یہ ادارہ ہندوستان کے صوبہ یوپی کے مشہور ضلع اعظم گڑھ کے اندر قصبہ مبارک پور میں واقع ہے یہ اسلامیان ہند کا معتبر دینی تعلیمی ادارہ ہے اس کے مختلف شعبے اور بہت سی عمارتیں آپ دیکھیں گے۔ اس ادارہ کے فارغین ہندوستان میں اور اس کے باہر امریکہ ، افریقہ ، یورپ وغیرہ کے مختلف ملکوں اور شہروں میں تدریسی، تنظیمی، دعوتی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ کچھ ان کی تفصیل بھی آپ ملاحظہ کریں گے۔
شروع میں ایک مکتب کی حیثیت سے قائم ہوا جس کا نام مدرسہ لطیفیہ، پھر دار العلوم بنا جو ’’دار العلوم اشرفیہ مصباح العلوم‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ بعد میں جب اس کی مزید توسیع ہوئی تو ’’الجامعۃ الاشرفیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے فارغین قدیم نام مصباح العلوم کی نسبت سے ’’مصباحی‘‘ کہلاتے ہیں۔
۱۳۱۷ھ/ ۱۸۹۹ء میں مبارک پور کے غریب مسلمانوں نے محلہ پورہ رانی دینا بابا کی مسجد کے قریب پچھّم طرف چھوٹےسے سفالہ پوش مکان میں ایک درس گاہ قائم کی جس کا نام مدرسہ مصباح العلوم تجویز کیا۔ اس کا تعلیمی معیار ناظرہ، قرآن مجید ا ور ابتدائی دینی تعلیم تھا، تمام لوگ تنگ حالی کے باوجود مل جل کر اس کا تعاون کرتے تھے۔ سنی دیوبندی کا کوئی اختلاف نہیں تھا۔ چند اہل تشیع کے سوا باقی تمام اہل سنت وجماعت تھے۔
اس وقت مدرسہ کے مدرسین میں مولانا محمد صدیق گھوسوی، مولانا نور محمد مبارک پوری اور مولوی محمد محمود ساکن پورہ معروف ضلع اعظم گڑھ تھے۔ سوئے اتفاق مولوی محمد محمود دیوبندی نکلے، بڑی خاموشی سے انھوں نے اپنا کام شروع کیا، دو طالب علم، مدرسہ کے ناظم اور چند دیگر لوگ ان کے دام فریب میں آگئے۔ جب امکان کذب باری تعالی کی بحث چھیڑی تو ان کی دیوبندیت کا راز فاش ہوا۔ اس سنی دیوبندی کش مکش میں مدرسہ بھی دیوبندیوں کی شاطرانہ سازشوں کا شکار ہو کر بند ہوگیا۔ دیوبندیوں نے ’’احیاء العلوم‘‘ کے نام سے اپنا مدرسہ الگ قائم کر لیا۔ مبارک پور کے بلند حوصلہ مسلمانوں نے اس کے بعد اپنا مدرسہ اسی نام سے گولہ بازار کی مسجد میں ۱۳۳۶ھ/ ۱۹۰۸ء میں جاری کیا۔
۳۰؍۱۳۲۹ھ/ ۱۹۱۱ء میں اہل سنت وجماعت نے مدرسہ مصباح العلوم کی نشاۃ ثانیہ کی تو بہادر شاہ ظفر کی اولاد میں ایک تارک الدنیا بزرگ حضرت شاہ عبد اللطیف چشتی (ستھن شریف ضلع سلطان پور، یوپی) کے ایک مرید مولانا محمد عمر لطیفی مبارک پوری، اور شیخ المشائخ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی (م۱۳۵۵ھ/۱۹۳۶ء) کے مریدین کی خواہش کے مطابق اس کا نام ’’مدرسہ لطیفیہ اشرفیہ مصباح العلوم‘‘ تجویز کیا۔ یہ مدرسہ محدود پیمانے پر روایتی انداز سے موجودہ نگر پالیکا کے قریب ایک چھوٹی سی دو منزلہ عمارت میں کام کرتا رہا۔ اس کے بعد مدرسہ لطیفیہ اشرفیہ اپنی خانہ بدوشانہ زندگی گزارتے ہوئے ۱۳۴۱ھ/ ۱۹۲۲ء میں پرانی بستی میں اس جگہ قائم ہوا جسے عام طور پر لوگ پرانا مدرسہ کے نام سے جانتے ہیں۔ پھر خدا جانے کب اور کن وجوہ کے پیش نظر ’’لطیفیہ‘‘ کی نسبت کو خارج کر دیا اور مدرسہ کا نام ’’مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم‘‘ باقی رہ گیا۔
مدرسہ مصباحی العلوم اپنے محسن مدرس مولانا محمد صدیق گھوسوی (جو حضور صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی کے چچا زاد بھائی تھے) کے انتقال کے بعد کئی مدرسین کی آمد ورفت کی وجہ سے قابل ذکر ترقی نہ کر سکا۔
مولوی شکر اللہ مبارک پوری ۱۳۳۶ھ میں دار العلوم دیوبند سے فارغ ہو کر مبارک پور آئے اور اپنے مسلک کے فروغ کے لیے سرگرم ہوگئے، ۱۳۳۷ھ میں حامیان مسلک دیوبند نے از خود اپنا جمعہ الگ قائم کر لیا جب کہ یہ سب کے سب جامع مسجد راجہ مبارک شاہ میں جمعہ وعیدین وغیرہ پڑھا کرتے تھے۔ مولوی شکر اللہ کی مسلسل پیش قدمی سے سنی عوام میں اضطراب پیدا ہوا اور ان کی زبردست خواہش وکوشش ہوئی کہ یہاں کوئی ایسا متحرک وفعال جلیل القدر سنی عالم آئے تاکہ اس فتنے کا سد باب اور مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم کی ترقی کی راہ ہموار ہو سکے۔ اہل مبارک پور نے صدر الشریعہ حضرت مولانا امجد علی اعظمی (م ۱۳۶۷ھ / ۱۹۴۸ء) اور محدث اعظم ہند مولانا سید محمد اشرفی کچھوچھوی (م۱۳۸۱ھ/ ۱۹۶۰ء) کو مدعو کیا اور ان دونوں بزرگوں نے اہل مبارک پور کی خواہش اور حالات کے تقاضے کے پیش نظر ایک نیک سیرت اور باصلاحیت صدر مدرس کا انتخاب کیا جس کا نام مولانا حافظ عبد العزیز مراد آبادی تھا۔ جو اپنی دینی وعلمی ہمہ گیر اور آفاقی خدمات کی وجہ سے استاذ العلما جلالۃ العلم حافظ ملت ابو الفیض علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی بانی الجامعۃ الاشرفیہ (م۱۳۹۶ھ/۱۹۷۶ء) کی حیثیت سے صفحات تاریخ پر روشن وتابندہ ہیں۔
حافظ ملت کی دینی اور علمی سربراہی میں اشرفیہ کے ارباب حل وعقد اور مخلصین اہل سنت نے محرم ۱۳۵۳ھ سے ربیع الآخر ۱۳۵۳ھ کے تقریری ہنگاموں کا ماحول سرد پڑتے ہی ایک نیا تعمیری سفر شروع کر دیا، جامع مسجد راجہ مبارک شاہ میں جمعہ کے دن اشرفیہ کی تعمیر وترقی کا منصوبہ پیش کر کے چندہ کی مہم شروع کردی، مبارک پور کے زندہ دل سنی مسلمانوں نے اس وقت کی معاشی کمزوری کے باوجود ہر ممکن تعاون پیش کیا، دو ماہ تک چندہ کی وصولیابی کا سلسلہ چلتا رہا، اس چندہ کے پرجوش ماحول کی منظر کشی کرتے ہوئے روداد اشرفیہ کے مرتب رقم طراز ہیں:
روپیہ، پیسہ ، گائے، بھینس، مرغی، بکری، گھوڑا، برتن، کپڑا، زیور ہر قسم کی چیز کو نثار کیا، وہ کون سی اپنی ضرورت کی چیزیں ہیں جو مسلمانان مبارک پور نے اپنے مدرسہ پر قربان نہ کی ہوں۔ ایثار وقناعت اسی کا نام ہے، زیور عورتوں کو کس قدر مرغوب ومحبوب ہے، ہر چیز سے پیارا اور ہر چیز سے محبوب تر عورتوں کے لیے زیور ہے مگر واہ رے جذبہ دینی! پہلی منزل کے تعمیری چندہ میں علاوہ طلائی زیور کے عورتوں نے تخمینا سوامن پختہ زیور مدرسہ پر نثار کیا۔ (روداد دار العلوم اشرفیہ،ص:۳۔ ۱۳۵۶ھ)
دار العلوم اشرفیہ کی عمارت کے لیے حضور حافظ ملت اوران کے معاونین نے شیخ محمد امین انصاری (۱۳۸۸ھ/۱۹۶۸ء) سے گولہ بازار مبارک پور میں ایک وسیع زمین حاصل کی اور ۱۹۳۵ء میں اس کی سنگ بنیاد کی تاریخ طے پائی، جلسہ سنگ بنیاد میں شیخ المشائخ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی ، حضرت صدر الشریعہ اعظمی، حضرت محدث اعظم ہند، اور دیگر علماے اہل سنت شریک ہوئے۔ بعد نماز جمعہ بزرگان دین اور حضور حافظ ملت نے اپنے مقدس ہاتھوں سے دار العلوم کا سنگ بنیاد رکھ کر اس کے فروغ وترقی اور بقا واستحکام کی دعا فرمائی۔ اس کا تاریخی نام باغ فردوس ۱۳۵۳ھ ہے۔ دار العلوم اہل سنت مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم اس کا نام تجویز ہوا اور دار العلوم اشرفیہ کے نام سے اسے شہرت حاصل ہوئی، اس کی دومنزلہ عظیم الشان عمارت دس سال میں تیار ہوئی ، تقریبا چالیس برس تک اسی عمارت میں تعلیم ہوتی رہی اور نونہالان ملت لعل وگہر بن کر نکلتے رہے۔ خستہ حال ہونے کی وجہ سے قدیم عمارت شہید کر کے اس کی جگہ انتہائی خوب صورت اور پرشکوہ پانچ منزلہ عمارت کی تعمیر ۸؍ جمادی الآخرہ ۱۴۲۱ھ/ ۸؍ ستمبر ۲۰۰۰ء کو مکمل ہو چکی ہے۔
دار العلوم اشرفیہ کی عمارت طالبان علوم نبوت کے لیے ناکافی ثابت ہو رہی تھی، حافظ ملت نے اپنی بلند نگاہی اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ اس علمی اور ملی ضرورت کے پیش نظریہ طے کیا کہ آبادی سے باہر نکل کر کسی وسیع خطہ زمین پر ایک شہر علم بسایا جائے۔ طے شدہ خطوط پر مبارک پور کے جنوبی حصے میں الجامعۃ الاشرفیہ کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے کافی وسیع وعریض زمین کی خریداری ہوگئی اور اعلان کر دیا گیا کہ ۵؍ ۶؍ ۷؍ مئی ۱۹۷۲ء میں تاریخ ساز تعلیمی کانفرنس کی جائے گی۔
آج جہاں الجامعۃ الاشرفیہ کی پر شکوہ مرکزی عمارت ہے وہیں اور اس کے آس پاس تعلیمی کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا۔
اس کانفرنس میں شریک ہونے والے چند علما ومشائخ کے نام حسب ذیل ہیں:
حضرت حافظ ملت کی سرپرستی میں اس کانفرنس کے خصوصی مہتمم رئیس القلم حضرت علامہ ارشد القادری مد ظلہ العالی تھے۔ ۱۳۹۲ھ ۷؍ مئی ۱۹۷۲ء کی شام کو حضور مفتی اعظم ہند، حضرت سید العلما مارہروی اور دیگر علما ومشائخ کرام نے الجامعۃ الاشرفیہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس وقت کا منظر اور لوگوں کے جذبات کا تلاطم دیکھنے کے قابل تھا۔ لوگ وفور جذبات سے بے قابو ہو کر الجامعۃ الاشرفیہ کی تعمیر اور اس کے تابناک مستقبل کی دعا اور مالی تعاون کے لیے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کر نے کی کوشش کر رہے تھے۔ الجامعۃ الاشرفیہ کی مرکزی درس گاہ جس کا سنگ بنیاد حضور مفتی اعظم ہند و دیگر علماے اہل سنت نے رکھا اس کی دو منزلہ شاندار عمارت ڈیڑھ سال میں مکمل ہو گئی اور اب دار الحدیث کے اوپر ایک نہایت باوقار گنبد بھی تعمیر ہو چکا ہے۔
۱۶؍ ۱۷؍ نومبر ۱۹۷۳ء میں دوسری تعلیمی کانفرنس ہوئی جس میں سابقہ ذوق وشوق کے ساتھ علما ومشائخ اور عوام وخواص نے بھر پور حصہ لیا اور علما کی میٹنگ میں مزید تعمیری امور ، نظام تعلیم ونصاب تعلیم اور دستور اساسی پر غور وخوض ہوا۔
اس وقت ۱۴۲۱ھ /۲۰۰۱ء میں الجامعۃ الاشرفیہ میں ڈیڑھ سو سے زائد مدرسین وملازمین متعلقہ امور کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔ بارہ سو سے زیادہ طلبہ ہاسٹل میں ہیں ان کے علاوہ درجات پرائمری، ہائی اسکول، نسواں پرائمری اور ہائی اسکول میں قریب ۶؍ ہزار طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں۔ اس کی مختلف تعلیمی شاخیں بھی ہیں۔ ان کے علاوہ کئی مدارس ایسے ہیں جن کے بعض مدرسین کی تنخواہیں اشرفیہ کی طرف سے دی جاتی ہیں۔
بفضلہٖ تعالیٰ! اشرفیہ کو اپنی قوم کا اتنا اعتماد حاصل ہے کہ تعلیم وتعمیر کے سلسلے میں کسی قابل ذکر پریشانی کے بغیر اس کا ہر کام وقار وسکون اور اعتدال وتوازن کے ساتھ جاری ہے۔ شہزادہ حافظ ملت عزیز ملت حضرت علامہ شاہ عبد الحفیظ صاحب مراد آبادی سربراہ اعلی وصدر الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کی پر عزم اور مستحکم قیادت میں یہ تعلیمی اور تعمیری کارواں اپنی منزل کی جانب پورے ولولہ وترنگ کے ساتھ رواں دواں ہے۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org