12 December, 2024


دارالاِفتاء


Assalam wa alaikum, Masla : Zameen(Ghar) ka baare mei Saail ka Name : Qamruddin Ismail Shaikh walid ka name : Ismail Husain shaikh walida ka name : Roshan B Total bhai aur bahne 1)(Mehmooda (Bahen) 2)(Najmunnisa(Bahen) 3)(Mehrunnisa(bahen) 4)(Shabera(bahen) 5)(Nooruddin(chhota Bhai) Meri saari bahno aur bhai ki shadi ho chuki hai aur sabhi bahne aur bhai ba hayat hai sirf shabera bahen ka inteqal ho chuka hai unke shohar aur bacche ba hayat hai Asal masla :Hamara ek ghar hai jo kisi wajah se mere walid ne meri walida ka name kar rakha tha jisme mere waliden,mere chhote bhai ki family aur meri family sath me raha karte the. meri walida ke inteqal k baad bahno k israr par ye ghar mere chhote bhai k name kardiya gaya jisme mere walid ki dakhal andazi nahi thi q k mere walid ko paralise ki bimari thi lekin walid ko pata tha k ghar mere chhote bhai k name ho chuka hai.jisme unko koi pareshani nahi thi.Ye ghar chhote bhai k name hone k baad bhi mai aur mere chhote bhai ki family sath mei hi rehti thi. Ek aur ghar mere waliden ne le rakha tha,ye ghar mere waliden ki hayati mei mere name ho chuka tha lekin is ghar mei meri bahen raha karti thi q k bahen ne kisi wajah se apna khud ka ghar bech diya tha is wajah se mai ne bahen ko is ghar mei rahne ki ijazat di thi.lekin is ghar par mera taaba nahi tha matlab mai kabhi bhi is ghar mei rahne k liye nahi gaya tha,mere waliden k inteqal k baad bhi mai kabhi bhi is ghar par apni family k sath rehne nahi gaya tha. abhi bhi meri bahen apni family k sath is ghar mei rehti hai. Ab masla ye hai k mere waliden ka inteqal ho chuka hai aur Ab meri saare bahne hum dono bhaiyo se in dono ghar ka haq maang rahi hai,to ab masla bataye k kya bahno ka haq in dono ghar mei banta hai aur agar banta hai to kisko kitna hissa milega. JAZAK ALLAH

فتاویٰ # 56

اسلام علیکم حضرت اگر کوئی شخص شادی کیا ایک سال بعد بیوی کا انتقال ہوگیا پھر اس نے دوسری شادی کی- پہلی سے ایک لڑکا اور اور دوسری بیوی سے چار لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں تو انکے دھن دولت کھیتی باڑی پراپرٹی کا بٹوارہ شریعت کے حساب سے کیسے ہونا چاہیئے - اگر پہلی بیوی کے کچھ زیورات بھی رہے ہوں تو اس کا مالکانہ حق کس کو ملنا چاہیے. اور بچیوں کی شادی گھر کے کمبائن اخراجات سے ہوچکا ہو- ایسے میں ایک باپ کو پوری جائیداد کو کیسے تقسیم کرنی چاہیے؟

فتاویٰ # 546

جناب مفتی ساھب۔ السلام علیکم ورحمتوللاہی وبرکاتوہو ۔ *وراثت کے معاملے مے رہنماء فرماے۔* مری والدہ مریم کا انتقال 1984 میں ہوا تھا ۔ ۳ بیٹے۔ ۱۔ محمد حنیف ۲۔محمد ایوب ۳۔ محمد عرفان ۔ ۵ بیٹیاں ۱۔ زبیدہ ۲۔ رضیہ ۳۔ جمیلہ ۴۔ نجمہ ۵۔حسینہ شوہر قاسم بھائی *وقتے انتقال جاءداد* ۔1۔ اک مکان ،کیمت 1770000، ے مکان مے مھمدءرفان رہتے ہے ،انکا کبضا ہے۔ ۔2۔ اک لاکھ روپیے کی کیش ،ذیور وگیرہ ہر اک جاءداد کی تقسیم کیسے ہوگی؟ ہر اک واریس کو کیتنا ھیسسا میلےگا ؟ ------------------------------------   1996 میں قاسم بھائی نے دوسری شادی رقیہ بیبی سے کی۔ ان سے کوئی اولاد نہیں۔ 2010 میں وآلید قاسم بھائی کا انتقال ہوا۔ وقت انتقال تینوں بیٹے جدا جودا رہتے تہے اور پانچوں بیٹیاں کی شادی ہو چوکی تھی، اپنے گھر سسورال مے رہتی تھی۔ *وقت انتقال جائداد۔* 1۔اک لاکھ کیش (زیور وغیرہ ) 2۔ ۔ ویرمگام میں اک مکان ۔ کیمت 2200000، اسمے محمدحنیف رہتے ہے ،انکا کبضا ے ۔ 3 ۔ احمدآباد میں ایک دکان،کیمت 1480000 جو محمدایوب سمھالتے ہے۔ انکے نام پر ہے اور ان ہی کا قبضہ ہے۔ یہ دکان والدنےخریدی تہی، خریدنے میں والد، والدہ روقیہ بیبی، اور مھمدایوب کے پیسے لگے تھے۔ 4 ۔ اھمدابادمے ایک مکان ،کیمت 1500000، جو والیدہ رقیہ بیبی کے نام پر ہے اور انکا قبضہ ہے۔ یہ مکان والد نے حیات ہی میں انکے نام کھریدا تھا۔ 5۔ ویرمگام مے اناج کرانا کی دکان۔ جو ٹرسٹ کی ہے والد کرائےدار تھے۔ ۔ انتقال کے وقت دکان کے کاروبار میں دولاکھ روپیےکا قرض دینا باکی تھا۔ ۔ یہ دکان کا کاروبار والید قاسم بھای ھیاتمے کھود سمھالتےتھے اور محمدحنیف کا بیٹا محمدبرہان(پوتا) اپنے داداکی مددمے ساتھ دیتا تھا۔ کوچھ تنکھواہ نھی لیتا تھا۔ ۔ بعدے انتقال کاروبار محمدبرہان سمھالتا ہے اور اسی کا قبضہ ہے۔ نوٹ:- قاسمبہای کے انتقال ک کوچھ دنو باد تمام واریثومےسے، تین بھای اور چار بہن( 1 بھن اور وآلیدہ روکییابیبی کی گیرموذدگی مے) اناز کیرانا کی دوکان مھمدبورھان (پوتا) سمھالتا ہے اسکے بارے مشورہ ہوا تھا کے کاروبار مھمدبورھان سمھالےگا ، مونافےسے انھے ہر ماہ روپے 4000 ہزار تنکھواہ لینی ہوگی، بکییا مونافا وراثت مانا ذاےگا۔ ے مشورہ مھمدبرھان کی گیر موجودگی میں ھوآ تھا، اور مشورہ کی شرت پر مھمدبورھان کاروبار سمھالنے کے لیے راضی ھے یا نھی ے باتکا انسے کوی کھولاثا نھی ھوا تھا۔ ہر اک جاءداد کی تقسیم کیسے ہوگی؟ ہر اک واریس کو کیتنا ھیسسا میلےگا ؟ سوال:- مشورہ کے امل کے بارےمیں مھمدبورھان کے لیے کیا ھوکم ہے؟ شرعی رھنومای فرماے۔ وسسلام۔ آپکا ناچیز مھمدحنیف Ye sawal pahle bheja tha, sawal No. 558, jisme likhne me kuchh galti thi, use thik karke dobara bhej raha hu, Baraye karam sawal No. 558 ki bajaye ye sawal ka jawab inayat farmaye. JAZAKALLHUKAYRA.

فتاویٰ # 560

حسنو کا انتقال ہواچھوڑا زوجہ مسماۃجونہ کو اور دو لڑکے اکبر خان اور جنتی خان کو اور تین لڑکیاں نوکھا بی بی، ولیہ بی بی، مظلومہ بی بی۔ اس کے بعد انتقال ہوا مسماۃ جونہ کا چھوڑا ورثۂ مذکور کو ، اس کے بعد نوکھا بی بی کا انتقال ہوا، چھوڑا ورثۂ مذکور کو پس ترکہ حسنو کا کس طرح تقسیم ہوگا۔ بینوا توجروا۔

فتاویٰ # 1258

حاجی علی احمد کے دو لڑکے غلام رسول اور عابد حسین اور دو لڑکیاں زینب و جسیمہ و بیوی ہیں۔ یہ سب لوگ مشترکہ رہتے سہتے تھے۔ لڑکیاں بعد نکاح کے سسرال رہتی ہیں۔ لڑکوں کے بالغ ہونے سے پہلے حاجی علی احمد کی کل جائداد تھی۔ لڑکے بالغ ہونے کے بعد ان کے ساتھ مشترکہ کاروبار کرتے تھے حاجی علی احمد کی جائداد سے تینوں مشترکہ کام کرتے تھے اور ترقی کی اور بنائی کا کام کرتے تھے اور تجارت۔ انتقال کیا غلام رسول نے چھوڑا اپنے باپ حقیقی حاجی علی احمد اور ماں حقیقی کلثوم اور حقیقی بھائی عابد حسین اور دو بہن حقیقی زینب و جسیمہ اور چھوڑا اپنی بیوی اور چار لڑکے نابالغان زائر حسن، کلب حسن، مہدی حسن، ابن حسن اور ایک لڑکی نابالغہ صغریٰ۔دو لڑکے مذکور زائر حسن، کلب حسن اول بیوی رابعہ مرحومہ سے ہیں اور بقیہ لڑکے و لڑکی قسیمہ سے ہیں اور چھوڑا اپنے بھتیجے فیاض حسین، نبی حسین اور عابد حسین کی عورت کو بعدہٗ انتقال کیا عابد حسین نے اور چھوڑا اپنے باپ حقیقی حاجی علی احمد اور حقیقی ماں کلثوم اور حقیقی دو بہن زینب و جسیمہ اور بیوی مسماۃ صابرہ اور دو لڑکے نابالغ فیاض حسین، سجاد حسین اور چار بھتیجے نابالغ زائر حسن، کلب حسن،مہدی حسن، ابن حسن اور ایک بھتیجی نابالغہ صغریٰ اور بھاوج قسیمہ کو بعدہ انتقال کیا عابد حسین کا لڑکا سجاد حسین۔ اب ایسی صورت میں غلام رسول کی زوجہ ثانیہ مسماۃ قسیمہ کو اس ترکہ میں حق ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر ہوتا ہے توکتنا؟ بینوا و توجروا۔

فتاویٰ # 1259

حاجی علی احمد کے دو لڑکے غلام رسول و عابد اور دو لڑکیاں زینب و جسیمہ ہیں ۔ دونوں لڑکیاں اپنی سسرال میں رہتی ہیں اور غلام رسول و عابد اپنے والدین کے ساتھ رہتے اور کاروبار کرتے تھے اور مالک و مختار غلام رسول ہی تھے ۔ اور بارہ روز کے درمیان دونوں لڑکوں کا انتقال ہو گیا ۔ غلام رسول کے دو لڑکے اور ایک لڑکی ہیں اور پہلی بیوی سے دو لڑکے اور ہیں ، گویا غلام رسول کی پانچ اولادیں ہیں اور عابد کے ایک لڑکا ہے ۔ آیا غلام رسول کی بیوی کو اس ترکہ میں حق ہوتا ہے یا نہیں ۔ اگر ہوتا ہے تو کتنا؟ بینوا توجروا۔

فتاویٰ # 1260

شیخ روزامیاں نے اپنے ورثہ میں ۲ لڑکے ایک لڑکی چھوڑے۔ جائداد میں ایک گاڑی چھوڑی، اس کے بعد ایک گاڑی ایک لڑکے نے خریدا اس وقت دونوں بھائی مشترک تھے اب کیا اس گاڑی کا حصہ دوسرے بھائی کو ملیگا یا نہیں شرعی فیصلہ سے آگاہ فرمائیں۔ بھائی بہن میں کتنا بٹے گا آگاہ فرمائیں گے۔

فتاویٰ # 1261

عبد اللہ نامی شخص نے انتقال کیا دولڑکی مسمات ببن و حلیمہ اور دونواسی جن کا نام حشمتیا و نجب النساء ہے اور جائداد میں محض دو قطعہ مکان ہے اس مکان میں کون کون سی مسماۃ حق دار ہوسکتی ہیں اور کتنا کتنا حصہ ہر ایک کو ملنا چاہیے ۔ بینوا و توجروا۔

فتاویٰ # 1262

جھانجھوں خاں نے کہا اور برابر کہتے رہے کہ اسحاق(ولد جھانجھو خاں) کے دو لڑکے کی شادی کر چکا ہوں اور کچھ روپیہ رکھا ہے ۔ یٰسین خاں(ولد جھانجھو خاں) کے دو لڑکوں کی شادی کر کے جو بچے گا دونوںلڑکوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ آخر ارادہ پورا کرنے سے پہلے انتقال کر گئے۔ صرف یٰسین خاں کو روپیہ بتلا گئے، جن کے لڑکے شادی کرنے سے رہ گئے ہیں۔ پنچ یہ کہتے ہیں کہ یٰسین خاں کے دونوں لڑکوں کی شادی کے اخراجات نکال کر جو بچے تقسیم کیا جائے یا اس روپیہ میں ہی آدھا تقسیم کر دیا جائے اور اسحاق کے دونوں لڑکے کو چڑھے زیورات کو بھی آدھا تقسیم کر دیا جائے، پس اس مسئلہ میں از روے شریعت کیا حکم ہے؟

فتاویٰ # 1263

ایک عورت نے بعد وفات اپنے شوہر اپنے خاوند کے چچا زاد چھوٹے بھائی کو گود لیا ( متبنّٰی) گود لینے کی موقع پر تمام معزز شرفا کو دعوت دی گئی اور میلاد شریف وغیرہ بھی پڑھا گیا ایک شخص کا بیان ہے کہ اس عورت کا کچھ روپیہ بطور امانت جمع تھا کچھ دنوں کے بعد اس شخص نے اس عورت سے ا جازت لے کر کاروبار شروع کیا جس میں تین شرکت دار ہوئے شرکت داری میں تینوں آدمیوں کے نام باقاعدہ رجسٹری کچہری میں ہوئی چھ چھ آنے دو آدمیوںکا حصہ ہوا یعنی چھ آنے امانت دار (امین) کا اور چھ آنے ایک اور شخص کا اور محض چار آنے عورت کا حصہ ہوا لیکن کچہری میں جو حصہ داری کا کاغذ رجسٹری ہوا اس کاغذ میں اس عورت کی اجازت سے ہی متبنی (گودلیاہوا) کے نام شرکت دار کی حیثیت سے رجسٹری ہوئی چند دنوں تک حصہ ملتا رہا بعد وفات عورت مذکورہ تین چار ماہ تک نفع اس متبنی کو ہی امانت دار دیتا رہا کسی سبب سے عورت کی وفات کے بعد حصہ داری ٹوٹ گئی۔ امانت دار نے 5/8 حصہ پونچی کا روپیہ متبنی کو دیا لیکن بعد میں اب امانت دار صاحب کسی عالم سے دریافت کر کے کہتے ہیں کہ متبنی کو کوئی حق نہیں ہے میں بقیہ روپیہ عورت مذکورہ کے سگے بھائی کودوں گا عورت مذکورہ کا ایک سگا بھائی زندہ ہے وہ بھی کہتا ہے کہ روپیہ مجھے ملنا چاہیے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شرکت داری متبنی کے نام ہی سے کاغذ رجسٹری ہوئی ہے اس روپیہ کا مالک متبنی ہی ہوتا ہے ۔

فتاویٰ # 1264

حاجی عبد القادر کے مرضِ موت کے وقت دو لڑکے محمد نعیم و عبد الحمید، ایک لڑکے عبد الکریم متوفی کے لڑکے عبد الشکور۔ دو لڑکیاں رابعہ، شافعہ اور بیوی موجود تھیں۔ حاجی عبد القادر صاحب کی بیماری میں ان سے پوچھا گیا کہ اپنے لڑکے عبد الکریم کے لڑکے بچوں کے لیے کیا کہتے ہو، عبد الشکور تو محجوب ہیں نہ؟ جواب میں حاجی صاحب نے ہاتھ کی تین انگلیاں دکھائیں۔ پوچھا گیا تینوں برابر؟ تو حاجی صاحب نے کہا کہ ہاں۔ حاجی عبد القادر صاحب کے مرنے کے بعد ان کی جائداد اور روپیہ تین حصوں میں ان کی وصیت کے مطابق برابر تقسیم کی گئی ۔ ایک حصہ محمد نعیم کو ، ایک حصہ عبد الحمید کو اور ایک حصہ عبد الشکور کو دیا گیا اور عبد الشکور نے اسی روپیہ سے کاروبار کیا۔عبد الشکور کے ساتھ ان کی ماں بہنیں بھی رہتی تھیں اور محمد ،حاجی صاحب کے مرنے کے دو ماہ بعد پیدا ہوئے اور عبد الشکور کے یہاں ان کی پرورش ہوئی، بڑے اور کام کرنے کے لائق ہونے کے بعد عبد الشکور کے ساتھ رہ کر کام بھی کرتے رہے ۔ اس کاروبار کے منافع سے عبد الشکور نے کئی قطعہ بیع نامے خریدے۔ تین میں عبد الشکور نے اپنے بھائی محمد کا نام بھی لکھایا ہے اور باقی میں جن کی تعداد تقریباً ۸-۹ ہے اپنا یا اپنے بیٹے محمد مصطفی کا نام لکھایا ہے۔ عبد الشکور نے اپنی زندگی کے کچھ سالوں میں باقی کاروبار اپنے لڑکے کے نام رکھا تھا اور ان ایام میں بھی محمد حسب دستور سابق عبد الشکور کے ساتھ رہا کرتے تھے اور کام بھی کرتے تھے اور عبد الشکور کے مرنے کے پہلے ہی محمدالگ رہنے لگے اور سال بھر پہلے سے وہ عبد الشکور کا چکتہ بننے لگے تھے، اس کے پہلے کوئی علاحدہ حساب نہیں تھا ۔ یک جائی سے وہ بنتے اور خرچ پاتے تھے۔ محمد کی علاحدگی کے بعد بھی عبد الشکور نے کچھ جائداد خریدی جو اپنے یا اپنے بیٹے محمد مصطفی کے نام خریدی ہے ۔ اس صورت میں شرعی احکام کے ماتحت محمد کی کیا حیثیت ہے اور کاروبار اور جائداد میں ان کا کتنا حصہ ہے؟ بینواتوجروا۔

فتاویٰ # 1265

محمد بشیر کا انتقال ہوا اور اس کے پاس کاشت کاری زمینداری ٹوٹنے سے پہلے کی ہے محمد بشیر کے دو لڑکے تھے محمد و مشتاق احمد ، محمد کا انتقال محمد بشیر کی موجودگی میں ہوگیا، محمد کا ایک لڑکا اقبال احمد جو محجوب الارث ہے آیا کاشت کاری کاحصہ اقبال احمد کو مل سکتا ہے یا نہیں؟ اور زمین کا مالک کاشت کار ہے یا زمین دار دونوں صورتوں میں یعنی زمیں داری ٹوٹنے سے پہلے اور بعد کو شرعا کاشتکار زمین کا مالک ہے یا نہیں مفصل تحریر فرمائیں۔

فتاویٰ # 1266

السلام علیکم وراثت کے بارے میں پوچھنا تھا ہملوگ ٤ بہن اور دو بھائی اور سبھی شادی ہو چکی ہے ہماری والدہ کا انتقال ٢٠٠٥ میں ہو گیا تھا ہماری ایک بہن کا انتقال بھی والدہ کے انتقال کے ایک مہینے کے بعد ہوگیا ہمارے بھائی کا بھی انتقال ٢٠١٧ میں ہوگیا مرحومہ بہن کے بچے اپنے ددیھال میں رہتے ہیں اور مرحوم بھائی کے بچچے اور انکی ماں ہمارے ساتھ رہتے ہیں ہمارے والد صاحب کا بھی انتقال ٢٠١٩ میں ہو گیا ہمارے والد صاحب کے نام پر ایک گھر ہے جس میں ہملوگ رہتے ہیں اور بنک مے کچھ پیسہ ہے براے مہربانی رہنمائی فرمایں کی کس کا کتنا حصّہ بنتا ہے شکریا اللہ حافظ

فتاویٰ # 2224

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved