعد نماز فرض آیۃ الکرسی یا کوئی مختصر سا وظیفہ پڑھ کر دعا مانگنا کیسا ہے ؟ زید کہتا ہے کہ سلام کے بعد فوراً دعا مانگنا افضل ہے ۔ یہ کہاں تک صحیح ہے؟ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1588

یہاں پر بعد نماز فجر صلاۃ وسلام کا نذرانۂ عقیدت حضور پر نور ﷺ کو پیش کیا جاتا ہے، ساتھ ہی نمازیوں کا خیال بھی رکھا جاتا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ روزانہ سلام پڑھنا حرام ہے۔ لہذا علماے کرام سے عرض ہے شریعت مطہرہ کے تحت قرآن وحدیث کی روشنی میں صاف صاف جواب دینے کی زحمت گوارا فرمائیں۔ فقط

فتاویٰ # 1589

نماز فرض کے بعد امام دعا مانگ رہا ہے تو کیا مقتدی کو اجازت ہے کہ وہ بلند آواز سے دوران دعا اپنی کوئی دعا مانگ لے؟

فتاویٰ # 1590

فرض نماز کے بعد دعا میں ہاتھ اٹھا کر ’’بکار خویش حیرانم‘‘ یا اس قسم کی اور دوسرے اشعار پڑھنا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1591

بعد نماز جمعہ اور بعد نماز فجر یا کسی اور وقت مدینۃ الرسول ﷺ کی طرف رخ کر کے کھڑے ہو کر صلاۃ وسلام پڑھنا کیسا ہے؟ بعض لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ ایسا کرنا حدیث یاکسی دینی کتب سے ثابت نہیں ہے، لہذا ایسا کرنا بدعت ہے۔

فتاویٰ # 1592

فرض نماز کی جماعت ختم ہونے پر ’’یا محمد صلی اللہ علیک یا رسول اللہ وسلم علیک یا حبیب اللہ‘‘ تین مرتبہ پڑھنا کیسا ہے؟ اور پنج گانہ فرض نمازوں کے بعد دعاے مسنون کون ہے اور طریقہ سنت کیا ہے؟ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1593

فجر وعصر میں حضور اپنا چہرہ قبلہ کی طرف کرتے تھے یا مقتدیوں کی طرف اور دعاؤں میں گلستاں بوستاں کے اشعار پڑھنا جو کہ قافیہ بندی کے قبیل سے ہے کیسا ہے؟ اور ایصال ثواب کا سنت طریقہ کیا ہے؟ بعض لوگ بلکہ اکثر بریلوی عالم اور طلبہ کھانا آگے رکھ کر فاتحہ دیتے ہیں ، یہ کیسا ہے؟ اور نویں اور دسویں محرم کو طلبہ کو چھٹی دینا کیسا ہے؟ اس میں اہل تشیع کی مشابہت نہیں ہے؟ ان سوالوں کے جوابات تفصیل سے لکھیں اور حوالہ بھی درج کریں تاکہ تلاش کرنے میں آسانی رہے۔

فتاویٰ # 1594

زید کہتا ہے ہر نماز کے بعد دعاے ثانی ضروری ہے اور دعاے ثانی کے بعد الفاتحہ کہنا بھی ضروری ہے اور کہتا ہے کہ جو الفاتحہ نہ کہے وہ وہابی ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد فاتحہ کس کے نام کی دی جاتی ہے جب کہ شمالی ہند میں الفاتحہ کا دستور ہی نہیں ہے؟ مہاراشٹر کے کچھ علاقوں میں اکثر جہلا اماموں پر مسلط کرتے ہیں نہیں تو وہابی کہہ کر امامت سے ہٹا دیتے ہیں۔

فتاویٰ # 1595

بعد نماز فجر وغیرہ مصافحہ کرنا از روے شرع کیسا ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ناجائز ہے ۔ امام اعظم علیہ الرحمہ نے بعد نماز مکروہ لکھا ہے اور جہاں مکروہ لکھا جاتا ہے فقہا کے نزدیک مکروہ تحریمی ہی مراد ہوتا ہے۔ لہذا بعد نماز مصافحہ مکروہ تحریمی ہے اس سے پر ہیز لازمی ہے ۔ آں جناب سے التماس ہے کہ توضیح فرمائیں کہ امام اعظم علیہ الرحمہ نے کہاں اور کیوں مکروہ لکھا ہے اور بعد نماز مصافحہ کرنا از روے شرع کیسا ہے اور اس کے دلائل کیا ہیں؟ فقط

فتاویٰ # 1596

سوال: امامت سے متعلق چند ضروری باتیں بتادیں۔

فتاویٰ # 1621

نابینا جب کہ صحیح القراءت ہو اور حافظ قرآن بھی ہو ۔ اس کے علاوہ کوئی حافظ یا عالم اس سے صحیح پڑھنے والا موجود نہ ہو تو کیا اس کے پیچھے نماز پڑھنا بلا کراہت جائز ہے؟

فتاویٰ # 1622

ابھی تک گاؤں کی مسجد میں جو حافظ صاحب بچوں کو تعلیم دیتے تھے وہی نماز جمعہ پڑھاتے تھے۔ مگر جب زید نے مدرسہ قائم کیا تو ایک دوسرے حافظ صاحب کو لایا۔ اور نماز کے بارے میں بھی گاؤں میں دو پارٹی پیدا ہو گئی۔ اور آپس میں جھگڑا کھڑا کر دیا کہ جو حافظ صاحب پہلے والے ہیں وہ چوں کہ نابینا ہیں ان کے پیچھے نماز بالکل جائز نہیں ہے۔ نئے حافظ صاحب پڑھائیں گے۔ جھگڑا ہو گیا، گاؤں میں دو پارٹی ہوگئی اس بنا پر پرانے حافظ صاحب ایک مدرسے سے ایک مولوی صاحب کو بلا لائے جو درجہ عالم کے طالب علم اور اچھے ہیں کہ آپ چل کر نماز پڑھادیں دونوں پارٹی والے پڑھ لیں گے تاکہ کوئی فساد نہ ہو۔ بعد میں جو فیصلہ ہوگا کیا جائے گا۔ مولوی صاحب کے پہنچنے پر زید اور اس کی پارٹی کے لوگوں نے یہ کہا کہ چوں کہ یہ مولوی صاحب ان لوگوں کے بلانے پر آئے ہیں لہذا ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے۔زید اور اس کی پارٹی کے لوگوں میں سے کچھ نئے حافظ کے ساتھ الگ ہو گئے اور بعد میں دوسری مرتبہ اسی مسجد میں نماز جمعہ ادا کی۔ زید نے بعد میں کہا کہ اگر میں زندہ رہا تو کسی کو چین سے نہیں بیٹھنے دوں گا۔ اور ’’اس مسجد میں گدھے باندھے جائیں گے‘‘۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ کیا برتاو کیا جائے۔ اس کے ساتھ کھانا پینا، میل جول، سلام کلام رکھنا کیسا ہے؟ اور ان کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ بیان کیا جائے۔

فتاویٰ # 1623

نابینا کی اقتدا میں نماز درست ہے یا نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی پاکی وناپاکی کا خیال نہ رہتا ہو اور بچشم خود دیکھنے میں بھی کپڑے میں نجاست لگی رہتی ہے تو ایسے امام کی اقتدا درست ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1624

کیا نابالغ حافظ کے پیچھے فرض یا ترایح کی نماز پڑھ سکتے ہیں؟ ایک عالم صاحب نے کہا کہ نابالغ فرض نہیں پڑھا سکتا ہے، لیکن تراویح پڑھا سکتا ہے۔ کیا دو حافظ مل کر بیس رکعت تراویح روزانہ پڑھا سکتے ہیں؟ جواب سے نوازیں۔

فتاویٰ # 1625

(۱) زید بالغ ہے، بقیہ کل نابالغ ہیں، اس صورت میں زید امام بن سکتا ہے؟ اگر امام بن سکتا ہے تو زید کہاں کھڑا ہوگا؟ نابالغوں کے متصل یا محراب میں؟ (۲)زید و بکر بالغ، بقیہ کل نابالغ، اس صورت میں اگر زید امام بن رہا ہے تو زید بکر کے متصل کھڑا ہوگا یا محراب میں؟

فتاویٰ # 1626

بکر امامت کرتا ہے اور بینک کی اضافہ شدہ رقم کو جائز کہتا ہے لہذا بکر کی امامت کا کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1627

کيا فاسق معلن (داڑھی منڈا) کی صدارت اور سکریٹری کے ماتحت امامت کرنا جائز ہے؟ یعنی ان صدر اور سکریٹری کی ہدایت پر عمل کرنا جائز ہے؟ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1628

امام صاحب سرکس دیکھتے ہیں ان کی امامت درست ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1629

محترم مفتی اعظم آپ کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہوں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اپنے گاؤں کے پیش امام صاحب کو کئی دفعہ شروع میں پانی کا استنجا لے کر مسجد کے غسل گھر میں نماز سے پہلے اس طریقہ سے دیکھا کہ وہ عورتوں کی طرح استنجا پاک کرتے ہیں۔ میں نے کچھ آدمیوں سے کہا تو وہ بھی یہاں دیکھنے کے لیے آئے۔ آگے ہم بوندی گئے اور ہم نے وہاں پر معلومات کی تو پہلی شادی شدہ بیوی نے آگے ہوکر طلاق لیا تھا۔ جیسا سنا کہ وہ نامرد ہے، یہاں پر بھی دوسری بیوی ہے اس کے پندرہ بیس سال سے کوئی بچہ بچی نہیں ہوئی۔جو دوسری اس کے نہ تو کوئی عزیز ورشتہ دار ہیں اور اس کے در د کو کوئی سننے والا نہیں ہے۔ اگر ہم ان سے کوئی بات پوچھتے ہیں تو کچھ آدمیوں کا گُٹ ہے کہ کچھ پوچھنے نہیں دیتا ہے اور کہتے ہیں یہ ہمارے پیش امام اور نائب رسول ہیں۔ زیادہ کہنے پر لڑائی کے لیے تیار رہتے ہیں۔ پیش امام کا یہ خیال ہے کہ اس گٹ کے ساتھ بازار جاکر ہوٹلوں میں فلمی گانے سنتے رہتے ہیں۔ لہذا ہمارا شک ہے کہ اس کے پیچھے نماز ، اس کا پڑھایا ہوا نکاح ہوتا ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1630

ہمارے محلہ میں امسال بیس عورتوں نے عید کی نماز مسجد میں پڑھی۔ ان میں سے ایک عورت کی امامت میں باجماعت نماز ادا کیا۔ کیا یہ صحیح ہے کہ عورت امامت کرسکتی ہے؟ نیز یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ کیا عورتیں پنج وقتہ اور جمعہ کی نماز مسجد میں پڑھ سکتی ہیں؟ از روے شرع وضاحت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1631

جو شخص نماز فجر اکثر و بیشتر قضا کردیتا ہو، اگر ایسا شخص دوسرے اوقات میں ناخواندہ یا داڑھی منڈے لوگوں کی امامت کرے جو نماز کے پابند ہوں، یا جماعت کے عادی ہوں۔ تو ایسی صورت میں اس کی امامت کا کیا حکم ہے؟ اور اگر مقتدیوں میں ایسے لوگ بھی ہوں جو نماز و جماعت کا التزام بھی کرتے ہوں، قرآن صحیح طریقے سے پڑھ سکتے ہوں، مگر معذور ہوں، مثلاً ریاح وغیرہ خارج ہوتی ہو، تو ایسے لوگ اگر مذکورہ شخص کی اقتدا میں نماز ادا کریں تو حکم شرعی کیا ہے؟ اور اگر کوئی عذر نہ ہو، صحیح خواں اور نماز و جماعت کا التزام کریں اور شخص مذکور کی اقتدا میں نماز پڑھیں تو کیا حکم ہے؟ اور اگر ایسے لوگ اس وقت پہنچیں کہ وہی شخص امامت کر رہا ہو جو ناخواندہ اور غیر صحیح خواں ہو،تو ایسی صورت میں بعد میں آنے والے وہ اشخاص کیا کریں جو ہر طرح پابند ہوں؟ براہ کرم مطابق شرع جواب باصواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1632

ایک شخص حافظ و قاری نعمت اللہ صاحب، جو برسوں سے امامت فرماتے اور تراویح بھی پڑھاتے رہے، مگر کچھ عرصے سے ان کو ایک عارضہ لاحق ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے دائیں بائیں مڑنے میں انھیں زحمت ہوتی ہے، حالت سجدہ میں ناک کا سخت حصہ زمین سے نہیں لگ پاتا، اور سلام پھیرنے میں اس قدر گردن نہیں گھومتی کہ مونڈھوں تک پہنچ سکے۔ انھوں نے نماز فرض پڑھانا چھوڑ دیا ہے، مگر وہ چاہتے ہیں کہ رمضان شریف میں قرآن شریف سنانے کا سلسلہ قائم رہے۔ تو کیا حافظ صاحب مذکور کی امامت درست ہے؟

فتاویٰ # 1633

زید مقامی مسجد کا امام ہے، ایک موقع پر بحالت مجبوری (مجمع کثیر چیر کر نکل جانا) مناسب نہ سمجھتے ہوئے دیوبندی امام کی اقتدا میں بموقع نماز جنازہ، یوں ہی کھڑا رہا، کوئی نیت نہیں کی اور کوئی دعا نہیں پڑھی۔ زید نے خلفشار نہ پیدا ہونے کی وجہ سے ایسا کیا۔ عام سنیوں میں اس کا چرچا ہونے لگا کہ زید نے دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھ لی؛ اس لیے اس کو امامت سے خارج کیا جائے۔ اس کے بعد بکر نے مقامی دار الافتا سے فتویٰ منگاکر اس پر حد شرع لگائی اور امامت سے خارج کردیا۔ زید نے لوگوں کے سامنے توبہ اور تجدید ایمان بھی کرلیا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید کا مذکورہ عمل درست تھا یا نہیں؟

فتاویٰ # 1634

ایک شخص جسے ’’امت‘‘ کہتے ہیں دیوبندی، وہابی، الیاسی، تبلیغی جماعت والوں کے پیچھے نماز پڑھتا ہے، کبھی سنیوں کی محفل میں، کبھی تبلیغ والوں کی محفل میں۔ حضور ﷺ کو گنہ گار کہتا ہے۔ گناہ سے مراد عرفانی گناہ شمار کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ کافر کو کافر نہ کہو، حضور مفتی صاحب کیا حکم ہے ؟ موصوف کے پیچھے نماز ہوگی کہ نہیں؟

فتاویٰ # 1635

جامع مسجد اکبر پور، ضلع نوادہ کا امام و خطیب محمد شاہد [جو اپنے کو عالم اور سنی کہتا ہے] نے ایک عرس کی تقریب میں، جس میں غیر مسلم عقیدت مند بھی خاصی تعداد میں تھے کہا کہ: میں خود کٹر ہندو ہوں؛ اس لیے کہ ایران کے لوگ اپنے کو ایرانی، عراق کے لوگ اپنے کو عراقی، عرب کے لوگ اپنے کو عربی اور عجم کے لوگ اپنے کو عجمی کہتے ہیں، تو ہندوستان کا باشندہ ہونے کے ناطے میں ہندو ہوں۔ اپنے قول کی تائید میں امام صاحب نے ڈاکٹر اقبال کا یہ شعر، غلط طور پر پڑھا کہ: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہندو ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا [معاذاللہ] جب کہ ’’بانگ درا‘‘ میں اقبال صاحب نے اس طرح شعر لکھا: مذہب نہیں سکھاتا، آپس میں بَیر رکھنا ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا نیز اسی تقریب میں امام موصوف نے یہ بھی کہا کہ’’مومن ولی میں خدا سما جاتا ہے اور وہ خدا میں سما جاتا ہے اور جو اللہ کا ہوجاتا ہے، تو اللہ ہی اس کے پاؤں سے چلتا ہے، منھ اس کا ہوتا ہے مگر اللہ ہی کھاتا ہے‘‘۔ [معاذ اللہ۔] نیز انھوں نے ابراہیم ادہم بلخی کامشہور واقعہ محل اور اونٹ والا جو تذکرۃ الاولیا میں حضرت شیخ فرید الدین عطار نے ص: ۸۰ پر رقم فرمایا ہے، اس واقعہ کو ابراہیم لودھی، الھدف کے نام منسوب کیا۔ اور ایک غیر مطلقہ عورت کا عقد بھی پڑھایا۔ اور شب براءت میں وتر کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھایا۔ مدرسے کی چھت کو مسجد بنانا اور شب براءت میں مدرسے کی چھت پر نماز وتر پڑھنا یا پڑھانا، یا تہجد کی نماز جماعت سے پڑھنا یا پڑھانا از روے شرع کیسا ہے؟ امام موصوف جنھوں نے اپنے کو بھرے مجمع میں ہندو کہا، ان کے پیچھے نماز اور ان سے میل جول کرنا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1636

ایک شخص بہ نام حافظ و قاری عبدالعزیز، قصبہ بیندور میں ناظرہ قرآن مجید کے لیے مدرس ہے، ساتھ ساتھ ایک وقت کی امامت اور جمعہ کے دن وعظ و بیان کی خدمت انجام دے رہا ہے۔ مذکورہ شخص اپنے نام کے ساتھ لفظ مولوی بھی لکھتا ہے۔ مذکورہ شخص جمعہ کے دن ایسی ایسی باتیں بیان کرتا ہے، جنھیں ہماری عقل تسلیم نہیں کرتی۔ مثلاً وہ اپنے بیان میں کہتا ہےکہ: حضرت غوث پاک کی فضیلت، حدیث مقدس میں آئی ہے۔ عذاب قبر کا منکر مومن ہے مگر اس کے ایمان میں تردد ہے۔ قبر میں حساب و کتاب ہوگا۔ جس کے دل میں ذرا برابر ریا ہے، وہ مشرک ہے۔ بغیر وسیلے کےکوئی بھی عمل قبول نہیں ہوتا۔ اور آیت کریمہ: يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْکا ترجمہ اس طرح کرتا ہے:یہودی خدا کو جانتے ہیں پہچانتے نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ بالا شخص عند الشرع وعظ و بیان کا اہل ہے یا نہیں؟ اور مولوی کہا جائےگا یا نہیں؟ نیز ایسے شخص کو امام بنایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اور جو ایسے مولوی کے وعظ و بیان کی تائید کرتے ہیں ان کے بارے میں کیا کہا جائےگا؟ اطمینان بخش جواب سے نوازیں، عین نوازش ہوگی۔ بینوا تؤجروا۔

فتاویٰ # 1637

زید متولی مسجد نے امام مسجد عمرو کو ایک غیر مقلد کی نماز جنازہ نہ پڑھانے پر چھٹی کردیا۔ زید و عمرو کے بارے میں احکام شرعیہ مدلل بیان فرمائیں۔

فتاویٰ # 1638

کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں: زید، غلام فرید کا قرض دار تھا، غربت کی وجہ سے مدت متعینہ میں زید قرض کی ادایگی کا انتظام نہ کرسکا، تو اس نے غلام فرید سے کہا میں غریب آدمی ہوں، ابھی انتظام نہیں ہوپایا، تم غوث اعظم کی اولاد ہو، تم حضرت علی کی اولاد ہو، تمھیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا واسطہ، تین روز کی مہلت اور دےدو، ان شاء المولیٰ انتظام کرکے ادا کردوں گا۔ یہ جملہ سنتے ہی غلام فرید نے غصے میں آکر اللہ و رسول کی شان میں سخت ناپاک اور خبیث جملے کہے۔[ صد بار معاذ اللہ] یہ جملے سنتے ہی زید نے اپنا گھر گروی رکھ کر قرض ادا کردیا۔ غلام فرید کی زبان سے یہ کلمۂ کفرچار مسلمان عاقل بالغ افراد نے اپنے کانوں سے سنا۔ جن میں دو باشرع نمازی اور دو سادات عورتیں بھی شامل ہیں۔ غلام فرید فاسق معلن بھی ہے۔ اور فقط جمعہ اور عیدین پڑھتا ہے۔ ایسی صورت میں کیا غلام فرید آل رسول رہا؟ مسلمان رہا؟ شہر قاضی بننے کا اہل ہے؟ نکاح پڑھا سکتا ہے؟ امامت کرسکتا ہے؟ اس کے ساتھ اسلامی رسم و رواج رکھا جائے؟ اس کلمۂ کفر کی اطلاع پاکر جو غلام فرید کو مسلمان سمجھے، آل رسول سمجھ کر تعظیم کرے، قاضی شہر سمجھے، نکاح پڑھوائے، سلام و طعام رکھے، اس کا اور غلام فرید کا شرعاً کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1674

(۱)زید کہتا ہےحضور اکرم ﷺ سیاست کھیلتے تھے۔ یعنی کفار کے خوف سے غار ثور میں چھپے تھے۔ زید کے اس کلام سے بہت سے مسلمان نفرت کرتے ہیں اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے گریز کرتے ہیں۔ کیا اس حال میں زید کی امامت درست ہے؟ (۲)زید نے مسجد سے پانچ سو میل دور جاکر خط لکھا کہ آپ حضرات آٹھ دن کی صبح کی نماز دہرالیں۔ کیوں کہ میرے کپڑے میں بچے نے پاخانہ کردیا تھا، مجھے پتا نہیں تھا۔ زید کے اس خط سے آدھے لوگوں نے نفرت کی وجہ سے زید کی اقتدا ترک کردی ہے۔ کیا اس حال میں زید کے پیچھے نماز درست ہے؟ (۳)زید نےعقد خوانی میں نکاح کا خطبہ نہیں پڑھا، اور بولا خطبہ سنت نہیں۔ نہیں پڑھنے سے کوئی حرج، مضائقہ نہیں۔کیا سنت ترک کرنے والے کے پیچھے نماز درست ہے؟ (۴)زید نے امام ہوتے ہوئے ایک دوسرے امام کو جانْور کہہ کر پکارا اور ہنسی مذاق بھی اڑایا تو کیا مسلمان اسے اپنا امام بنا سکتے ہیں۔ (۵)زید کی وجہ سے گاؤں میں خلفشار اور تفرقہ پڑ گیا ہے۔ لوگ الگ الگ نماز پڑھتے ہیں اور کچھ لوگ زید کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔ اس حال میں زید کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1675

(۱)اہل سنت و جماعت کی مسجد میں بعض دفعہ وہابی بھی صف میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں نماز میں کچھ نقص واقع ہوتا ہے یا نہیں؟حافظ ملت، علامہ شاہ عبدالعزیز مراد آبادی نے اپنی کتاب ’’الدیوبندیت‘‘ میں لکھا ہے کہ: ’’ دیوبندی چال بازیوں میں ابلیس کے بھی استاذ ہیں، ان بد مذہب لوگوں کے اکابر ــــــــ جن کی تفصیل حسام الحرمین میں ہے ـــــــ کو علماے حرمین طیبین نے دائرۂ اسلام سے خارج و خبیث فرمایا، اور ان پر فتواے کفر ہی صادر نہ کیا بلکہ سب کافروں سےکمینہ تر کافروں میں بتلایا، اور انھیں کے معتقد اور ان کی ہی تقلید پر یہ بد دین و بد مذہب وہابی ہیں جو بعض مرتبہ سنی سے لگ کر صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔‘‘ جو مسجد پہلے اہل سنت و جماعت کی تھی اس پر اب وہابیوں کا غلبہ ہے، انھیں کا امام نماز پڑھاتا ہے، تو کیا سنی فرداً فرداً الگ نماز پڑھ سکتے ہیں، جب کہ اندیشۂ فسا د نہ ہو؟ (۲) حضرت مولانا رکن الدین صاحب حنفی، نقش بندی کی کتاب، رکن دین، باب ۱۸، جمعہ کے بیان میں صفحہ ۱۷۳، پر مندرجہ ذیل سوال و جواب درج ہے: س: امام کو خطبہ پڑھنے سے پہلے محراب کے اندر نماز پڑھنا کیسا ہے؟ ج: مکروہ ہے۔ (شامی) اس بابت عرض یہ ہے کہ خطبہ سے پہلے محراب میں نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے یا تحریمی؟ اور امام کی اصلاح کے لیے مذکورہ بالا کتاب کا حوالہ دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1676

ایک گاؤں میں دو گروپ کے لوگ ہیں۔ الحمد للہ دونوں سنی مسلمان ہیں۔ ایک پارٹی والوں کے ساتھ ایک دیوبندی بھی شریک ہے۔ اس پارٹی میں ایک مولانا اہل سنت و جماعت کےہیں۔ دیوبندی صرف ایک ہی آدمی ہے، مولانا کے چچا کی لڑکی کی شادی اسی دیوبندی آدمی سے ہوئی ہے۔ اب اس سال اسی دیوبندی کی لڑکی کی شادی تھی، دولھا بھی دیوبندی تھا، جب کہ نکاح سنی مولانا نے پڑھا۔ لوگوں کے اعتراض کرنے پر کہا کہ کیا کروں بھائی کی وجہ سے مجبور تھا۔ دھیرے دھیرے یہ بات مشہور ہوئی۔ قرب و جوار کے علما سے استفتا کیا گیا، تو انھوں نے کہا کہ مجھ سے نہ پوچھ کر فلاں مولوی صاحب سے پوچھ لو۔ فلاں مولوی صاحب کے پاس گیا، انھوں نےکہا مفتی صاحب سے پوچھو، مجھے کتابیں تلاش کرنی پڑیں گی، اس طرح انھوں نے بہانا کردیا۔ ادھر مولانا کو معلوم ہوا تو گاؤں کے ایک مولوی صاحب کے سامنے انھوں نے کہا کہ :مولانا میں نےفلاں دیوبندی کا عقد پڑھا دیا ہے، آپ میری توبہ پر گواہ ہوجائیے۔ وہ صاحب وہاں سے نکلے، انھوں نے لوگوں سے کہہ دیا کہ مولانا صاحب نے جو نکاح پڑھا تھا، اس سے توبہ کرلیا ہے۔ اب واضح یہ کرنا ہے کہ پہلے مفتی صاحب اور دوسرے نکاح پڑھانے والے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور یہ توبہ درست ہے کہ نہیں؟اور ایسے عالموں کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1677

ایسی کتاب جس کا نام’’ مجموعہ خطب حرمین شریفین‘‘ ہے، جمعے میں پڑھنا چاہیے کہ نہیں؟ اس میں مندرجہ ذیل اشعار ہیں، جن کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی وہابی بد مذہب کے لکھے ہوئے ہیں۔ بدعات مروجہ کے بیان میں: ------مت مانگ کوئی مُراد و منت--- اللہ کے سوا کسی سے حاجت ------اور غیرِ خدا کی نذر مت کر --- کہ ہے حرام، شرع اندر ------اور ماہِ ربیعُ الاوّل اندر --- مخصوص نہ کھیر پوریاں کر ------کہ غیرِ خدا کو نافع و ضار--- سمجھا تو ہو کفر و شرک پے یار --------- شرک کی برائی کا بیان: ------جیسے یہ صفت خاص برب کریم--- ہر جگہ حاضر وناظر ہے ہمیشہ ہر دم ------یہ صفت غیر خدا میں نہیں ہرگز جانو--- غیر کو جاننا اس طرح سے، شرک اعظم ------نذر بھی غیر خدا کی ہے یقیناً شرک سنو ! --- غیر کی نذر کھانا بھی حرام، اے اکرم ------راحت و رنج، دگر نفع و ضرر و منع وعطا--- تنگی و فقر و غنا مرض و شفا وحزن و غم ------قدرتِ حق میں بس ایسے ہیں بلاشبہہ امور--- غیر حق رکھ نہ سکے اس میں تصرف کا قدم ------ایسی قدرت کا عقیدہ رکھے جو غیر کے ساتھ--- وہ بلا شک و شبہہ ہوئےگا مشرک اعظم --------- کفر کے بیان میں: ------ اور بجا مزمار، حمد و نعت پڑھنا کفر ہے--- اور بلا شک کفر ہے اس پر بجانا تالیاں ------ایک سنی عالم صاحب نے مسجد کے امام صاحب کو ان اشعار سے آگاہ کیا کہ یہ کسی بد عقیدہ کی کتاب ہے؛ لہذا آپ اس مجموعہ خطب حرمین شریفین کو جمعہ میں مت پڑھو، پھر بھی امام صاحب اس کتاب کو جمعہ میں پڑھتے ہیں، ان اشعار کی تائید کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے پڑھا، ہم بھی اس کو پڑھیں گے۔ اسی طرح کچھ ان کے ہم خیال لوگوں کا بھی یہی کہنا ہے۔ لہذا دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہ اشعار درست ہیں؟ اور اگر نہیں تو ان اشعار کو درست کہنے والے، اس مجموعہ کو پڑھنے والے اور ان کی تائید کرنے والوں کے متعلق شرع کا کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1678

ہماری مسجد کے امام جو خود کو سنی مسلم کہلواتے ہیں، اور مسجد سنیوں کی ہے، یہاں تقریباً ایک سو بیس سال سے سنی امام امامت کرتے رہے، اور پنج گانہ نماز کے بعد فاتحہ اور دعاے ثانی کے پابند تھے، نیز گیارہویں شریف، بارہویں شریف اور موے مبارک کی زیارت ہوتی رہی اور صلاۃ و سلام بھی ہوتا رہا۔ اب چند سال سے جدید امام نے فاتحہ، دعاے ثانی اور صلاۃ و سلام پر عمل کرنا بند کردیا ہے۔ اور اس کا انکار کرتے ہیں، لہذا مسجد کے لیے سنی امام کا ہونا ضروری ہے یانہیں؟

فتاویٰ # 1679

[بانس بڑیا، ضلع ہبلی ] ایک امام پر لگے الزامات سے متعلق فتوی---- [سوال اور سائل کاپتا نہ ہونے کے باوجود مسئلے کی اہمیت وافادیت کی بنا پریہ تحقیقی فتویٰ درج کیا گیا۔[ محمد صادق مصباحی]]

فتاویٰ # 1680

زید کو محمدعیسیٰ نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے رکھا تھا،جب کہ گاؤں میں مستقل ایک امام ہیں جو نماز پڑھاتے ہیں۔ زید امام کی اجازت کے بغیر نمازپڑھا دیتا ہے، اور رات کو مسجد میں سوتا ہے۔ منع کرنے پر نہیں مانتا اور کہتا ہے کہ میں اعتکاف کی نیت سے سوتا ہوں۔ اور مسجد کا پنکھا بھی استعمال کرتا ہے۔ ایک بار جب وہ مسجد میں سو رہا تھا، امام نے کہا: اس طرف پیر کرکے سونا ٹھیک نہیں ہے؛ کہ اس طرف گنبد خضریٰ ہے، وہ جَھلّا کر جواب دیتا ہے: گنبد خضریٰ کیا چیز ہے؟ اور اس نے امام سے کہا کہ کیا تم حاجی ہو؟ اس کے علاوہ امام کو سخت و سست کہا۔ کیا ایسے آدمی کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے؟

فتاویٰ # 1681

زید و بکر نے محرم میں شہیدان کربلا کے نام جو قرآن خوانی ہوئی اسے فضول اور شہداے کربلا کے نام بغرض ایصال ثواب جو شیرینی منگوائی گئی اسے فضول خرچی کہا۔ مذکورہ بالا واقعات کو سامنے رکھ کر جملہ حفاظ نے یہ طے کیا کہ ایسے شخص کے یہاں فاتحہ وغیرہ کرنے کوئی حافظ نہ جائے، اگر کوئی چلا گیا تو اس کے لیے بھی یہی سزا ہوگی۔ اس میں بستی کے ایک نام نہاد امام بھی شریک تھے، بعد میں امام مذکور نے انھیں دونوں میں سے ایک کے یہاں جو سرمایہ دار آدمی ہے، ایک دعوت کرائی، اور خود شرکت کی اور اپنے ہمنواؤں کو بھی شریک ہونے کو کہا۔ جس سے حافظوں میں دو فریق ہوگئے۔ مخالفین کے خلاف امام اور اس کے ہمنواؤں نے بڑی بیہودہ باتیں کہیں، گالیاں دلوائیں، لڑائی جھگڑے پر آمادہ ہوئے۔ امام مذکورکا منافقانہ رویہ ابھی بھی برقرار ہے۔ سوال یہ ہے کہ زید و بکر اور ایسے امام کے خلاف ہم لوگوں کو کیا کرنا چاہیے؟ شرعی حکم سے نوازا جائے۔

فتاویٰ # 1682

ہمارے یہاں امام صاحب نے حافظ مرغوب کو جمعہ کی نماز میں مردود و شیطان کہا، اس لیے کہ یہاں جمعہ کی نماز میں سلام پڑھا جاتا ہے، اور وہ کھڑے نہیں ہوئے۔ اس امام سے پہلے جو بھی امام آئے وہ قیام نہیں کرتے تھے، انھیں سے قیام کا سلسلہ جاری ہوا ہے۔ کیا ایک حافظ کو اس طرح ذلیل کرنا ٹھیک ہے؟ کیا امام صاحب کا یہ رویہ جائز ہے؟

فتاویٰ # 1683

(۱) زید اپنے کو سنی صحیح العقیدہ کہتا ہے، اور ربیع النور کے اجلاس کے متعلق کہتا ہے کہ اس کا تعلق دین سے نہیں ہے۔ اور جلسے جنت میں نہ لےجائیں گے، صرف نماز پڑھو، نماز جنت میں لےجائےگی۔ ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں؟ اور پڑھی ہوئی نمازوں کا پھیرنا واجب ہے یا نہیں؟ (۲) امام اپنی قراءت میں آیت کریمہ کے آخری الفاظ اتنا کھینچ دیتا ہے کہ مد کا شبہہ ہوتا ہے، جیسے عالَمین کو عالَمیٓن، رحیم کو رحیٓم، دین کو دیٓن، نستعین کو نستعیٓن، مستقیم کو مستقیٓم، ضالّین کو ضالّیٓن۔ مہربانی فرماکر از روے شرع حکم فرمائیں۔

فتاویٰ # 1684

زید نہ عالم ہے نہ حافظ، مگر نماز پنج گانہ کا امام ہے۔ سال گزشتہ تراویح پڑھانے کے لیے ایک حافظ کو بلایا گیا، بعض اہل علم نے اس سے یہ سوال کیا کہ آپ سنی ہو یا وہابی؟ تو اس نے کہا ہم سنی ہیں، مگر دیوبندی مدرسے میں پڑھتے ہیں۔ اس کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ یہ یاتو وہابی ہے یا صلح کلی۔ اس پر اہل علم نے اس کی اقتدا میں نماز پڑھنے سے انکار کردیا، مگر امام مسجد مذکور نے ختم تراویح اور نماز پنج گانہ ایسے حافظ کی اقتدا میں ادا کی، اور اہل علم کو جھگڑالو اور فسادی کہہ کر معاملے کو رفع دفع کردیا۔ بعض دوسرے مقتدیوں نے بھی امام مذکور کی اتباع میں اس وہابی، یا صلح کلی، یا متعلم مدرسہ ٔ دیوبندیہ کی اقتدا میں نماز پنج گانہ و تراویح ادا کی۔ اب سوال یہ ہے کہ اس حافظ امام کی اقتدا میں سنی مسلمانوں کی نماز صحیح و درست ہوئی یا نہیں؟ اگر نہیں تو ان مقتدیوں پر شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ اس مقامی امام یعنی زید کی اقتدا میں سنی مسلمانوں کی نمازیں صحیح و درست ہیں یا نہیں ؟ اور زید پر شرعی کیا حکم ہے؟ بینوا، تؤجروا۔

فتاویٰ # 1685

اگر کوئی مذبذب ہے، موقع پڑنے پر درود فاتحہ، قیام وغیرہ سب کرتا ہے، اور سنی وہابی دونوں فرقوں سے رابطہ ہے، اس کے پیچھے نماز پنج گانہ یا نماز جنازہ وغیرہ پڑھ سکتے ہیں کہ نہیں؟ جب کہ وہ اپنے آپ کو سنی کہتا ہے۔

فتاویٰ # 1686

ایک عالم نے نماز جمعہ سے پہلے اپنی تقریر میں یہ کہا کہ: حضور ﷺ جب مال غنیمت تقسیم کر رہے تھے تو انصار کو کچھ نہیں دیا، اس سے کچھ نوجوان ناراض ہوگئے اور الگ جمع ہوکر انصاریوں نے میٹنگ کی، اس میں کچھ چوپٹ قسم کے لوگوں نے کہا کہ ہم لوگوں نے سرکار کے لیے سب کچھ کیا، مگر سرکار نے ہم لوگوں کو کچھ بھی نہیں دیا اور جو لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں ان کو سب کچھ دے دیا۔ سوال یہ ہے کہ صحابۂ کرام کے متعلق ’’چوپٹ‘‘ جیسا گِرا ہوا لفظ استعمال کرنے والے کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ ایسا کہنے والا اگر نماز پڑھائے تو اس کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1687

زید جو پہلے دیوبندی مدرسہ میں حفظ قرآن کی تعلیم حاصل کرتا تھا، اب اہل سنت کے مدرسے میں تعلیم حاصل کرتا ہے، اور امام احمد رضا بریلوی کے عقائد کا متبع بھی ہے۔ زید کے گھر والے ظاہر میں اہل سنت والا عقیدہ پیش کرتے ہیں،مثلاً فاتحہ خوانی وغیرہ، مگر جمعہ و عیدین کی نمازیں دیوبندی کے پیچھے ادا کرتے ہیں۔ زید اپنے والد اور بھائیوں کو بارہا عقائد کے بارے میں سمجھاتا رہتا ہے،مگر وہ باز نہیں آتے، اور یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ بریلوی حضرات کی مسجد دور پڑ جاتی ہے، اس لیے ہم لوگ ان کے یہاں ادا کرلیتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان لوگوں کے ساتھ زید بھی گنہ گار ہوگا؟ اور زید کا ان لوگوں سے تعلق رکھنا کیسا ہے؟ جب کہ زید انھیں کی کمائی سے اپنی تعلیم کے اخراجات پوری کرتا ہے۔

فتاویٰ # 1688

خانہ کعبہ شریف کے چاروں طرف مصلیان نماز با جماعت ادا کرنا چاہیں تو اس کے لیے ایک امام کافی ہوگا یا الگ الگ ؟ اس کی کیا نوعیت ہوگی؟ بینوا توجروا۔

فتاویٰ # 1689

شوافع کی اقتدا میں احناف کی نماز ہوجائےگی یا نہیں،خصوصا جب کہ کسی علاقے میں شوافع کی اکثریت ہو اور احناف کم ہوں، مستقل مسجد بنوانے کی صلاحیت بھی نہ رکھتے ہوں؟ ایک کرم فرما کا کہنا کہ اگر شوافع بدعقیدہ نہ ہوں تو ان کی اقتدا میں نماز درست ہے۔ بیان فرمائیں کہ شریعت کا فیصلہ کیا ہے؟ جزاکم اللہ۔

فتاویٰ # 1690

(۱) حنفی مقلد کی نمازِ عیدین، شافع مسلک کی پیروی کرنے والے امام کے پیچھے ہوسکتی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ ہاں تو کیسے؟ جب کہ نمازِ عیدین، شافعی مسلک کے اعتبار سے سنت اور حنفی مسلک کے اعتبار سے واجب ہے۔ اور تکبیرات زائدہ دونوں رکعات میں قبل ِقراءت ہیں، اور حنفی مسلک میں رکعت اولیٰ میں قراءت سے پہلے اور رکعت ثانیہ میں بعد قراءت۔ (۲)حنفی مقلد، نمازِ عصر شافعی امام کے پیچھے پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ جب کہ دونوں مسلک کے اعتبار سے وقت میں کافی فرق ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صاحبین کے قول پر عمل کرتے ہوئے، نیز جماعت کی فضیلت کو مد نظر رکھ کر اگر حنفی، شافعی امام کے پیچھے عصر کی نماز ادا کرے تو فرض ساقط ہوجائےگا اوراعادہ کی ضرورت نہیں۔ کیا یہ قول صحیح ہے؟ بینوا توجروا۔

فتاویٰ # 1691

(۱) مہاراشٹر کے علاقۂ کوکن میں اکثر و بیشتر مسلمان مسلکاً شافعی ہیں، لیکن شافعی علما و حفاظ کی کمی کی وجہ سے یوپی بہار کے علما،حفاظ ہی عارضی یا مستقلاً شافعی بن کر فرائضِ امامت کی ذمہ داری سنبھال رہے ہیں، وہ شافعی مسلک کے مطابق نماز روزہ اور دیگر مسائل کی معلومات بھی رکھتے ہیں۔ پوچھے جانے پر بعض تو یہ جواب دیتے ہیں کہ میں عارضی شافعی ہوں، اور بعض صاف طور پر یہ کہتے ہیں کہ میں مستقلاً امام شافعی کا مقلد ہوں اور زندگی بھر شافعی رہوں گا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جواب دیتے ہیں کہ کیوں نہیں، ائمۂ اربعہ حق پر ہیں، ان میں سے کسی ایک کی تقلید جائز ہے۔ ثانیاً: یہ کہ اس علاقے میں ان کی اشد ضرورت ہے، ورنہ مسجدیں ویران ہوجائیں گی، یا دیوبندیوں کا غاصبانہ قبضہ ہوجائےگا۔ ثالثاً :حضور سرکار غوث اعظم بھی مسلک حنبلی سے قبل دیگر مسلک کے متبع تھے۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس میں کون سا قول حق ہے؟ اور ایسے ائمہ کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ اور خود ان ائمہ کی نمازوں کا کیا حکم ہے؟ (۲) زید پیدائشی شافعی ہے، مگر بمبئی میں قیام کی وجہ سے اس کے اکثر احباب حنفی ہیں، جن سے دوستی کے نتیجے میں وہ نماز، روزے اور دیگر مسائل شرعیہ کی حنفی مسلک کے مطابق معلومات حاصل کرچکا ہے۔ نماز بھی مسلک حنفی کے مطابق پڑھتا ہے اور دیگر مسائل پر بھی یوں ہی عمل کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ میں مسلک حنفی پر زندگی بھر عمل کروں گا، اگرچہ گھر والے سارے شافعی ہیں۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس کا قول و عمل جائز ہے یا نہیں؟ اور اس کی نمازوں کا کیا حکم ہے؟ (۳) شافعی المسلک مسجد میں عصر کے وقت اگر حنفی المسلک مؤذن اذان دےدے تو اذان صحیح ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1692

زید باوجودے کہ جاہل ہے، صرف ناظرہ قرآن شریف کی تعلیم پائے ہوئے ہے، شریعت مطہرہ کا پابند بھی نہیں ہے، دھات کی انگوٹھی پہن کر امامت کرتا ہے، ڈراما، ناچ، ٹیلی ویژن وغیرہ بھی دیکھتا ہے۔ کیا زید کی اقتدا میں مسلمانان مانک چوک کی نماز درست ہے؟

فتاویٰ # 1693

امام صرف حافظ قرآن ہے، مسائل وغیرہ کی خاصی معلومات نہیں۔ آیا ایسے حافظ قرآن امام کے پیچھے ایک عالم دین کی موجودگی میں نماز درست ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1694

زید جس کی دینی تعلیم معمولی، انگریزی تعلیم کافی ہے، چند مہینے تک زید کا رہن سہن بھی انگریزی اور چہرہ بھی داڑھی مونچھ سے صاف ہی رہا۔ ادھر چند مہینے سے زید نے پابندی سے نماز ادا کرنا شروع کردیا ہے، داڑھی ابھی تو ایک مشت نہیں ہے لیکن کٹانا ترک کردیا ہے، زید عالم، حافظ یا قاری نہیں ہے۔ کیا زید کو نماز جمعہ و عیدین کا امام بنانا جائز ہے؟ جب کہ جماعت میں علما حفاظ، قُرّا ءموجود ہوں؟ بحوالۂ کتبِ معتبرہ بالتفصیل جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1695

ایک اہل خیر نے 1944ء میں عیدگاہ کے لیے زمین وقف کرکے جامع مسجد کے منتظمین کو اس کا متولی اور اس کے امام کو اس میں نماز پڑھانے کے لیے مقرر کیا۔ 1990ء تک جامع مسجد کے امام اس عیدگاہ میں عیدین کی نماز پڑھاتے رہے، ادھر کچھ لوگوں نے مادی طاقت کے بل بوتے پر اس پر قبضہ کرلیا، اور جامع مسجد کو اس سے الگ کرکے اپنی طرف سے امام منتخب کرکے اس سال نماز عید پڑھوائی۔ اب سوال یہ ہے کہ عیدگاہ پر جبراً قبضہ کرنا جب کہ وہ جامع مسجد پر وقف ہے، جائز ہے یا نہیں؟ اور جامع مسجد کے امام کی اجازت کے بغیر نماز پڑھوانا درست ہےیا نہیں؟ جن لوگوں نے اس میں نماز پڑھی ان کی نماز ہوئی یا نہیں ہوئی؟ اور جس نے نماز پڑھوائی اس کے لیے شرعاً کیا حکم ہے؟ اور مسلمانوں کو اس معاملے میں کیا کرنا چاہیے؟ احکام شرعیہ کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں۔ بینوا توجروا۔

فتاویٰ # 1696

ایک مسافر نماز عصر کے وقت مسجد میں داخل ہوا، لوگوں نے اس کو امامت پر مجبور کیا، تو مسافر نے کہا میں نماز قصر کروں گا۔ لوگوں نے کہا بقیہ نماز ہم لوگ پوری کرلیں گے۔ زید ان باتوں کو سن رہا تھا، زید کو وضو کرنے میں تاخیر ہوئی، وضو کرکے زید جب صف میں کھڑا ہوا اتنے میں امام نے سلام پھیر دیا۔ اب کس طرح سے نیت کرکے زید کو جماعت کا ثواب حاصل ہو۔

فتاویٰ # 1697

ولد الزنا (حرامی) اور رعشہ کا مریض جس کے بدن میں اضطراراً کپکپی رہتی ہے، ان کو امام بنایا جاسکتا ہے یا نہیں جب کہ از روے علم کے سب میں بہتر ہوں۔

فتاویٰ # 1698

زید حافظ قرآن، عالم، مدرس اور مسجد کا امام ہے، مگر زید کا داہنا پیر پنجے سے خراب ہے۔ جس کی وجہ سے انگلیاں چھوٹی ہوگئی ہیں۔ سجدے کی حالت میں صرف انگوٹھا زمین پر لگتا ہے، بقیہ انگلیاں نہیں لگ پاتی ہیں۔ کیا ایسی صورت میں زید کی اقتدا میں نماز ہوجاتی ہے؟ جب کہ زید کے مقابلے میں یہاں کوئی حافظ یا عالم نہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ نماز نہیں ہوتی ہے جس کی وجہ سے کافی انتشار ہے۔تفصیل کے ساتھ جواب تحریر فرمائیں۔

فتاویٰ # 1699

ایک شخص محمد فاروق خود کو پٹھان بتاتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ: ذات کے فقیر، دھوبی، چکوا، دُھنیا، گھوسی، منگتا، جولاہے، ان ذاتوں کے مسلمان چاہے علوم دین حاصل کرکے عالم و حافظ و قاری ہی کیوں نہ ہوجائیں، ان کے پیچھے امت مسلمہ کا نماز پڑھنا، ان کو اپنا امام بنانا ناجائز ہے۔ کیوں کہ اعلیٰ حضرت نے اپنی کتاب میں چھوٹی قوموں کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز قرار دیا ہے۔ ان کی وجہ سے قوم میں بڑا انتشار ہے، از راہ کرم ایسے شخص کے بارے میں بتائیں کہ شریعت اسلامیہ کیا کہتی ہے؟

فتاویٰ # 1700

امامت کن لوگوں کی جائز ہے، اور مسلم برادری میں اس کے حق دار کون کون ہیں؟ نماز پنچ گانہ مسلمانوں پر فرض ہے یا صلاۃ و سلام بآواز بلند؟ اگر کوئی مسلمان نماز پنج گانہ اور جماعت کو چھوڑ کر صلاۃ و سلام کو ضروری سمجھے اس کے لیے کیا حکم ہے؟ اور اس حدیث کا کیا مطلب ہے کہ ’’جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کردی، تو اس نے کفر کیا‘‘۔ نیز آداب مسجد کیا ہیں؟ بینوا توجروا۔

فتاویٰ # 1701

زید مدرسہ اہل سنت فیضان رسول کا صدر ہے، پوری آمدنی وہی رکھتا ہے، مطبخ کےسامان کے لیے مطبخ انچارج نے مدرسہ کے چند طلبہ کو مذکورہ صدر کے پاس بھیجا، تو صدر نے کہا مولانا صاحب سے مانگ لینا، لڑکوں نے کہا کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں تو صدر نے کہا کہ میرے پاس بھی پیسے نہیں ہیں۔ لڑکوں نے کہا مدرسہ چل کر کچھ انتظام کردیجیے، مولانا صاحب اورمطبخ انچارج نے آپ کو بلایا ہے، تو صدر نے کہاکہ کیا ہم ان دونوں کے غلام ہیں جاؤ انھیں دونوں کو بھیج دینا، پھر صدرنے لڑکوں کو بھگادیا، اور دوڑاتے ہوئے گھر سے باہر نکال دیا، اسی دوران صدر کی اہلیہ نے کہا کہ مدرسے میں سب چھچھندر ہی ہوگئے ہیں، جو یہاں بار بار پیسہ مانگنے بھیج دیتے ہیں؟ تو صدر نے کہا مولنوا کو ڈھیر پانکھی ہوگیا ہے، رمضان بعد کنوا پکڑ کر اس کو مدرسے سے بھگا دیں گے۔جب ان باتوں کی تحقیق ہوگئی تو اراکین حضرات نے ان کو مدرسے کی صدارت سے برخاست کردیا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ جو مہمان رسول اور عالم دین، نائب رسول ﷺ کے حق میں اس طرح کی بدکلامیاں کرے کیا وہ جمعہ اور عیدین کی نماز پڑھا سکتا ہے؟ اور جن لوگوں نے اس کے پیچھے نماز پڑھ لی، اور جس نے کہا آپ پڑھائیے ان پر از روے شرع کیا حکم ہے؟ ان کی نمازیں ہوئی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1702

(۱)مسجد کے امام صاحب کی قوت سماعت بالکل ختم ہوچکی ہے، مؤذن جب تکبیر کہتا ہے تو نہیں سنتے ہیں، دینی مسائل سے بھی ناواقف ہیں۔ از روے شرع وہ امامت کے لائق ہیں یا نہیں؟ (۲)امام مذکور مسجد میں سبزی لگائے ہوئے ہیں، اور اسے اپنے استعمال میں لاتے ہیں، اور فروخت بھی کرتے ہیں۔کچھ لوگوں نے منع کیا، تو امام صاحب رنجیدہ ہوگئے اور غصے میں کہنے لگے اس کو اکھاڑ دو۔ امام مذکور کی اس حرکت سے عوام میں اختلاف پیدا ہوگیا، چند لوگ مسجد میں جانا بند کردیے۔ از روے شرع مسجد میں سبزی لگانا درست ہے؟ عدم جواز کی صورت میں ان پر شرع کا کیا حکم ہے؟ (۳)ہمارے یہاں مسجد میں نماز جمعہ کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے، امام مذکور کبھی ڈیڑھ بجے، کبھی دو بجے نماز جمعہ پڑھاتے ہیں۔ اس صورت میں شرع کا کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1703

امتحان کے فارم پر طلبہ کا فوٹو چسپاں کیا جاتا ہے، اور اساتذۂ مدارس ان کی تصدیق بھی کرتے ہیں۔ کیا ایسےاساتذہ اور طلبہ کے پیچھے نماز پڑھنا شرعاً درست ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1704

ہمارے شہر میں کچھ لوگ ہر ماہ ساٹھ روپے سے لےکر تین سو روپے ماہ پر چیزیں مثلاً سائیکل، فریج، پنکھا، اسکوٹر وغیر ہ قرعہ اندازی کے ذریعہ دیتے ہیں۔ جس ماہ جس شخص کی پرچی نکل آتی ہے اسے وہ چیز دے دی جاتی ہے، پھر اسے کوئی رقم ادا نہیں کرنی پڑتی۔ تو یہ جوا ہوا یا نہیں؟ ہمارے شہر کے مسجد کے امام اس میں اپنی رقم لگاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ جوا نہیں ہے۔ نیز لاٹری کا ٹکٹ خریدنا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1705

زید حافظ، ایک مکتب کا مدرس اور مسجد کا امام ہے۔ اس مکتب میں طلبہ و طالبات دونوں کی تعلیم ہوتی ہے۔ ہندہ ایک مراہقہ طالبہ ہے، اس نے ایک تحریر زید کے پاس بھیجی جس میں ہندہ نے محبت کا اظہار کیا اور خط کا جواب طلب کیا، زید نےجواب لکھا؛ لیکن تحریر ہندہ کے پاس پہنچنے سے پہلے پکڑی گئی، جوابی خط میں عشق و محبت کی باتیں تھیں۔ آخر میں زید نے یہ شعر بھی لکھا تھا: ------زندگی کاسہارا بنو تو بنو--- چار دن کا سہارا سہارا نہیں ------- اس کےبعد سے زید کے پیچھے لوگوں نے نماز پڑھنا چھوڑ دیا۔ اور لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس طرح سے زنا ثابت ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں کیا زید قابل امامت ہے؟

فتاویٰ # 1706

(۱) میت کے جنازے کی نماز میں امام کی اجازت شرط ہے یا نہیں؟ (۲) اگر قبر تیار نہیں ہوئی، یا کسی سبب شرعی سے دفن میں دیر ہے تو حاضرین کے بیچ میت کے سامنے،یوم آخرت کے متعلق پانچ سات منٹ پند و نصائح کرنا کیسا ہے؟ (۳) مسجد کی موقوفہ کتابوں کو امام اپنے حجرے میں رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟

فتاویٰ # 1707

ایک مسافر نے فجر کی نماز میں امام کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ تم ناپاک ہو؛ نماز نہیں پڑھا سکتے، پھر امام نے ہی نماز پڑھائی اور مسافر سمیت سبھی مقتدیوں نے نماز پڑھی۔ مسافر مسجد کے باہر ایک شخص سے یہ بتا کر چلا گیا کہ امام نے رات میں مجھ سے لواطت کرنے کو کہا اور میرا عضو تناسل پکڑتا رہا، یہاں تک کہ اپنا کپڑا خراب کرلیا، مسافر کی عمر تقریباً ساٹھ سال تھی۔ امام اس الزام سے سرے سے انکار کرتا ہے، ہاں اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ سونے کے وقت از راہ ہمدردی میں نے مسافر سے پوچھا کہ تمہارے پاس اوڑھنے پچھانے کے لیے کچھ ہے؟ مسافر نے کہا ایک چادر ہے، امام نے کہا کہ میرے پاس ایک گدا اور ایک لحاف ہے، میرے ساتھ سو جائیے۔ نماز کے بعد امام اور مسافر کی ملاقات نہیں ہوئی، اور جس آدمی کو مسافر نے یہ بات بتائی اس نے عوام میں یہ بات پھیلا دی کہ امام گنہ گار ہے، جس پر لوگوں نے یقین کرلیا۔ اور اب اس امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ سوال یہ ہے کہ امام قابل امامت ہے یا نہیں؟ جب کہ امام ان سب ناپاک حرکتوں کو جھوٹ اور الزام بتاتا ہے۔ شرع ان تمام لوگوں پر کیا فیصلہ کرتی ہے، جلد جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1708

زید نے بیتر گڑھ کی جامع مسجد میں تقریر کرتے ہوئے کہا:’’امام صاحب فرماتے ہیں کہ جن نمازیوں کی پیشانی پر سیاہ داغ پڑ جاتا ہے، وہ داغ شیطان کے پیشاب سے بنتا ہے‘‘۔یہ امام صاحب ایک کنواری لڑکی سے زنا کرتے ہیں، اور وہ جب چار ماہ کی حاملہ ہوجاتی ہے تو اس سے نکاح کرلیتے ہیں، وہ لڑکی بحیثیت بدی ان کے ساتھ رہ جاتی ہے۔ یہی امام صاحب کچھ شرابی اور اوباش لوگوں کو مسجد میں بٹھاتے ہیں، اور اعتراض کرنے پر مسلمانوں کو دھکے دےکر باہر نکال دیتے ہیں۔ (۱) کیا نمازی کے پیشانی کے سیاہ داغ کو شیطان کا پیشاب بتانا جائز ہے؟ (۲) کیا ان امام صاحب کا نکاح، حاملہ لڑکی سے درست ہے؟ (۳) کیا شرابی اور اوباش قسم کے لڑکوں کو مسجد میں بٹھانا اور مسلمانوں کو مسجد سے بھگا دینا جائز ہے؟ کیا زید کو امام کی حیثیت سے مسجد میں رکھنا شرعاً جائز ہے؟ اور کیا اس کے پیچھے نماز درست ہے؟

فتاویٰ # 1709

(۱) نسیم نامی شخص نے سرکاری بینک سے سودی قرض کچھ زیورات گروی رکھ کے حاصل کیے، پھر انھیں فکس ڈپوزٹ میں جمع کرادیے، کچھ عرصے بعد اس نے اپنی کمائی سے بینک کا سود مع قرض ادا کردیا، نیز فکس ڈپوزٹ مع سود حاصل کرلیا، گویا اس نے سود دیا بھی اور حاصل کرلیا، ایسے شخص کو امامت کا حق حاصل ہے یا نہیں؟ نیز اس کی اقتدا میں مقتدیوں کی نماز ہوگی کہ نہیں؟ (۲) یہی نسیم رمضان شریف میں تراویح اور اس میں سماع قرآن ترک کرکے مدارس کی رسیدیں لےکر چندے کی غرض سے نکلتا ہے، اور چندہ اس شرط پر کرتا ہے کہ جو کچھ وصول ہوا، اس کا نصف میرا ہوگا، نیز نصف لےکر اسے بھی فکس ڈپوزٹ میں جمع کردیتا ہے۔ نسیم کا یہ عمل از روے شرع کیا حکم رکھتا ہے؟ (۳) مسجد -جس کا شخص مذکور امام ہے- کے حجروں میں لوگوں کا اجتماع و ہجوم، نیز مسجد کی لائٹ اور پنکھے وغیرہ کا بیجا استعمال اور مسجد کے گھڑے و لوٹے کو گھریلو استعمال میں لانا کیسا ہے؟ (۴) مذکورہ امام اذان و اقامت سننے کے باوجود مسجد کے قرب و جوار میں بیٹھے دنیاوی باتوں میں مشغول رہتا ہے، حتی کہ جماعت فوت ہوجاتی ہے، مجبوراً مؤذن کو نماز پڑھانی پڑتی ہے، آیا ایسا شخص امامت کا حق رکھتا ہے۔

فتاویٰ # 1710

اکروں (دو زانو) یا پالتھی مار کر پورب، اتر، دکھن رخ، مسئلہ جان کر مسجد میں بیٹھنے والا اذان و امامت کا مستحق ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1711

ہماری مسجد کے امام صاحب نے ایک آدمی کا کھیت گروی رکھا، اور مدت پوری ہونے کے بعد اپنا روپیہ پورا لےلیا، اور غلہ مفت کاٹا کھایا، ایک بار ایک پڑوسی کے کھیت سے گنا چوری سے کٹوا کر اپنے کھیت میں بو لیا، ایک بار ناریل کی دوکان پر چوری کی۔ مسجد کے پیسے ڈبے سے اکثر اپنے بچے سے چروالیتے ہیں، ان افعال بد کو دیکھنے کے بعد ہم ایک دوسرا امام لے آئے، لیکن یہ امام صاحب مصلی چھوڑنے کو تیار نہیں۔ کچھ گاؤں والے بھی ان کے حمایتی ہیں، مہربانی فرماکر آپ اس امام اور اس کی حمایت کرنے والوں کے متعلق شرعی حکم تحریر فرمائیں۔

فتاویٰ # 1712

حافظ قائم علی کا کہنا ہے کہ جن لڑکیوں کو میں عربی کی تعلیم دیتا ہوں ان کو اپنے جال میں پھنسا کر عشق کرنا، زنا کرنا کوئی گناہ نہیں۔ میں کوئی بھی گناہ کروں میرے پیچھے نماز ہوجائےگی، حافظ قائم علی کو محلے کے لوگ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، اور اس کی ان حرکتوں سے ناراض ہیں۔ قائم علی عمر ۱۹؍ سال کی عادت ہے تعلیم یافتہ، عزت دار حافظ، قاری، مولویوں کی برائی کرنا، جھوٹے الزام لگا کر بدنام کرنے کی کوشش کرنا، جھوٹی قسمیں کھانا، چغلی کرنا، لوگوں کے مکان میں تانک جھانک کرنا، عورتوں کی باتیں چوری سے دیوار میں کان لگا کر سننا۔ کیا ایسے حافظ کے پیچھے نماز جائز ہے؟

فتاویٰ # 1713

ایک امام صاحب جن کے جسم پر سفید داغ ہے، نیز امام صاحب ہاف آستین کی قمیص پہنتے ہیں جس پر جاندار کی تصویر بھی موجودہے، جس کی وجہ سے چند مقتدی کراہیت محسوس کرتے ہیں،لہذا ایسے امام کی اقتدا کیسی ہے؟ اگر امام اپنالباس بدل دے تو اس کی اقتدا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائزہے تو سفید داغ کی کراہیت دور ہونے کی صورت کیاہوگی؟ جب کہ مذکورہ بالا امام کے علاوہ کوئی ایسا آدمی نہیں جو امامت کا کام انجام دے۔

فتاویٰ # 1714

زید مسجد میں امامت کرتا ہے، اور ماہ محرم میں تعزیہ بھی رکھتا ہے، عَلم اٹھاتا ہے، اور محرم کی دسویں تاریخ کو اس کو دفن کردیتا ہے۔ بکر کا کہنا ہے کہ تعزیہ داری کی وجہ سے زید کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ بکر نے زید سے کہا: آپ تعزیہ داری بند کردیجیے، اس پر زید نے کہا میں محبتِ رسول میں نواسۂ رسول کی بارگاہ میں ھل من ناصرینصرنا کے تحت عبادت و ثواب سمجھ کر تعزیہ رکھتا ہوں۔ جس کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: الحسین منی و أنا من الحسین۔ جس طرح میں نماز، روزہ، زکات، حج وغیرہ عبادت سمجھتا ہوں، اسی طرح تعزیہ کو تصویرِ حسین بلکہ روضۂ حسین سمجھ کر تعزیہ داری کرتا ہوں۔ اور نماز کی طرح جب میں روضۂ حسین کے پاس کھڑا ہوتا ہوں اور یہ تصور کرتا ہوں کہ نواسۂ رسول ہم کو دیکھ رہے ہیں، میں عبادت سمجھ کر تعزیہ رکھتا ہوں۔ حضور والا سے گزارش ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر فرمائیں کہ تعزیہ رکھنا اس عقیدے سے جائز ہے یا ناجائز؟ تعزیہ دار کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1715

زید جادوگر ہندوؤں سے تعلق رکھتا ہے، اور ان سے سیکھ کر کچھ لوگوں پر جادو کرتا کراتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1716

گھڑی کا چین لگانا کیسا ہے؟ اور چین کے ساتھ نماز ہوگی یا نہیں؟ جو چین کی حرمت جانتے ہوئے نماز سے خارج چین لگاتا ہو، اس کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟ اور اس کی شہادت کے بارے میں کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1717

(۱) چاندی کی دو انگوٹھی پہننا کیسا ہے؟ اور دو انگوٹھیاں پہن کر کوئی امام نماز پڑھائے تو نماز ہوتی ہے یا نہیں؟ (۲) ایک شخص پر غسل احتلام واجب تھا، اور اس نے نماز فجر پڑھائی پھر نماز جنازہ پڑھائی، دوپہر کو اسے اپنے کپڑوں پر منی کے نشانات دکھائی دیے، اس نے توبہ کی۔ تو اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس طرح توبہ کرنے سے نماز ہوجاتی ہے؟ اور اس کے پیچھے جنھوں نے نماز پڑھی ان کی نماز ہوئی یا نہیں؟ اور نماز جنازہ بھی پڑھائی ہے۔ میت دفن ہوئے بہت دن گزر گئے ہیں۔ لہذا اب شرعی حکم کیا ہے؟

فتاویٰ # 1718

زید کہتا ہے امام صاحب سے کوئی سنت چھوٹ جائے تو اقتدا کرنے والوں کی نماز نہیں ہوگی۔ اور عمرو کہتا ہے کہ آج کے سارے عالم کو بھکاری سمجھتا ہوں۔ ان دونوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1719

یہ جائز ہے کہ ایک شخص عشا و وتر پڑھائے دوسرا تراویح۔ جیسا کہ حضرت عمر عشا و وتر کی امامت کرتے تھے اور حضرت ابی بن کعب تراویح کی۔ (عالم گیری) کیا امام صاحب کو شریعت اجازت دے سکتی ہے کہ رمضان شریف میں امام کی اجازت سے تراویح پڑھانے والا، وتر واجب پڑھائے۔ اس طرح کا عمل کرنے کو حضرت عمر کا عمل، اس امام کے عمل کی اجازت دے سکتا ہے؟

فتاویٰ # 1720

زید اپنے پیر کے مزارپر سجدہ کرتا ہے، روزانہ بعد نماز فجر اور جس وقت بھی جائے۔ اور امامت بھی کرتا ہے۔ اس کے پیچھے نماز ہوسکتی ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1721

(۱) مسلمان اگر مسلمان کی داڑھی مونڈے، تو داڑھی مونڈنے والے کے لیے حکم شرع کیا ہے؟ (۲) داڑھی مونڈنے کے ذریعہ کمائی ہوئی رقم کے متعلق کیا حکم ہے؟ (۳) جو مسلمان، مسلمان کی داڑھی مونڈتا ہے اس سے میل جول رکھنا کیسا ہے؟ (۴) اگر داڑھی مونڈنے والا شخص امامت کے فرائض انجام دے تو اس کی امامت کے متعلق کیا حکم شرع ہے؟ اور ایسے امام کے پیچھے ادا کی ہوئی نمازوں کے لیے کیا حکم ہے؟ (۵) اگر داڑھی مونڈنے والا شخص بچوں کے ختنے بھی کرتا ہو تو اس کے ذریعہ کیے ہوئے ختنوں کی شرعی حقیقت کیا ہے؟

فتاویٰ # 1722

اگر کوئی امام مسجد میں اپنے مقتدیوں کے سامنے ایک مقتدی سے فحش باتیں اس طرح کرے کہ : اے فلاں! تمہاری شادی کے بعد تمہاری بیوی کے ناف کا اوپری حصہ تمہارا ہوگا، اور زیر ناف والا حصہ ہمارا ہوگا۔ تو کیا اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟کیا ایسا شخص قابل امامت ہے؟ کیا اس نے خدا خانہ کی توہین نہیں کی؟

فتاویٰ # 1723

ہمارے یہاں کے امام صاحب نے جمعے کے روز دوران تقریر نمازیوں کے سلسلے میں یہ کہا: ’’بےنمازی آدمی سور سے بھی بد تر ہے‘‘۔ مذکورہ جملے پر عوام نے جب حوالہ طلب کیا تو کوئی حوالہ نہ دےکر، انھوں نے یہ کہا کہ: بےنمازی کسی کے نزدیک سور سے بد تر ہو یا نہ ہو، میرے نزدیک ہے۔چند جمعوں کے بعد امام صاحب نے اپنے قول کی حمایت میں ایک محصل کو تقریر کرنے کو کہا۔ انھوں نے اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ کہا کہ: ’’اگر اللہ تعالیٰ خنزیر سے بھی بد تر کوئی جانور پیدا کرتا تو ہم بےنمازی کو اس جانور سے بھی بدتر مانتے۔ دلیل یہ پیش کیا کہ اگر طباق میں کھانا رکھا ہو، اور خنزیر نے اس کھانے میں منھ لگا دیا تو آپ وہ کھانا دوسری طرف سے کھاسکتے ہیں، اگر دل چاہے، لیکن اگر کسی بےنمازی نے کھانا چھو دیا تو وہ کھانا حرام ہوجائےگا۔‘‘ دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس طرح کی باتیں درست ہیں، یا نہیں؟ حوالہ سے مزین فرمائیں۔ اگر غیر درست ہیں تو اس صورت میں امام مذکوراور محصل کے لیے کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1724

داڑھی منڈانے والے کی اذان اور اس کی تکبیر اور اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1725

جو امام یا مؤذن میت کا چالیسواں پڑھتے ہیں اور اس کا معاوضہ روپے، کپڑے، برتن وغیرہ ملنے پر لیتے ہیں، اور اپنے بچوں کے استعمال میں صرف کرتے ہیں جب کہ وہ مستحق معاوضہ نہیں، تو کیا ایسے امام کی امامت یا مؤذن کی اذان درست ہے؟اور سامان کو وہ اپنے یا اپنے گھر کے صرفہ میں لاسکتے ہیں؟

فتاویٰ # 1726

امام صاحب کا لڑکا چوری کرتا ہے، عوام بھی جانتے ہیں، اور امام صاحب بھی۔ خود امام صاحب بھی اس چوری کے فروخت کردہ سامان کی قیمت سے کھاتے ہیں۔ ایسے امام صاحب کی اقتدا میں نماز درست ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1727

جماعت اصلاح قوم مسلم سنبھل نے اصلاحِ عوام و خواص مسلمین کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے، مقصد قوم میں در آئی برائیوں کو دور کرنا ہے۔ فی الحال عقد نکاح کی تقریبات میں باجا، گانا، بھانگڑا وغیرہ پر کنٹرول کرلیا ہے۔ مقامی علماے کرام بھی اپنا تعاون دے رہے ہیں، البتہ بعض نکاح خواں علما نفس نکاح ہونے کی آڑ میں اور اپنے نذرانے کی لالچ میں اس کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ جب کہ جماعت کا کہنا ہے کہ نکاح پڑھانافرض عین، فرض کفایہ، یا واجب تو نہیں، آپ کے نہ جانے سے برات میں غیر شرعی امور کی رسم ختم ہوتی ہے، جیسا کہ اکثر جگہ براتوں میں باجا وغیرہ بند ہی ہوگیا۔ واضح رہے کہ ان علما کا باجے کی حرمت میں یا عوام و خواص کی شرکت کے ناجائز ہونے میں اختلاف نہیں۔ قاضی شرکت کو جائز نہیں سمجھتا، بلکہ اپنے نذرانے کی وجہ سے نکاح پڑھا دیناچاہتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ ایسے قاضی عالم کا شرعی حکم کیا ہے؟بے رو رعایت حق بات صاف صاف تحریر فرمائیں کہ ان کے پیچھے نماز مکروہ تنزیہی ہے یا تحریمی، یا بلا کراہت جائز ہے؟ بینوا تؤجروا۔

فتاویٰ # 1728

شہر خلیل آباد میں بی جے پی کے ایم پی کے اشارے پر ان کے حامی مسجد کے ایک مینار کو شہید کرنے کے بعد دوسرے مینار کو شہید کر رہے تھے، اچانک مسلمانوں کو اطلاع ملی، کشیدگی، بےچینی، غم و غصہ اور جوش انتقام میں سب بپھر گئے۔ افسران نے پولس کو ہر طرف تعنیات کرکے کرفیو اور دفعہ 144؍ نافذ کردیا۔ اس دن اسی ایم پی کی ایک جگہ آمد ہوئی، ایک حافظ صاحب جو امام ہیں، نے اس کا استقبال کیا، آداب و پرنام کے ساتھ اس اسٹیج پر غزل وغیرہ بھی پڑھی، جس کی وجہ سے مسلمانوں میں ان کی طرف سے دلی نفرت پیدا ہوگئی ہے۔ معلوم کرنے پر انھوں نے بتایا کہ میرا خاص کام اور مطلب تھا، اس لیے میں نے یہ قدم اٹھایا۔ کیا ان کے پیچھے نماز درست ہے؟ اور وہ رکھنے کے قابل ہیں یا برطرف کردیاجائے کہ وہ مطلب اور مفاد پرست ہیں؟ کرم فرماکر جواب سے مستفیض فرمائیں۔

فتاویٰ # 1729

کرکٹ کھیلنے والے کو امام بنانا درست ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1730

بالقصد شہرت اور ناموری کے لیے تصویر کھنچوانا یا کھینچنا، چھوٹی یا بڑی، جائز ہے یا ناجائز؟ جو لوگ تصویر کھنچواتے ہیں ان کے پیچھے نماز جائز ہے یا ناجائز؟ جو لوگ بالقصد ویڈیو، ٹی وی دیکھتے ہیں بلکہ ٹی وی اور ویڈیو دیکھنا جائز قرار دیتے ہوں، ایسے لوگوں کے پیچھے نماز جائز ہے یا ناجائز؟ ایسے لوگوں سے بیعت ہونا جائز ہے یا ناجائز؟ اگر کوئی بیعت ہوچکا ہو تو اس کے لیے شرعی حکم کیا ہے؟ خاص بات یہ ہے کہ ویڈیو اور ٹی وی دیکھنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1731

(۱) قاضی شہر ہونے کے لیے کیا شرائط ہیں؟ جو شخص نماز پنج گانہ نہ پڑھتا ہو، ایسے شخص کا قاضی و خطیب ہونا جائز ہے یا ناجائز؟ (۲) جو شخص داڑھی منڈواے کیا وہ قاضی شہر ہوسکتا ہے؟ (۳) جس شخص نے اپنے چھوٹے بھائی کی شادی میں سڑک پر عین مسجد کے سامنے پوری رات طوائفوں کا ناچ کروایا ہو، کیا ایسا شخص قاضی و خطیب ہوسکتا ہے۔ اور اسے اس کے عہدے سے فوراً معزول کرنا لازم ہے یا نہیں؟ اور جولوگ ایسے شخص کی حمایت کریں، ان کے لیے حکم شرعی کیا ہے؟ اور جن لوگوں نے ایسے شخص کو قاضی اور خطیب بنوایا ہے، ان کے لیے حکم شرعی کیا ہے؟

فتاویٰ # 1732

اگر کوئی حافظ یا عالم روزگار کرتا ہے اور اپنازیادہ وقت اپنی دکان پر گزارتا ہے تو وہ کسی مسجد کی امامت کر سکتا ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1733

بکر اپنے آپ کو حافظ قرآن کہتا ہے، اور الٹا قرآن سنایا، مثلاً تیسواں پارہ ایسے اترتے ہوئے پہلے پارہ میں ختم کیا، اور بکر جھوٹ بھی بہت بولتا ہے، کیا ایسے شخص کے پیچھے نماز درست ہے؟

فتاویٰ # 1734

زید حافظ و قاری ہے، وہ جامع مسجد کے پیش امام کے پیچھے قریب بیس سال سے نماز پڑھتا چلا آرہا ہے، مگر آج مقتدیوں کے روبرو بیان کیا کہ امام صاحب غلط پڑھتے ہیں، مقتدیوں میں سے ایک شخص نے زید سے کہا کہ بیس سال سے آپ نماز پڑھتے چلے آرہے ہیں مگر اب تک اسے کیوں ظاہر نہیں کیا۔ بتایا جائے کہ اس زید کاکیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1735

زید امام مسجد ہے، مگر پیشہ سے جھاڑ پھونک کرتا ہے، جس میں کچھ آدمی اس کے مقرر ہیں جن پر اس کا دانو، شیطان، جس کو موکل کہا کرتے ہیں، سوار ہوا کرتا ہے، اور اسی کے ذریعہ جو کچھ کہنا ہوتا ہے، وہ موکل اٹھا پٹک کرتا ہے، جس سے عورتوں مردوں کا جمگھٹا لگتا ہے۔ عرض کرنا ہے کہ امام صاحب کا ایسے پیشہ کو اختیار کرنا اور عورتوں کو جمع کرنا اس کے باوجود امامت کرنا کیا جائز ہے؟ اور مقتدیوں کی نماز ان کے پیچھے صحیح ہوجائےگی؟

فتاویٰ # 1736

بکر اپنے گاؤں کا مکھیا اور علاقے کا معتبر آدمی ہے اور پیشہ ڈاکٹری کا کرتا ہے، احکام شرعیہ کا پابند اور مسائل دینیہ سے واقفیت بھی رکھتا ہے، داڑھی حد شرع اور وضع قطع بھی اسلامی ہے، اور عقیدۃًخالص سنی ہے تو اس کی اقتدا میں نماز صحیح ہے یا نہیں؟ جو لوگ یہ جان کر کہ بکر کا پیشہ کاشت کاری و ڈاکٹری ہے، اس کی اقتدا کریں ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور وہ نماز بھی فی سبیل اللہ پڑھاتا ہے۔

فتاویٰ # 1737

زاہد مسجد کا امام ہے، لیکن امامت کے ساتھ ساتھ دلالی بھی کرتا ہے، چاہے کسی بھی چیز کی ہو۔ عوام کا کہنا ہے کہ دلالی میں زیادہ تر جھوٹ بولا جاتا ہے چوں کہ بات منوانی رہتی ہے اور زاہد دلال ہے اور دلال جھوٹا ہوتا ہے اور جھوٹے کے پیچھے نماز نہیں۔ کیا زاہد، دلالی کے ساتھ ساتھ امامت کر سکتا ہے؟

فتاویٰ # 1738

زید محلہ کی ایک جامع مسجد میں امام ہے، مسجد کی طرف سے انھیں معقول مشاہرہ دیا جاتا ہے، اس کے علاوہ مسجد ہی کے زیر اہتمام ان کی رہائش اور علاج و معالجہ کا بھی انتظام ہے۔ ان تمام سہولیات کے باوجود امام صاحب مقتدیوں اور محلہ کے لوگوں سے چھپ کر کبھی اپنے بچوں کی تعلیم کے نام پر اور کبھی وعظ و تقریر کے لیے کتابوں کی خریداری کے نام پر رقمیں مانگتے ہیں اور جو نہیں دیتا ہے اسے سخت سست بھی کہتے ہیں۔ بعض لوگوں سے انھوں نے مسجد میں رحل منگانے کے لیے روپیہ لیا اور اپنی ذات پر خرچ کرلیا۔ بعض لوگوں سے کسی غریب لڑکی کی شادی کرانے کا پیسہ لیا اور اسے بھی ہڑپ کر گئے۔ جب ان کی ان حرکتوں کی خبر مؤذن، مسجد کمیٹی کو دینا چاہتا ہے تو اس پر سختی کرتے ہیں اور ڈراتے دھمکاتے ہیں۔ بہر حال جب مسجد کمیٹی کو امام صاحب کے اس مذموم حرکت کی خبر ملی تو خفیہ انکوائری کرائی، انکوائری میں ساری باتیں درست پائی گئیں۔ حضور والا قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ ایسی صورت میں کیا ایسے امام کے پیچھے نماز جائز ہے؟ بینوا توجروا۔

فتاویٰ # 1739

امام جمعہ کو بعد ِخطبہ کھڑا رہنا چاہیے یا بیٹھ جانا چاہیے۔ اگر امام کھڑا رہا تو مقتدی بھی فوراً کھڑے ہوجائیں، یا ’’حی علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہوں؟

فتاویٰ # 1740

زید عالم ہے، مگر اس کا کوئی پاجامہ میانی دار نہیں،بلکہ ہر پاجامہ فل پینٹ کی طرح غیر میانی والا ہے۔ ایسے امام کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1741

خالد جو بستی کی مسجد کا امام تھا، دس سال کے لڑکے سے مسجد میں لواطت کرتے ہوئے رنگے ہاتھ پکڑا گیا، راشد نے خالد کو روپے دےکر لوگوں کو اطلاع کیے بغیر روانہ کردیا۔ ایسی صورت میں خالد اور راشد دونوں پر شریعت کا کیا حکم عائد ہوتا ہے؟

فتاویٰ # 1742

(۱) کیا امام سے مقتدی کچھ کہنے کا حق دار نہیں ہے؟ (۲) کیا امام، مقتدی کا انتظار کرسکتا ہے؟ جب کہ وقت مقررہ پر دو مقتدی اور امام موجود ہیں؟ کیا ایسی صورت میں امام وقت مقرر سے دس منٹ بعد نماز پڑھائے تو یہ پڑھانا کیسا ہے؟ ایک امام صاحب نے مقررہ وقت سے دس منٹ دیر سے نماز پڑھائی۔ وقت پورا ہونے پر ایک مقتدی نے امام صاحب کو مطلع کیا تو امام صاحب نے کہا مقتدیوں کا انتظار کر رہا ہوں، جب کہ مقتدیوں کی تعداد بہت تھی، ایسے امام کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ (۳) امام نماز میں برابر اپنے پیر کو حرکت دیتا ہے۔ اور داہنے پیر کا انگوٹھا بھی برابرچلتا رہتا ہے۔ ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ داہنے پیر کے انگوٹھے کا قائم رکھنا سنت ہے یا مستحب؟ (۴) کیا کسی ناظرہ خواں کو مولانا کہا جاسکتا ہے؟ لوگ اس کو مولانا کہہ کر بلائیں اور وہ مولانا کہنے سے خوش بھی ہو، تو اس شخص کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1743

دو عالم ایک مرد مومن کے گھر میں بلا اجازت داخل ہوئے، حالاں کہ ان عالموں کا اس مومن سے صرف سلام ہوتا تھا، بعد میں اس مومن نے شکایت کی کہ یہ دونوں عالم کیسے ہیں کہ بغیر اذن میرے گھر میں داخل ہوگئے۔ شرعاً بغیر اجازت گھر میں داخل ہونا کیسا ہے؟ کیا یہ دونوں لائق امامت ہوسکتے ہیں؟

فتاویٰ # 1744

زید ہماری مسجد کا امام ہے، جس کی تنخواہ محلہ والے چندہ کرکے دیتے ہیں۔وہ مسجد میں بچوں کو بھی پڑھاتا ہےاور بچوں سے فیس لیتا ہے۔زید اپنے کو قاری و حافظ بتاتا ہے مگر ۳؍ سال سے طرح طرح کے بہانے بنا کر تراویح میں قرآن نہیں پڑھاتا۔ اس نے مسجد میں پارٹی بھی بنا رکھی ہے۔ کبھی اِن کی کبھی اُن کی شکایت بھی کرتا رہتا ہے۔ اذان اکثر بغیر وضو کے دیتا ہے، وضو میں ناک میں صرف ایک بار پانی ڈالتا ہے، اذان کی دعا، مائک بغیر بند کیے پڑھتاہے، ’’التحیات‘‘ میں ’’لااله الا اللہ‘‘ پر انگلی نہیں اٹھاتا، خارج مسجد کھانا بیٹھ کر کھاتاہے، کھانے میں اکثر کچی پیاز بھی کھاتا ہے، مسجد میں سرتی مَلتا ہے اور مَل کر کھاتا ہے، چین دار گھڑی کے ساتھ گلے کا بٹن کھلا رکھ کر نماز پڑھاتا ہے۔اکثر اگر مغرب کے وقت اذان ہوگئی ہے تو فوراً مصلی پر چلا جاتا ہے، کہتا ہے کہ میرا وضو ہے، اور مغرب کی نفل، عشا کی سنت اور نفل اکثر ترک کرتا ہے، کبھی کبھی وتر میں ہاتھ بھی نہیں چھوڑتا۔ اکثر سنت و نفل جب پڑھتا ہے تو اگر پہلی رکعت ۳۰؍ سکنڈ کی ہوگی تو دوسری نو۹ سکنڈ کی ہوگی۔ ہم لوگ کبھی سنت میں ثنا بھی نہیں پڑھ پاتے کہ وہ رکوع کردیتا ہے، کبھی ’’التحیات‘‘ پڑھنے میں اتنا وقت لیتا ہے کہ مقتدی درود اور دعاے ماثورہ پڑھ لیتے ہیں، تب وہ اٹھتا ہے، کہتا ہے میں صبح سو کر اٹھنے پر فوراً اذان دےکر فراغت کے لیے جاتا ہوں، کلی وغیرہ بھی نہیں کرتا۔ چین دار گھڑی کے بارے میں کہتا ہے کہ مفتی بنارس عبدالرحمٰن صاحب کا یہ مسئلہ چلا نہیں؛ اس لیے سبھی مفتیوں نے اتفاق راے سے اسے چالو کردیا۔ اور اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ امام کا عمل امام کے ساتھ ہے، ہم کو کیا؟ ہم نماز پڑھیں گے۔ گناہ تو امام کو ملےگا۔ براے مہربانی شرعی حکم سے مطلع فرمائیں، کیا زید کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے؟

فتاویٰ # 1745

(۱) یہاں گوا میں جامع مسجد کے ایک پیش امام نے کسی مرحومہ کی قبر میں سورۂ یٰسٓ کو دفن کرکے میت کو جنت میں داخل کرایا، کیا یہ قرآن شریف کی بےحرمتی نہیں ہے؟ (۲) ایک جلسۂ عام میں امام نے سورہ اعراف کی آیت ۱۸۷ کو جھٹلا کر توبہ استغفار کرایا، کیا ایسے شخص کی امامت جائز ہے؟

فتاویٰ # 1746

ایک شخص سالہا سال نمازیں چھوڑتا رہا، ان کی قضا بھی نہ کی، مگر اب کچھ دنوں سے نمازیں پڑھنے لگا ہے اور امامت بھی کرتا ہے۔ ایسی صورت میں جب کہ اس کے ذمے فوت شدہ نمازیں بہت زیادہ ہیں، کیا وہ قابل امامت ہے؟ اور نماز کے پابند لوگوں نے اس کی اقتدا میں اب تک جو نمازیں پڑھ لی ہیں کیا وہ بلا کراہت درست ہیں؟ اگر اب سے وہ شخص تائب ہوکر فوائت کی قضا شروع کردے تو کیا قبلِ تکمیلِ قضا، وہ امامت کے قابل ہوجائےگا؟

فتاویٰ # 1747

زید عالم دین ہے اور امام مسجد بھی۔ اس نے ایک شخص کے جنازے کی نماز پڑھائی اور کچھ آدمیوں نے اس کی اقتدا میں نماز جنازہ نہ پڑھی۔ کیوں کہ اس سے قبل امام صاحب سے ایک ایسی حرکت سرزد ہوئی جس کی بنیاد پر فتویٰ یہ آیا کہ وہ فاسق معلن ہے، اس کی اقتدا صحیح نہیں۔ اس کے بعد ایک روز امام صاحب نے دوران تقریر جنازہ کے مسائل بیان کرتے ہوئے، یہ بھی کہا کہ ’’اگر کسی مسلمان کا جنازہ جا رہا ہو، اور کوئی مسلمان جنازہ دیکھ کر جنازے کی نماز میں شریک نہ ہو تو وہ کافر ہے‘‘۔ کیا امام صاحب کا یہ قول درست ہے؟ اگر نہیں تو امام صاحب پر کیا حکم عائد ہوتا ہے۔ اور جو لوگ حاضر نماز جنازہ نہ ہوئے ان کے واسطے شرعی حکم کیا ہے؟

فتاویٰ # 1748

زید کی والدہ کا انتقال ہوگیا، ابو بکر پیش امام اور سعید مؤذن جنازے میں شامل ہیں، وصیت کے سبب زید نے سعید کو نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کہا۔ سعید کے نماز جنازہ پڑھانے پر ابو بکر اور کچھ لوگوں نے یہ کہتے ہوئے کہ مؤذن کے پیچھے نماز درست نہیں، چلے گئے اور بعد میں پھر دعویٰ کیاکہ نماز جنازہ پڑھانے کا حق میرا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ: (۱) یہ نماز جنازہ ہوئی یا نہیں؟ اگر نہیں تو اس کا صحیح حل کیا ہے؟ (۲) اس معاملے میں میت کی وصیت کی پابندی ضروری ہے یانہیں؟ (۳) زید اپنی ماں کی میت کا ولی ہے کیا اس کو یہ حق شریعت نے دیا ہے کہ خود نماز جنازہ پڑھائے یا کسی دوسرے معتبر شخص کو نماز جنازہ پڑھانے کی اجازت دے؟ (۴) زید کی اجازت کے بغیر کیا ابو بکر زید کی والدہ کی نماز جنازہ پڑھا سکتا ہے؟

فتاویٰ # 1749

ایک امام صاحب الحمد شریف کے لفظ اَنْعَمْتَ کو اَنْعَمْتُ پڑھتے ہیں، کیا یہ درست ہے؟ منع کرنے پر قراءت کو دلیلِ جواز بناتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ اَکبر کو اللہ اِکبر کہتے ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟ فقط والسلام۔

فتاویٰ # 1750

ہمارے شہر میں ایک حافظ قرآن مقیم ہیں، ان کا کارو بار ریڈیو ریپیرنگ، ریڈیو فروخت کرنا ہے، ہم اہل شہر مذکورہ حافظ صاحب کو رمضان شریف کے لیے قرآن سنانے کے لیے مقرر کرنا چاہتے ہیں، ان کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1751

(۱) مخنث، ہجڑا، نامرد امام ہوسکتا ہے یا نہیں؟ (۲) بھنگی کا کام کرنے والا مسلم، مؤذن یا امام بن سکتا ہے یا نہیں؟ میرے شہر میں کچھ مسلم نوجوان نگر پالیکا میں بھنگی کی سروس کرتے ہیں؛ لہذا ان کے اذان دینے پر لوگوں میں اختلاف ہے جس کی وجہ سے وہ نوجوان نماز پڑھنا ہی چھوڑ دیے۔

فتاویٰ # 1752

(۱) ہمارے شہر کمپلی کے امام کا کہنا ہے کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی اور ہمارے آقا سردار دوجہاں ﷺ کا جو روضۂ مبارک ہے، وہ تمام جگہ قبرستان تھی۔ اس طرح سے چند لوگوں کو بہکا کر اس شہر کے قدیم مقام پر عیدگاہ ہوتے ہوئے بھی خلاف شرع قبرستان ہنود کی زمین پر عیدگاہ تعمیر کرایا، کیا اس امام مذکور کا بیان سچ ہے؟ (۲) مذکورہ امام علماے اہل سنت کو محلے میں وعظ ونصیحت کرنے کے لیے بلانے کو منع کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ وہ لوگ تفرقہ کرکے فساد مچاتے ہیں، اور یہ خود تبلیغی جماعت اور اس کے چیلوں کی مدد کرتا ہے، از روے شرع اس کے لیے کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1753

کسی سنی امام یا عالم کا بد مذہبوں کی کتاب (عقائد وہابیہ وغیرہ) فروخت کرنا، یا یہ کہہ کر فروخت کرنا کہ جہاں غلط ہو نہ پڑھنا، یا عمل نہ کرنا، ایسے حضرات کے بارے میں شرع کا کیا حکم ہے؟ ایسے کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1754

مسجد کے امام صاحب نے جلسۂ سیرت النبی ﷺ کی مخالفت کی، اور جلسہ کو روکنے کا مشورہ دیا، جب کہ پوسٹر پر جلی حرفوں میں لکھا ہوا تھا: *ایک روزہ جلسۂ سیرت پاکﷺ* علاقے کے چند ذمہ دار لوگوں نے یہ کہا کہ حضرت یہ جلسہ سیرت پاک کا ہے، جس میں حضور ﷺ کا اسوۂ حسنہ بیان کیا جائےگا۔ اس کو ہونے دیں۔ جس پر امام صاحب نے یہ کہہ کر کہ’ روکنا ثواب ہے‘ چند لوگوں کو ہمراہ لےکر ایک گول مول مضمون کاغذپر لکھ کر پہلے خود دستخط کیا، بعد میں لوگوں کو دیا کہ اہل محلہ سے دستخط کراؤ، انھوں نے عوام کو صحیح بات نہیں بتائی، اور جلسۂ سیرت النبی کو نہ ہونے دیا، جس کی وجہ سے چند ذمہ دار مسلمانوں نے ان امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دی، اور کچھ لوگ امام کے اس رویے سے خوش نہیں ہیں، البتہ ان کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں۔ براے کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں آگاہ کریں کہ :یہ امام لائق امامت ہے یا نہیں؟ اس کا یہ فعل شرعی اعتبار سے کیسا ہے؟ اور جن لوگوں نے امام کے پیچھے نماز چھوڑ دی ہے، اور جو امام کے اس فعل سے ناخوش ہیں ان کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

فتاویٰ # 1755

زید ایک مستند عالم دین اور مسجد کا امام ہے، لیکن اس کی سب سے خراب عادت یہ ہے کہ اکثر لوگوں کی برائی اور غیبت کرتا ہے، منع کرنے پر بھی باز نہیں آتا، اور اپنی اس برائی کا اقرار بھی کرتا ہے، جس کی وجہ سے دس پندرہ لوگ جو نماز کے مسائل سے واقف ہیں اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے، مسجد کمیٹی بھی زید کو امام بنائے ہوئے ہے۔ ایسی صورت میں ہماری نماز زید کے پیچھے ہوگی یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیا اس کا عذاب کمیٹی کے ارکان پر ہوگا؟ وضاحت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1756

(۱) ہماری مسجد کے امام صاحب پانچ دن، چار وقت کی نماز پڑھاتے ہیں اور ہفتہ اتوار چھٹی رہتی ہے، فجر کی نماز پیر سے جمعہ تک نہیں پڑھاتے؛ کیوں کہ وہ عذر پیش کرتے ہیں کہ میں شوگر کا مریض ہوں اور فجر کے وقت وہ گھر پر ہوتے ہیں۔ کہاں تک بیماری کا عذر شرع میں قابل قبول ہے؟ اور کیا ایسے امام کے پیچھے نماز شرعاً جائز ہے؟ نیزہفتہ اتوار کسی بھی نماز کے وقت وہ مسجد میں باجماعت نماز کے لیے نہیں آتے۔ تو ایسے امام کی امامت جائز ہے یا نہیں؟ اور اب تک جو نمازیں پڑھی گئیں ان پر حکم شرع کیا ہے؟ (۲) ہمارے امام صاحب کی تنخواہ ۱۳۰؍ پاؤنڈ تھی مگروہ گورنمنٹ سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے ۸۵؍ پاؤنڈ بتاتے تھے، یہاں یو۔کے کے قانون میں تنخواہ جتنی کم بتائی جائے وہ مکمل کردیتے ہیں۔ تو ایسا جھوٹ بول کر کافروں سے مدد لینا جائز ہے؟ اور جو امام ایسا کرتا ہو، اس کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1757

وہ امام جس نے روپے پیسوں کی ایرا پھیری کی ہو، جس پر مقدمہ دفعہ ۴۲۰، ۴۱۹، قائم ہو ۔ ایسے امام کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1758

زید کمزوروں پر ظلم کرتا ہے، والدین کو مارتا، گالی دیتا ہے، کسی کی کوئی عزت نہیں کرتا، ایک دوسرے کے درمیان تفرقہ ڈالتا ہے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہےکہ زید کا بکر سے کسی بات پر جھگڑا ہوگیا، بستی کے کچھ لوگ اور امام صاحب گئے، امام صاحب نے زید کو زجر وتوبیخ کیا، تو زید نے عداوت کی وجہ سے کہا کہ ایسے امام کے پیچھے نماز جائز نہیں جو شرائط امامت سے ناواقف ہو۔اور یہاں نہ کوئی مسلمان ہے اور نہ کسی پر نماز فرض ہے۔ کچھ لوگوں کو امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکا بھی۔ حالاں کہ وہ لوگ امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں، لیکن زید تنہا، امام کی اقتدا میں کبھی نماز نہیں پڑھتا ہے، تو ایسے شخص کے بارے میں اور اس کا ساتھ دینے والوں اور اس کے گھر کھانے پینے والوں کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1759

شہر بکارو میں بارہ ربیع الاول شریف ۱۴۰۳ھ بروز بدھ بسلسلۂ عید میلاد النبی ﷺ ایک جلوس نکالا گیا، ایک مقام معین پر پہنچ کر یہ، جلسۂ عید میلاد النبی ﷺ کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔ جس کی صدارت ایک فاسق و فاجر مسلم نے کی۔ اور نگرانی ایک عالم اہل سنت، سنی مدرسے کے مہتمم اور مسجد کے خطیب نے کی۔ اس جلسے میں ماسٹر بیاس کمار پرساد، پی کے راے، ایم پی، بی این ترپاٹھی، اکلو رام مہتو، ایم ایل اے، اور بسنتی دیوی سے سرکار دوعالم ﷺ کے عنوان پر بیان دلوایا گیا۔ اور ان لیڈران کا نعرۂ تکبیر اور نعرۂ رسالت سے استقبال کیا گیا۔ حاضرین میں سنی اور غیر سنی سبھی موجود تھے۔ جیسا کہ کلکتہ سے شائع ہونے والے اخبار روز نامہ آزاد ہند، ۸؍ جنوری ۱۹۸۳، کے شمارے سے واضح ہے۔ اس سلسلے میں دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایسے جلسے میں شرکت کیسی ہے؟ جس عالم نے اس جلسے کی نگرانی کی ان کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟ اور دیگر احکام شرع کا نفاذ ان کے قول پر ہوسکے گا یا نہیں؟ ان کا ساتھ دینے والوں کا کیا حکم ہے؟ نوٹ: اسٹیج پر موجود عالم اہل سنت (نگران جلسہ) نے اس پر کوئی نکیر نہیں کی۔ اور نہ بعد میں اس سے براءت اور بیزاری ظاہر کی۔

فتاویٰ # 1760

(۱) ہمارے یہاں کے امام صاحب کی یہ حالت ہے کہ ان سے نماز کےفرائض ادا نہیں ہوتے، کبھی ان کی آستین پلٹی رہتی ہے، ان کے پیر بھی نہیں جمتے، اور نہ سجدے میں ان کی ناک لگتی ہے، اور وہ وہابیوں میں بھی جاکر نکاح پڑھاتے ہیں، وہ کچھ لنگڑے بھی ہیں۔ وہ امامت کے لائق ہیں یا نہیں؟ (۲) رمضان المبارک میں تراویح کے وقت نماز فرض کوئی اور پڑھادے اور قرآن سنانے والا تراویح سنا رہا ہے، اور وہ پینٹ شرٹ پہن کر سنائے تو اس کی اجازت ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1761

(۱) امام صاحب کو جگانا مؤذن کی شرعی ذمہ داری ہے یا اخلاقی؟ مؤذن کہتا ہے: اب تک ہم اخلاقاً جگاتے رہے، اب نہیں جگائیں گے۔ (۲) زید ایک مسجد کا تقریباً ایک سال سے مؤذن ہے، وہ اپنی داڑھی، مونچھ میں کالا خضاب لگاتا ہے، دعا تعویذ کا دھندا بھی کرتا ہے، حجرے میں جو مسجد کے بالائی حصے میں ہے، جس میں مسجد سے گزر کر داخل ہونا پڑتا ہے، مسلم اور غیر مسلم مردوں عورتوں کو بٹھاتا ہے، بلکہ ان کے لیے مصلی بچھا کر پنکھا چلا کر مسجد میں بٹھاتا ہے، عورتوں کے سلسلے میں زید نے برجستہ کہا کہ مسجد میں عورتیں آسکتی ہیں، امام صاحب سے پوچھ لیجیے۔ امام صاحب نے کہا: کیا ایسی عورتوں کا مسجد میں آنا جائز ہے جن کو پاکی و ناپاکی بھی معلوم نہیں؟ کبھی کبھی زید اور آنے والی عورتوں میں تنہائی بھی ہوتی ہے۔ اسے مؤذن رکھا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اور امام صاحب کی عدم موجودگی میں وہ امامت کرسکتا ہے یا نہیں؟ جواز یا عدم جواز ظاہر ہوجانے کے بعد ذمہ داری کن لوگوں پر آتی ہے؟ نیز اگر فتویٰ پڑھنے کے بعد بھی ٹرسٹیان، مؤذن کو نہ ہٹائیں تو ان کے لیے کیا حکم نافذ ہوگا۔ بینوا توجروا۔

فتاویٰ # 1762

ادارہ وقف بورڈ جو حکومت ہند کے تحت چلتا ہے، اس ادارے میں ائمہ مساجد اور قاضی شہر کا تقرر اور ان حضرات کو اس سے تنخواہ لینا شرعا کیسا ہے؟ ایسے اماموں کے پیچھے نماز پڑھی جائے یانہیں؟

فتاویٰ # 1763

ادارہ وقف بورڈ جو حکومت ہند کے تحت چلتا ہے، اس ادارے میں ائمہ مساجد اور قاضی شہر کا تقرر اور ان حضرات کو اس سے تنخواہ لینا شرعا کیسا ہے؟ ایسے اماموں کے پیچھے نماز پڑھی جائے یانہیں؟

فتاویٰ # 1764

وہ شخص کیساہے جو بغیر نذرانہ کے عارضی طور پر امامت کی ذمہ داری سے انکار کردے؟

فتاویٰ # 1765

ایک سنی مسلمان نے اپنے محلہ کے ایک ہندو بنیا کی وفات پر اس کی ارتھی (جنازہ) پر ہندؤوں کو پھول چڑھاتے ہوئے دیکھ کر خود بھی ارتھی پر پھول چڑھا دیا، شخص مذکور صبح کو بازار کی مسجد میں جس میں کوئی امام مقرر نہیں ہے، فجر کی نماز بھی پڑھاتا ہے، بقیہ اوقات میں بھی جب اس سے بہتر کوئی شخص نہیں ہوتا امامت کرتا ہے، اس کا یہ فعل اور امامت از روے شریعت کیسی ہے؟

فتاویٰ # 1766

جو امام ہوتے ہوئے ہندوؤں کے دسہرہ یا درگاپوجا میں چندہ دیتا ہے، ایسے امام کے پیچھے نماز جائز ہےیا نہیں؟

فتاویٰ # 1767

زید امام ہے، ہمارے یہاں ہندوؤں کا مشرکانہ میلا لگتا ہے، جس میں مسلمان بھی دکان لگاتے ہیں، ایک ہفتے بعد مسلم دوکان داروں کی جانب سے میلاد شریف رکھی جاتی ہے، جس میں امام صاحب تقریر کرتے ہیں، جب کہ چاروں طرف کھیل تماشا، فلم وغیرہ ہوتا ہے۔ ہمارے گاؤں کے ایک مدرس صاحب ہیں انھوں نے کہا کہ تقریر تو دور، وہاں جانا بھی منع ہے۔ انھوں نے حضور مفتی اعظم ہند ﷫کا فتویٰ بتایا کہ وہاں جانا حرام، حرام، اشد حرام۔ مولانا صاحب جو تقریر کرنے جاتے تھے، کیا ان کو ہم امام بنا سکتے ہیں؟ اور مدرس صاحب کا قول صحیح ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1768

کیا فرماتے ہیں علماے دین اس شخص کے لیے جس نے مدرسے کے نام سے عوام سے چندہ کیا، اور مدرسہ قائم کیا جس کی رجسٹری ایک شخص کے نام سے کی گئی، اور پھر دسیوں سال اس مدرسہ کو چلانے کے بعد مدرسہ کو بیچ دیا، اس جگہ اب رہائش گاہ بن گئی ہے، اور یہ کہا کہ اس روپے سے مدرسے کے لیے دوسری جگہ خریدی جائےگی، جب دوسری جگہ خریدی گئی تو جگہ کو مولانا صاحب نے اپنے نام سے رجسٹری کرائی جو کہ چندے کا روپیہ تھا۔یہ شخص مسجد کے پیش امام ہیں، انھیں امامت کی تنخواہ ملتی ہے، دعا تعویذ بھی کرتے ہیں، ان کے حجرے میں بےوقت عورتیں پائی گئیں، اعتراض کرنے پر انھوں نے غنڈوں کا استعمال کیا۔ لہذا آپ سے گزارش ہے کہ اس معاملے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دیں۔

فتاویٰ # 1769

ہمارے قصبہ اننت ناگ میں دو چار آدمی فیملی پلاننگ کیے ہوئے ہیں۔ کیا وہ باجماعت نماز پڑھ سکتے ہیں؟ یا ان میں کوئی امامت و اذان دے سکتا ہے؟ اور اگر ان کو روک دیا گیا تو مسجد شریف میں کوئی آدمی نظر نہیں آئےگا۔ براے مہربانی مسئلہ سے آگاہ فرمائیے۔ والسلام۔

فتاویٰ # 1770

جو خفیہ طور پر کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے، اور ساتھ ہی امامت بھی کرتا ہے، اور اس کے ان افعال پر صرف اس کے دوست ہی مطلع ہیں۔ اگر اس کے احباب اس کا اعلان نہ کریں تو وہ گنہ گار ہوں گے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1771

گاؤں میں دو بھائیوں کے مابین نزاع تھا، ایک بھائی بکر نے جھوٹی قسم کھاکر تمام جائداد ہڑپ لی، اس نزاعی معاملے کے بارے میں استفتا کرکے مختلف دار الافتا سے جواب طلب کیا گیا، جن میں بریلی شریف اور براؤں شریف بھی شامل تھے، دونوں دار الافتا کے جواب میں بکر کو لائق توبہ اور قابل سزاے دنیا و آخرت ٹھہرا کر، مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ جب تک علانیہ توبہ کرکے اپنے بھائی سے معافی نہ مانگ لے اس وقت تک سلام و کلام بند کرکے معاشرتی بائیکاٹ کردیں۔ ایک عالم دین چند مہینے قبل گاؤں میں تشریف لائے، انھوں نے تنہائی میں بلا کر توبہ کروالی اور دیگر افراد کو مطلع بھی نہیں کیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کے توبہ کروا لینے سے اس کے وہاں کھانا پینا جائز ہوگیا؟ تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اور جب ان کے سامنے جواب استفتا پیش کیا گیا تو انھوں نے غور کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر دیکھنے کے لائق ہوا تو دیکھا جائےگا، ورنہ نہیں‘‘۔ حالاں کہ سبھی فتاوے قابلِ سند دار الافتا کے ہیں۔ شریعت مطہرہ کی رُو سے ایسے عالم کے پیچھے نماز کی اقتدا کرنا یا دوسرے معاملات میں ان سے رابطہ رکھنا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1772

(۱) ایک امام صاحب جو کہ عالم ہیں لوگوں کے ساتھ ٹیبل پر کھانا رکھ کر اور کرسی پر بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ کیا امام صاحب کے لیے یہ جائز ہے؟ اور ایسے امام کے پیچھے نماز درست ہے؟ (۲) رمضان شریف کے موقع پر محلہ کے لوگ امام صاحب اور دوسرے لوگوں کو دعوت افطار کراتے ہیں، جس کی وجہ سے بوقت مغرب مسجد خالی ہوجاتی ہے، جب کہ مسجد میں افطار وغیرہ کا معقول انتظام ہے۔ امام صاحب کے نہ ہونے کی وجہ سے مؤذن صاحب نماز پڑھاتے ہیں، جو نماز کے مسائل سے ناواقف اور قرآن کو لفظ کی ادایگی کے ساتھ پڑھنا نہیں جانتے ہیں۔ کیا ایسی صورت میں نماز سے پہلے امام صاحب کا دعوت میں جانا صحیح ہے؟

فتاویٰ # 1773

جو لوگ سعودی عرب یا ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں سنی امام نہیں، وہ لوگ اپنی نمازیں کیسے ادا کریں؟

فتاویٰ # 1774

(۱) آج کے ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے لوگوں کو سنیت کی طرف رغبت دلانے کے لیے مسجد کے امام کو کس طرح کام کرنا ہوگا؟ (۲) قبلہ رخ ہونے کے بعد بیت المقدس امام کے داہنے طرف ہے یا بائیں طرف؟ امام فجر اور عصر میں داہنی طرف رخ کرکے دعامانگتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا اسی طرف بیت المقدس ہے۔ (۳) مسجد کے امام کو بونس لینا کیسا ہے؟ (۴) کنجوس و بخیل امام کے پیچھے نماز ہوتی ہے یا نہیں؟ (۵) مسجدمیں داخل ہوتے وقت اور جمعے کا خطبہ دینے کے لیے منبر پر جاتے وقت امام اپنا بایاں پیر پہلے رکھتا ہے۔ اس کاکیا حکم ہے؟ (۶) امام، مسجد میں بیٹھا قبلہ کی طرف پیٹھ کرکے قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے۔ یہ طریقہ کیسا ہے؟ (۷) ایک سال سے امام عصر و عشا کی غیر مؤکدہ سنتیں بالکل نہیں پڑھتا ہے، پوچھنے پر جواب دیتا ہے کہ مجھے شروع سے اس کی عادت نہیں ہے۔ حکم بتائیں۔ (۸) یہاں کے زیادہ مصلی داڑھی منڈے ہیں، اور چند مصلیوں کی داڑھی چھوٹی ہے، مؤذن کی حاضری یا غیر حاضری میں کبھی کوئی مصلی خوشی سے اقامت و اذان کہہ دیتا ہے، یہاں ایک نئے امام آئے ہیں، وہ چھوٹی داڑھی یا داڑھی منڈے کو اذان و اقامت سے روکتے ہیں جس کی وجہ سے جماعت میں پھوٹ پڑ گئی ہے۔ اب کیا کیا جائے؟ (۹) ایک حافظ کو امامت کی جگہ رکھا گیا، امام نے شرط لگائی کہ بیوی بچوں کو یہاں نہیں لاؤں گا؛ لیکن ہر چھ۶ ماہ بعد چھٹی پر فتح پور، یوپی گھر جاکر بچوں سے مل کر واپس آجاؤں گا۔ چھ ماہ کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی خرچ کی لالچ سے نہیں جا رہا تھا، ایک۱ یا دو۲ ماہ بعد گھر جاکر ایک مہینہ گھر رہ کر واپس آنے کے بعد اس کی تنخواہ لے لیا۔ کیا یہ جائز ہے؟ چند مصلی اس کے اس کارنامے کو ناپسند کرتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی اقتدا نہیں کرتے۔ اس بارے میں کیا حکم ہے؟ (۱۰) یہاں ایک مسجد ہے جس کے تحت ایک باغ اور چند دُکانیں ہیں، جن کی آمدنی سےمسجد کا پورا خرچ چلتا ہے، رمضان میں افطار کے لیے مسجد کی آمدنی سے گنجی بنتی ہے، روزے دار اور محلہ کے بچے افطار میں شامل ہوتے ہیں، ایسا شروع سے جاری ہے۔ اس کو امام غلط اور ناجائز کہتا ہے۔ حالاں کہ امام نے رمضان میں ایک روز افطار میں گنجی پیا ہے۔ پوچھنے پر جواب دیتا ہے کہ مجھے جائز ہے آپ لوگوں کے لیے نہیں جائز ہے۔ اس لیے کہ مجھے مسجد کے مال سے تنخواہ ملتی ہے، میں کھا سکتا ہوں، آپ لوگ نہیں کھا سکتے۔ تو کیا یہ امام کے لیے جائز ہے؟ اور جو سلسلہ شروع سے جاری ہے، اس کو غلط اور ناجائز کہنا اور اپنے لیے جائز کہنا یہ کہاں کی دین داری ہے۔ (۱۱) بہت سے لوگ نماز جنازہ اور عیدین کے ارکان اچھی طرح نہیں جانتے، شیر بنارس مولانا عبدالحمید صاحب قبلہ، قبل از نماز، نماز کا طریقہ اچھی طرح سمجھاتے تھے، پھر بھی جس کو سمجھ میں نہیں آتا اس کے لیے کہتے کہ جو نیت امام کی وہ میری کہہ کر نماز ادا کریں۔ یہاں کا امام کہتا ہے یہ طریقہ غلط اور ناجائز ہے۔ کوئی مقتدی ایسی نیت ہرگز نہیں کرسکتا۔ اس سے نماز نہ ہوگی۔ اس سلسلے میں صحیح کیا ہے؟ واضح کریں۔ (12) امام اور مؤذن کی آپس میں نہیں بنتی۔ان دونوں کی یہ حالت دیکھ کر ایک مصلی نے امام سے پوچھا کہ آپس میں کیوں نہیں صلح کرلیتے ہو؟ تو امام جواب دیتا ہے کہ مؤذن فاسق ہے، اس لیے میں اس سے نہیں بولتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ جب امام، مؤذن کو فاسق کہتا ہے، یا جانتا ہے تو اس کی اذان و اقامت پر نماز پڑھا سکتا ہے یا نہیں؟ واضح رہے کہ مؤذن لباس و داڑھی کے اعتبار سے باشرع ہے۔ (13) یہاں شروع سے نماز جنازہ مسجد کے صحن میں پڑھانے کی عادت جاری ہے، ایک نیا امام آیا ہے، جو ان سب کو مکروہ تحریمی اور گناہ کہتا ہے، اور کہتا ہے: جو جنازہ صحنِ مسجد میں رکھ کر دوسروں سے پڑھایا جائےگا یا اس کے لیے مجھے بلایا جائےگا تو میں اس میں ہرگز شرکت نہیں کروں گا۔ امام کے اس قول وفعل سے جماعت میں پھوٹ پڑ گئی ہے۔ اب کیا کیا جائے؟ (14) زید پتلون اور بوشٹ پر پنج وقتہ نماز پڑھتا ہے، لیکن داڑھی نہیں ہے پھر بھی قول و فعل کا سچا اور پکا ہے۔ اور ایک امام ایسا ہے کہ باشرع ہونے کے باوجود جھوٹ بولتا ہے، اب ان دونوں میں کون بہتر ہے؟

فتاویٰ # 1775

زید پیش امام ہے اس نے تقریر میں کہا کہ حضرت امام حسن کو ان کی بیوی نے زہر دیا۔ ایسے امام کے لیے کیا حکم ہے؟ اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1776

ہمارے امام صاحب اپنی اہلیہ کے ساتھ مسجد کے صحن سے لگی ہوئی دیوار والے روم میں رہتے ہیں، یہ کہاں تک درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔

فتاویٰ # 1777

زید سنی صحیح العقیدہ، مسجد کا امام ہے، دُعا تعویذ کرتا ہے اور فال بھی دیکھتا ہے، اور اس پر یقین بھی رکھتا ہے اور لوگوں کو یقین بھی دلاتا ہے۔ آیا ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1778

(۱) اگر کوئی شخص امامت کے لیے کھڑا ہوجائے حالاں کہ مقتدی اس کو ناپسند کرتے ہوں اور وہ شخص سُنار کی دلالی کا پیسہ کھاتا ہو، تو اس کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ بینوا بالدلیل تؤجروا بالأجر الجزیل۔ (۲) زید اپنے محلے کی مسجد کا امام ہے،اس کا پانی کھینچنے والا موٹر چوری ہوگیا، امام مذکور کے لڑکے نے بکر کے سامنے اس واقعے کا ذکر کیا، اور پتا لگانے کے لیے بکر کو کچھ روپے دیے، بکر نے کچھ سامان کہیں سے بر آمد کرکے حوالے کردیا، تو امام کے لڑکے نے کہا جب تم موٹر کے سارے سامان بر آمد نہیں کرسکے تو میرا سارا پیسہ واپس کردو۔ دریں اثنا ایک دن امام مذکور کے لڑکوں اور اس کے گھروالوں نے بکر کو مارتے پیٹتے ہوئے اپنے گھر لاکر بند کردیا اور رات بھر زدو کوب کرتے رہے۔ صبح کو پولس نے گھر سے بکر کی لاش نکالی، جس کو بہت ہی بےدردی سے قتل کیا گیا تھا، اس کے ہاتھ پیر کی رگیں کاٹ دی گئی تھیں۔ کچھ دنوں بعد امام مذکور کی وفات ہوگئی، اور اب اس کا لڑکا وقتاً فوقتاً امام بن جاتا ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس کے پیچھے نماز، درست ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1779

(۱) سرور کائنات ﷺ نے مصلے پر امامت فرمائی ہے یا نہیں؟ مولانا راشد صاحب کا کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مصلے پر امامت نہیں فرمائی ہے، بلکہ صرف امامت کا لقب ہے۔ (۲) نیز کہا کہ حضرت علی نے مصلے پر امامت نہیں فرمائی ہے۔ ہم ان کو امام نہیں مانتے۔ نیز یہی بات حضرت امام حسن اور امام حسین کے متعلق بھی کہا ہے۔ یعنی اس نے بارہ امام تک انکار کیا ہے کہ انھوں نے امامت نہیں فرمائی ہے، صرف امام کہا جاتا ہے، یعقوب انصاری نے بھی مولانا راشد کی تائید کی ہے۔

فتاویٰ # 1780

کوئی سید امام صرف جمعے کی نماز کے لیے مسجد میں آئے اور بقیہ نمازیں باجماعت مسجد میں نہ پڑھے تو ایسے امام کے پیچھے جمعے کے نماز ہوگی؟

فتاویٰ # 1781

نماز کے اندر’’سورۂ قدر‘‘ میں لَیْلَۃُ الْقَدْرِ کے لفظ قَدْرکی دال ساکن کو مفتوح کرکےقَدَر، اَمْر کو اَمَر، فَجْرکو فَجَر،شَہْرکو شَہَرپڑھا تو نماز ہوئی یا نہیں؟ ایسی غلطیاں کرنے والوں کو امام بنانا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1782

ایسا امام جو ڈاکٹر ہو، شراب اور اسپرٹ آمیز انگریزی دوائیں مریض کو دیتا ہو، وقتِ علاج، غیر محرم عورتوں پر نظریں ڈالتا ہو، جھوٹ، بہتان اور غیبت شغل بنا لیا ہو، مسلمانوں میں انتشار پھیلا کر دینی مدرسوں کو نقصان پہنچاتا ہو اور امامت کی پابندی بھی نہ کرتا ہو۔ کیا ایسے امام کی اقتدا میں نماز درست ہوسکتی ہے؟ اگر فتویٰ آنے کے بعد بھی امامت سےباز نہ آئے اور کچھ لوگ ایسے ڈاکٹر کو اپنا امام بنائے رکھیں، تو ان سب کے بارے میں شریعت کاکیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1783

کوئی عالم اپنے بھائی کی بات غیر مسلم سے جاکر کہے اور ان کا فروں سے جھگڑا فساد ہو تو ایسے عالم کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1784

یہاں ایک مسجد میں جمعۃ الوداع کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد امام صاحب پانچوں وقت کے فرائض، اذان و اقامت سے، جماعت کے ساتھ ادا کرواتے ہیں، وہ اس طرح کی نمازوں کو قضاے عمری کہتے ہیں۔ثبوت میں کہتے ہیں کہ ہم ان نمازوں میں خدا ہی کو تو سجدہ کرتے ہیں، کیا خدا کو سجدہ کرنا حرام ہے؟ اس قضاے عمری کی ممانعت سے متعلق وہ فتووں کو بھی قبول نہیں کرتے۔ بکر کہتا ہے کہ امام صاحب یہ قضاے عمری لوگوں کے دباو میں پڑھاتے ہیں۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ امام صاحب اور بکر کے متعلق حکم شرع کیا ہے؟

فتاویٰ # 1785

زید ایک مسجد کا امام ہے، جس کو خالد و بکر نے مدرسہ اور مسجد کے لیے کچھ روپے دیے، تین ماہ تک کسی کو اس روپے کے متعلق خبر نہیں ہوئی، بعدہٗ چندہ دہندگان نے کمیٹی کے افراد سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ انھوں نے نہیں دیا ہے۔ اس کے بعد اراکین مدرسہ کی ایک میٹنگ ہوئی، تب امام صاحب نے پیسہ دیا، اس سے معلوم ہوا کہ اگر کمیٹی نہ ہوتی تو امام صاحب پیسہ نہیں دیتے۔ کیا ایسی صورت میں امام صاحب کی چوری ثابت ہوتی ہے؟ اور وہ امامت کے حق دار ہیں؟

فتاویٰ # 1786

زید ایک مسجد کا امام ہے،اس نے ایک غیر مسلم کے انتخاب میں مسلم و غیر مسلم عوام سے اس بنا پر اس کے لیے ووٹ طلب کیا کہ مذکورہ شخص نے دارالعلوم مجاہد ملت کی امداد تقریباً پانچ چھ ہزار روپے کے سامان سے کیا۔ تو کیا زید مذکور کا فعل شریعت کے خلاف ہے؟ اور زید امامت کے لائق نہیں؟ اور اگر ہے تو زید کو قابل امامت نہ جاننے والوں کے لیے شرعی حکم کیا ہوگا؟

فتاویٰ # 1787

زید ایک مسجد کا امام ہے، اکثر ظہر کے فرض سے پہلے کی چار رکعت سنت تنگی وقت کا بہانہ بنا کر پڑھے بغیر امامت کرتا ہے، کہتا ہے کہ جماعت کے بعد پڑھ لیتا ہوں، امام مذکور کی یہ عادت بن گئی ہے۔ ظہر کے پہلے کی چار سنتوں کے بجاے دو رکعت ہی پڑھتا ہے، سوال کرنے پر جواب دیتا ہے کہ ظہر سے پہلے دو رکعت ہی پڑھنے کا ثبوت حدیث شریف سے ملتا ہے۔ نیز جمعہ سے پہلے چار رکعت سنت پڑھے بغیر امامت کرتا ہے، سوال کرنے پر اس کا ثبوت بھی حدیث شریف سے دینے کا دعویٰ کرتا ہے؛ مگر اب تک ثبوت نہ دےسکا۔ لہذا ایسے امام کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟ تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1788

زید ایک عالم دین اور گاؤں کا امام ہے، اس کی موجودگی میں تعزیہ داری ہوتی ہے، مگر وہ روکتا نہیں۔ اگر وہ چاہے تو فوراً بند کرا سکتا ہے، مگر وہ سامنے بیٹھ کر تعزیہ دیکھتا ہے اور خود مجلسِ محرم پڑھتا ہے۔ کیا ایسے عالم کے پیچھے نماز جائز ہے؟

فتاویٰ # 1789

ہماری مسجد کے امام صاحب نماز جنازہ ہمیشہ پیر سےجوتا اتارے بغیر پڑھتے ہیں اور اس کو بلا کراہت جائز بتاتے ہیں۔ کیا اس میں کسی قسم کی کوئی قباحت نہیں؟

فتاویٰ # 1790

(۱) ہوٹل مالک نے جگہ کی تنگی کے باعث قبرستان سے تھوڑی سی جگہ حاصل کرنے کے لیے جو اس سے متصل ہے، مسجد کمیٹی سے کہا: ہم گاؤں کے عربی مدرسے کے لیے چھ ہزار روپے سالانہ دیں گے۔ یہ بات امام صاحب کو بتائی گئی، انھوں نے متعدد دار الافتا سے رجوع کیا تو جواب آیا کہ جائز نہیں۔ انھوں نے فتویٰ چھپالیا اورہوٹل مالک سے کہا آپ فتوے کے چکر میں مت پڑو۔ پھر امام صاحب کے اصرار پر اس نے پیشگی رقم جمع کردی۔ امام صاحب نے جواب دیا کہ عربی مدرسے کا فائدہ ہوتا ہے ہونے دو۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا قبرستان کی زمین فروخت کرکے مدرسے کے لیے رقم لینا جائز ہے؟ اور امام صاحب اور ہوٹل مالک پر شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ اور فتویٰ چھپانا کیسا ہے؟ (۲)یہاں بمبئی کی اکثر مساجد میں جمعے کے دن خطبے سےقبل قَدْ جَاءَکُمْ- الآیۃ پڑھا جاتا ہے اور ہمارے یہاں منور میں بھی۔ مؤذن صاحب بسم اللہ شریف نہیں پڑھتے ہیں، صرف أعوذ باللہ پڑھ کر شروع کردیتے ہیں۔ زید نے اس کی وجہ دریافت کی، تو مؤذن نے کہا کہ امام صاحب منع کرتے ہیں۔جب امام صاحب سے تسمیہ نہ پڑھنے کی وجہ دریافت کی گئی، امام صاحب حافظ قرآن اور عالم بھی ہیں، انھوں نے فرمایا کہ آیت، سورۂ توبہ کی ہے؛ تسمیہ نہیں پڑھنا چاہیے۔ زید نے مؤذن کو قانون شریعت دکھا کر ایک جمعہ کو مع تعوذ و تسمیہ کے قَدْ جَاءَکُمْ- الآیۃ پڑھوا دیا، تو امام صاحب زید سے ناراض ہوگئے اور بولے آپ نے بسم اللہ کیوں پڑھوایا؟ آپ نے ایک مسنون طریقے پر اتنا زور کیوں دیا؟ زید امام کا خیال کرتے ہوئے ان سے معافی مانگتا رہا، لیکن وہ بار بار یہی کہتے رہے کہ ایک مسنون طریقے پر اتنا زور کیوں دیا۔ بمشکل تمام بادلِ ناخواستہ معاف کیا۔ اور محض ضد کی وجہ سے بسم اللہ شریف پڑھنے پر آج تک پابندی لگا رکھی ہے۔ ایسا کرنے پر شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ جواب سے نوازیں۔

فتاویٰ # 1791

ایک عالم دین جو جامع مسجد کے امام ہیں، رمضان المبارک کے موقع پر مدرسے کے نام پر زکات فطرہ وصول کرکے لاتے ہیں، اور خود اپنی تنخواہ اسی روپے سے لے لیتے ہیں، اور جامع مسجد میں محلے کے چند بچوں کو تعلیم بھی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مدرسے کے صدر مدرس ہیں، جب کہ مدرسے کی کوئی تعمیر موجود نہیں، تو کیا جو لوگ ان کی اقتدا میں نماز پڑتھے ہیں، ان کی نماز ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1792

ایک شخص کی داڑھی حد شرع بلکہ اس سے زیادہ بڑی ہوگئی ہے، وہ داڑھی کو لپیٹ کر باندھ دیتا ہے، یا یوں ہی لپیٹتا ہے، باندھتا نہیں جس سے داڑھی چھوٹی دِکھتی ہے۔ اس طرح باندھنا یا لپیٹنا کیسا ہے؟ کیا ایسے شخص کے پیچھے نماز ہوجائےگی۔

فتاویٰ # 1793

پیر صاحب نے کہا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کو وسعت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔ (ابن ماجہ) اس پر زید نے کہا: ’’جو ایسا کہے وہ کافر ہے‘‘۔زید مسجد کا امام ہے۔ اس سلسلے میں پیر صاحب کا کہنا صحیح ہے یا نہیں؟ اور زید پر شریعت کی جانب سے کیا حکم ہوگا؟ اور اس کے پیچھےنماز جائز ہے یا نہیں؟ بحوالہ کتب معتبرہ جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1794

عمرو ایک مسجد کا امام و خطیب اور عالم ہے، امسال اس نے عید الاضحیٰ کی نماز خبروں پر پڑھادی اور قربانیاں کرادیں۔ جب اعتراض ہوا کہ ۲۹؍ ذو القعدہ کو چاند نظر نہیں آیا اور نہ شہادت گزری، پھر آپ نے خبر پر عید الاضحیٰ کی نماز پڑھوائی، اور قربانیاں کروائیں۔ اس پر عمرو نے حضرت علامہ مفتی محبوب عالم صاحب نعیمی سے اس بارے میں استفتاکیا، تو مفتی صاحب کا فتویٰ آیا کہ خبروں پر اتوار کے دن عیدالاضحیٰ پڑھنے اور قربانیاں دینے والوں کی نماز اور قربانیاں نادرست ہوئیں۔ فتویٰ آنے کے باوجود عمرو نے چھپا رکھا،بلکہ اس فتوے کو پھاڑ کر پھینک دیا۔ عمرو نے ایک مسئلۂ شرعیہ اور فقہ کی عربی عبارتوں کی توہین کا جرم کیا۔ لہذا عمرو کے لیے شرعاً کیا حکم ہے؟ اس کی اقتدا میں نمازیں درست ہیں یا نہیں؟ اور اس پر علانیہ توبہ واجب ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔

فتاویٰ # 1795

زید ایک سنی صحیح العقیدہ عالم ہے، جو مسجد میں پنج وقتہ کا امام اور جمعہ کے دن خطبہ دینے اور نماز پڑھانے کے علاوہ ایک کالج میں پروفیسر ہے، جو روزانہ اس کالج میں بے نقاب یا بے پردہ بالغ لڑکیوں کو عربی مضمون (Arabic Subject) کی تعلیم دیتا ہے، تو کیا ایسے امام (زید) کے پیچھے نماز صحیح ہوسکتی ہے، اور کوئی کراہت لازم نہیں آتی؟ امید کہ تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں گے۔

فتاویٰ # 1796

زید امامت کرتا ہے، نماز پڑھاتے وقت شیروانی کے دونوں بٹن لٹکتے چھوڑ دیتا ہے۔ زید بھینس کی اوجھڑی کھاتا ہے، اور بچوں سے قرآن شریف ختم ہونے پر ہدیہ کے طور پر ایک سو اکاون[۱۵۱] روپے منگاتا ہے، اور نہ لانے پر خفا رہتا ہے۔ اور دھاتوں کی چین والی گھڑی بیرون نماز پہنتا ہے۔ حل طلب امر یہ ہے کہ یہ سب فعل از روے شرع صحیح ہیں؟ زید کے پیچھے پڑھی ہوئی نماز مکروہ ہوگی؟

فتاویٰ # 1797

زید ایک مسجد کا مؤذن ہے، اور غسال کا بھی کام انجام دیتا ہے، اور نماز پڑھانے کی بھی صلاحیت ہے۔ سوال یہ ہے کہ امام کی غیر موجودگی میں یہ مؤذن نماز پڑھا سکتا ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1798

زید ذات کا مہتر ہے، اسکے چھ سات لڑکے ہیں، ذاتی پیشہ باجا بجانا اور سوپ چلنی بناکر فروخت کرنا ہے، سبھی لڑکے زید کے ساتھ ہی رہتے ہیں، لگن کے زمانے میں باجا بجانے اور لونڈا نچانے کا سٹا لیتے ہیں، ساری آمدنی زید ہی کو ملتی ہے اور زید امامت کرتا ہے۔ ایسی صورت میں زید کی رقم مسجد میں لگائی جاسکتی ہے؟ نیز زید کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1799

زید عالم دین ہے، امامت بھی کرتا ہے، وہ ہائڈروسیل کا آپریشن کرانا چاہتا ہے، تو کیا آپریشن کے بعد زید امامت کرسکتا ہے؟

فتاویٰ # 1800

زید سنی صحیح العقیدہ کو منافق کہتا ہے، تو زید کو امام بنانا از روے شرع کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1801

جمعہ کے دن منبر پر مثال دینے کے لیے امریکہ، لندن وغیرہ کا ذکر کرنا کیسا ہے؟ امام صاحب کہتے ہیں کہ ٹی وی نہیں دیکھنا چاہیے اور خود دوسری جگہ جاکر دیکھتے ہیں۔ ان کے سر کا بال انگریزی کٹ، ہاں داڑھی شریعت کے موافق ہے۔ مدرسے کے خرچ کے لیے ٹیبل، کرسی، برتن، دیگ وغیرہ سامان لوگ بھاڑے پر لےجاتے ہیں جس سے مدرسہ چلتا ہے، ان سے پہلے ایک شخص سو روپے کے بجاے بیس روپے کمیشن پر کام کرتا تھا، انھوں نےکہا مجھے کمیشن نہیں چاہیے۔ لیکن جب ایک سال ختم ہوا، تو لوگوں نے انھیں دو ہزار روپے دیے، تو انھوں نے کہا کہ مجھے کمیشن چاہیے۔ چناں چہ ۳۹۰۵، روپے انھوں نے لیے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ امام، امامت کے لائق ہیں یا نہیں؟

فتاویٰ # 1802

(۱)ایک مولانا صاحب بہار شریعت کے مسائل کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تراویح کی قراءت میں اگر لقمہ لگے تو سجدۂ سہو واجب ہے۔ ہم نے کہہ دیا تو امام صاحب پر لازم ہے کہ سجدۂ سہو کریں، چاہے بہار شریعت میں ہو یا نہیں۔ یہی مولانا صاحب اپنے کو پنڈت یعنی جیوتشی بتاتے ہیں اور لکھتے ہیں۔ کیا ان کا یہ فعل درست ہے؟ کیا وہ لائقِ تعظیم ہیں؟ ایسے مولانا اور ان کی حمایت کرنے والے شخص کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ (۲)اگر کوئی شخص واقعات کی صورت بدل کر مفتی صاحب سے فتویٰ حاصل کرے، اور اسی کی بنیاد پر عالم دین و حافظ اور امام مسجد کی نہ صرف توہین کرے، بلکہ اس کی بنیاد پر مسلمانوں میں اختلاف پیدا کرے اور فخریہ یہ کہے کہ یہ فتویٰ بریلی سے آیا ہے، ایسے شخص کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1803

زید صوم و صلاۃ کا پابند ہے، مگر ذریعۂ معاش آتش بازی کا روزگا ہے۔ اس صورت میں زید امامت کرسکتا ہے یا نہیں؟ اور آتش بازی سے حاصل کیا گیا روپیہ کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1804

زید کی لڑکی ہندہ کو ناجائز حمل ٹھہر گیا، مگر زید کو اس بات کی کوئی خبر نہیں تھی۔ اب حمل تقریباً چھ ماہ کا ہوگیا۔ زید کو فکر ہوئی کہ اگر حمل نہیں گرایا گیا تو بےعزتی ہوگی۔ حمل ساقط کرانے کےلیے ڈاکٹروں کے پاس لےگیا، مگر کوئی آسان صورت نہ نکل سکی۔ کیا مذکورہ صورت میں زید کے پیچھے نماز درست ہوسکتی ہے؟

فتاویٰ # 1805

آج کل کے فتنے کے ڈر سے نماز کے لیے جماعت ترک کردینا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1806

بانی مسجد، مسجد کا امام اور متولی دونوں ہوسکتا ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1807

فرقۂ تفضیلی کا پیر جس نے اہل سنت کے سنی حضرات اور سنی مولویوں کو مرید کیا، اور خلافت دی۔ جب کہ مولوی صاحبان رضویہ سلسلہ سے مرید ہیں اور امامت بھی کرتے ہیں۔ایسے کی امامت جائز ہے یا نہیں؟ شرعی حکم کیا ہے؟ ہم نے اس پیر تفضیلی کی کتاب پڑھ کر اس فرقے کے بارے میں سنی ادارے میں سوال کیا، اس کا جواب ادارے نے دیا۔ اور سوال و جواب تصدیق کے ساتھ شائع کیا۔ مولوی حضرات کو دستی رقعہ بھی بھیجا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ جس ادارے سے وہ فتویٰ نکلا، اسی ادارے کے جلسے میں وہ مولوی صاحبان تقریر کرنے کے لیے مدعو کیے گئے ہیں۔ کیا اس ادارے کے مفتی صاحبان ان مولوی صاحبان کو اپنے اسٹیج سے تقریر کرا سکتے ہیں۔ اور ان مولوی صاحبان نے جو تفضیلی فرقےسے بیعت و خلافت حاصل کی ہے اور کتاب میں ان مولوی صاحبان کے نام درج ہیں، ا ن کے لیے شرعی حکم کیا ہے؟ بینوا توجروا۔

فتاویٰ # 1808

(۱)نماز میں جہاں کہیں سورہ پڑھنے میں آگے پیچھے ہوگئی، یا درمیان سے کوئی آیت چھوٹ گئی تو عوام کو خاموش کرنے اور درستیٔ نماز کی خاطر جو امام سجدۂ سہو کرتا ہو، حد یہ کہ نماز جمعہ میں سجدۂ سہو کرتا ہو، اس کا کیا حکم ہے؟ (۲)دعاے قنوت نازلہ، فجر کے علاوہ مغرب میں بھی پڑھتا ہو اور روا سمجھتا ہو، ایک عالم کے ٹوکنے پر نہ آج تک نماز لوٹائی اور نہ لوٹانے کا حکم دیا۔ بلکہ صحیح بتانے والے کے خلاف اپنے حامیوں سے گالی دلاتا اور علما کی توہین کرتاہو، اس کی امامت کیسی ہے؟

فتاویٰ # 1809

ایک شخص کو سٹا کھیلتے ہوئے پکڑا جائے، وہ ہوٹلوں میں بیٹھ کر بےحیائی اور فحش باتیں کرے، اور لوگوں کے سامنے کسی نامحرم عورت سے اپنے عشق کا اظہار کرے، اور مباشرت کے متعلق یہ کہے کہ میں ہفتے میں دوبار نہیں چھوڑتا، ان سب باتوں کا اقرار بھی کرتا ہو، اور ذمہ دارحضرات کے دریافت کرنے پر کہہ دے کہ میں نے تو مذاق کیا تھا۔ نیز بکر یہ کہے کہ آپ لوگوں کو جس نے بتایا وہ اپنی عورت کو کیوں نہیں سنبھالتا۔ اورجب مولوی زید کے سامنے بکر کی موجودگی میں ان باتوں کو پیش کیا جائے تو زید اپنی مرضی سے یہ کہہ دے کہ انھوں نے توبہ کرلیا ہوگا۔ پھر جب زید سے یہ کہا جائے: کیا سو بار گناہ کرتے جاؤ، توبہ کرتے جاؤ، توبہ قبول ہوتی جائےگی۔ اور پھر بکر کہے کہ میں نے تو توبہ کرلیا ہے۔ تو کیا بکر جیسا شخص امامت کا حق دار ہوسکتا ہے؟ براے کرم جواب مرحمت فرماکر مشکور فرمائیں۔

فتاویٰ # 1810

امام کے لیے کتنی چیزوں کا ہونا شرط ہے؟ کیا بغیر داڑھی والوں کا اذان اور جمعہ میں خطبہ وغیرہ دیناد رست ہے؟ مدلل ومفصل جواب واضح فرمائیں۔ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1811

اگر کسی نماز میں سب ہی ڈاڑھی منڈے ہوں تو وہ اپنی نماز جماعت سے ادا کریں گے یا تنہا تنہا۔ بصورت اول کیا ان پر بھی نماز کا اعادہ واجب ہوگا یا سنت مستحب؟اس دوسرے مسئلہ کا جزیہ تلاش کیا کہیں نہ ملا اس لیے حضور جزیہ کی صراحت ضرور فرما دیں۔ عالمگیری میں یہ جزئیہ ضرور ہے کہ اگر امام ومقتدی کی حالت تساوی ہے تو بھی اقتدا جائز اور امام کی حالت مقتدی کی حالت سے بہتر ہو تو بھی جائز۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز واجب الاعادہ نہیں ہونی چاہیے۔

فتاویٰ # 1813

مسجد میں تین قسم کے مصلی جمع ہوتے ہیں جو ترتیب وار حسب ذیل ہیں: (۱)- وہ شخص جو حافظ ہے، صاحب ترتیل وتجوید ہے مگر داڑھی ایک مشت سے کم رکھتا ہے۔ کٹوا کر چھوٹی کروالیتا ہے۔ (۲)- دوسرا وہ شخص جو تجوید تو نہیں جانتا مگر داڑھی ایک مشت ہے لیکن وہ ٹیلی ویژن خرید کرلایا ہے۔ (۳)- تیسرا وہ شخص جو گھر کا مالک وخود مختار ہے مگر اس کی اولاد نے اس کی مرضی کے خلاف ٹیلی ویژن لاکر لگایا ہے۔ واضح رہے کہ مالک خانہ (باپ) منع بھی نہیں کرتا کہ ٹیلی ویژن ختم کرو۔ بلکہ کبھی کبھی وہ خود بھی دیکھ لیتا ہے۔ تو آیا ان تینوں اشخاص میں سے کون امامت کر سکتا ہے؟ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1814

زید چند خصلتوں کا مرتکب ہے مثلا مسلمانوں کو مکروفریب کے دامن میں پھنسانا، امانت میں خیانت کرنا، زید کسی مسجد میں گیا اور وہ بھی سنیوں کی مسجد میں حادثہ یہ ہوا کہ موصوف کا جوتا چوری ہو گیا اس بنا پر زید جلال میں آگیا اور زبان حال سے برجستہ مکرر الفاظ میں بآواز بلند یہ کہا کہ ’’اس مسجد میں آنا کفر ہے‘‘۔ زید نے بریلوی گروپ کے چند جید عالموں کو یہ کہا کہ ’’کچھ علماے کرام اسٹیج کے نچنیاں ہیں‘‘۔ عمرو بھی چند خصلتوں کا مرتکب ہے جیسے زکات صحیح طریقہ سے نہیں نکالتا اور ساتھ ہی ساتھ صوم وصلاۃ کا بھی پابند نہیں ہے۔ عمرو نس بندی بھی کرا چکا ہے اپنی مرضی سے اورحد شرع کے مطابق داڑھی بھی نہیں ہے۔ بکر بھی چند خصلتوں کا مرتکب ہے ۔ موصوف بھی صوم وصلاۃ کے پابند نہیں۔ فلم دیکھنا، برسر راہ تاش میں منہمک رہنا، غیر مذہب لوگوں کے ساتھ برابر میل ملاپ ، حد شرع داڑھی بھی نہیں رکھتا اور ساتھ ہی ساتھ فلمی گانے بھی گاتا ہے۔ لہذا مندرجہ بالا مسائل کے جواب از روے شرع عنایت فرمائیں کہ آیا ان لوگوں کے پیچھے نماز اد کی جائے گی یا نہیں؟ اور شرع ان کے اوپر کیا فتوی لاگو کرتی ہے؟ بیان فرمائیں۔ نوٹ: اگر ہو سکے تو داڑھی کی حد شرع عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1815

فاسق معلن کو امام بنانا گناہ اور ان کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے۔ (بہار شریعت) امر طلب یہ ہے کہ داڑھی کتروانے والا اور داڑھی منڈوانے والا دونوں فاسق معلن ہیں یا نہیں دونوں کا گناہ بالاعلان ہے یا نہیں؟ اگر دونوں فاسق معلن ہوں تو داڑھی کتروانے والے کے پیچھے داڑھی منڈانے والے کی نماز ہوگی یا نہیں اگر نہیں ہو سکتی ہے تو امام بنانے والے پر شرعی حکم کون سا نافذ ہوتا ہے؟ مفصل تحریر فرمائیں۔

فتاویٰ # 1816

ایک معذور ہے قطرے کا اور ایک یا چند قرآن کریمہ کو صحیح نہ پڑھنے والے ہیں ’’س‘‘ کو ’’ش‘‘ اور ’’ق‘‘ کو ’’ک‘‘ اور اس کا عکس ومثل پڑھنے والے تو امام کون ہو؟ جب کہ برابر ایسا ہوتا ہے امام مقرر ہے مگر جب وہ نہ ہو ،ہفتہ پندرہ دن کے لے گھر یا کہیں اور چلا گیا ہو اگر دونوں نہ پڑھائیں تو جماعت ہی مسجد میں نہ ہو ایسے حال میں کیا ہو؟ عوام کا طعن الگ۔

فتاویٰ # 1817

زید امام ہے اور سرکاری نوکری کرتا ہے ، کیا اس امام کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1818

جیل کے اندر ایک ہی بیرک میں پچاس سے زیادہ مسلم بندی رہتے ہیں اور پانچوں وقت کی نماز باجماعت اداکرتے ہیں ان پچاس آدمیوں میں ایک حافظ ہیں جو دیوبندی عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں تعلق ہی نہیں بلکہ علانیہ دیوبندی ہیں اور ایک مولوی صاحب ہیں جو اپنے آپ کو سنی بتاتے ہیں ، افعال وکردار سنیوں جیسے ہیں لیکن ان کے متعلق عوام اور پولس کی نگاہ میں لواطت کے کئی مقدمے ہیں ۔ اور ہم میں سے کچھ آدمی ایسے ہیں جو نماز تو پڑھا سکتے ہیں لیکن وہ مسائل نماز اور فن تجوید سے پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ ان تینوں مذکورہ بالا صورتوں میں ہم لوگ کن کی امامت میں نماز پڑھیں۔ دیوبندی حافظ یا لوطی مولوی یا جو قراءت میں تجوید کی رعایت نہیں کرپاتے یا فرداً فرداً؟ جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1819

شہر سمستی پور کی جامع مسجد جس کے احاطہ میں ایک مدرسہ بھی ہے ایک جنازہ آیا جامع مسجد کے امام کو جنازہ نہیں پڑھانے دیا، ایک دیوبندی مُلّا جس کا نام ناظم ہے اسی نے امامت کی مدرسہ ہذا کے تمام مدرس مع طلبہ اس کی اقتدا نہیں کی لیکن مدرسہ ہذا کا ایک قاری اس نے اس دیوبندی کی اقتدا کرلی ۔ جب جامع مسجد کے امام اور مدرسہ ہذا کے مدرس نے دریافت کیا کہ آپ نے ان کی کیوں اقتدا کی تو قاری نے کہا کہ ہم یوں ہی کھڑے تھے۔ ہم نے اس کی اقتدا نہیں کی ہمیں تو جامع مسجد اور مسجد کو بچانا مقصود تھا بعدہ جن عوام نے اس دیوبندی ملا کی اقتدا کی تھی انھوں نے جامع مسجد کے امام کو برخواست کر دیا اور اسی قاری کو امامت کے لیے منتخب کر لیا، جس نے اس کی اقتدا کی تھی اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ قاری کا قول ’’ہم نے اس کی اقتدا نہیں کی، ہم یوں ہی کھڑے تھے‘‘ کہاں تک قرآن وحدیث کی روشنی میں صحیح ہے؟

فتاویٰ # 1820

زید ایک عالم دین ہونے کی حیثیت سے وعظ ونصائح بھی کرتا ہے۔ اور تقریباً دس سال سے امامت اور معلمی کے فرائض انجام دے رہا ہے اور شروع ہی سے سال میں ایک دو بار چھٹی لے کر اپنے وطن ضرور جاتا ہے مگر اپنے وعدے کے مطابق جتنے دن کی چھٹی لے کر جائے گا کبھی وعدے کے مطابق واپس نہیں آیا۔ اور نہ ہی کوئی اطلاع دیتا ہے۔ ایسی صورت میں امامت کے علاوہ بچوں کی تعلیم کا نقصان بھی ہوتاہے۔ ان کا یہ فعل شریعت کے مخالف ہے کہ نہیں؟ ایسی حالت میں زید کی امامت کہاں تک درست ہے؟ از روے شرع شریف جلد جواب تحریر فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1821

زید مسجد میں امامت کرتا ہے ان کے لیے ایک کمرہ ہے اس کے باوجود وہ مسجد میں پابندی سے سویا کرتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی مسجد میں سویا کرتے ہیں تو جو امام مسجد کا کمرہ رہتے ہوئے روزانہ مسجد میں سوتا ہو اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے اور دوسرے لوگ جو مسجد میں سوتے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1822

ایک قبرستان کے بارے میں جو درزی مسلمانوں کی تھی اس پر دو چار درخت بھی خود سے پیدا ہو کر بڑے ہوئے تھے دوران چک بندی ایک ہندو چمار نے یہ دعوی کیا کہ ہمارا باغ ہے، مقدمہ کھڑا ہو گیا۔ گاؤں کے ایک مسلمان نے یہ گواہی دے دی کہ یہ قبرستان نہیں ہے بلکہ ہندو چمار کا باغ ہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ ہر عدالت سے یہ ہوتا آیا کہ جب ایک مسلمان کہتا ہے کہ ہندو کا باغ ہے تو کیسے قبرستان مان لیا جائے۔ آخر کار مسلمان درزی ہار گیا۔ اور قبرستان اس کے ہاتھ سے نکل گئی۔ جس مسلمان نے گواہی دی ہے وہ نمازی اور پرہیزگار بھی ہے اور کبھی کبھی نماز بھی پڑھاتا ہے۔ کیا ایسے جھوٹے کے پیچھے نماز پڑھی جا سکتی ہے؟

فتاویٰ # 1823

ایسے امام کے پیچھے نماز ادا کی جائے یا نہیں جس کے پیچھے دل رجوع نہ ہو اور دل کراہت کرے چاہے وہ کسی بھی مسلک کا ہو؟

فتاویٰ # 1824

پرانے معاملہ کے فیصلہ ہونے کے بعد زید کی زبانی بکر کو پتہ چلا ، عمرو نے زید کو آیندہ کے خطرات سے ہوشیار کیا۔ تو پھر بکر کے خلاف زید نے مسجد سے اپنا خطرہ دور کرنے کا ایک منصوبہ اس طرح سے تیار کر کے بیان کیا کہ میرے پیچھے آپ کی نماز نہیں ہوگی کیوں کہ مجھے جس سے عداوت ہوتی ہے میں اس کے لیے نیت ہی نہیں کرتا ہوں اپنی امامت میں مقتدی کی شرکت کے لیے۔ (۱) -امامت کی نیت کیسی ہوگی مقتدی کے لیے؟ (۲) -جھوٹا مسئلہ بیان کرنے کی سزا کیا ہے؟ (۳) -نمازی کو مسجد سے اور نماز جماعت سے روکنا جھوٹے مسئلے کی آڑ میں کیسا ہے؟ (۴) -عداوت میں اغلام بازی کی تہمت لگوانا کیسا ہے؟ (۵) -جھوٹ بول کر دوسرے کو ہٹ دھرمی سے جھٹلا کر فتنہ برپا کرنے اور کرانے کی عادت بنا لینا کیسا ہے؟ (۶) -ایسے امام کے پیچھے جو نمازیں پڑھی گئیں یا پڑھی جائیں گی ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ (۷) -کیا ایسے عالم کو ماں، بہن، بیٹی کی گالی دینا کفر ہے؟ ان سوالات کے جوابات نمبر وار عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1825

(۱) -ایک بیوہ نے امام کو مکان بیچنے کے لیے خود مختار بنایا اس نے مکان بیچ دیا اور بیوہ کو آدھی رقم دی اور آدھی رقم کے بارے میں کہتا ہے کہ مجھ سے خرچ ہو گئی۔ اس صورت میں امام پر غصب کا حکم لگے گا یا نہیں اور ایسے امام کی اقتدا درست ہے یا نہیں؟ (۲) -امام اتنا کم علم ہے کہ اس سے جماعت کے روبرو ایک عالم نے کہا کہ تو پانچ کلمہ صحیح پڑھ کر سنادے اور بہار شریعت کا حصۂ اول کا صفحہ اول پڑھ کر سنا اور سمجھا دے تو ہم مانیں کہ تجھے کچھ آتا ہے۔ امام مذکور اس پر تیار نہیں ہوتا۔ کیا ایسے بے علم کو امام بنانا درست ہے؟ (۳) -امام مسئلہ بیان کرتا ہے کہ آغا خانی شیعوں کی دیگ میں کھانا پکانا جائز ہے۔مسئلہ صحیح بیان کرتا ہے لیکن خود آغا خانی شیعوں سے تجارت کرتا ہے ۔ ایک شیعہ تاجر کے ہزاروں روپے اس کے ذمہ باقی ہیں۔ کیا ایسے بے عمل کی اقتدا درست ہے؟ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1826

(۱) -زید امام مسجد ہے اس نے پہلی رکعت میں سورہ حشر کےرکوع آخر کی اول کی آیات پڑھیں۔ دوسری رکعت میں ان کے بعد کی ایک آیت چھوڑ کر باقی دو آیات پڑھیں نماز ختم ہوجانے کے بعدعمرو نے معلوم کیا کہ امام صاحب اس طرح ایک آیت چھوڑ دینے سے نماز میں تو کوئی نقص نہیں آیا ۔اس پر زید نے سختی سے کہا کہ خاموش ہو کر بیٹھیے میں خوب جانتا ہوں، میں نے قصداً آیت چھوڑی ہے لیکن نماز ہونے نہ ہونے کے متعلق کچھ نہ بتایا۔ (۲) -زید نے دوران تقریر کہا کہ قرآن کریم کا مرتبہ حضور اقدس ﷺ سے زیادہ ہے۔ لہذا گزارش ہے کہ زید کے مذکورہ آیت چھوڑنے کے سبب نماز میں نقص آیا یا نہیں، اور زید کا یہ قول کہ ’’قرآن کریم کا مرتبہ حضور اقدس ﷺ سے زیادہ ہے ‘‘ کہاں تک درست ہے اور زید کے لیے کیا حکم ہے جواب سے جلد نوازا جائے۔ (۳) -زید کھلے وہابیوں کے متعلق دعا منگواتا ہے کہ وہ بھی ہمارے بھائی ہیں ان کے لیے دعا کرو کہ خدا ان کو توبہ کی توفیق دے ۔ اندرون خانہ وہابی علما سے تعلقات رکھتا ہے، ان کے ہاتھ کا ذبیحہ کھاتا ہے اس کے جتنے رشتہ دار اور برادری والے ہیں ان سے تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں۔

فتاویٰ # 1827

اگر امام کی بیوی ہمہ وقت بے پردہ بازار میں گھومتی ہو اس پر زید کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے ۔ براے کرم بروے شریعت مسئلہ کے اعتبار سے اس شک کو دور کریں ۔ عین نوازش ہوگی۔

فتاویٰ # 1828

(۱) -زید جامع مسجد کا امام ہے اور مدرسہ کا مدرس بھی ہے لیکن سونے کی انگشتری استعمال کرتا ہے اور بعض دفعہ تو انگشتری پہن کر نماز پڑھاتا ہے۔ (۲) -ایک روز تقریر کے دوران امام مذکور نے کہا کہ میرے خلاف اگر کسی نے کچھ کہا تو میں اس جامع مسجد کو جنگ خانہ بنا دوں گا۔ لہذا ایسے امام کے بارے میں کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1829

نچلول بازار کے قریب ہی ہرپور کلاں ایک موضع ہے جہاں پر مسلمان شیعہ امام اور اسی کی بنوائی ہوئی مسجد میں نماز پنج گانہ ادا کرتے ہیں ۔ جمعہ بھی پڑھتے ہیں ۔ ان کی نماز ادا ہوگی یا نہیں اس سوال کا جواب ارسال کریں ۔ عین کرم ہوگی۔

فتاویٰ # 1830

کیا وہابی دیوبندی امام کی اقتدا میں سنیوں کی نماز درست ہوگی یانہیں بصورت دیگر سنی امام کے پیچھے وہابیوں کی نماز ہو جائے گی یا نہیں۔ مفصل اور مدلل جواب سے سرفراز فرمائیں اور عند اللہ ماجور ہوں۔ فقط

فتاویٰ # 1831

مقیم امام کی اقتدا میں مسافر مقتدی کو قصر کی نماز پڑھنے کا کیا طریقہ ہوگا جب کہ کچھ مقیم اور کچھ مسافر نماز کے شروع ہی سے کھڑے ہوئے ہوں اور کچھ مقتدی مسافر دو رکعت پڑھنے کے بعد نماز میں شامل ہوئے ہوں مطلع فرمائیں۔

فتاویٰ # 1832

فتوی نمبر ۲۰۶۴ کی رو سے زید فاسق معلن مانا گیا اگر زید بذات خود چوڑی پہنانے کا کام ترک کردے اور دکان پر رہ کر عورتوں کو چوڑیاں بیچ دیا کرے اور زید کی اہلیہ بے پردہ رہ کر چوڑیاں پہناتی ہو تو کیا زید امامت کر سکتا ہے؟

فتاویٰ # 1833

(۱) -امام صاحب کو عید کے دن گھوڑا پر دولھا کی طرح مع ڈھول و انگریزی باجا عید گاہ جانا کیسا ہے؟ (۲) -رمضان کی ۲۷؍ تاریخ کو صلاۃ اور سات اذان دینا جائز ہے یا نہیں؟ (۳) -عید کے دن منبر پر کھڑا ہو کر صلاۃ اور اذان دینا جائز ہے یا نہیں؟ (۴) -اگر مؤذن اذان دے رہا ہے اور امام کو کوئی دوسرا شخص پکڑ کر لے جائے کہ فلاں ضرورت ہے پس امام پیسے کی لالچ میں چلا گیا تو اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ امام کا اس ضرورت کے تحت جانا از روے شرع جائز ہے یا نہیں۔

فتاویٰ # 1834

زید نہ حافظ وقاری نہ مولوی نہ عالم وفاضل کچھ بھی نہیں صرف کلام پاک اور تقریر کر لیتا ہے وہ بھی زبر زیر پیش مد کا اور مذکر ومؤنث کا کچھ احتیاط نہیں ، مخرج بالکل غلط ہے کیا وہ امامت کے لائق ہے۔ جس زید کے لیے بستی دو پارٹی ہو جائے ( اور وہ بھی اہل سنت ہوں) اور زائد مقتدی ناراض ہوں اور کم مقتدی اس زید کے پیچھے اقتدا کرتے ہیں وہ بھی مجبوری پر اور شرع کے خلاف نماز پڑھاتا ہے کیا وہ امامت کے لائق ہے کیا اس زید کے پیچھے نماز ہوگی؟ زید زیادہ ترجھوٹ بولتا ہے اور لوگوں کے درمیان تفرقہ ڈالتا ہے اور اس کو بستی سے نکال دیا گیا ہے اس کے باوجود بھی زبردستی نماز پڑھاتا ہے اگر بستی والے کسی اچھے جان کار امام کو کھڑا کرتے ہیں تو زید خود امامت کرنے کے لیے دوسروں کے سامنے اس امام کی غیبت کرتا ہے اور اپنی بہادری بيان کرتا ہے اور ایک دوسرے سے لڑتا ہے ،از روے شرع کیا وہ امامت کے لائق ہے؟ زید اپنی نماز میں بہت تکبّر اور دوسروں کے سامنے گھمنڈ بھی کرتا ہے اور نماز میں جان بوجھ کر گردن پھلاتا ہے کیا وہ امامت کے لائق ہے؟ زید بغیر اجازت کمیٹی کے مزار اقدس کا کل روپیہ اپنے اخراجات میں لاتا ہے اور اسے واپس نہیں لوٹاتا ہے کیا وہ امامت کے لائق ہے؟ از روے شرع امامت کون کر سکتا ہے اور امام ہونے کے لیے کیا کیا شرائط ہیں براے مہربانی جوابات سے نوازیں۔

فتاویٰ # 1835

مسجد شافعی کی ہے اور مصلی بھی شافعی ہیں ایسی صورت میں حنفی امام نماز پڑھا سکتا ہے یا نہیں؟ اگر پڑھا سکتا ہے تو شافعی لوگوں کی نماز درست ہوگی کہ نہیں؟ حنفی مسجد ہے مصلی بھی حنفی ہیں مگر امام شافعی ہے کیا شافعی امام کی اقتدا میں حنفی لوگوں کی نماز ہو جائے گی؟

فتاویٰ # 1836

آج سے دو سال قبل ایک حافظ صاحب جو داڑھی منڈاتے تھے ان سے توبہ کروا کے اقرار لے کر مصلے پر کھڑا کیا گیا بعد رمضان المبارک پھر انھوں نے داڑھی منڈانا شروع کر دیا اب کی مرتبہ رمضان شریف کے موقع پر وہ پھر توبہ کر کے گزشتہ تقصیر پر نادم ہو کر داڑھی رکھنے کا اقرار کریں تو کیا اب بھی ان کو مصلے پر چڑھا یا جائے گا؟

فتاویٰ # 1837

جو امام چین والی گھڑی اوقات نماز کے علاوہ پہنے تو کیا اس امام کی اقتدا میں نماز پڑھنا صحیح ہے یا نہیں ؟ خالد صرف نمازی ہے اور جو امام چین دار گھڑی باندھتے ہیں ان سے خالد نے یوں کہا کہ ’’جب تک تم چین والی گھڑی باندھوگے اس وقت تک میں تمہاری اقتدا نہ کروں گا ‘‘۔ سال گزر گئے لیکن خالد ہمیشہ تنہا نماز ادا کرتا ہے جب کہ امام نماز پڑھاتے وقت گھڑی اتار کر جماعت کرواتے ہیں تو کیا خالد کا کہنا اور اس کی نماز درست ہوئی یا نہیں؟ حدیث وشریعت کی روشنی میں جواب دیں۔

فتاویٰ # 1838

گاؤں کے امام صاحب کو لوگوں نے بلا کر لوٹے ہوئے بیل ، بکری وغیرہ کو امام صاحب سے ذبح کرایا اور امام صاحب نے ان لوگوں کو کچھ نہیں کہا ، منع بھی نہیں کیا بلکہ ان لوگوں کا ساتھ دیا ، امام صاحب نے خود ذبح کیا اور سب لوگ کھائے اور کھلائے لہذا امام مذکور کی امامت اور گاؤں کی جو ذمہ داری امام صاحب پر رہتی ہے وہ سب کام امام صاحب کا کرنا شرعاً کیا حکم ہے، اور ان کی امامت شرعاً درست ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1839

زید فاتحہ، قربانی یا میلاد شریف وغیرہ میں جب تک پیسہ نہیں لے لیتا فاتحہ نہیں کرتا، قربانی نہیں کرتا، جب تک سر یا گوڑی نہ لے لے ۔ گاؤں میں غریب لوگ رہتے ہیں اکثر غریبوں کے یہاں فاتحہ کرانے کے عوض میں پیسہ نہ دینے پر فاتحہ نہیں ہوتا۔ گاؤں کے بہت لوگ اعتراض کرتے ہیں مگر انھیں زید اپنی باتوں کی وجہ سے خاموش کر دیتا ہے ۔ زید کی وجہ سے گاؤں میں پارٹی بندی بھی ہو گئی ہے۔ مندرجہ بالا مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے فتوی صادر فرمائیں کہ کیا زید جو فعل انجام دے رہا ہے صحیح ہے؟ اور صحیح ہے تو کہاں تک؟ کیا زید امامت کے لائق ہے اور زکات، فطرہ کھلیانی کا مستحق ہے؟

فتاویٰ # 1840

امام باڑے پر تعزیہ کے ساتھ شیرینی رکھ کر یا بغیر تعزیہ کے فاتحہ پڑھنے والے امام کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1841

زید ایک انگریزی داں ہے لیکن وہ کسی ایسے فعل کا مرتکب نہیں ہے جو غیر شرعی ہو ، داڑھی بھی رکھتا ہے۔ محلہ کی مسجد میں پنج گانہ نماز اور جمعہ کی نماز کی امامت بھی کرتا ہے اور دس پارہ حفظ بھی کیا ہے ۔ کیا ایسا شخص عیدین کی امامت کر سکتا ہے یا کہ نہیں؟

فتاویٰ # 1842

گزارش ہے کہ ہمارے یہاں ایک شخص ہے جو اپنی برادری والوں سے مالی حالت میں اچھا ہے لیکن پیسہ کے غرور میں خاندان والوں کو پریشان حال رکھتاہے یہاں تک کہ کنویں کا پانی بھی بند کر دیا ہے جو اسی کے دروازے پر ہے اور کچھ گھرفقیروں کا ہے جو بالکل غریب طبقے کے ہیں ان لوگوں کے مکان کے صحن سے ہوتے ہوئے اپنے پاخانہ کا پانی کھلے عام جاری رکھے ہے، ان لوگوں کو کافی پریشانی ہوتی ہے دروازے پر بیٹھنا دوبھر ہوجاتا ہے پھر بھی اس عمل کے ہوتے ہوئےامامت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جس کا جی چاہے میرے پیچھے نماز پڑھے یا نہ پڑھے مجھے پرواہ نہیں ہے۔ مسئلہ مسائل کی ہر بات پر جھگڑے پر تیار ہو جاتا ہےتو کیا ایسے شخص کا امامت کرنا درست ہے یا نہیں؟ کیا ایسے شخص کے پیچھے نماز درست ہو سکتی ہے؟

فتاویٰ # 1843

زید امام ہے اور اپنے کو عالم بتاتا ہے بلکہ عالم کی سند بھی اس کے پاس موجو دہے ۔ اور ’’إیاك نعبد‘‘ میں عین پر زبر اور ’’إیاك نستعین‘‘ میں ت کے بعد الف اور ’’صراط‘‘ میں الف کو عین اور ’’فذلك الذي يدع الیتیم‘‘ میں عین کی تشدید چھوڑ کر ، ’’إنا أنزلناہ‘‘ میں ’’شہر‘‘ کے ’’ھ‘‘ پر زبر اور کہیں ’’تقویم‘‘ کی قاف پر زبر اور ’’عملوا الصلحت‘‘ کو ’’عاملوا الصلحت‘‘ اور کہیں ’’ووضعنا‘‘ کے الف کو چھوڑ کر نماز پڑھاتا ہے اور اکثر الفاظ قرآن میں جہاں صرف پیش ہے وہاں واو، جہاں صرف زبر ہے وہاں الف اور جہاں زیر ہے وہاں ی اور جہاں واو یا الف یا ی ہے وہاں واو الف یای کو گرا کر نماز پڑھاتا ہے۔ آیا ایسی نماز ہوتی ہے یا نہیں اور ایسا شخص امام ہو سکتا ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1844

ایک شخص نے تالی گم کر دی در حقیقت اس تالی کو امام صاحب نے چھپا کر رکھ لیا تھا جب اس شخص نے اپنی تالی تلاش کرنا شروع کیا تو امام نے اس شخص سے کہا کہ میں ایک تعویذ بنا کر دوں گا جس سے آپ کی چیز مل جائے گی نیز جو تعویذ امام نے دیا وہ ایک عورت کی تصویر کےمشابہ تھی اب جو امام اس قدر بے ادبی کا تعویذ استعمال کرے عند الشرع اس امام کے لیے کیا حکم ہے؟ وہ شخص امامت کا اہل ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1845

محترم سلام مسنون، کیا فرماتے ہیں علماے ملت اسلامیہ اس مسئلہ میں کہ: ایسا امام جس سے الفاظ صاف ادا نہ ہوں اور ودیگر ارکان صلاۃ سے بھی وہ بخوبی واقف نہ ہو اور نماز کے ارکان بھی پوری طرح ادا نہ کرتا ہواس کے پیچھے نماز ادا ہوگی یا نہیں ؟ بعض کا کہنا ہے کہ امام بنگالی ہے اور ان کی زبان میں لکنت قدرتی ہے اس لیے نماز ہو جائے گی۔ بعض کا کہنا ہے کہ معذور کے پیچھے غیر معذور کی نماز نہیں ہوگی اب حقیقت کیا ہے وضاحت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1846

ایک لڑکے کی عمر تقریباً پندرہ سال ہے اور اٹھارہ پارے کا حافظ بھی ہے کیا ایسا شخص امامت کے لائق ہے کہ نہیں؟

فتاویٰ # 1847

ایک شخص آل رسول ہونے کا دعوی کرتا ہے لیکن شخص مذکور زکات،صدقات فطرہ وغیرہ کل رقم لیتا ہے۔ اپنے اور اپنے اہل وعیال پر خرچ بھی کرتا ہے کیا ایسے شخص کے پیچھے نماز درست ہے؟ اور شخص مذکور کو امام مقرر کرنا جائز ہے؟

فتاویٰ # 1848

زید ایک امام ہے مگر کہیں بھی کسی ایک مسجد میں مستقل طور پر مقرر نہیں ہو سکا کیوں کہ عادۃ وہ فتنہ پرور ہے۔ جب وہ ایک مسجد میں پیش امام تھا تو اس کے سالے نے کسی کا سونے کا زیور چرایا اور امام کولا کر دیا اور امام نےسالے کے ساتھ اس کو پگھلا دیا اور اسے فروخت کرنے میں مدد دی۔ دوسری ایک مسجد میں زید بذات خود چوری کے معاملے میں ملوث رہا۔ اور دیگر اسباب کی وجہ سے معاملہ کورٹ تک جا پہنچا۔ نتیجہ میں وہاں کی امامت بھی ہاتھ سے جاتی رہی۔ تیسری ایک مسجد کے امام طویل رخصت لے کر بیرون ہند چلے گئے۔ ان کی جگہ اسی زید کا عارضی تقرر ہوا۔ کچھ دنوں کے بعد سابق پیش امام واپس آگئے مگر زید امامت سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں تھا بڑی مشکل سے ٹرسٹیان مسجد نے سابق امام کو بحال کیا۔ فی الحال زید جس مسجد میں پیش امام ہے وہاں اس نے تعمیر کا کام نکالا ہے اور ایک مشہور دیوبندی مولانا کی صدارت میں جلسہ کراکے چندہ کرایا۔ پہلے مسجد کی مرمت وتعمیر پر دو تین لاکھ کا خرچ تھا مگر اپنی من مانی کام کرانے کے لیے جس میں ایک نو مسلم صدر بھی پیش پیش ہے اب تک تقریبا ۱۴؍ لاکھ کا خرچ کراچکا ہے اور اپنا حجرہ بھی تعمیر کروالیا ہے۔ دوران مرمت و تعمیر سیمنٹ اور دیگر سامان فروخت کر کے جو کہ مسجد کے لیے وصول کیا گیا تھا اپنے لیے خرچ کیا، سیمنٹ بیچنے کے معاملے میں کافی شہادتیں موجود ہیں۔ مگر لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس سے علما بدنام ہوں گے اس لیے اس معاملہ پر پردہ پڑا رہے تو اچھا ہے مگر لوگوں کی اس ہمدردی کا زید غلط فائدہ اٹھا رہا ہے اور اپنے آپ کو مطلق العنان سمجھنے لگا ہے۔ زید اپنے آپ کو مولانا سمجھتا ہے اور کہتا بھی ہے ، حالاں کہ کئی لوگوں نے اسے اپنے حجرے میں رمضان کے دنوں میں کھانا کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ زید کے غیظ وغضب کا یہ عالم ہے کہ ذرا سے اعتراض پر وہ مسجد میں معترض کو گالیاں دیتا ہے اور اسے یہ یاد نہیں رہتا کہ اس نے فحش گالیاں دی ہیں۔ حتی کہ اس زعم میں اس نے ایک مقتدی کے اعتراض کے جواب میں یہ کہا کہ میں غنیۃ الطالبین، بہار شریعت، قانون شریعت اور فتاوی رضویہ کو اپنے سامنے کچھ بھی نہیں سمجھتا۔ اور یہ کہ جو کچھ وہ کہے گا وہ صحیح ہے کیوں کہ وہ ایک عالم ہے۔ زید کو اب نسیان کا مرض بھی لاحق ہے۔ نماز پڑھاتے وقت وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اس نے کتنی رکعت نماز پڑھائی ہے اور وہ رکوع اور سجود کے وقت پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے کہ مقتدی حضرات قیام کے لیے اٹھ رہے ہیں یا قعدہ کے لیے بیٹھ رہے ہیں تو اسی مناسبت سے وہ بھی قیام وقعدہ کرتا ہے۔ نماز پڑھانے کے سلسلے میں بھی زید کافی بدنام ہے۔ حجرہ میں موجود رہتے ہوئے بھی وہ نماز نہیں پڑھاتا۔ صبح کی نماز میں زیادہ تر غائب ہی رہتا ہے۔ مصلیان زید کو باہر دیکھتے ہیں جب کہ مسجد میں جماعت قائم رہتی ہے۔ اور اس کا ایک خود ساختہ نائب نماز پڑھاتا ہے۔ تو ایسے شخص کے لیے کیا حکم ہے ؟ کیا ایسے پیش امام کے پیچھے نماز ہو سکتی ہے؟ بصورت دیگر مذکورہ بالا واقعات کی روشنی میں اسے منصب امامت چھوڑنے کے لیے کہا جا سکتا ہے؟ براے مہربانی اس کا جلد سے جلد جواب دیں۔ فقط والسلام

فتاویٰ # 1849

(۱) -کیا شریعت میں اس بات کی کوئی حقیقت ہے کہ کسی آدمی کے جسم میں ان کے پیر کی روح کی آمد ہو یا کوئی ایسی ان دیکھی قوت حلول کر جائے جس کے ذریعہ سے وہ آدمی لوگوں کو پوشیدہ باتوں کی اطلاع دے سکے اب چاہے یہ باتیں ہوش میں رہ کر ہوں یا بے ہوشی کے عالم میں، من کل الوجوہ کیا حکم ہے؟ (۲) -زید اپنے آپ کو حضور مفتی اعظم ہند کا مرید بتاتا ہے اور زید گاہے بگاہے اپنے ہوش وخرد سے بے گانہ ہو جاتا ہے اور غیب کی باتیں بتانے لگتا ہے ۔ اس سلسلے میں زید کا دعوی ہے کہ میرے جسم میں میرے پیر کی روح کی آمد ہوتی ہے اور جو کچھ میں بتاتا ہوں در اصل میں نہیں بلکہ میرے پیر ومرشد بتاتے ہیں۔ تو کیا شریعت کی رو سے زید اپنے اس دعوے میں سچا ہو سکتا ہے یا نہیں، اگر نہیں تو کیا زید پر توبہ لازم ہے اور زید کی اقتدا میں نماز ہوگی یا نہیں؟ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1850

(۱) -ایک شخص جو کہ محفل سماع باجے کے ساتھ سنتا ہے، ایسے شخص کی گواہی عند الشرع مقبول ہے یا مردود اور وہ امامت کے لائق ہے یا نہیں حالاں کہ وہ اپنے پیر کے حکم سے سنتا ہے اور کوئی شرعی عیب نہیں ہے۔ (۲) -پوچھنے پر وہ یہ کہتا ہے کہ عشق مجازی ہی عشق حقیقی کا زینہ ہوتا ہے، یہ مجازی حال ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟

فتاویٰ # 1851

(۱) -ستر سالہ بوڑھے خطیب وامام جو بائیس سال سے اپنے محلے کی مسجد میں خطابت وامامت کا کام انجام دیتے چلے آرہے ہیں۔ متولی مسجد نوجوان نے امامت سے برطرف اس الزام پر کیا کہ ایک دو آدمیوں نے یہ شکایت کی ہے کہ امام صاحب کے ایک لڑکے کا ناجائز تعلق اس کی چچیری بہن سے ہے اس لیے ان کے پیچھے نماز درست نہیں ہے اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ جب کہ نہ محقق ہے نہ تصدیق۔ (۲) -امام صاحب نے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے متولی سے کہا کہ وہ تو میرے چھوٹے بھائی کی بیٹی ہے ہم جس وقت چاہیں نکاح کر سکتے ہیں اور ایک ہفتہ کے اندر کر بھی دیا۔ لیکن متولی صاحب آپ کو تو چاہیے تھا کہ شکایت کی تحقیق وتصدیق کرکے فتوی منگا کر فیصلہ سناتے نہ کہ کوئی کان میں کہہ دیا بس، نہ بیان لیا نہ گواہی نہ حلف ہی لیا نہ فتوی ہی منگایا اور آپ برطرفی کا فیصلہ سنا دیے ۔ کیا شریعت کا یہی حکم ہے۔ متولی نے یہ جواب دیا کہ ہم یہ سب کچھ نہیں جانتے ’’فتوی وتوی کے چکر میں ہم نہیں پڑیں گے‘‘، کمیٹی نے مجھ کو متولی منتخب کیا ہے ہم اس کا حکم مانیں گے۔ کمیٹی کے حکم کے مطابق متولی کی حیثیت سے ہم نے آپ کو امامت سے برطرف کیا ہے۔ تو امام بولے تو گویا خدا کے گھر (مسجد ) میں خدا کا حکم اس کے رسول کی شریعت نہیں چلے گی بلکہ کمیٹی کا حکم چلے گا۔ متولی بولے اب آپ جو سمجھیے ہم نے تو کمیٹی کے حکم کے مطابق متولی کی حیثیت سے آپ کو امامت سے برطرف کیا ہے۔ یہ واضح رہے کہ مصلیان سے کچھ مشورہ نہیں لیا گیا اس لیے کہ مصلیان میں مختلف برادری کے لوگ رہتے ہیں اور یہ حکم ایک برادری کے صرف چند لوگوں کا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ متولی اوراس کی کمیٹی کا ایمان رہا یا اسلام سے یہ لوگ خارج ہو گئے کیوں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کو ہٹا کر اپنا حکم نافذ کیا جب کہ امام کہہ رہے تھے فتوی کے لیے۔ اگر خارج ہو گئے تو کیا کرنا ہوگا اور اگر نہیں ہوئے تو ان کے لیے شرعی حکم کیا ہے؟ (۳) -اس مسجد میں نماز پڑھنا درست ہے جہاں خدا و رسول خدا کا حکم نہ چلے بلکہ کمیٹی کا حکم چلے؟ (۴) -اگر کوئی یہ کہے کہ ’’شریعت وریعت ہم نہیں جانتے کسی کا جی کسی کے پیچھے نماز پڑھنے کا نہیں چاہے تو کیا کیجیےگا‘‘، امام بولے خدا اور اس کے رسول کے حکم کے آگے آپ کی جی چاہنے اور نہ چاہنے کہ کیا معنی۔ تمام نیک اعمال برباد ہو جائیں گے اور جتنی نمازیں ان کے پیچھے پڑھی ہیں ساری لوٹانی پڑیں گی۔ شریعت کے حکم کو مذاق سمجھ رکھا ہےکیا، کیا یہ بات صحیح ہے؟

فتاویٰ # 1852

(۱) -زید گناہ کبیرہ کرتا ہے حالاں کہ وہ عالم ہے اور قوم بھی جانتی ہے اور اسی میں بکر ،خالد بھی عالم ہیں اور زید ان سبھوں کی امامت کرتا ہے تو اس قوم کی نماز اس کے پیچھے درست ہے یا نہیں اور بالخصوص عالم بکر اور خالد کی نماز ان کے پیچھے درست ہے یا نہیں؟ (۲) -خالد کا قول ہے کہ ’’ہم شرک کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے‘‘ تو اس کے بارے میں کیا مسئلہ ثابت ہوگا مدلل جواب عنایت کریں۔

فتاویٰ # 1853

کیا فرماتے ہیں علماے دین اس بارے میں کہ : ایک شخص نے جس کی داڑھی ایک مشت سے بھی کم ہے، خطبۂ جمعہ میں منبر شریف پر کھڑے ہو کر یہ کہا کہ ’’انسان کو ہدایت دینا اور لینا صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، اس کے سوا کسی نبی رسول یا ولی کو نہیں ہے اور ہمارے آقا ومولیٰ احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کے اختیار میں بھی نہیں ہے‘‘۔ کیا ایسے الفاظ استعمال کرنا صحیح ہے؟ کیا ایسے شخص کو اپنا امام یا قاضی شہر یا خطیب بنا کر اس کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ اور ان کے جیسا عقیدہ رکھنا کیسا ہے؟ قرآن وحدیث اور فقہ کی روشنی میں مطمئن جواب دیں۔

فتاویٰ # 1854

ایک مسجد کے امام سے اسی محلہ کے کچھ لوگوں نے شرینی لاکر میلاد شریف پڑھنے کو کہا تو امام مسجد نے کہا کہ ’’میلاد شریف پڑھنا کہاں لکھا ہے؟ اگر کہیں لکھا ہو تو ہم پڑھ دیں ‘‘۔ پھر کچھ دنوں کے بعد انھیں امام مسجد سے لوگوں نے میلاد شریف پڑھنے کو کہا تو انھوں نے جوابا کہا کہ ’’پچیس روپیہ دو تب میلاد شریف پڑھوں گا‘‘۔ اسی محلہ کے ایک صاحب نے پچیس روپیہ دیا تو امام مسجد نے میلاد پڑھی۔ اس پر کچھ لوگوں کو شکایت ہے کہ پہلے تو میلاد پڑھنے کے قائل ہی نہ تھے پھر پچیس روپیہ کے نام پر میلاد پڑھ دی۔ (۱) -ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے؟ (۲) -ایسے شخص کی امامت درست ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1855

(۱) -جو شخص امامت کرتا ہو اس کے لیے ننگے سر رہنا کیسا ہے؟ (۲) -سنیما دیکھنا کیسا ہے؟ جو شخص امام ہو اور کھلے عام سنیما دیکھتا ہو اس کا حکم کیا ہے ؟ اس کی اقتدا کیسی اس کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ (۳) -عمامہ کے بغیر پانچ وقت کی نماز پڑھا سکتا ہے کہ نہیں؟ (۴) -جو شخص امامت کرتا ہو اور اپنی بیوی کو بے پردگی کے ساتھ پھراتا ہو یا یہ کہ بیوی ملازم ہو کسی اسکول میں یا کسی دفتر میں جس کا غیر مردوں کے سامنے آنا جانا اور گفتگو کرنا اور ادھر ادھر بغیر پردے کے آنا جانا ہو ایسے امام کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ اگر ناجائز ہے تو اس کی اقتدا میں پڑھی ہوئی نمازوں کا کیا حکم ہے؟ مہربانی فرما کر جلد سے جلد جواب عنایت فرمائیں۔ فقط

فتاویٰ # 1856

جو لوگ عالم دین امام کو تنخواہ مقرر کر کے اس کو اپنا نوکر اور خادم سمجھتے ہیں اور اس پر حکومت دکھاتے ہیں ، ایسے لوگ عند اللہ کیسے ہیں اور اس کے پیچھے ان کی نماز ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1857

ایک شخص امام اور عالم ہے اور اس کی تنخواہ مقرر ہے ، اس کی عدم موجودگی میں نائب امام نماز پڑھاتا ہے مگر پھر بھی ایک دو شرّی اور فتنہ انگیز اپنی شرارت سے باز نہیں آتے جب کہ امام کی تعطیلات مقرر ہیں اور اس کے گھر جانے پر یا کسی رشتہ داری میں جانے پر ایک دو ہی شخص بلا وجہ کا اعتراض اور کبھی کبھی یہ جملے استعمال کرتے ہیں کہ ’’فری کی تنخواہ لیتا ہے اور اس کو کمیٹی کا کوئی فرد کچھ نہیں کہتا ‘‘اور بے ادبی کے جملے استعمال کرتےہیں ۔ کیا ایسے شخص کی اس امام کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1858

محفل میلاد پاک میں امام نے کہا ہے کہ مُردے کبھی بھی کسی پر مہربان نہیں ہوتے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس پیش امام کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟ قرآن واحادیث و اقوال علما کی روشنی میں وضاحت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔

فتاویٰ # 1859

زید نے بکر سے عمر کے متعلق مسجد میں چند کلمات کہے۔ بکر نے ان کلمات میں چند الفاظ کا اضافہ کر کے عمر سے چغل خوری کی اور زید وعمر میں جھگڑا پیدا کر دیا، دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا بکر امامت کے قابل ہے اور کیا زید کی نماز بکر کے پیچھے ہو جائے گی جب کہ زید بکر کے پیچھے نماز ادا کرنے میں کراہیت محسوس کرتا ہے۔

فتاویٰ # 1860

کیا امام سنت قبل از ظہر پڑھے بغیر فرض نماز ظہر پڑھا سکتا ہے یا نہیں؟ امام کو سنت پہلے پڑھنا ضروری ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1861

کیا امام بغیر کسی رشتہ کے کسی غیر عورت کے پاس رات کے بارہ ایک بجے تک بیٹھ سکتا ہے اور ناپاک عورت کے ساتھ مل کر بیٹھنا کیسا ہے؟ ابھی اس کو ایک ماہ کے قریب لڑکا پیدا ہواہے۔ اس پر تفصیل سے لکھیں۔

فتاویٰ # 1862

زید مسجد کا متولی ہے اور امام حاضر نہیں ، زید نے عمرو جس کی داڑھی شریعت کے مطابق نہیں ہے اس کو امامت کے واسطے کھڑا کیا اور خالد موجود ہے جو امامت کا حق رکھتا ہے تو خالد کی موجود گی میں عمرو نے جو نماز پڑھائی تو سب کی نماز ہوئی یا نہیں اور زید کے حکم پر عمرو نے نماز پڑھائی تو زید پر شریعت کا کیا حکم ہوتا ہے؟ جواب تحریر فرمائیں۔

فتاویٰ # 1863

زید کی والدہ اہل حدیث کی لڑکی ہے اور اہل حدیث ہی نے زید کی والدہ کا نکاح پڑھایا ہے ، نکاح کے بارے میں کیا حکم ہے؟ یہی زید اہل سنت کے مدرسہ میں پڑھاتا ہے اور کبھی کبھی امامت بھی کرتا ہے لہذا امامت کے بارے میں کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1864

کوئی امام ہیپی بال سر پر رکھتا ہے اور امامت کرتا ہے ، اس کی امامت درست ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1865

ایک معذور ہے قطرے کا کیا یہ نماز جنازہ پڑھا سکتا ہے؟

فتاویٰ # 1866

زید خود کو شریعت کا بڑا پابند بنتا ہے اور بہت سے لوگوں پر بے پردگی کی تہمت لگاکر گاؤں کے لوگوں کو بد ظن کرتا ہے اور کہتا ہے کہ غیر محرم کے سامنے ہونے سے شریعت یہ حکم دیتی ہے کہ اس سے قطع تعلق ، شادی بیاہ کرنا، مرنا، جینا کسی بھی معاملے میں شریک نہ ہوں۔ جب کہ زید کا یہ خود عالم ہے کہ اس کی سگی بھانجی اور سگے بھانجے کی بیوی بے پردہ انگریزی یونیورسٹی ڈریس میں چلتی ہیں اور بے پردہ گھومتی ہیں اور لطف تو یہ ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ یہ سب مرد وعورت بیٹھ کر ناشتہ وغیرہ کرتی ہیں۔ قبل اس کے زید کے گھر میں غیر مسلم برابر آتا جاتا تھا۔اور زید کا آنا جانا ، شادی بیاہ میں ان بے پردہ رشتہ دار مرد وں عورتوں سے برابر رہتا تھا۔ وہ آج بھی آتے رہتے ہیں اور غیر مسلموں کے ساتھ ناشتہ کرتے ہیں۔ اور کسی سے کوئی پردہ نہیں۔ ایسی صورت میں زید کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟ یا کسی طرح کا تعلق شادی بیاہ، مرنے جینے میں رکھا جا سکتا ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1867

ایک شخص تصویر کشی کا پیشہ کرتا ہے کیا ایسا شخص شرعی امام ہو سکتا ہے نیز یہ پیشہ کرنا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1868

دیوبندی عالم جو مولوی اشرفعلی تھانوی کے خلیفہ مسیح اللہ خاں ساکن جلال آباد سے مرید ہے وہ عرصہ دراز سے امامت کا کام انجام دیتا آرہا ہے لیکن اس کو سمجھنے سے پوری بستی والے قاصر تھے۔ ان کے ظاہری وباطنی کردار سے معلوم ہوا کہ وہ دیوبندی عقیدہ کا ہے اسی وجہ سے گاؤں میں دو جماعت ہو چکی ہے لہذا آپ صحیح جواب عنایت فرمائیں کہ اعلی حضرت فاضل بریلوی کے عقیدت مندوں کی نماز ان کے پیچھے ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1869

ایک شخص پانچ وقت کی نماز نہیں پڑھتا اور یہ شخص صرف جمعہ کی نماز اور عیدین کی نماز میں امامت کرتاہے ، کیا اس کی امامت درست ہے؟ علاوہ ازیں اس کی تشریح فرمائیں کہ منکر حدیث بکر کے ساتھ بحکم شریعت کیا کرنا چاہیے؟

فتاویٰ # 1870

زید ہمارے یہاں کا امام ہے اور وہ مسلک حنفی کی اقتدا کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ ایک مشت داڑھی رکھنا کوئی ضروری نہیں صرف داڑھی ہونی چاہیے، نہ داڑھی منڈانا حرام ہے نہ کترانا بلکہ وہ یہاں تک کہتا ہے کہ ہم کو کوئی صحیح حدیث راوی کے ساتھ دکھا دو جس میں یہ ہو کہ ایک مشت سے کم رکھنا حرام ہو یا کتروانا حرام ہو تو ہم دس ہزار روپیہ انعام دیں گے اور یہاں پر بلکہ پورے تمل ناڈو میں وبا پھیلی ہوئی ہے کہ اکثر امام یہاں کے داڑھی منڈے ہیں ، شاید وباید کوئی امام داڑھی والا ملتا ہے ایسی صورت میں یہاں کے لیے یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا اور دیگر شرعی کاموں میں اس کو امام بنانا کیسا ہے؟ براے کرم بحوالہ کتب تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1871

مسجد کے امام کے نہ آنے کی صورت میں ایک بغیر داڑھی والے حاجی صاحب پابند نماز، امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ جن میں امامت کی تمام شرطیں موجود ہیں۔ جیسا کہ قانون شریعت مولفہ مولانا شمس الدین رضوی جون پوری کی’’ امامت کی شرائط‘‘ میں مذکور ہے۔ مسئلہ یہ ہے: ’’امام کو مسلمان، مرد، عاقل، بالغ، نماز کے مسائل جاننے والا، غیر معذور ہونا چاہیے۔ اگر ان چھؤں باتوں میں سے کوئی بات نہ پائی گئی تو اس کے پیچھے نماز نہیں ہوگی۔ ‘‘ ( قانون شریعت ص: ۸۳۔) چوں کہ اس میں داڑھی ہونا شرط نہیں، اور جماعت کی تاکید بھی ستائیس گنا ثواب زیادہ۔ ایک غیر عالم صاحب نے اعتراض کیا کہ بغیر داڑھی والے کے پیچھے نماز نہیں ہوگی۔ آپ لوگ اپنی اپنی نمازیں الگ الگ پڑھیں۔ اور سخت معترض ہوکر شرعی ثبوت کے بغیر نمازیوں اور عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ لہذا التماس ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1872

بکرامام محلہ ہے اس کی بیوی نس بندی کرانے کے لیے تیار ہوئی بکر نے سمجھایا کہ نہ کراؤ جائز نہیں ہے وہ نہ مانی اور محلہ کی عورتوں کے ساتھ جاکر نس بندی کروالی۔ بکر نفرت کرتا ہے اور کر رہا ہے کہ نس بندی حرام ہے اب نماز ان کے پیچھے پڑھنا کیسا ہے اور دیگر امور دینیہ ان سے کروانا اور ان کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1873

(۱) -زید نے مدرسہ اسلامیہ کے صدر ہوتے ہوئے اپنے اور اپنے بیٹے (جو کانگریس پارٹی کے وائس چیرمین تھے) کے وقار کو بڑھانے کی غرض سے سادھوؤں ، پچاریوں کے شیلانیاس کے سلسلے میں نکالے گئے جلوس کے لیے مدرسہ انجمن اسلام کے سامنے استقبالیہ دروازہ قائم کیا اور مع انجمن کے ملازمین کے ہار پھول کے ساتھ جلوس کا خیر مقدم کیا۔ (۲) -زید موصوف قرآن خوانی کے موقع پر آپسی گفتگو میں جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور مغلظات گالیاں بکتے ہیں ، نیز قرآن پاک کی جھوٹی قسم کھانے کے عادی ہیں۔ (۳) -یہ کہ زید موصوف امامت کے منصب پر فائز ہوتے ہوئے انگریزی بال رکھنے کے شوقین ہیں۔ (۴) -زید موصوف نے اپنے بھتیجے کی بیوہ اور یتیم بچوں کی زمین پر ناجائز طور پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے جس کا کیس ہنوز چل رہا ہے۔ مقبوضہ اراضی کے مقدمہ کی پیروی کے سلسلے میں کچہری میں کذب پر مشتمل ثبوت پیش کیے۔ (۵) -زید مدرسہ اسلامیہ انجمن اسلام کے تقریباً بارہ سال سے صدر رہے لیکن اپنے زمانۂ صدارت میں انجمن کے آمد وخرچ کا کوئی حساب نہیں رکھا۔ جس کی وجہ سے قوم نے استعفیٰ کی مانگ کی لیکن موصوف نے کوئی پرواہ نہیں کی جس کی وجہ سے حالات ابتر ہوتے چلے گئے تب بحالت مجبوری صدارت کو چھوڑا مگر بارہ سال کا حساب ذمہ میں باقی ہے جس کی وجہ سے انجمن کی رقم کو غصب کرنے کے مرتکب ہوئے ۔ موصوف کی مذکورہ بالا شرعی واخلاقی خلاف ورزیوں کے سبب بہت سے لوگ ان کی امامت سے خوش نہیں ہیں اور وہ محلے کی مسجد کو چھوڑ کر شہر کی دیگر مساجد میں نماز پڑھتے ہیں۔ جب کہ کچھ شر پسند عناصر قرآن وحدیث سے ناواقف چاہتے ہیں کہ زید موصوف سے عید الاضحیٰ کی نماز پڑھوائیں۔ صورت مسئولہ میں کیا زید کی امامت عند الشرع درست ہے؟ جب کہ زید کی امامت سے محلہ کے افراد بھی خوش نہیں ہیں، کیا ایسے شخص کی اقتدا کے لیے مسلمانوں کو مجبور کرنا شرعا جائز ہے۔ جواب باصواب قرآن وحدیث کی روشنی میں عنایت فرما کر ممنون فرمائیں۔ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1874

زید سلائی کا کام کرتا ہے کچھ ہندو بھائی اپنی مورتی کا کپڑا سلواتے ہیں اور زید مورتی کے ناپ سے کپڑا سیتا ہے ۔ زید پر کیا حکم ہے؟ زید نماز کا پابند ہے اور کبھی کبھی امام کی غیر موجودگی میں امامت بھی کرتا ہے۔

فتاویٰ # 1875

اگر حافظ قرآن کی شادی میں کسی نااہلی کی وجہ سے ناچ ہوا ہو حالاں کہ وہ بلانے کا ضامن نہ ہو، وہ خود ان خرافات کا حامل وعاشق نہ رہا ہو نہ آج بھی ہے جب کہ درمیان میں گیارہ سال متواتر امامت اذان ملازمت مدرسہ کرتا رہا ہو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ پنج وقتہ امامت کر سکتا ہے؟ گاؤں کی بات ہے۔

فتاویٰ # 1876

جس کے گھر میں جذام ہو ، لڑکا مبتلاے مرض ہو اس کا باپ امامت ومؤذن کا کام انجام دے سکتا ہےیا نہیں ؟

فتاویٰ # 1877

جس امام کو ایک گاؤں سے تین بار ایک ہی مسجد سے ہٹایا گیا ہو اس کے پیچھے نماز ہوگی يا نہیں، خود امام گاؤں کا ہے۔

فتاویٰ # 1878

اگر مؤذن کانا ہے ، داڑھی شرعاً نہیں ہے تو اس کی اذان وامامت درست ہوگی يا نہیں؟

فتاویٰ # 1879

کسی مالک کے یہاں ایک نوکر رہتا تھا، رہتے رہتے مالک کی بیوی سے محبت ہوگئی۔ اس کے بعد اتفاقاً ایک دن نوکر مالک کی بیوی کو لے کر بھا گ گیا۔ نوکر بھی راضی تھا اور عورت بھی راضی تھی اس کے بعد مالک نے بھی کھوج نہیں کی۔ وہ دونوں کسی گاؤں میں رہنے لگے رہتے رہتے ایک لڑکا بھی پیدا ہوا پھر دوسرا لڑکا پیدا ہوا ،اسی طرح چار لڑکے پیدا ہوئے۔ پھر اس کے بعد لڑکا اور لڑکی نے ایک لڑکا کو پڑھایا وہ پڑھتے پڑھتے حافظ اور قاری ہوا۔ اب اس لڑکے کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ اس کا خلاصہ تحریر فرمائیں۔ پہلے والے شوہر نے آج تک طلاق نہیں دیا ہے، نہ تلاش کیا ہے اور نوکر بھی آج تک نکاح نہیں کیا ہے۔ کیا اس سے گاؤں والوں پر کچھ اثر پڑے گا؟

فتاویٰ # 1880

مسجد کے امام پر ایک لڑکی نے زنا کا الزام لگایا اکثریت کی نگاہ میں بظاہر امام مسجد نیک آدمی ہے اور اکثر وقت مسجد میں ہی رہتا ہے بچوں کو قرآن کی تعلیم اور حفظ قرآن کراتے ہیں ۔ بظاہر نیک ہے کم بولتے ہیں۔ اس گناہ یعنی امام صاحب کو زنا کرتے ہوئے یا لڑکی کا ہاتھ پکڑنے کا اشارہ کنایہ کرتے نہیں دیکھا ۔ صرف لڑکی یہ اقرار کرتی ہے کہ میرے ساتھ امام مسجد نے مسجد کے باہر زنا کیا ہے اور اس کا حمل بھی ہے اور لڑکی کا گھر بھی مسجد کے پاس ہی ہے۔ امام صاحب اس الزام سے انکار کرتے ہیں اور کوئی بھی عینی گواہ نہیں ہے تو امام صاحب کے پیچھے نماز ہو گی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1881

کیا بےریش نوجوان کے پیچھے نماز پڑھنا جب کہ اس سے بہتر شخص ریش والے اور امامت کے لائق موجود ہوں، نماز درست ہوسکتی ہے؟ اور بے ریش نوجوان مذکور کی امامت جائز ہے؟

فتاویٰ # 1882

امام نیند کی وجہ سے دو ایک روز فجر کی نماز جماعت سے نہ کرا سکا بلکہ کسی دوسرے مقتدی نے جماعت کرادی۔ اس میں ایک مقتدی سے باتوں باتوں میں جھگڑا ہوتے ہوئے امام نے کہا کہ مجھ پر تمہاری حکومت نہیں چلے گی۔ بات بڑھ گئی تو امام نے کہا کہ آج میں عشا کی جماعت نہیں کراؤں گا ، مقتدی نے کہا کہ ہم دیکھ لیں گے کیسے جماعت نہیں کراتے ہو۔ امام نے قصداً عشا کی جماعت نہ کرائی بلکہ کسی ایک مقتدی نے جماعت کرائی تو ایسے امام کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟ اور امام پر کیا حکم ہوگا۔ اور امام کے اسی بات پر وہ دوسرے محلے کی مسجد میں جاکر نماز پڑھتا ہے، ایسے مقتدی پر کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1883

زید کہتا ہے کہ سید اگر چہ سنیما دیکھے اور فاسق معلن ہو مگر اس کے پیچھے نماز پڑھنا یعنی اس کی اقتدا کرنا گو یا رسول اکرم کے پیچھے نماز پڑھنا ہے۔

فتاویٰ # 1884

بے نمازی کا بفرمان نبی ﷺ اسلام میں کوئی حق نہیں۔اس کے گھر میں آگ لگادوں۔اس کی نظر کسی شے میں ایک مرتبہ لگ جائے تو چالیس سال دن ورات تک وہ شے رحمت وبرکت سے محروم ہو جائے۔ مسلم وغیر مسلم میں صرف نماز کا فرق ہے۔ وبعض صحابہ کرام نے اسے کفر کہا۔ وبعض صحابہ کرام نے کہا وہ کافر ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ نے کہا اسے قید کیا جائے۔ امام شافعی نے کہا : اسے قید کیا جائے اور قتل کیا جائے۔ حضور غوث الوری ﷫ نے کہا : بے نمازی جب مرجائے تو اسے نہ غسل دیا جائے نہ کفن دیا جائے نہ نماز جنازہ پڑھی جائے نہ قبر ستان میں دفن کیا جائے۔لہذا اب ایسی صورت میں امام مسجد کو بے نمازی کے یہاں کھانا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ جواب مرحمت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1885

بہت سے سنی صحیح العقیدہ امامِ حرم کی اقتدا میں نمازیں ادا کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کی نمازیں ہوتی ہیں یا نہیں؟ مفصل ومدلل جواب تحریر فرمائیں۔

فتاویٰ # 1886

زید جو تقریباً چار پانچ سال سے منصب امامت پر فائز ہے ، پابند شرع ہے، سنی صحیح العقیدہ ہے ، ماشاء اللہ عالم دین بھی ہے لیکن شادی شدہ نہیں ہے ۔ تقریبا ۲۴؍ ۲۵؍ سال کی عمر ہے ، شادی کا منکر بھی نہیں ہے ، وقت کا انتظار ہے لیکن کچھ مقتدیوں کو اعتراض ہے کہ بغیر شادی شدہ امام کے پیچھے نماز درست نہیں اور امام صاحب بہار شریعت کا حوالہ دیتے ہیں کہ امامت کے شرائط میں سے کوئی شرط ایسی نہیں کہ امام کا شادی شدہ ہونا ضروری ہو۔ لہذا مقتدیوں کا نماز سے احتراز کرنا کہاں تک درست ہے؟

فتاویٰ # 1887

کیا فرماتے ہیں علماے دین مسئلہ ذیل میں کہ بد عقیدہ کو امام بنانا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1888

زید علم داں ہے اور اولیا اللہ کا شیدائی ہے، گاؤں میں فاتحہ درود کرتا رہتا ہے،میلاد شریف، گیارہویں شریف اور خواجہ غریب نواز کا فاتحہ بھی کرتا ہے۔ شریعت کا پابند ہے وقت پر امام ہو کر نماز بھی پڑھاتا ہے۔ زید کے دشمن برا الزام لگا کر اسے زانی قرار دے کے سزا بھی دیے ہیں ۔ زید نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دیا ہے مگر جھوٹی گواہی پانچ آدمی دے کر زید سے اس کی بیوی کو الگ کروادیے ہیں ۔ زید دوسری شادی مجبور ہو کر کر لیا ہے۔ مگر زید امام ہو سکتا ہے یا نہیں؟ زید پہلی والی بی بی کو لے سکتا ہے یا نہیں؟ شرع کی روشنی میں آگاہ فرمائیں۔

فتاویٰ # 1889

(۱) -زید ایک گاؤں میں امامت کرتا ہے۔ زید نے الجامعۃ الاشرفیہ عربی یونیورسٹی مبارک پور اعظم گڑھ یوپی سے قراءت حفص وسند فضیلت حاصل کی ہے۔ زید کو بفضل رب قدیر شیخ طریقت ومعرفت تاج دار اہل سنت مرشد کامل سیدی وسندی حضور مفتی اعظم علیہ الرحمۃ والرضوان سے شرف بیعت حاصل ہے ۔ الحمد للہ زید متشرع بھی ہے لیکن بکر - ایک پڑھا لکھا انسان ہے کسی خانقاہ کے بزرگ سے مرید بھی ہے - کا کہنا ہے کہ جو زید کے پیچھے نماز پڑھتا ہے وہ کافر ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بکر شاذو نادر زید کی اقتدا کرتا ہے۔ شاید وباید بکر امامت بھی کرایا کرتا ہے۔ بکر غیر متشرع بھی ہے بہت دنوں سے بکر کی فتنہ پروری محلے میں مشہور بھی ہے۔ (۲) -زید کی اقتدا کرنے والے کو بکر جہنمی گردانتا ہے ۔ کیا یہ سچ ہے؟

فتاویٰ # 1892

اگر مسجد میں نماز کے وقت سبھی بغیر داڑھی والے ہوں تو کیا سب کو اکیلے اکیلے نماز پڑھنا ہوگا؟ کیا ان میں سے کوئی امامت کر سکتا ہے؟ کیا بغیر داڑھی والے امام کے پیچھے نماز ہو جائے گی؟ (حالاں کہ جماعت بھی واجب ہے۔)

فتاویٰ # 1893

فجر کی نماز باجماعت نہ پڑھا ہوا شخص کیا جمعہ وعیدین کی نماز کی امامت کر سکتا ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1896

مسلمانوں (مرد وعورت) کو افزائش نسل روکنے کے لیے نس بندی یا کوئی اور طریقہ اختیار کرنا جائز ہے یا نہیں؟ کیا نس بندی کرائے ہوئے ایک متقی پرہیز گار شخص کی امامت میں نماز ادا کرنا درست ہے یا نہیں؟ یہ خلاصہ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ نس بندی سے صرف افزائش (FERTILITY) رک جاتی ہے اور حمل قرار نہیں پاتا وگرنہ تمام جنسی وفطری تقاضے پورے ہوتے ہیں اور اہلیہ کو کوئی شکایت نہیں ہوتی۔ دیگر اگر کبھی افزائش کی ضرورت محسوس ہو تو اس نس کو دوبارہ جوڑا جا سکتا ہے جس میں افزائش کے جراثیم ہوتے ہیں۔ عموما یہ نس بندی حکومت کے ایما پر کرائی گئی ہے۔

فتاویٰ # 1897

زید مسجد کا امام تھا اور غلطی سے بلاے زنا میں مبتلا ہو گیا گاؤں کے لوگوں نے اس کو شریعت کے مطابق سزا دیا ۔ اب وہ ہماری مسجد کا امام ہو سکتا ہے یا نہیں؟ لہذا آپ اس کا جواب قرآن وحدیث سے دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1898

زید کے لڑکے کی شادی بکر کی لڑکی سے طے ہوئی۔ بارات کے دن زید اور بکر کے درمیان کچھ باتیں ہوئیں جس کی وجہ سے بارات بغیر نکاح کے واپس ہو گئی ۔ اب زید کے بھائی نے اپنے پٹی داری (برادری)کے چچا زاد بھائی سے کہا کہ آپ اپنے لڑکے کی شادی بکر کی لڑکی سے کردو۔ بہر حال زید کے چچا زاد بھائی تیار ہونے لگے تو زید نے کہا کہ آپ اس لڑکی سے اپنے لڑکے کی شادی نہ کیجیے اس لیے کہ میرے لڑکے سے اور بکر کی لڑکی سے تعلق ہے۔ بارات جانے کے پہلے سے میرا لڑکا وہاں آتا جاتا تھا اور بارات واپس آنے کے بعد بھی تین بار گیا ہے۔ اس سے اور اس لڑکی سے تعلق ہے اور لڑکے نے خود بھی اقرار کیا ہے ، مثلاً لڑکے نے یہ کہا ہے کہ میں چھلانگ بھی لگا چکا ہوں وغیرہ وغیرہ۔آپ اگر شادی کر لیں گے تو ہم سے اور آپ سے دشمنی اور مارپیٹ بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ سب کہنے کے بعد جس لڑکی کی بارات واپس ہوئی تھی اس سے چھوٹا لڑکا جو ہے اس کے ساتھ زید نے بکر کی لڑکی سے شادی کر دی ۔زید کے باپ جو کہ حافظ اور مسجد کے امام بھی ہیں انھوں نے بھی جو باتیں زید نے کہی تھیں وہی باتیں کہیں۔ ایسی صورت میں از روے شرع زید کے لیے کیا حکم ہے اور حافظ موصوف کے پیچھے نماز پڑھی جائے کہ نہیں اور ان کے یہاں کھانا پینا جائز ہے کہ نہیں؟ شریعت کا جو حکم ہو جاری فرمائیں۔

فتاویٰ # 1899

ایک شخص قاضی شہر وامام جامع مسجد مقرر تھا ان کا انتقال ہو گیا۔ کچھ لوگ انھیں کے لڑکے کو امام بنانا چاہتے ہیں جنھوں نے اپنی خوشی سے نس بندی کرالی ہے اور معمولی پڑھے ہوئے ہیں صرف اس بنا پر کہ مرحوم امام کے بعد انھیں کے لڑکے ہی کا حق ہے، اور پڑھا لکھا طبقہ یہ کہتا ہے کہ ہمارے یہاں مولوی ، عالم، متقی، پرہیزگار موجود ہیں ان کے ہوتے ہوئے مذکور شخص اس لائق نہیں اور نہ امامت موروثی حق ہے۔ اور کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ نس بندی ہوگئی ہے تو کیا خطبہ یہ پڑھا دیں گے اور نماز دوسرا شخص پڑھا دےگا لیکن اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ خطبہ ہو یا نماز مولوی، عالم کے ہوتے ہوئے نس بندی والا شخص اس لائق نہیں۔ لہذا ایسی صورت میں کون سا شخص امامت کا زیادہ مستحق ہے؟

فتاویٰ # 1900

ایک مسجد ہے جس میں اکثر نمازی سنی صحیح العقیدہ ہیں ۔ اس مسجد کے ایک امام صاحب ہیں جو یتیم خانہ صفویہ، کرنیل گنج میں درجہ حفظ سے فارغ ہیں۔ ان کے پیچھے سبھی مقتدی نماز ادا کرتے ہیں لیکن اس مسجد کے چند اراکین دیوبندی اور جماعت اسلامی ہیں امام صاحب مذکور ان دیوبندیوں کے یہاں کھانا کھاتے ہیں اور نشست وبرخاست بھی ہے۔حالاں کہ تاکیداً امام صاحب کو اس سے منع کیا گیا اور حکم حدیث سنایا گیا۔ ’’ولا تواکلوھم ولا تجالسوھم۔‘‘ حدیث میں نہی بر بناے تحریم ہے یا تو بیخ ہے ، آگاہ فرمائیں اور امام صاحب مذکور کے پیچھے نماز پڑھنی جائز ہے کہ نہیں حالاں کہ وہ اپنے کو سنی بتاتے ہیں اور دیوبندیوں سے تعلقات بھی ہیں ۔ رمضان المبارک میں ان سے سنی ادارے کا چندہ وصول کرتا ہے ۔حکم شرع سے مطلع فرمائیں۔

فتاویٰ # 1901

ایک شخص عالم موضع ہے پیش امام بھی ہے اس کے پیچھے پانچوں وقت کی نماز کے علاوہ عید وبقرعید کی نماز بھی پڑھی جاتی ہے۔ اس کے وہاں اس کی بھتیجی کی شادی تھی اس سلسلے میں طوائف کو بلوایا گیا اور دروازے پر طوائف نے ہر اداکاری پیش کی۔ اور ہر ہندوانہ رسم کی ادایگی بڑی دھوم دھام سے ادا کی گئی۔ اور ایک بے گناہ مسلمان عورت کے ساتھ اس عالم نے ظلم کیا۔ اور ایسا کارنامہ دکھایا کہ اس کو جان سے مارنے کی کوشش کی۔ پہلی لاٹھی خود اس نے چلایا جو اس کے کندھے پر پڑی اس سے وہ بےچاری گر پڑی اور للکار کر گڑانسے سے اس کے سر پر شدید چوٹ دی گئی۔ اس میں علماے کرام کی کیا راے ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کا ضعیف باپ بھی پسٹل اور گڑانسی کے جرم میں قید کیا گیا ، کچھ دن جیل میں رہا ۔ کیا اس ضعیف باپ کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟ اور یہ عالم نسلاً حرامی بھی ہے۔

فتاویٰ # 1902

فیملی پلاننگ کرانا گناہ صغیرہ ہے یا گناہ کبیرہ، یا اسلام کے مزاج کے خلاف ہے؟ اس سے معافی کی کیا صورت ہے؟

فتاویٰ # 1903

زید سنی صحیح العقیدہ ہے اور عمرو بکر دیوبندی ہیں۔ تينوں مل کر ایک جگہ جلسہ کرتے ہیں اس جلسہ میں سنی عالم اور دیوبندی مولوی دونوں ایک ہی اسٹیج پر تقریر کرتے ہیں تو ایسا اجتماعی جلسہ جائز ہے یا نہیں۔ ایسے سنی مولوی کی امامت جائز ہے یا نہیں؟ اس کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر جائز نہیں ہے تو ایسے امام کے لیے توبہ لازم ہے یا نہیں ۔ کیا توبہ، بھرے مجمع میں لازم ہے یا تنہائی میں؟ قرآن واحادیث کی روشنی میں مدلل ومکمل جواب با صواب مرحمت فرمائیں۔ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1904

زید ایک عالم دین ہے ، جامع مسجد میں امامت کرتا ہے ۔ خطبہ جمعہ کے قبل دوران تقریر کہا کہ کچھ شریر لوگ نماز ادا کرنے آتے ہیں جن کی شرارت کی وجہ سے ان کی نماز نہیں ہوتی اور تا قیامت نہیں ہوگی۔

فتاویٰ # 1905

تراویح و فرض نماز کی آواز جو بالکل صاف گھروں میں سنائی دیتی ہے کیا مستورات اپنے گھروں میں امام کی اقتدا میں اپنی نماز ادا کر سکتی ہیں؟

فتاویٰ # 1906

(۱)- ایک مصباحی نے ترتیب اشتہار میں براے القاب ’’شارح شریعت‘‘ لکھا تھا۔ لیکن کاتب نے غلطی سے شارع شریعت لکھ دیا جس سے بعینہ شارع شریعت پریس سے چھپ کر آگیا۔ ایسی حالت میں جب کہ مصباحی صاحب کا ایمان ہے کہ شارع صرف حضور اقدس ﷺ کی ذات ہے ۔ بر بناے سہو کاتب مرتب پر یعنی مصباحی صاحب پر از روے شرع توبہ واجب ہوتا ہے یا نہیں؟ (۲)- ایک صاحب ہیں جو اکثر وعظ ونصیحت کی محفلوں میں بلائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی غوث کی غوثیت سے انکار کر دے تو خارج از اسلام نہ ہوگا۔ جب کہ اعظمی صاحب کی باتوں سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ کسی نفاق کا بیج بو رہے ہیں۔ ایسی باتوں اور خیالوں کے مرتکب ہونے والے پر حد شرع کی نوعیت بیان فرما دیں، کرم ہوگا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ آج دس سال سے وہ مقامی مسجد کے امام بھی ہیں لیکن ان کی داڑھی بھی اب تک ایک مشت سے زائد نہ ہو سکی ہے۔ مقتدیوں کے سوالوں پر جواب دیتے ہیں میری لحیہ بڑھتی نہیں ہے تو کیا کروں۔جب کہ بدیہی بات ہے کہ اجزاے جسمیہ میں ہر شے کے اندر قوت نمو ہوتی ہے جس سے وہ بتدریج بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہاں البتہ مقراض سے شب تار میں قطع وبرید کی جائے تو وہ اپنی پرانی حالت پر ہی نظر آتی ہے۔

فتاویٰ # 1907

زید کہتا ہے جس امام کی داڑھی ایک مشت سے کم ہوگی، اور وہ داڑھی کترواتا بھی ہے تو اس کے پیچھے نماز نہیں ہوگی، نماز دہرانا واجب ہے الخ۔

فتاویٰ # 1908

زید حافظ قرآن ہے اور زید نماز بھی پڑھاتاہے اور زید برادری میں مسلمان ڈوم ہے۔ اور اس کے خاندان والے جھاڑو دیتے ہیں یا نہیں دیتے ہیں لیکن زید یہ سب کام نہیں کرتا ہے، صرف امامت کا کام کرتا ہے تو کیا ایسے امام کے پیچھے کوئی بھی مسلمان جاننے کے باوجود نماز پڑھ سکتا ہے؟ اگر پڑھ لیا تو کیا نماز ہو جائے گی یا نہیں؟ اور ایسی برادری کو پیش امام بنا سکتے ہیں یا نہیں؟ ایسے برادری کے گھر میں کوئی بھی مسلمان کھا پی سکتا ہے یا نہیں؟ یا زید کسی مسلمان کے گھر کھا سکتا ہے یا نہیں؟ یا زید کا لڑکا کوئی بھی مسلمان کی لڑکی سے شادی کر سکتا ہے یا نہیں؟ یا محبت ہو گئی اور دونوں راضی ہیں تو کیا شادی ہو سکتی ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1909

(۱)- ایک سنی عالم جو ایک مدرسہ میں بچوں کو تعلیم دیتے ہیں اور مسجد میں امامت بھی کرتے ہیں لیکن بچوں کو دیوبندی عقائد کی کتابیں پڑھاتے ہیں اور جب لوگوں نے دیکھا اور اعتراض کیا تو مسجد میں کھڑے ہو کر لوگوں سے معافی مانگ لی ہے۔ ایسے عالم کو مدرسہ میں رکھنا اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ (۲)- چند سنی حضرات اس امام کا ساتھ بھی دیتے ہیں ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ (۳)- آل رسول کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1910

ہمارے یہاں کی مسجد کا امام اپنے کو سنی کہتا ہے مگر دیوبندیوں کی تکفیر کا قائل نہیں ہے ایسی صورت میں اس کی امامت درست ہے یا نہیں؟ اس کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1911

زید ایک دیوبندی کے مدرسے میں پڑھاتا ہے لیکن جب نماز نہ ہونے کی بات اٹھی تو اب کہتا ہے کہ میں دیوبندی کے مدرسے میں نہیں بلکہ بورڈ کے مدرسہ میں پڑھاتا ہوں جو کہ پٹنہ سے الحاق ہے۔ آیا اس کا یہ کہنا اس کے پیچھے نماز جائز ہونے کا سبب بن سکتا ہے یا نہیں؟ جب کہ اس مدرسہ کے ناظم، سکریٹری، مدرس ، صدر مدرس وجملہ اراکین دیوبندی ہیں اور ایسے شخص کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے اور اس کا کہنا درست ہے یا نہیں۔ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1912

متھرا بازار ضلع گونڈہ کے قریب ہی جانب شمال حضرت مخدوم پیر حنیف رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا مزار مبارک واقع ہے ۔ یہیں مزار شریف کے مغربی سمت ایک مرکزی عید گاہ بھی موجود ہے جس میں دور دراز کے گاؤں اور قصبات سے مسلمان عیدین کی نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ حضرت علامہ طیب صاحب علیہ الرحمہ اپنی حیات تک اس میں امامت کے فرائض انجام دیتے رہے جب کہ ان سے پہلے جناب مولوی نائب علی صاحب مرحوم عیدگاہ مذکور کے امام تھے۔ حضرت مولانا محمد طیب صاحب مرحوم کے ناگہانی انتقال کے بعد علاقہ کے مسلمانوں کے درمیان امامت کے سلسلہ میں شدید ترین اختلافات رونما ہوگئے ، اور وہ دوگروہوں میں منقسم ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایک گروہ جناب حافظ ایوب صاحب بن مولوی نائب علی صاحب مرحوم او دوسرا گروہ جناب مولوی قاری محمد ضیا اشرف بن مولانا محمد طیب خاں صاحب مرحوم کی امامت کا خواہاں اور موید ہے۔ حافظ ایوب صرف حافظ ہیں جب کہ مولوی ضیا اشرف درجہ رابعہ کے طالب علم ہیں۔ جہاں تک ہماری دانست کا تعلق ہے دونوں ہی نیک سیرت اور سادہ لوح مسلمان ہیں۔ حافظ ایوب کی عمر اس وقت تقریباً چالیس سال ہے جب کہ مولوی ضیا اشرف کی عمر ۲۰؍ ۲۲؍ سال کے درمیان ہے۔ آپ ہی کے فیصلہ پر علاقہ کے مسلمانوں نے اس مسئلہ کو چھوڑ دیا ہے لہذا آپ سے گزارش ہے کہ شریعت مطہرہ کے طے شدہ اصول وضوابط کے مطابق ایک مفصل تحقیقی فتوی تحریر فرمادیں جس میں یہ تصریح وتعیین بھی فرمادیں کہ مذکورہ دونوں اشخاص میں سے کس کو عید گاہ مذکور کا امام مقرر کیا جائے تاکہ مسلمانوں کے درمیان اٹھ کھڑے ہونے والے نزاع کا سد باب کیا جا سکے۔ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1913

ہماری مسجد میں امام عالم فاضل قاری صوم وصلاۃ کے ساتھ ساتھ پابند شرع بھی ہے اور شرعی اعتبار سے اس میں کوئی عیب نہیں ۔ ہمارے پیر صاحب نذرانہ وصول کرنے یہاں آتے ہیں تو امام سے ذاتی رنجش کی وجہ سے ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ہیں اور حجرے میں بیٹھے رہتے ہیں جماعت ہوتی رہتی ہے نماز نہیں پڑھتے، ان کی داڑھی بھی ایک مشت سے کم ہے۔ ایسے پیر کے لیے کیا حکم ہے ؟ کیا اسے پیر بنانا جائز ہے یا نہیں؟ اور پیر جی کی یہ حرکت شریعت کے خلاف ہے یا نہیں ؟ اس کے باوجود ان کے چند مرید امام کو برا بھلا کہتے ہیں اور پیر کو اچھا۔ ایسے مریدوں کا کیا حکم ہے؟ جمعہ کے دن اسی پیر نے جمعہ کی نماز پڑھائی، امام نے ’’الفتنۃ أشد من القتل‘‘ کی وجہ سے کچھ نہیں کہا لیکن خود اس کے پیچھے جماعت میں صرف کھڑا رہا اور اپنے اغل بغل والوں سے کہا کہ تم لوگوں کی نماز قطع صف کی وجہ سے نہیں ہوئی، کیا یہ صحیح ہے؟

فتاویٰ # 1914

بکر کی بیوی سال گذشتہ بغرض علاج میکے آئی اور اپنے والد زید کی غیر موجودگی میں ایک غیر قوم لڑکا کے ساتھ گھر سے چلی گئی ۔ حسن اتفاق سے دوسرے دن زید سفر سے واپس آ رہا تھا بس اسٹیشن پر اپنی دختر کو ایک غیر قوم کے ساتھ دیکھ کر اپنی بے عزتی پر خون کا آنسو بہایا اور اپنی دانش مندی کو بروے کار لاکر کسی طرح اپنی دختر کو گھر لایا۔ زید چند ماہ تک معاشرہ سے خارج رہا۔ شمولیت کے لیے کافی بے چین رہے بعدہ اپنی اور اپنی دختر کی معافی اور توبہ کو لے کر سماج کے معزز لوگوں کی خدمت میں حاضری دی بمشکل معافی قبول کی گئی ایک عالم دین اور معاشرہ کے باشعور لوگوں کے مشورہ اور حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی دختر کی خطاؤں کا کفارہ ادا کیا۔ زید کی مجبوری نیز اس پرخطر اور پراگندہ ماحول پر مد نظر رکھتے ہوئے خالد جو امام مسجد اور حافظ قرآن ہے راہ حق سے بھٹکی ہوئی مطلقہ کی جاے پیدائش پر پہنچ کر عوام اور زید نیز مطلقہ کی رضا سے مورخہ ۱۴؍ ۵؍ ۱۹۹۳ء کو بعد نماز جمعہ علماے کرام اور عوام کی محفل میں اپنی زوجیت میں لے آیا ۔بغیر کوئی جہیز اور دنیوی لالچ کے صرف ایک کار خیر تصور کرتے ہوئے کہ اگر میری اس کوشش اور قربانی سے دختر زید راہ حق اختیار کر تے ہوئے صوم وصلاۃ کی پابند ہو جائے گی تو اس کا اجر حشر کے دن رب قدیر اپنے حبیب کے طفیل ضرور عطا فرمائے گا۔ آیا خالد کی امامت میں نماز درست ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1915

زید نے ایک دینی ادارہ قائم کیا اور بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک انعامی جلسہ منعقد کیا جلسے میں فوٹو گرافر کو بلواکر تصویر کھینچائی علانیہ طور پر۔ شرع کی طرف سے زید پر کیا حکم لگتا ہے؟ ایسے ادارے میں تعلیم حاصل کرنا، تعاون کرنا اور ایسی مجالس میں جہاں فوٹو کھینچا جاتا ہو شریک ہونا، شریک ہونے والے کی اقتدا میں نماز اداکرنا کیسا ہے اور ان سب پر شرع کا کیا حکم لگتا ہے؟

فتاویٰ # 1916

جو شخص سرور کائنات کی نعت شریف نہ پڑھے اور پڑھنے سے روکےجو شخص عربی میں ’’ض‘‘ کو ’’جواد‘‘ پڑھے ، جو شخص مسلمانوں میں فتنہ وفساد پھیلائے یا جس کے لیے مسلمانوں میں فتنہ وفساد پیدا ہو جائے وہ شخص کیسا ہے وہ امامت کر سکتا ہے یا نہیں اور اس کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1917

زید ایک صحیح العقیدہ سنی عالم دین ہے ۔ اس کی داڑھی کے بال گھنے نہ تھے تو زید نے داڑھی کو استرہ سے کٹوا دیا ہے اور وہ امامت بھی کرتا ہے۔ اب عوام نے اس پر اعتراض کیا کہ جب آپ عالم دین ہیں اور امامت بھی کرتے ہیں پھر آپ نے داڑھی کیوں کٹوائی؟ تو انھوں نے شمع ہدایت حصہ دوم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک بار داڑھی منڈانا مکروہ تنزیہی ہے اور گھنی کرنے کے لیے ایک دفعہ داڑھی کٹوایا جا سکتا ہے جس سے امامت میں فتور نہ ہوگا اور حدیث میں ہے کہ عمل کا دارومدار نیت پر ہے، میری نیت بال گھنا کرنا ہے۔ بال گھنا کرنے کے لیے ہم نے ایسا کیا۔ لیکن عوام کو ان کے جواب پر سکون نہ ہوا ہے لہذا مفتیان کرام کی بارگاہ میں گزارش ہے کہ از روے شرع کیا حکم ہے مدلل ومفصل بیان فرمایا جائے۔ کیا اس حالت میں ان کے پیچھے نماز ہوگی؟ عوام کی بےچینی کو دور فرمایا جائے ۔

فتاویٰ # 1918

متعین کیے ہوئے امام نے کسی مجبوری کی وجہ سے فجر کی نماز چھوڑ دی بعد میں کچھ سورج بلند ہونے کے بعد قضا بھی پڑھی تو کیا ظہر کی امامت کر سکتا ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1919

زید کہتا ہے کہ میں چھوٹی بڑی سرکاروں کا دائمی مریض ہوں ۔ تقریبا ۱۵؍ سولہ برس کی طویل مدت ہو چکی ہے میرا بدن اب ایسا نہیں ہے کہ دماغی یا کسب بدنی کوئی کام کر سکوں، طبیعت میں ہمہ وقت شب وروز انقلاب رہتا ہے اور اہل وعیال کی وابستگی بھی ہے اور یہاں سے تیسرے ضلع کا رہنے والا ہوں ، صرف دونوں سرکار کرم فرماہیں اور وہ یہ کہ فرمائشی میلادیں پڑھنا اور جمعہ کی نماز کے بعد پیر جی حضرات سے ۱۰ روپے کا نذرانہ ملنا، میلادوں میں جو بھی ۲؍ یا ۴؍ یا ۵؍ روپے ملیں وہ مل جاتے ہیں۔ دیگر یہ ہے کہ میں اپنی اس شکستہ حالت سے قبل امامت پر فائز تھا اور اس وجہ سے ہمارے پیر جی حضرات نے یہاں پر بھی امامت کرنے کو کہا تو میں چھوٹی سرکار میں تقریبا ۷؍ یا ۸؍ برس سے امامت کر رہا ہوں ،ان تمام باتوں کے باوجود میری نہ کہیں سے تنخواہ آتی ہے اور نہ کوئی امداد، ایسی حالت میں شریعت مطہرہ کا میرے واسطے کیا حکم ہے ؟ کیا میں امامت کر سکتا ہوں یا نہیں اور کیا مجھے فطرہ اور زکات اور خیرات یا مردوں کی نیاز نذر کپڑے وغیرہ لینا چاہیے یا نہیں ؟ کیا یہ چیزیں ہمیں مباح اور جائز ہو سکتی ہیں کہ نہیں اور اگر یہی چیزیں ہم کو لینا جائز ہے تو پھر امامت بھی کر سکتے ہیں یا نہیں؟ جواب کا محتاج ہوں مفصل طور سے جواب عنایت کیا جاوے۔

فتاویٰ # 1920

(۱)- ہمارے گاؤں میں جامع مسجد کے ایک عالم صاحب امامت وخطابت کا کام انجام دیتے ہیں ۔ ایک دن اتفاقاً مغرب کی نماز کے بعد مسجد سے باہر جارہے تھے کسی ایک شخص نے فرمایا : امام صاحب نے نماز جلد پڑھا دی جب کہ میں مقررہ وقت پر وضو بنا کر مسجد میں داخل ہوا،اور امام صاحب نے نماز مکمل کر کے سلام پھیر دیا۔ دوسرے دن مغرب ہی کی نماز فرض ہوتے ہی امام صاحب نے بیان شروع کر دیا۔ فرمایا کہ مسجد سے کل جب باہر جا رہا تھا ، کسی شخص نے پچھلے دن مغرب کی نماز جلد پڑھادی کہہ رہے تھے ۔ امام صاحب نے جوابا کہا کہ مغرب کی نماز نازک ہوتی ہے جلد پڑھا دی گئی ، صرف اتنی سی بات پر امام صاحب نے ساری جماعت سے توبہ مانگی، کیوں کہ تم لوگوں نے میری نماز کی توہین کی ہے۔ نماز کی توہین امام کی توہین، حضور کی توہین کلام پاک کی توہین کی ہے۔ میں تم لوگوں کا آقا ہوں، حاکم ہوں ، تم میرے غلام ہو جو میں کہوں گا سننا ہوگا ۔ کیا ایسے الفاظ امام صاحب کہہ سکتے ہیں؟ جواب تحریر فرمائیں۔ (۲)- ایک مدرس صاحب مسجد میں صبح تا شام بچوں کو دینی تعلیم سکھاتے ہیں ایک وقت کوئی نماز پڑھانے والا نہیں تھا ۔ امام صاحب کی غیر حاضری میں وہ نماز پڑھائے ۔ ویسے تو مدرس صوم وصلاۃ کے پابند ہیں لیکن داڑھی ایک بالشت سے تھوڑی کم ہے جب کہ امام صاحب نے آکر یہ کہہ دیا کہ مدرس کے پیچھے جو نماز ہوئی اسے دہرانا ہوگا کہہ کر فتوی دے دیا اور اس مدرس کو فاسق کا لقب لگا دیے۔ کیا یہ بات کہنا صحیح ہے؟ تحریر فرمائیں ۔ (۳)- ایک مقتدی صاحب تنہا نماز ادا کر رہے تھے تو امام صاحب نے بیان شروع کیا ایسا لگ رہا تھا کہ تنہا نمازی کو ٹھیس لگ رہی ہے ۔ کیا اس طرح ٹھیس پہنچانا ٹھیک ہے؟ تحریر فرمائیں۔ (۴)- اگر مسجد میں چند نمازی امام صاحب سے خوش اور چند ناراض ہیں چند ناراض نمازی جو ہیں تنہا نماز ادا کرتے ہیں۔ ان ناراض مصلیوں پر امام صاحب نے منافق کا فتوی لگادیا چوں کہ پانچ وقت کے نمازی ہیں کیا منافق کا فتوی ٹھیک ہے؟ تحریر فرمائیں۔ نوٹ: فاسق کا فتوی دینے والے امام خود موے مونچھ والے ہیں کہتے ہیں کہ یہ میرے پیر کی ادا ہے۔ جواب تحریر فرمائیں۔

فتاویٰ # 1921

(۱)- زید کہتا ہے کہ امام کے لیے کپڑے کی کوئی قید نہیں، مثلا چینا سلک ، ریشمی یا چمک والا کام میں لا سکتا ہے ۔ بکر کہتا ہے کہ نہیں چینا اور ریشمی اور چمک والا کپڑا امام کے لیے حرام ہے۔ (۲)- زید کہتا ہے کہ امام کے غسل کے لیے پانی کی کوئی حد نہیں ہے جتنا چاہے خرچ کر سکتا ہے بکر کہتا ہے کہ نہیں شریعت نے حد مقرر کی ہے بیجا خرچ منع ہے۔ (۳)- زید کہتا ہے کہ امام غیر محرم سے بات چیت کر سکتا ہے ان کے گھر آسکتا ہے جا سکتا ہے کوئی خرابی نہیں۔ بکر کہتا ہے امام ان سب باتوں سے دور رہے اور غیر محرم کے گھر جانا یا بات کرنا حرام ہے۔

فتاویٰ # 1922

زید باعمل عالم سنی صحیح العقیدہ ہے اور اس کے دونوں پیر کا پنجہ اس طرح ہے ۔ دائیں پیر کا پنجہ بائیں طرف اور بائیں پیر کا پنجہ دائیں طرف ہے صرف سجدہ کی حالت میں انگلیوں کی پشت زمین پر لگی ہوئی ہیں۔ قبلہ کی طرف کسی انگلی کا منہ نہیں ہوتا ہے اور بحالت قعود بھی انگلیاں مذکورہ طور پر رہتی ہیں۔ باقی نماز کے سارے ارکان موصوف صحیح طور سے ادا کرتے ہیں موصوف اپنے گاؤں کی مسجد کے امام بھی ہیں اور موصوف کے گاؤں کے مسلمان اکثر جاہل اور فاسق اور معمولی پڑھے لکھے ہیں ۔ بکر کہتا ہے کہ زید کے پیچھے کسی کی نماز نہیں ہوتی ہے بلکہ اقتدا ہی صحیح نہیں ہے۔ ایسی صورت میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ زید کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1923

زید ایک بہترین حافظ وقاری ہے۔ امامت کا شوق بھی رکھتا ہے اور پہلے امامت بھی کرتا تھا لیکن ابھی وہ مسجد کے نہ ملنے کی وجہ سے امامت نہیں کرتا ہے۔ زید اس وقت ایک دار العلوم کا مدرس ہے جس کے ذمہ حفظ وقراءت کی تعلیم ہے لیکن اندرا گاندھی کی برسی میں قرآن پاک کی تلاوت کی ہے۔ زید کہتا ہے کہ مجھے دھوکا سے بلا کر لے گئے ۔ جب میں برسی کی محفل میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ اندرا گاندھی کی برسی ہے اور اندرا گاندھی کی ایک بہت بڑی تصویر بھی موجود تھی جو پھولوں سے سجائی گئی تھی۔ زید کہتا ہےمیں وہاں پہنچ کر تلاوت قرآن پاک کرنے سے انکار نہ کر سکا ، خوف سا محسوس ہونے لگا۔ اس لیے میں نے ڈر کر تلاوت کی ہے تو ان کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ اور زید پر توبہ واجب ہے یا نہیں؟ توبہ واجب ہے تو علانیہ یا پوشیدہ اور جو عذر کیے ہیں تو شریعت میں وہ قابل قبول ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1924

زید کھلم کھلا داڑھی منڈواتا ہے کیا شریعت کے اعتبار سے داڑھی منڈوانا گناہ کبیرہ ہے یا صغیرہ؟

فتاویٰ # 1925

ایک مسجد کے امام صاحب جو وعظ وتقریر بھی کرتے ہیں اپنے لڑکے کی شادی میں لڑکی والوں سے یہ کہا کہ تیس ہزار روپے آپ دیں گے تو یہ شادی ہوگی ۔ غرضےکہ تیس ہزار روپے لے کر اپنے لڑکے کا عقد کیا۔ ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا یا وعظ وتقریر کروانا اور نکاح پڑھوانا کیسا ہے؟ از روے شریعت حکم صادر فرمائیں۔

فتاویٰ # 1926

زیدچوڑی کا کاروبار کرتا ہے اور نامحرم عورتوں کو چوڑی بھی پہناتا ہے۔ اس کی روزی حلال ہے یا نہیں؟ اور وہ شخص قابل امامت ہے یا نہیں؟ لوگ اس کی پیشوائی اور امامت پر اعتراض کرتے ہیں۔ بینوا توجروا

فتاویٰ # 1927

زید جو زمین دار تھا اس نے اپنے زمانہ زمین داری میں کچھ زمین کاشت کے لیے بکر کو دی تھی اور یہ کہا تھا کہ تم اس کے صلہ میں مسجد میں چراغ بتی اور جھاڑو دیتے رہنا اور نمازیوں کے لیے پانی بھرتے رہنا بکر اور اس کی اولاد برابر مسجد کی خدمت کرتے رہے اب جب کہ زمین د اری ختم ہوگئی اور زمین داری کا کوئی اثر باقی نہ رہا بکر کی اولاد نے مسجد کی خدمت کرنا چھوڑ دی ۔ دریافت طلب یہ بات ہے کہ بکر کی اولاد میں ایک شخص قابل امامت ہے کیا اس کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ جب اس نے مسجد کی زمین غصب کر کے اپنے نام کرالی ہے جو کہ مسجد کی خدمت کر نے کے لیے اسے دی گئی تھی۔

فتاویٰ # 1928

عرصہ سے ایک مسجد کے مصلیوں میں اس بات پر شدید اختلاف چلا آرہا ہے کہ زید امامت کے لائق ہے کہ نہیں؟ اور مصلیا ن مسجد دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ہیں، ایک گروہ نے زبردستی زید کو امام بنائے رکھا پھر زید اور اس کے حامیوں نے آپس میں راے مشورہ کر کے مسجد مذکور میں نماز باجماعت شروع کیا انھیں میں سے ایک آدمی نے جماعت مذکورہ کا فوٹو کھینچا اور فوٹو کھینچنے والے کی ایک رکعت نماز بھی چھوٹ گئی ۔ سوال یہ ہے کہ یہ نماز ہوئی کہ نہیں اور ایسے لوگ جو تصویر کھنچوائے ہیں امامت کے لائق ہیں کہ نہیں اور امام مذکور کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں اگر ہوگی تو کیسی؟

فتاویٰ # 1929

ایک مسجد کے امام صاحب رات تقریر ی پروگرام میں جاتے ہیں اور صبح جب نماز کے واسطے اٹھایا جاتا ہے تو اٹھتے نہیں۔ ایک حاجی صاحب جو اسی مسجد کے ایک رکن ہیں۔ یہ اٹھانے والے سے کہتے ہیں چھوڑ دو رات تقریر میں گئے تھے۔ کوئی دوسرا نماز پڑھادے گا۔ اور مزید یہ کہ امام صاحب اکثر جماعت ترک کرتے ہیں اور اکثر جو جماعت کا وقت مقرر ہے اس سے پانچ منٹ سات منٹ دیر سے آتے ہیں۔ جب ان سے سوال ہوتا ہے تو جواب دیتے ہیں کہ امام کے لیے شریعت کی جانب سے رخصت ہے۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ امام صاحب کے یہ سارے افعال شرع کے اعتبار سے جائز ہیں یا نہیں؟ اور امام صاحب وحاجی صاحب دونوں کے لیے شرع کا کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1930

ٹخنے سے نیچے پائجامہ یا تہبند رکھنے سے نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟ آج کل امام بھی نیچا رکھتے ہیں؟

فتاویٰ # 1931

اس شہر میں جتنے امام ہیں ان میں سے ہر ایک ایسے شخص کے ہاتھ کا ذبیحہ کھاتا ہے جو عقیدۃ سنی ہے لیکن وہابیوں کے پیچھے نماز پڑھتا ہے ۔ منع کرنے پر کہتا ہے کہ نماز پڑھنے سے کیا ہوتا ہے کسی کے پیچھے پڑھ سکتے ہیں۔ مسئلہ بتانے پر بھی پرہیز نہیں کرتا اور ان اماموں میں سے بعض کے پائجامے بھی اور لنگی بھی ٹخنے کے نیچے رہتی ہے۔ تو ایسے اماموں کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں اگر نہیں ہوگی تو نماز جمعہ کیسے ادا کریں؟

فتاویٰ # 1932

زید سنی صحیح العقیدہ ایک مسجد میں امام مقرر کیا گیا ہے اس کو یہ مسئلہ معلوم ہے کہ دیوبندی وہابی کے ہاتھ کا ذبیحہ مردار کے حکم میں ہے اس کے باوجود وہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ کھاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ جس گھڑی میں چین لگی ہو اس کو پہن کر نماز نہیں ہوتی پھر بھی وہ چین والی گھڑی پہن کر نماز پڑھاتا ہے۔ اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1933

زید مسجد میں کوئی نماز جماعت سے پڑھنے داخل ہوا اس کی نظر عمرو پیش امام پر پڑی جو نماز پڑھا رہا ہے زید کو عمر وکی امامت میں نماز پڑھنے کی کراہیت ہے ایسی مشکل میں زید جماعت میں شامل ہو یا مسجد سے باہر نکل جائے یا مسجد میں بیٹھ کر جماعت ختم ہونے کا انتظار کرے اور بعد میں اپنی نماز الگ پڑھے؟

فتاویٰ # 1934

ایسے امام کے متعلق کیا حکم ہے جو بازار میں عام طریقہ سے کھاتا پیتا ہو اور ایک دوا کی دوکان پر بیٹھتا ہو جس میں ایک جوان لڑکی دوا فروخت کرتی ہو اور مسجد کے اندر بیٹھ کر اخبارات پڑھتا ہو جس میں بہت سی قسم کی تصویریں رہتی ہیں؟ منع کرنے پر جواب دیتا ہے کہ کیا تمہارے جیب میں روپے پیسے نہیں رہتے ہیں اس میں بھی تو تصویریں رہتی ہیں ۔ تو کیا ایسے امام کے پیچھے نماز ہوگی؟ شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب سے نوازیں۔

فتاویٰ # 1935

ہمارے یہاں مسجد کے امام صاحب جسم کے موٹاپے کی وجہ سے صحیح سجدہ ادا نہیں کرپاتے، مثلا کبھی پیر کا اٹھ جانا اور کبھی پیر کا آگے پیچھے ہونا۔ اور دونوں سجدوں کے درمیان آرام سے بیٹھنا وغیرہ وغیرہ۔ ایک مولانا صاحب نے فرمایا کہ ایسے امام کے پیچھے نماز نہ ہوگی جو دونوں سجدوں کے درمیان صحیح طریقہ سے بیٹھتا نہ ہو، اس لیے کہ دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا واجب ہے۔ اور سجدے میں انگوٹھے کا زمین سے لگنا فرض ہے۔ تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایسے امام کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟ اگر نہیں تو اتنے دنوں جو ہم لوگوں نے نماز پڑھی اس کا کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1936

اگر کسی عالم یا امام کو معلوم ہو کہ اگر میں مسجد میں امامت کروں گا تو مقتدیوں کی اکثریت میرے پیچھے نماز نہیں پڑھے گی اور آپس میں نفاق پیدا ہوگا اس کے باوجود اگر امامت کرے تو اس امام کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1937

زید جو کہ ایک مسجد کا امام ہے اپنے کو آتش باز کہتا ہے ، اس کے گھر آتش بازی کا کاروبار ہے ، پٹاخہ بنا کر فروخت کیا جاتا ہے۔ زید گھر والوں کو منع نہیں کرتا اور گھر سے الگ بھی نہیں ہوا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایسے امام کے پیچھے نماز ہوگی کہ نہیں؟ مفصل طور پر جواب سے نوازیں۔

فتاویٰ # 1938

دو مولوی صاحبان ایک کھس کھسی داڑھی رکھنے والے کی اقتدا میں نماز پڑھتے تھے ۔ ان سے کہا گیا کہ امام کو امامت سے معزول کرنے کی بجاے خود آپ ہی اقتدا کرتے ہیں جس سے عوام پر برا اثر پڑتا ہے تو کہتے ہیں کہ مصلحتاً نہیں روکتے، گاؤں کے ایک آدمی ہیں ۔ کون دشمنی مول لے ۔ کیا ان لوگوں کی تقریروں اور امامت میں اقتدا اور شرکت درست ہے؟

فتاویٰ # 1939

سنی شخص کا انتقال ہوا تو اس پر پیش امام صاحب نے نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کیا تھا ۔اس کے بعد ایک بزرگ سنی نے نماز پڑھائی۔

فتاویٰ # 1940

بکر نے ایک روز فلم دیار مدینہ دیکھا۔ اس کے بعد یا پہلے اس کے فلم دیکھنے کا ثبوت نہیں ملتا۔ مذکورہ فلم کو جہاں بکر امامت کرتا ہے وہاں کے پچہتّر فی صدی لوگوں نے دیکھا ۔ تقریباً چھ ماہ گزرجانے کے بعد چند لوگ اسی بنا پر بکر کی امامت سے کراہیت ظاہر کرتے ہیں۔ اس صورت حال پر بکر کی امامت میں نماز درست ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1941

نس بندی کرانے والے کی امامت واذان درست ہے یا نہیں؟ نیز حج بیت اللہ کو جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے یا نہیں؟ اگر اس سے قریب نماز جماعت میں کوئی شخص ہو تو اس کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1942

ایک صاحب قوم کے حلال خور ہیں اور پیش امام بھی ہیں ان کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ ان کا کہنا ہے کہ جو ہمارے یہاں کھانا نہیں کھائے گا وہ ہمارے پیچھے نماز نہ پڑھے۔ اس وقت جو پیش امام نور محمد حلال خور ہیں تراویح کے ختم کے دن فاتحہ کرنے سے انکار کردیا اور یہ کہا کہ ہم عید کے دن آپ لوگوں کی نماز بھی نہ پڑھاویں گے۔

فتاویٰ # 1943

ساکن انار کوٹھی میں ایک مسجد ہے جس کا نظم ونسق متولی کے ذریعہ ہوتا تھا۔ بعد انتقال متولی لوگوں نے کمیٹی بنائی بنام مسجد کمیٹی ، جس سے ساکن کے تمام لوگوں نے اتفاق کیا اور اس کے ذریعہ مسجد ہذا کی چنا گرانی ہوتی رہی ہے۔ ادھر کچھ لوگوں نے امام کمیٹی بنائی جس سے لوگوں میں کشیدگی ہوگئی ۔ تقریبا ۳۵؍ گھر امام کمیٹی کی جانب ہے اور تقریبا ۹۰؍ گھر مسجد کمیٹی کی جانب ہے۔ ہر دو جانب چندہ ہوتا اور الگ الگ امام مقرر ہے ۔امام کمیٹی کی جانب غیر سند یافتہ عالم ہے اور مسجد کمیٹی کی جانب سند یافتہ عالم ہے۔ حق امامت کس کو حاصل ہے؟ اور ایسا کرنا شریعت اسلامیہ کی رو سے کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1944

ایک پیش امام اپنی امامت کو برقرار رکھنے کے لیے چند وقار پرست ،باروزگار سیدھے سادھے مسلمانوں پر اپنا رعب ودبدبہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں، جائز وناجائز حق وباطل کی تمیز کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں، وہ رجعت پسندی سیاست میں ملوث ہے ۔ان ہی بری حرکات کی وجہ سے مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد اس امام کے پیچھے نماز پڑھنے میں کراہت محسوس کرتے ہیں اور وہ لوگ منفرد طور پر نماز بعدِ جماعت ادا کرتے ہیں تو ایسی صورت میں اس امام موصوف کا بذات خود امامت پر قائم رہنا درست ہے یا نہیں؟ فرقہ شمع نیازی کو ہر مکتب فکر کے علما نے خارج از اسلام قرار دیا ہے۔ اس جان کاری کے باوجود امام مسجد فرقۂ شمع نیازی سے ساز باز کرکے سیدھے سادھے مسلمانوں کے آڑ میں اعلان کردے کہ میں آپ لوگوں کا پیش امام ہوں اور نائب رسول کا درجہ رکھتا ہوں اس حیثیت سے کہتا ہوں کہ شمع نیازی فرقہ خارج از اسلام نہیں ہے بلکہ وہ بدعتی و گمراہ ہیں، لہذا میں ان کو مسلمان تصور کرتا ہوں۔ آپ لوگ بھی اس کو مانیں، ان کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں، ان کی محفلوں میں شرکت کریں وغیرہ وغیرہ۔ امام موصوف کے اس اعلان پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا اور کچھ نے طرف داری کی۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ بدعتی وگمراہوں کی پشت پناہی کرنے والے، اصول مذہب اسلام کو دنیاوی مصنوعی مفاد پر قائم کرنے والے اسلامی نقطۂ نگاہ سے کیا کہلانے کے مستحق ہیں؟ اور اس کے ساتھ ہمیں کیا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟

فتاویٰ # 1945

اگر پہلے سے ایک سنی صحیح العقیدہ عالم امامت کر رہے ہوں اور قاری اپنی قراءت کی بنیاد پر یہ کہے کہ امامت میں کروں گا جب کہ اسے نمازی نہیں چاہتے کہ امام ہو صرف اپنی قراءت پر امامت اپنے سر لینا چاہتے ہیں اور قاری کا یہ عالم ہے کہ نماز فجر وعشا ہمیشہ گول کر دیتے ہیں۔ لہذا امام کا حق دار بروے شریعت کون ہے؟

فتاویٰ # 1946

جس جگہ ہر مسجد کے اندر دیوبندی وہابی اور تبلیغی جماعت یا جماعت اسلامی کے امام ہوں وہاں سنی لوگ کس طرح نماز ادا کریں؟ اگر سنی لوگ صرف دوہی ہیں تو ایسی جگہ نماز جمعہ بحالت مجبوری دیوبندی امام کے پیچھے پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟

فتاویٰ # 1947

زید ایک مسجد کا امام ہے۔ پہلی بیوی کے علاوہ دوسری سے نکاح کیا ہے۔ پہلی بیوی کے رشتہ دار نے پولیس کو اطلاع دیا کہ زید دوسری شادی کر چکا ہے تو تھانہ میں زید کو بلا کر پوچھا گیا تو زید نے انکار کیا کہا کہ میں نے دوسری شادی نہیں کی ہے اور زید نے بالحقیقہ دوسری شادی کی ہے۔ زید نے تھانہ میں جو بیان دیا یہ سراسر جھوٹ ہے۔ زید ایک دوسرے کی سائیکل بطور امانت لے گیا کچھ دنوں کے بعد لوگوں نے پوچھا کہ سائیکل کیا ہوئی ؟ زید نے کہا کہ میں نے سائیکل مالک کو دے دی ہے۔ چند روز بعد ایک رسید دکھائی جس میں لکھا تھا کہ میں نے سائیکل مالک کو دے دی ہے۔کچھ دن کے بعد پھر اصل مالک آیا اس نے سائیکل تلاش کیا تو زید نے سائیکل لاکر دی۔زید نے پہلے کھلم کھلا جھوٹ کہا اور فرضی رسید بنایا تھا۔ زید کو نماز عید پڑھانے کا کچھ نذرانہ دیا جاتا ہے اس سلسلہ میں زید کو پورا پوشاک دیا گیا جو تقریبا ایک سو پچہتر روپے کا ہوگا اور بعد نماز عام لوگوں نے ۲۳؍ روپے نذرانہ دیا۔ زید نے پھر نذرانہ طلب کیا۔ ذمہ دار حضرات نے کہا جو کچھ تھا آپ کو دے دیا گیا اس پر ناراض ہو کر پگڑی نکال کر پھینک دی اور کہا آج میں اس مسجد سے نکل جاؤں گا۔ لہذا ایسے شخص (زید) کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟ درست ہونے کی کیا صورت ہے؟

فتاویٰ # 1948

زید گاؤں کی جامع مسجد کا امام ہے ا س کے اندر بہت سے عیوب شامل ہیں جو درج ذیل ہیں: (۱) کھادی کا کپڑا چرانا۔ (۲) کفارہ کا روپیہ لے کر اپنے ذاتی کام میں خرچ کرنا۔ (۳) فطرہ کا روپیہ، مسجد کا روپیہ اپنے معرفت خرچ کرنا۔ (۴) قربانی کے بہت سے سروں کو فروخت کر کے روپیہ حاصل کرنا۔ (۵) گاؤں میں ہمیشہ دو جماعت کر کے رکھنا اور اپنا ذاتی فائدہ حاصل کرنا بلکہ ہمیشہ اپنی غلط بات لوگوں سے بیان کرتے رہنا۔ (۶) گاؤں میں کسی کے گھر میت ہو جاتی ہے تو جنازہ میں لوگوں کو منع کرنا اور خود نہ جانا۔ (۷) میلا د پاک میں جاکر بلا سند کے واقعہ بیان کرنا اور میلاد پاک میں لوگوں کو جانے سے منع کرنا اور اپنی ذاتی عزت حاصل کرنا۔ ان حالات میں زید امامت کرسکتا ہے یا نہیں؟ اور جو لوگ اس امام کی اقتدا کرتے ہیں کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1949

ایک عید گاہ میں عرصہ دس سال سے ایک حافظ صاحب نماز پڑھاتے ہیں ۔ پڑوس کے ایک گاؤں کے مکتب میں ایک مدرس جو اپنے کو عالم صاحب کہلواتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ چوں کہ ہم عالم ہیں اس لیے نماز ہمیں پڑھانے دیجیے۔ عید گاہ کی انتظامیہ نے جب ان کی بات مسترد کر دی تو عالم صاحب کے آدمی مشورہ کرنے لگے جس کی وجہ سے عید گاہ کے اندر ہی جھگڑا شروع ہو گیا اور یہاں موجود غیر مسلم فورس بھی عید گاہ کے اندر داخل ہو گئی۔ الغرض یہ کہ حافظ صاحب نے نماز شروع کردی اور وہ عالم صاحب بھی آگے بڑھ گئے اور انھوں نے بھی قراءت وغیرہ شروع کردی مقتدی دو امام کی قراءت وتکبیر سن کر عجیب کش مکش میں مبتلا ہو گئے۔ اس کش مکش میں نماز ختم ہوئی اب عالم صاحب اپنے فعل کو جائز بتاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ کعبہ شریف میں چار امام ساتھ میں نماز پڑھاتے ہیں اس لیے میرا یہ فعل جائز ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ : • کیا حافظ کے پیچھے عالم کی نماز نہیں ہوتی؟ • اگر مسجد یا عید گاہ کا امام حافظ ہو اور وہاں کوئی عالم آجائے تو کیا عالم پر یہ ضروری ہے کہ امامت خود کرے اور حافظ امام کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرے؟ • عید گاہ کے اندر سیٹی، تالی بجانا جائز ہے یا ناجائز؟ • ایک منتخب امام کے ہوتے ہوئے کیا عالم کو یہ کہنا جائز ہے کہ امامت ہم کو کرنے دیجیے؟ • کیا واقعی کعبہ شریف میں چار امام ساتھ میں نماز پڑھاتے ہیں؟ کیا ایسا جائز ہے؟ • اگر نہیں تو ایسا کہنے والے کو عالم کہنا جائز ہے یا نہیں؟ اور ایسے کو امام بنانا کیسا ہے؟ • کیا ایک ہی نماز عید گاہ میں دو امام ساتھ ہی پڑھائیں یہ جائز ہے؟ • ان میں سے کس کی نماز ہوئی اور کس کی نہیں ہوئی اگر سب لوگوں کی نہیں ہوئی تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ • عید گاہ کے اندر شور شرابا ہوا اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ایسے عالم کے ساتھ مسلمان کیا سلوک کریں نیز ایسی صورت میں حافظ وعالم صاحبان پر کیا حکم شرع ہے؟

فتاویٰ # 1950

زید کی والدہ ایک مشہور ومعروف کارخانے میں قلی کا کام کرتی ہے جہاں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں آدمی کام کرتے ہیں۔ زید کی والدہ بلا پردہ غیر محرم مستریوں کو اینٹ، گارہ وغیرہ دیتی ہے اور بلا پردہ قریب ڈیڑھ میل راستہ روزانہ آتی جاتی ہے۔ راہ میں ہزاروں غیر محرم مرد ملتے ہیں ۔ زید اس چیز کو برا نہیں مانتا ہے بلکہ اسی کمائی کے روپیہ سے کھاپی کر جوان ہوا۔ بفضلہ تعالی زید کے والد بھی باحیات ہیں اور زید خود تنخواہ دار امام ہے۔ لہذا زید کے پیچھے از روے شرع نماز پڑھنا کیسا ہے اور اس کا امامت کرنا کیسا ہے؟ مفصل جواب لکھیں۔

فتاویٰ # 1951

زید نے چالیس پینتالیس سال کی عمر میں زنا کیا اور ثبوت بھی ہوگیا اب اس نے توبہ کر لی ہے تو کیا اس کا قصور معاف ہو گیا، یا وہ شرعی سزا کے بغیر معاف نہیں ہوگا اور وہ امامت کے لائق ہے؟ اس کی اقتدا کر سکتے ہیں چہ جاے کہ وہ عالم حافظ وقاری ہو؟

فتاویٰ # 1952

امام معین برابر وقت مقررہ پر نماز پڑھاتا ہے ابھی ایک منٹ باقی تھا کہ فوراً ایک مقتدی اٹھا جو کہ دوسرے گاؤں میں پڑھاتا تھا۔ ہفتہ میں ایک دو روز مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آتا ہے، بولا کہ چلیے حافظ صاحب نماز پڑھائیے۔ تو امام بولا کہ ابھی ایک منٹ باقی ہے ، ٹائم نہیں ہوا۔وہ مقتدی جبراً نماز پڑھانے لگا ۔ اب کہنا یہ ہے کہ وہ مقتدی جس نے جبراً بلا اجازت نماز پڑھائی اس پر شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے اور مقتدیوں کی نماز ہوئی یا نہیں؟ مقتدی کی حکومت امام پر ہونا چاہیے یا نہیں؟ جب امام نے مقتدی کو مسئلہ سنایا کہ اس نے بغیر امام کی اجازت کے جبراً نماز پڑھائی اس لیے وہ گنہ گار ہوا، اور امام نے یہ حدیث پیش کی: ألا لا یوم الرجل فی سلطانہ إلا بإذنہ۔ سنانے کے بعد مسجد میں لٹکا دیا گیا۔ تو دوسرے دن کسی مقتدی نے مسئلہ کو غائب کر دیا۔ اور اس مقتدی نے کہا کہ اب اگر مسجد میں اس قسم کا مسئلہ لٹکا یا گیا تو مسئلہ جلا دیں گے۔ اس پر شریعت کا کیا حکم ہے؟ دوسرے ہفتہ جب اس نے جبراً نماز پڑھائی تو مقرر امام نے اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھی۔ حدیث وفقہ کی روشنی میں بتائیں کہ ایسے شخص کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1953

زید کی گاڑی بکر نے خریدنے کی بات کی اور بغیر رجسٹری کے زید کی گاڑی بکر چلانے لگا۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد آپس میں نااتفاقی ہونے کی وجہ سے زید نے بکر کی گاڑی واپس کر دی۔ اس نااتفاقی کو طے کرنے کے لیے شہر کے کچھ معزز اشخاص مع امام جامع مسجد کے باہم بیٹھ کر یہ طے کیا کہ ۳؍ سو روپے بکر زید کو گاڑی چلانے کے سبب ادا کرے گا۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد زید اور بکر میں پھر نا اتفاقی ہوئی اور بکر نے کچھ ناسمجھ لوگوں کو اپنی طرف کر کے ایک پارٹی کی حیثیت بنا لی ان میں یہ امام صاحب بھی داخل تھے۔ (اول منصف امام صاحب ہی تھے) اور بکر نے حقیقت اور سچائی سے ہٹ کر یہ دعوی کیاکہ زید میرے پاس کچھ نہیں پاتا اور یہی امام صاحب جو پہلے فیصلے میں زید کو رقم پانے کا حق دار قرار دیے تھے اب بکر کے لوگوں کے ساتھ مل کر یہی امام صاحب حقیقت سے ہٹ کر بار دیگر فیصلہ دیے کہ بکر ۶؍ ہزار روپے خود پائے گا ۔ امام صاحب کے اس دوطرفہ راے سے آپس میں نااتفاقی پھیلی ۔ جواب طلب امر یہ ہے کہ یہ امام صاحب حقیقت سے ہٹ کر کبھی صحیح کبھی غلط فیصلہ دیتے ہیں لہذا اب از روے شریعت کے اس امام صاحب پر کیا لازم ہے اور اس کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ جواب سے نوازیں۔

فتاویٰ # 1954

(۱)-مسجد میں جمعہ کے دن خطبے سے پہلے امام صاحب نے وہابیوں کے اس عقیدے کے جواب میں کہ ’’حضور کو دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں تھا‘‘ کہا کہ حضور ﷺ کو آسمان کے ستاروں کی تعداد بھی معلوم تھی اس لیے تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کی تعداد کے برابر ہیں۔ امام صاحب نے آگے جو جملہ بیان کیا وہ یہ ہے کہ ’’اتنے پردوں کے باوجود بھی معراج شریف میں خداے تعالی کی ذات بھی حضور ﷺ کی نظروں سے نہ بچ سکی تو دنیا کی کون سی چیز بچ سکے گی؟‘‘ (الف) خدا کی ذات کا نہ بچ سکنا ، کیا خدا کی توہین ہے؟ (ب) یہاں توبہ ضروری ہے؟ (ت) ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج تو نہیں؟ (ج) پڑھی ہوئی نمازیں دہرانی پڑیں گی؟ (۲)- اللہ تعالی کی مرضی حضور ﷺ کی مرضی پر موقوف ہے ، کہنا کیسا ہے؟، کیا کفر ہے؟ توبہ ضروری ہے؟ (۳)- اللہ تعالی کو کسی نبی یا ولی کا عاشق کہنا کیسا ہے؟ (۴)- اللہ تعالی پکار اٹھے گا کہنا جائز ہے؟

فتاویٰ # 1955

نمازمیں لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے کے احکام

فتاویٰ # 1956

(۱)- لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نماز میں جائز ہے یا نہیں؟ (۲)- جو نمازیں لاؤڈ اسپیکر سے ادا کی گئی ہیں ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ (۳)- لاؤڈ اسپیکر کو زبردستی استعمال کرانے اور رواج دلانے والے متولیان واراکین مسجد کے لیے شرعی حکم کیا ہے؟ (۴)- کیا نمازمیں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال جائز قرار دینے والے علما کے فتوی کو نہ ماننے والا کافر ہے؟

فتاویٰ # 1957

لاؤڈ اسپیکر کا استعمال نماز میں جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر مکبر کھڑے کر دیے جائیں صرف قراءت کی آواز مقتدیوں تک پہنچانے کے لیے لاؤڈ اسپیکر لگایا جائے تو کیا نماز درست ہوگی؟ نوٹ: بریلی شریف سے رمضان المبارک میں ایسا ہی سوال کیا گیا تھا ۔ جواب آیا کہ مکبر کے ساتھ بھی نماز میں لاؤڈ اسپیکر لگانا جائز نہیں لیکن کچھ لوگ اس جواب کے باوجود لگانے پر بضد ہیں۔ تو جو شخص شرعی حکم نہ مانے اس کے لیے شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے۔ جلد شرعی فیصلے سے آگاہ فرمائیں۔

فتاویٰ # 1958

لاؤڈ اسپیکر سے نماز جائز ہے کہ نہیں۔ عموماً تراویح کی نماز میں لاؤڈ اسپیکر استعمال کیا جاتا ہے تاکہ قرب وبعد سبھی لوگ قرآن پاک سن سکیں۔

فتاویٰ # 1959

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ بغیر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ رات میں یا دن میں ایسا کرنا درست ہے ۔ اس حقیقت کو بس واضح کریں۔

فتاویٰ # 1960

زید کہتا ہے کہ رمضان میں تراویح کی نماز میں قرآن شریف کی آواز کثرت مصلین کے سبب پیچھے والوں تک نہیں پہنچتی ہے جس کے سبب تراویح میں قرآن شریف کا ثواب تو ملتا ہے مگر قرآن کی تلاوت سننے کو نہیں ملتی ہے، اس لیے اگر قرآن شریف پڑھنے کی آواز تمام لوگوں تک پہنچانے کے لیے تراویح میں لاؤڈ اسپیکر کے ساتھ ساتھ مکبر کا بھی انتخاب کر لیا جائے تو کیسا ؟ لاؤڈ اسپیکر اور مکبر کو ساتھ ساتھ رکھنے میں نماز بلا کراہت ہو جائی گی؟ کیا عیدین اور جمعہ کی نماز میں بھی لاؤڈ اسپیکر اور مکبر ساتھ ساتھ رکھ سکتے ہیں؟ جملہ مصلین کی یہی خواہش ہے کہ لاؤڈ اسپیکر کے ساتھ ساتھ مکبر کو رکھ کر نماز پڑھائی جائے۔ کیا ایسی صورت میں لاؤڈ اسپیکر اور مکبر ساتھ ساتھ رکھ کر نماز پڑھا سکتے ہیں؟ وضاحت کے ساتھ جلد جواب عطا فرمائیں۔

فتاویٰ # 1961

بھیونڈی میں مسلمانوں کی کثیر آبادی ہے۔ الحمد للہ اسی اعتبار سے کئی مساجد ہیں۔ کچھ علاقہ میں مساجد ایک دوسرے سے قریب ہیں۔ اکثر مسلک احناف سے تعلق رکھتی ہیں ۔ آج کل لاؤڈ اسپیکر پر نماز پڑھنے کا عام رواج ہے، خصوصاً جہری نمازیں، فجر ، مغرب، عشا میں لاؤڈ اسپیکر کی آواز اتنی تیز رہتی ہے کہ دوسری مسجد کے مصلیان پہلی مسجد کی آواز بالکل صاف سن سکتے ہیں ۔ ایک مسلک کی نسبت کی و جہ سے نماز کے اوقات بھی تقریباً ملتے رہتے ہیں۔ آواز کی تیزی کی وجہ سے ایک امام کی آواز دوسرے امام کی آواز سے خلط ملط ہوجاتی ہے۔ کبھی کبھار مقتدی کے لیے مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ کس امام کی اقتدا کررہا ہے۔ اسی طرح تراویح کی نماز کی آواز سے پاس پڑوس میں رہنے والوں اور خصوصاً مستورات کو اپنی روز مرہ کے ضروری کام میں احترام قرآن میں بہت دشواری ہوتی ہے کہ قرآن جب پڑھا جا رہا ہو تو احترام سے سننا بھی ضروری ہے۔ شبینہ میں مغرب بعد سے ختم قرآن کا آغاز ہوتاہے جو صبح صادق سے چند منٹ قبل ختم ہوتا ہے۔(شبینہ عموماً شب قدر ہی کو ہوتا ہے) جس کی وجہ سے عام لوگوں کو انفرادی عبادت اور گھروں میں عورتوں کو ذکر واذکار، نماز وتلاوت میں خلل ہوتا ہے۔ یکسوئی بھی حاصل نہیں ہوتی۔ اپنی ضروری حاجتیں پورا کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ دور سے آنے والی لاؤڈ اسپیکر کی آواز، غسل خانہ، بیت الخلا تک پہنچ جاتی ہے۔ ان حالات میں مندرجہ ذیل مسائل کا مفصل ومدلل شرعی حل مطلوب ہیں۔ براے کرم جلد جواب دے کر مشکور کریں۔ فرض نماز کی آواز جو دوسری مسجد کے فرض نماز میں صاف سنائی دیتی ہے اگر بھول سے کوئی مقتدی دوسری مسجد کے امام کی آواز پر اپنی نماز کا رکن ، رکوع، قومہ، سجدہ، جلسہ کرے تو کیا اس کی نماز سجدۂ سہو کرنے سے ادا ہو جائے گی؟

فتاویٰ # 1962

لاؤڈ اسپیکر پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ لاؤڈ اسپیکر صرف اذان خطبہ اور تقریر کے لیے استعمال کیا جائے اور جہری نمازیں بغیر لاؤڈ اسپیکر ادا کی جائیں؟ فقط

فتاویٰ # 1963

لاؤڈ اسپیکر (مائک) سے نماز پڑھ سکتے ہیں کہ نہیں جب کہ مائک سے اذان اور خطبہ دیا جا سکتا ہے تو پھر نماز پڑھانے پر ممانعت کیوں ہے؟ تفصیلی جواب مطلوب ہے۔ والسلام

فتاویٰ # 1964

موجودہ دور میں قریب قریب ہر مسجد میں چھت پنکھے و دیگر پنکھے، کولر لگائے جاتے ہیں جس میں آواز بھی ہوتی رہتی ہے مگر امام کی آواز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتی، تمامی مقتدی تک آواز پہنچ جاتی ہے اور مکبر کی آواز بھی پہنچ جاتی ہے ۔ اب زید کہتا ہے کہ جماعت کے وقت کولر پنکھے بند کردو ۔ سبب معلوم کرنے پر جواب دیا کہ مکروہ ہونے کی وجہ سے بند کردیا جاتا ہے۔ جب کہ اور سب پنکھے چلتے رہتے ہیں ۔ کیا زید کا ایسا کرنا درست ہے؟ اور اگر درست ہے تو کولر پنکھے ہی کیوں جماعت کے وقت بند کرتا ہے اور پنکھے بھی تو آواز کرتے ہیں ان کو بھی بند کرنا چاہیے۔ اور ایک ذمہ دار آدمی کو ایسا کرنا کہاں تک درست ہے؛؟ اور کیا حکم شرعی ہے کہ جماعت کے وقت پنکھے اور کولر کا چلنا درست نہیں ؟ از روے شرع جواب مرحمت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1965

نماز میں کوئی ایسی غلطی ہوگئی کہ اب دوران نماز اس کی تلافی نہیں ہو سکتی اور نہ سجدۂ سہو سے وہ کمی پوری ہوگی تو کیا ایسی حالت میں دوران نماز دونوں سلام پھیر کر نماز کو ختم کر سکتے ہیں؟

فتاویٰ # 1966

قعدۂ اخیرہ میں بقدر التحیات پڑھ چکا ہے کہ ریح خارج ہو گئی ۔ درود شریف ودعاے ماثورہ باقی رہ گیا ہے اب کیا کرے نماز تمام ہوگئی شرعاً کہ اعادہ کرنا ہوگا؟ کیا درود شریف واجبات نماز سے ہے اس کا پڑھنا باقی رہے گیا ہے ۔ اس مسئلہ میں حکم شریعت کیا ہے؟

فتاویٰ # 1967

امام عصر کی نماز پڑھا رہا تھا، قعدۂ اخیرہ میں سجدوں کے بعد بیٹھ ہی رہا تھا کہ جماعت میں شامل کسی مقتدی نے لقمہ دیا لیکن امام بیٹھ گیا اور التحیات کے بعد سجدۂ سہو کیا۔ اس کے بعد التحیات ،درود اور دعاے ماثورہ کے بعد سلام پھیر کر نماز ختم کیا ، سلام کے بعد امام سے دریافت کرنے پر امام نے بتایا کہ میں نے تو نماز ٹھیک ہی پڑھایا تھا لیکن کسی نے لقمہ دیا تو میں نے سہو کا سجدہ کر لیا کہ شاید مقتدی کے جاننے میں کوئی غلطی ہوگئی ہو۔ (۱)- جب امام نے نماز صحیح پڑھائی جیسا کہ امام نے بتایا تو مقتدی کے لقمہ دینے پر سجدۂ سہو کرنا جائز تھا یا بغیر سجدۂ سہو کے نماز صحیح ہوجاتی؟ (۲)- مندرجہ بالا صورت میں نماز ہوگئی یا دہرائی جائے گی؟ اگر نماز ہوگئی تو لقمہ دہندہ کی نماز ہوئی یا نہیں؟ (۳)- امام جہری نماز میں قراءت کر رہا تھا کہ کسی نے لقمہ دیا لیکن امام نے لقمہ نہیں لیا۔ نماز ختم ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ امام نے صحیح قراءت کیا تھا تو لقمہ دینے والے مقتدی کی نماز ہوئی یا نہیں؟ (فرض نماز کی جماعت تھی) براے مہر بانی مدلل جواب تحریر فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1968

جماعت میں نابالغ شامل ہو تو اس کا لقمہ لینے کی صورت میں کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1969

دیوبندی اگر امام کو نماز میں لقمہ دے تو لینا چاہیے یا نہیں؟ اور اس کا لقمہ لینے کی صورت میں کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1970

چار رکعت والی فرض نماز میں امام صاحب دو رکعت کے بعد بیٹھنے کے بجاے کھڑے ہو گئے تو لقمے کے بغیر امام صاحب کو غلطی کا احساس کیسے ہو،تا کہ وہ سجدۂ سہو کریں؟ کیا لقمہ دینے والے کو پھر سے نماز پڑھنی پڑے گی؟ براے کرم تفصیل سے رہبری فرمائیں۔

فتاویٰ # 1971

امام نے قعدۂ اولیٰ نہ کیا سیدھا کھڑا ہوگیا، مقتدی نے لقمہ دیا امام بیٹھ گیا ۔ التحیات پڑھی، سلام کے بعد سجدۂ سہو کرکے نماز پوری کر لی۔ ایک نے کہا سیدھا ہونے پر دہرائی جائے ۔ نماز امام نے دہرائی ۔ فعل اول یا دوئم درست ہے ؟

فتاویٰ # 1972

زید نماز پڑھا رہا تھا قراءت میں بھول گیا، یا غلط پڑھ رہا تھا تو مقتدی اس کو لقمہ دے سکتے ہیں یا نہیں؟ اور لقمہ دینے والے کی نماز ہوگی یا نہیں؟ جب کہ امام نے لقمہ لے لیا تو اس صورت میں لقمہ دینے والے کی نماز ہو گی یا نہیں ، اور امام پر سجدۂ سہو واجب ہوگا یا نہیں؟

فتاویٰ # 1973

روز جمعہ پیش امام نے نماز پڑھائی درمیان قراءت کے اندر کسی مقتدی نے لقمہ دیا باوجود اس کے کہ امام کی قراءت صحیح تھی ، امام نے ٹھہر کر پھر سے آیات کی قراءت شروعات کی مگر مقتدی کا لقمہ نہیں لیا اب اس میں تضاد ہوا، امام کی نماز صحیح ہوئی یا مقتدی کی؟ ان دونوں کی نماز میں سے کس کی باطل ہوئی اور کس کی حاصل ہوئی؟

فتاویٰ # 1974

فرض نماز میں لقمہ دینا جائز ہے یا نہیں خواہ قراءت میں غلطی ہو یا ادایگی ارکان میں اور اگر امام نے لقمہ لے لیا تو کیا سجدۂ سہو واجب ہو جائے گا؟

فتاویٰ # 1975

مقتدی نے امام کو لقمہ دیا اور امام نے قبول نہ کیا یا پیچھے سے پڑھنا شروع کر دیا تو لقمہ دینے والے کا کیا حکم ہے؟ یا دو شخصوں نے لقمہ دیا اور امام نے قبول کیا مگر یہ پتہ نہ چلا کہ کس کا لقمہ لیا اب ان دونوں کا کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1976

(الف) امام نماز فرض میں قعدۂ اولی بھول گیا اور تکبیر کہتا ہوا رکوع کی حالت تک پہنچا تھا کہ مقتدیوں میں سے ایک یا دو نے لقمہ دیا اور واپس قعدہ میں آیا۔ قعدۂ اخیرہ میں اس نے سجدۂ سہو کیا۔ نماز ہوئی یا نہیں؟ (ب) امام کے ہاتھ کی انگلیاں گھٹنہ سے سرک چکی تھیں تب قعدہ میں واپس آیا ۔ قعدۂ اخیرہ میں سجدۂ سہو کیا، اس کے لیے کیا حکم ہے؟ (ج) امام قطعی کھڑا ہوگیا تھا اس کے بعد مقتدی کا لقمہ لیا اور قعدۂ اخیرہ میں سجدۂ سہو کر کے نماز ختم کی۔ ایسی صورت میں نماز ہوئی یا نہیں جو حکم الف، ب، ج کے لیے فرمایا جائے گا، یہی حکم ہر فرض نماز کے لیے ہوگا۔ (ح) امام قعدۂ اخیرہ بھو ل کر یانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوجاتاہے ، مقتدی کے لقمہ پر بھی واپس نہیں آتا صرف یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ چوتھی رکعت ہے اس صورت میں مقتدی لقمہ دینے والا اور باقی مقتدی اور امام کے لیے کیا حکم ہے ،کیا ان کی نماز ہوئی یا واجب الاعادہ ہے؟ (د) امام لقمہ پر واپس قعدہ میں آتا ہے ، سجدۂ سہوبھی کرتا ہے اس کے لیے شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ ہر سوال کا جواب بحوالہ حدیث عطا فرمایا جائے۔ بینوا وتوجروا

فتاویٰ # 1977

کیا فرماتے ہیں علماے دین اس مسئلہ میں کہ نس بندی کیا ہوا شخص: (۱)- امام کے پیچھے اگلی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے یا نہیں؟ (۲)- امام کو لقمہ دے سکتا ہے یا نہیں؟ اگر امام نے لقمہ لے لیا تو نماز ہوگی یا نہیں؟ (۳)- چاند یا دوسری شرعی گواہی دے سکتا ہے یا نہیں اور اس کی گواہی شرعی ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1978

اگر کسی کی عشا کی جماعت چھوٹ گئی تو کیا وہ آدمی جماعت کے ساتھ نماز وتر پڑھ سکتاہے یا نہیں رمضان شریف کے مہینہ میں؟

فتاویٰ # 1979

وتر کی نماز میں رکعت ثالثہ میں سورۂ فاتحہ و سورہ کے بعد نہ رفع یدین کیا اور نہ تکبیر قنوت کہی اور نہ دعاے قنوت پڑھی بغیر رفع یدین وتکبیر قنوت ودعاے قنوت پڑھے ہوئےرکوع میں چلا گیا ۔ بعد رکوع قومہ میں یاد آیا کہ نہ رفع یدین کیا ہوں اور نہ تکبیر قنوت مع دعاے قنوت پڑھا ہوں یہ یاد آنے کے بعد قصداً قیام کی طرف نہیں لوٹا اور نہ تکبیر مع قنوت کیا کہ یہ کرنے کے بعد بھی سجدۂ سہو کرنا پڑے گا آیا یہ صحیح ہے کہ غلط؟ حکم شریعت بیان فرمائیں۔

فتاویٰ # 1980

وتر کی نمازقضا اگر عوام کے سامنے پڑھے توبغیر ہاتھ اٹھاے دعاے قنوت پڑھنا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1981

قربانی کی دعا میں ’’وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ ‘‘ہے کہ ’’وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ ‘‘ہے؟ اور یہ کون سے پارہ کی آیت ہے؟ اور دعاے قنوت میں دوسری جگہ ’’إلیک و نسعیٰ ‘‘ہے کہ’’ إلیک نسعیٰ‘‘، ہے؟ ہم نے اسے کئی کتابوں میں دیکھا مگر سمجھ میں نہیں آیا، اس لیے آپ کے پاس لکھتا ہوں۔

فتاویٰ # 1982

بکر نمازظہر کی چار رکعت کو بغیر پڑھے داخل جماعت ہو ا بعد جماعت پہلے چار سنت مؤ کدہ ادا کرے یا دوسنت مؤ کدہ اور نفل کے بعد ۔ وضاحت فرمائیں

فتاویٰ # 1983

’’جس کے ذمہ فرائض ہوں اس کے نوافل قبول نہیں‘‘ کا کیا معنی ہے؟ کیا دوسرے نیکی کا خیرات، علم دین پڑھنا وغیرہ؟

فتاویٰ # 1984

امام مسجد فرض نماز پڑھانے کے بعد اپنے مقام سے ہٹ کر کیوں باقی نماز پوری کرتا ہے؟

فتاویٰ # 1985

صلاۃ التسبیح میں اگر کسی رکن میں تسبیح بھول جائے یا بھول سے کم پڑھ دیں تو اسی رکعت کے کسی بڑے رکن میں پڑھ لینے کا حکم ہے یعنی کہ نماز کے کل سات ارکان میں سے کسی بڑے رکن میں۔ تو اب پوچھنا یہ ہے کہ نماز کے کل سات ارکان میں سے اکبر ارکان کون کون سے ہیں؟

فتاویٰ # 1986

صلاۃ التسبیح کی نماز باجماعت پڑھنا کیسا ہے نیز یہ اعلان کرنا کہ فلاں مسجد میں صلاۃ التسبیح کی نماز باجماعت ادا کی جائے گی ۔ ایسا اعلان کرنا کیسا ہے؟

فتاویٰ # 1987

عصر کی جماعت شروع ہونے میں ابھی دو منٹ باقی ہیں اس حال میں اگر سنت عصر پڑھ لیں تو صرف پہلی رکعت چھوٹ سکتی ہے بقیہ تین رکعتیں مل جاتی ہیں تو اس صورت میں سنت عصر کا پڑھنا افضل ہے، یا اس سنت غیر مؤ کدہ کو چھوڑ کر دو منٹ انتظار کر کے جماعت میں شریک ہو کر مکمل چار رکعت کا پالینا افضل ہے؟

فتاویٰ # 1988

تراویح سنت مؤ کدہ ہے اگر کوئی شخص نماز عشا پڑھتا ہے مگر تراویح نہیں پڑھتا تو کیا اس کی عشا کی نماز ہو جائے گی ؟ تراویح نہ پڑھنے سے کیا وہ گنہ گار ہوگا جب کہ تراویح با جماعت مسجد میں ہوتی ہو؟ عورتوں کے لیے اس امر میں کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1989

ہمارے گاؤں میں عام رواج شبینہ کا ہے یعنی دو تین حافظِ قرآن کو ایک رات بلا کر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ بلند آواز سے قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے اور اسی رات ختم کیا جاتا ہے اس کام کو باعث خیروبرکت اور دین اسلام کا حکم سمجھا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس طرح شبینہ کا رواج اسلام کے مطابق ہے یا نہیں؟ آیندہ اس کو رواج دیا جائے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1990

سعودیہ عربیہ میں تراویح آٹھ رکعت اور قرآن شریف دیکھ کر تراویح پڑھائی جاتی ہے اور سماعت فرمانے والے بھی قرآن شریف دیکھ کر سماعت فرماتے ہیں تو کیا ان کو شریعت نے کوئی مخصوص چھوٹ دی ہے یا ان کی ہٹ دھرمی ہے اور ان کی نماز تراویح ہوتی ہے کہ نہیں اور اگرہندوستان میں بھی اس طرح پڑھ لی جائے تو ہماری نماز ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ # 1991

سورہ تراویح اگر تنہا پڑھی جائے تو جہر سے پڑھنا ہوگا یا اخفا کرنا ہوگا؟

فتاویٰ # 1992

نابالغ کے پیچھے نماز تراویح جائز ہے کہ نہیں؟

فتاویٰ # 1993

زید تراویح میں دو رکعت پر قعدہ کرنا بھول گیا۔ اور تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا۔ تیسری رکعت کے بعد چوتھی بھی مکمل کر لی ۔آیا یہ کہ ان چار رکعت میں اگلی دو رکعت شماری کی جائے گی یا اخیر کی دو رکعت ۔ کیا صورت مذکورہ میں سجدۂ سہو ضروری ہے؟ اور سجدۂ سہو نہ کرنے کی صورت میں از سر نو نماز لوٹانا ضروری ہے یا نہیں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ # 1994

اگر کسی مسجد میں تراویح میں قرآن سنا رہا ہو اور اس مسجد میں روپیہ دینے کا رواج ہو ایسی صورت میں وہاں تراویح سنا سکتا ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1995

بہار شریعت میں ہے کہ قرآن مجید سننا تلاوت کرنے سے افضل ہے۔ ج۳،ص:۱۰۴۔ اور حضرت علامہ ابراہیم حلبی رحمۃ اللہ علیہ غنیہ میں فرماتے ہیں کہ: ’’استماع القرآن أفضل من تلاوتہ‘‘۔ ان عبارات کی روشنی میں زید کہتا ہے کہ تراویح میں قرآن مجید پڑھانے والے حافظ کو ثواب کم ملتا ہے اور سننے والے کو ثواب زیادہ ملتا ہے۔ اور بکر کہتا ہے کہ ان عبارات کا مفہوم پہلے اپنے جید علما سے سمجھو پھر بولو، کیوں کہ پڑھنے والا دوہرے ثواب کا حق دار ہے۔(۱) پڑھنے کا ، (۲) سننے کا ثواب۔ جب کہ سننے والے کو صرف سننے کا ثواب ملتا ہے۔ لہذا دریافت طلب امر یہ ہے کہ از روے شرع کیا صحیح ہے رقم فرمائیں۔ نیز ان عبارتوں کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ تفصیل لکھ کر مشکور فرمائیں۔

فتاویٰ # 1996

زید حافظ قرآن ہے، نماز تراویح میں قرآن سناتا ہے، مگر صحیح یاد نہ ہونے کی وجہ سے بعض بعض آیتوں کی چار چار پانچ پانچ مرتبہ تکرار کرتا ہے، اسی طرح بعض بعض جگہوں پر کبھی ایک آیت اور کبھی آدھی آیت چھوڑ کر پڑھتا ہے۔ جب کہ کوشش کرتا ہے کہ میں صحیح پڑھوں مگر نادانستہ ایسا ہوجاتا ہے۔ نیز لوگ اسی حافظ کے پیچھے نماز پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ تو ایسی صورت میں نماز ہوئی یا نہیں؟ اور ایسا قرآن پڑھنے والے کے لیے کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1997

اگر کوئی امام تراویح کی نماز، با معاوضہ پڑھانا طے کرتا ہے تو ایسے امام کے پیچھے تراویح کی نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 1998

(۱)- قضاے عمری ادا کرنے کا کون سا وقت افضل ہے اور اس کا طریقہ کیا ہے؟ ہمارے یہاں ایک صاحب ہیں جو قضا ے عمری ادا کر رہے ہیں ان کا معمول ہے ہر نماز کے بعد قضا پڑھنا ۔ مجھے عصر اور فجر کے بعد والی نماز کے بارے میں شک ہے حالاں کہ جماعت سے قبل سنت مستحب اور وظائف پڑھتے ہیں لیکن قضا کو بعد جماعت کے ہی ادا کرتے ہیں۔ (۲)- نماز فرض جماعت کے بعد مقتدی کو کس طرف رخ کر کے دعا مانگنا افضل ہے؟ (۳)- نماز سے فارغ ہو کر مسجد سے باہر کیسے نکلا جائے کعبہ رخ منہ رہے اور پیچھے کی طرف چلے یا گھوم کر سیدھا نکلے؟

فتاویٰ # 1999

زید صاحب ترتیب ہے اور بکر بے ترتیب ہے یہ دونوں حضرات شریک جماعت ہو سکتے ہیں؟ ان پر جماعت واجب ہے یا نہیں؟

فتاویٰ # 2000

فجر اورعصر میں بعد نماز جماعت نفل نمازیں کیوں نہیں ہیں؟ نیز کیا زید قضا نماز یں بعد نماز فجر اور نماز عصر ادا کر سکتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟

فتاویٰ # 2001

رات کو لڑکا سویا ، احتلام ہوگیا اور صبح کو یاد نہ رہا اور نماز پڑھ لی۔ پھر بعد نماز ناپاک کپڑے پر نماز پڑھی تو اب وہ نماز کا اعادہ کرے یا نہیں؟

فتاویٰ # 2002

زید کے ذمہ چند وقت کی نمازیں قضا ہیں اور زید سو سو کیلو میٹر کی دوری پر سفر کو گیا۔ اب زید قضا نمازیں اداکرنا چاہتا ہے تو وہ کیا کرے آیا وہ حالت سفر میں قضا نمازیں پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ اگر پڑھ سکتا ہے تو قضا کی قصر کرےگا کہ پوری پڑھے گا؟ یوں ہی اسی کے برعکس زید کی نمازیں حالت سفر میں قضا ہوئیں اور وہ حالت مقیمی میں اس قضا کو ادا کرے تو وہ کیا کرے آیا قصر کرے گا یا کہ پوری پڑھے گا؟

فتاویٰ # 2003

اگر ظہر کی نماز قضا ہوجائے تو عصر کی اذان ہونے کے بعد قضا پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ اور اگر عصر کی نماز قضا ہو گئی تو پہلے مغرب کی نماز ادا کریں کہ عصر کی نماز ۔ اگر مغرب کی نماز کے بعد قضا نماز پڑھے تو نماز الٹا پلٹا ہو جائے گی۔ تفصیل سے جواب دیں۔

فتاویٰ # 2004

دائم الصلاۃ فوتیہ نماز سے قبل وقتیہ نماز پڑھ سکتا ہے یا نہیں چاہے ایک نماز فوت ہو یا زیادہ؟

فتاویٰ # 2005

زید کی چالیس سال کی نماز قضا ہوگئی ہے۔ اب اس کی ادایگی کی کیا صورت ہوگی؟

فتاویٰ # 2006

زید سترہ ۱۷؍ سال کی عمر سے نماز کی پابندی کرتا ہے اب وہ قضاے عمری کرنا چاہتا ہے تو اس سے پندرہ سال کے بعد جو نمازیں قضا ہوئی ہیں ان کی ہی قضا کرے گا یا اس سے پہلے بارہ سال سے جو قضا ہوئی ہیں ان کی بھی؟ از روے شرع جواب دیں۔ واضح رہے کہ زید سے علامت بلوغ مثلاً احتلام وغیرہ پندرہ سال کے بعد سے صادر ہوئی۔

فتاویٰ # 2007

قضاے عمری نمازجو ۶۰؍ سال کی قضا ہے اس کی نیت کس طرح ہوگی؟ بتائیں۔

فتاویٰ # 2008

میت کو دفن کرنے سے پہلے چند سیر غلہ اور چند سکے لے کر جنازہ کے قریب بیٹھ کر ایسا کہتے ہوئے سامنے والے آدمی سے کہتے ہیں کہ جو فرض اور واجب اور مستحب ترک ہوئے ہوں اس کی ساری زندگی میں اس کے بالعوض یہ غلہ اور ہدیہ تمھیں دیا جاتا ہے تم نے قبول کیا؟ لینے والا حلف پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے کہ میں نے قبول کیا۔ ایسا تین بار کہلواتے ہیں ۔ کیا یہ جائز یا درست ہے؟ بینوا

فتاویٰ # 2009

ہماری مسجد کے پیش امام صاحب کی صبح کی نماز قضا تھی، انھوں نے بقر عید کی نماز سے پہلے قضا نماز ادا کرنے کے بعد بقر عید کی نماز پڑھائی۔ زید نے امام صاحب سے پوچھا کہ آپ نے کون سی نماز پڑھی؟ امام صاحب مصلحت کی بنا پر بولے کہ میں نفل نماز پڑھا ہوں۔ اس لیے کہ قضا نماز کو ظاہر نہ کرنا چاہیے۔ زید نے کہا کہ کتاب میں لکھا ہے کہ نفل نماز نہ پڑھنا چاہیے۔ امام صاحب نےمصلحت کومد نظر رکھتے ہوئے کہا کہ اچھا کتاب لاؤگے تو میں دیکھوں گا۔ اب زید امام صاحب کوبغیر معلوم کرائے لوگوں کے سامنے ان کی توہین کرتا ہے۔ ان کے پیچھے ہم کیا نماز پڑھیں، امام صاحب ایسا کام کرتے ہیں، اس طرح زید لوگوں میں فتنہ پیدا کر رہا ہے۔ لہذا زید کے لیے حکم شرعی کیا ہے؟

فتاویٰ # 2010

(۱)- نماز جمعہ میں تلاوت قرآن کریم کے درمیان کسی مقتدی نے لقمہ دیا اور امام نے قبول کر لیا اور نماز پوری کر لی اس کے بعد مقتدیوں کا کہنا ہے کہ سجدۂ سہو کیوں نہیں کیا؟ براے کرم مسئلہ درکار ہے۔ (۲)- جمعہ کی نماز میں سورۂ جمعہ کا آخری رکوع تلاوت کر رہا تھا ۔ ایک آیت پوری کی پھر تیسری آیت میں چلا گیا۔ خیال آنے پر دوسری آیت پر لوٹ آیا اور پورہ رکوع پڑھ کر تشہد کے بعد سجدۂ سہو کر لیا اور نماز پوری کی تو مقتدیوں کا کہنا ہے کہ نماز لوٹانی پڑے گی کہ امام نے سجدۂ سہو کیوں کیا ؟ اس لیے مسئلہ درکار ہے نماز لوٹانی پڑے گی، یا ہو گئی؟

فتاویٰ # 2011

امام نماز عصر پڑھا رہا تھا تیسری رکعت میں کھڑا ہونے کے بجائے بیٹھ گیا ابھی تین تسبیح کے مقدار بیٹھا بھی نہیں تھا کہ مقتدیوں نے لقمہ دیا اور فوراً کھڑا ہوگیا تو اس حالت میں سجدۂ سوہ واجب ہوگا یا نہیں؟قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل جواب تحریر فرمائیں، نوازش ہوگی۔

فتاویٰ # 2012

ایک نمازی پہلی رکعت میں صرف ایک سجدہ کیا دوسری رکعت میں یاد آیا اس نے دوسری رکعت میں تین سجدہ کیا اور سجدۂ سہو سے نماز پوری کی نماز ہوئی یا نہیں؟

فتاویٰ # 2013

مغرب کی نماز میں آخری قعدہ کر کے بھول کر دوسری سمجھ کر پھر گھڑا ہو گیا اور رکوع سجدہ بھی کیا بعد میں یاد آیا کہ یہ چوتھی رکعت ہے مگر مغرب کی تین ہی فرض ہیں تو ایسی صورت میں کیا کرے؟ جواب تحریر فرما کر رہ نمائی فرمائیں۔

فتاویٰ # 2014

نماز کی حالت میں قیام میں سہواً التحیات یا کوئی دوسری چیز درود وسلام وغیرہ پڑھ لیا ایسی صورت میں کیا حکم ہے؟ اسی طرح قعدہ میں کوئی سورہ یا کوئی دوسری دعا زبان پر جاری ہوگئی تو مصلی کیا کرے؟ سجدۂ سہو واجب تھا اور بھول سے درود شریف حتی کہ ماثورہ تک پڑھ گیا اب کیا کرے؟

فتاویٰ # 2015

مسبوق نے امام کے قعدۂ اخیرہ میں تشہد کے آگے اللہم صلی علی بھی بھول کر پڑھ لیا۔ امام کے سلام پھیرنے کے بعد مسبوق اپنی بقیہ رکعت ادا کرنے کے لیے کھڑا ہوگیا۔ تو اب مسبوق اپنے قعدۂ اخیرہ میں سجدۂ سہو کرے یا نہیں؟

فتاویٰ # 2016

(۱)- نماز میں سجدۂ سہو لازم تھا سہواً تمام رکعت کے بعد دونوں جانب سلام پھیر دیا پھر یاد آیا کہ سجدۂ سہو کرنا ضروری تھا۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ حکم شریعت نافذ فرمائیں ۔ (۲)- نیز یہ کہ تشہد میں قرآن کی آیات یا سورۂ فاتحہ پڑھنے سے سجدۂ سہو لازم آئے گا یا نہیں؟

فتاویٰ # 2017

جماعت سے نماز ہورہی ہے چار رکعت کی نماز ہے۔ قعدۂ اولیٰ میں امام صاحب سے سہو ہو گیا یعنی قعدۂ اولیٰ ترک ہوگیا۔ ایک شخص آتا ہے اور تیسری یا چوتھی رکعت میں جماعت میں شامل ہوگیا۔ امام تو سجدۂ سہو کرےگا ۔ سوال یہ ہے کہ شخص مذکور امام کے ساتھ ہی سجدہ کرے گا، یا امام صاحب کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہوجائے اور اپنی چاروں رکعت پوری کر کے سجدۂ سہو کرے؟ اگر شخص مذکور دوسری رکعت میں جماعت پالے تو سجدۂ سہو امام کے ساتھ ہی کرے یا چپ خاموش بیٹھا رہے، یا امام سجدہ کر کے تشہد پوری کرکے سلام پھیرے اور یہ کھڑا ہو جائے اور اپنی بقیہ رکعت پوری کر کے سجدۂ سہو کرے یا کیا؟ زید کہتا ہے کہ یہ شخص مسبوق ہے امام سے کہیں پر ترک واجب ہو سجدۂ سہو میں شخص مذکور کو امام کی اقتدا کرنی ہوگی ورنہ سرے سے نماز نہ ہوگی۔ حکم شرعی سے مطلع فرمائیں۔ فقط

فتاویٰ # 2018

امام مسجد نماز جمعہ پڑھا رہے تھے ۔ دونوں رکعت میں صحیح سورتیں پڑھیں۔ اس کے باوجود بھی سجدۂ سہو کیا۔ سلام کے بعد ایک مقتدی نے دریافت کیا کہ آپ نے دونوں آیتیں درست پڑھیں تو سجدۂ سہو کیوں کیا؟ امام نے جواب دیا کہ میں مالک سے بہت ڈرتا ہوں اس لیے سجدۂ سہو کیا ۔ امام کا جواب صحیح ہے ؟ اور نماز ہوگی کہ نہیں؟

فتاویٰ # 2019

زید نے بھری رکعت میں صرف سورۂ فاتحہ پڑھ کر سجدۂ سہو کر کے نماز پوری کر لی۔ آیا اس کی نماز ہوئی یا نہیں؟ زید کہتا ہے کہ ہوگئی اس لیے کہ سورۂ فاتحہ پڑھنا واجب تھا ادا کر لیا اور قراءت کے بارے میں قرآن کا حکم ہے: فَاقْرَءُوْاوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ١ؕ ۔ یہ عام حکم ہے اور سورۂ فاتحہ عام کا ایک فرد ہے لہذا سورۂ فاتحہ ہی سے وجوب وفرضیت قراءت دونوں ساقط ہو گئے ۔صرف ضم سورت چھوٹا جو واجب تھا اور ترک واجب سے سجدۂ سہو واجب بریں بنا سجدۂ سہو کر لینے سے نماز پوری ہوگئی۔ آیا زید کا یہ قول مطابق شرع ہےیا مخالف شرع؟ اگر زید کا یہ قول صحیح ہے تو ضم سورت کے قصداً یا سہواً ترک سے سجدۂ سہو واجب ہوگا یا نہیں؟مفصل تشریح فرمائیں۔ بینوا وتوجروا

فتاویٰ # 2020

فجر کی نماز میں سجدۂ تلاوت کیا جا سکتا ہے یا نہیں جب کہ آیت سجدہ پڑھی ہو؟

فتاویٰ # 2021

چار رکعت والی نماز میں تیسری رکعت پر بیٹھ گیا مگر بیٹھتے ہی یاد آگیا اور اٹھ گیا، یا درود شریف تھوڑا پڑھنے کے بعد یاد آگیا اور اٹھ گیا تو سجدۂ سہو کرنا واجب ہوگا یا نہیں؟

فتاویٰ # 2022

کیا حنفیہ کا کچھ مسئلہ اس طرح ہے کہ جماعت کی نماز ہوئی اور کسی وجہ سے ناقص یا فاسد ہو گئی پھر امام بلاتا رہے مقتدیوں کو کہ آؤ دوبارہ پڑھ لو پھر بھی مقتدی نہ پڑھیں کیا اتنے پر بھی مقتدی کی نماز ہو جائے گی ؟

فتاویٰ # 2023

علماۓ کرام کی بارگاہ میں ایک سوال عرض ہیں کی اگر مسجد کا امام فاسق معلن ہوتو کیا اہل علم پر اس بنا پر جماعت واجب نہ ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر دو تین علم والے ہو تو کیا ان پر جماعت واجب ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ امام فاسق معلن ۔۔۔ہو۔۔۔۔۔۔براۓ کرم بحوالا جواب عنایت فرماۓ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساٸل عبدالعزیز رضام۔۔۔۔۔۔مہراجگنج۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فتاویٰ # 2035

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ سوال:: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ایک حافظ صاحب ہے انکی شادی ہو چکی ہے لیکن جہاں پر وہ امامت کرتے تھے وہاں انکو ایک لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے وہ اسکو فرار کرکے اپنے گھر لے آتے ہیں اور اس کام کو عوام میں نہایت ہی برا سمجھا جاتا ہے تو کیا حافظ صاحب پر فسق کا ہوا حکم لگے گا یا نہی اگر وہ امامت کرے تو کیا ان کی پیچھے نماز ہوگی یا نہیں

فتاویٰ # 2057

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ خدمت میں عرض یہ ہے کہ کرتہ کی پہلی بٹن جو سب سے اوپر گلے سے متصل ہو کھلی رہے تو نماز مکروہ ہوگی یا نہیں ؟بہار شریعت میں جو سینہ کھلے رہنے پر مکروہ لکھا گیا ہے اس سے کتنا حصہ مراد ہے ؟کیا گھنی لمبی داڑھیوں سے سینہ چھپا لیں تو نماز کراہت کے ساتھ ہوگی یا نہیں ؟سینہ کا آغاز کہاں سے ہے ؟

فتاویٰ # 2064

السلام علیکم و رحمۃ اللہ Kya farmate hai ulama o muftiyan e kiram is mas'ale ke talluq se ke masjid me namaz ke liye loud-speaker use karna kaisa? Aur yeh bhi irshad farma dijie ke furu'ii masa'il me ek dusre par taan-o-tashreeh karna,jo jawaz ka qail ho use baar baar adm-e-jawaz ke liye qail karna kaisa? Barae karam ba-dalail aur tafseelan jawab inayat farmae Allah paak aap ke ifta ko khidmat e deen ke liye hamesha kosha rakhhe .....aamin جزاک اللہ خیرا

فتاویٰ # 2067

Assalamualaikum, Hazrat mera sawal hai.. Jo log Jan bhujh kar Eid ya Baqra Eid ka namaz nahi parhe un logon ke liye Quran ,Hadis ke roushni me kya hukm hai?

فتاویٰ # 2070

Salam, Namaz e Asr me Imam Sahab Qada ula bhool gye aur poora sidha khade ho gye, kisi ne Imam Sahab ko luqma diya unhone luqma qubool kar liya, wapas qada me chale gye aur namaz ke aakhir me sajda e sahw kar liya. Mazkoora surat me namaz ho gyi ya fir nhi ilteja : Agar is par ek written Fatwa Pdf form me mil jae to badi mehrbani hogi. JazakAllahu Khaira

فتاویٰ # 2092

کیا داڑھی منڈا یا جس نے ایک مشت سے کم داڑھی رکھی ہو وہ نمازِ جنازہ کی امامت کروا سکتا ہے اور اگر وہ امامت کروائے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟

فتاویٰ # 2111

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ علمائے کرام کی بارگاہ میں سوال عرض ہے کہ امام صاحب دو -دو تین-تین مصلے ایک پر ایک بچھا کر نماز پڑھاتے ہیں ۔ کیا نماز ہو جائے گی؟ المستفتی۔ محمد ہاشمی قادری مبارکپور اعظم گڑھ یوپی۔ انڈیا

فتاویٰ # 2115

Assalamualikum Kya fatawa razviya me aala hazrat ne aisa koi fatwa diya hai kya Ki agar koi khula wahabi namaz ki safo me aa jae. To safa mukatah yaani kat jati hai..

فتاویٰ # 2117

Assalamualaikum,Hazrat mai ek sarkari mulajim hun,duty ke dauran kuch namajen kaza ho jati to is par sarai hukum kya lagu hoga? Rahnumai farmayen.

فتاویٰ # 2151

السلام عليكم ورحمه الله وبركاته سوال - لاؤڈ اسپیکر پر نماز پڑھنا کیسا ؟؟

فتاویٰ # 2159

Assalam Alaikum Warahmatullah Wabarakatuh 3 month qabal maine yahi sawal bheja tha abhi tak jawab mausool nahin hua braye meharbani jawab se nawazein Kya farmate hain ulamaye deen wa muftiyane shar-e-mateen masla zail mein. Zaid masjid ka muazzin hai uski beti ne ghair muslim ladke se shadi ki hai, beti aur damad ka baap ke ghar pe aana jana hai baap ke saath milna julna hai. Kya zaid jo masjid ka moazzin hai uski azan aur iqmat me namaz sahih hai? Aur uski iqamat me padhi hui namaz ka kya hukm hai? Braye meharbani jawab se nawazein Note: nacheez ke computer mein urdu font nahin hai isliye roman urdu me bheja hai, braye meharbani sawal aur jawab dono urdu me irsaal farmayein, JazakAllah khair

فتاویٰ # 2165

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام مسئلہ ذیل میں کہ اگر سجدہ چھوٹ جائے تو یاد آنے پر کس طرح نماز پوری کرے یعنی غالب گمان ہے کہ سجدہ یا رکوع چھوٹ گیا ہے اور ابھی نماز میں ہے تو یاد آنے پر کس طرح نماز پوری کی جائے

فتاویٰ # 2230

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علماے دین و فقہاے شرع متین مسئلہ ھذا میں کہ نمازی کے پیر کی تین تین انگلیوں کے پیٹ کا زمین سے لگنا واجب ہے اگر کوئی نمازی کئ سال تک انجانے میں انگلیوں کو بغیر زمین پر لگاے نماز پڑھتا رہا تو اس کے لیے شرعاً کیا حکم ہے آیا وہ تمام نمازیں واجب الاعادہ ہوگی؟ نہیں اور اگر فدیہ دینا چاہے تو دے سکتا ہے یا نہیں ؟اگرچہ تندرست ہو، مدلل و مبرھن جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں المستفتی: تنویر عالم مصباحی سکونت: امبیڈکر نگر،یوپی

فتاویٰ # 2237

السلام عليكم ورحمه الله وبركاته مفتى صاحب! کیا غروب طلوع وزوال کا وقت تلاوت قرآن کے لۓ مناسب نہیں ہے یا چوآز کی صورت نہیں ہے جواب عنایت فرمائیں نواز ش ھوگی

فتاویٰ # 2331

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام کہ زید نے ایک عالم دین جو مفتی بھی ہیں ان کے پیچھے نماز ادا کرتے اور یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ہم ان کے پیچھے نماز کیا پڑھتے، ہم تو سزا بھکت رہے ہیں ، ایک مقتدی کا اپنے امام کے بارے میں ایسیا کہنا کیسا ہے، اس پر شرعی رہنمائی درکار ہے۔

فتاویٰ # 2336

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved