اگر کوئی شخص قربانی کا جانور لے کر آتا ہے جانور کو گاڑی سے اتارتے وقت زخمی ہوجاتا ہے اگلے دن صبح جانور قربان کرنا ہے زخم ٹانگ پر لگا ہے مگر جانور چل پھر سکتا ہے۔ کیا ایسے جانور کی قربانی ہو جائے گی ؟
فتاویٰ # 179مفتی صاحب قبلہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ہماری ایک گائے ہے جس کے دونوں سنگ پیدائشی طور پر جڑ سے ہی اِس طرح لٹکے ہوئے ہیں کہ چلتے وقت ہر دم دونوں لٹکے ہوئے سینگھ ہلتے رہتے ہیں ۔ کیا اس کی قربانی جائز ہے۔
فتاویٰ # 307السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ: کیا فرماتے ہیں علماے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ ہمارے یہاں کچھ لوگ قربانی کے دن اپنے کچھ غیر مسلم دوستوں کو بھی قربانی کا گوشت کھلاتے ہیں۔ ان کا یہ عمل شریعت کے روسے کیسا ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں ، مہربانی ہوگی۔
فتاویٰ # 314السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ: کیا فرماتے ہیں علماے دین مسئلہ ذیل میں کہ ذبح کرنے والے کو جانور کا سیرا اور کوڑی اس کا حق سمجھ کر دینا کیسا ہے۔ کچھ ذبح کرنے والے تو اس کو اپنا لازمی حق سمجھتے ہیں۔ مراے کرم شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
فتاویٰ # 315قابلِ قدر مفتیان کرام صاحبان السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ قربانی کی کھالیں مسجد اور ایسے مدرسہ جس میں طعام و قیام کا انتظام نہیں ہے یعنی مکتب کی تعمیر کیلئے دی جا سکتی ہیں؟ امید ہے... جلد از جلد جواب عنایت فرمائیں گے جزاکم اللہ خیر الجزاء توصیف ایوبی قاسمی
فتاویٰ # 340HAZRAT AGAR KOI SHAKHASH SARKARI TEACHER HAI OR USE 5 MONTH SE MONTHLY NHI MILA HAI KYA USPER QURBANI WAJIB HOGI??
فتاویٰ # 341اسلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسلے کے بارے میں۔ زید جو کے ایک مسلمان ہے وہ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں رہتا ہے۔ اس نے بکر ے اور مینڈھے کے گوشت کا ھول سیل کا کام شروع کیا ہے۔ زید کے بقول جانوروں کے ذبیحے اور گوشت کی سپلائی کا طریقہ کاردرج ذیل ہے۔ 1۔ زید یا زید کاکوئی ملا زم جانوروں کے فارمز سے جانور خریدتا ہے۔ 2۔ اس کے بعد جانوروں کو ایک ذبح خانے میں لے جاتے ہیں ۔ ذبح خانے کا مالک غیر مسلم ہے لیکن جانورں کو ذبح کرنے والے مسلمان ہوتے ہیں۔ 3۔ ذبح خانے میں جو بھی جانور ذبح ھوتا ہے اس کا پہلے یہاں کی گورنمنٹ کے قانون کے مطابق میڈیکل چیکپ ھوتا ہے۔ جو جانور میڈیکلی فٹ نہ ہو اس کو ذبح نہیں کیا جاتا۔ 4 ۔ ہر جانور کو ذبح کرنے سے پہلے اس کے سر پر ایک بجلی کی نوک دار گن سے کرنٹ دیا جاتا ہے۔ اس پروسیس کو سٹننگ کہتے ہیں۔اس سے جانور کچھ وقت کے لئے بیھوش ھو جاتا ھے۔ اسی بیھوشی کی حالت میں ذبح کرنے والا (مسلمان) تکبیر پڑھ کر جانور ذبح کر دیتاہے۔ زید اور دیگر مسلمان جو گوشت کا کام کرتے ہیں کہ بقول ذبح سے پہلے جانور کو کرنٹ دینے سےجانور کبھی نہیں مرتا۔ اور آسڑیلیا میں جانور کو سٹن کیئے بغیر ذبح کرنا غیرقانونی ہے۔ 4۔ جانوروں کو ذبح کرنے کے بعد اس کی مشینوں کے ذریعے اس کی کھال اتاری جاتی ہے اور اس کے پیٹ میں سے صفائی کی جاتی ہے۔ 5۔ کھا ل اتارنے کے بعد سالم جانور کے گوشت پر جس کمپنی کے یہ جانور ہوتے ہیں اس کی مھر لگا دی جاتی ہے۔ زید کے جانوروں کے گوشت پر زید کی کمپنی کی مہر ھو گی۔ 6۔ اس کے بعد پھر گوشت کا ٹیسٹ ھوتا ھے ۔ جس کے گوشت میں کوئی مسلہ ہو اس کمپنی کو آگاہ کر دیا جا تا ہے۔ 7۔ پھر یہ پورے جانوروں کے صفائی شدہ گوشت ( بغیر کٹائی کے اور زید کی کمپنی کی مہر کے ساتھ) کم وبیش 12 گھنٹے ذبح خانے کے برف خانے میں رہتا ھے۔ اس دوران ھر وقت کوئی مسلمان وہاں موجود ھو یہ ضروری نہیں۔ 8۔ پھر گوشت کے مخصوص ٹرک میں ، جس میں دوسرے ھول سیل کمپنیوں کے حلال جانوروں کا گوشت بھی ہوتاہے ، زید کے جانوروں کا گوشت مختلف مسلمانوں کی گوشت کی دکانوں پر سپلائی کیا جاتا ھے۔ اور ان دکانوں سے مسلمان گوشت کٹوا کر خریدتے ہیں۔ 9۔ زید خود بھی آرڈر پر گھروں میں گوشت سپلائی کرتا ہے ۔ 10۔ زید کے بقول ایسا ممکن نہیں ہے کہ اس کے جانوروں کا گوشت دوسری کمپنی کے جانوروں کے ساتھ مکس ہو جائے کیونکہ ہر جانور کے گوشت پر ہر کمپنی کی مہر ھوتی ھے۔ کیا جن مسلمانوں کی دکانوں پر زید گوشت سپلائی کرتا ہے اور زید سے ڈاریکٹ گوشت لینا جائز ہے؟
فتاویٰ # 435گوشت آسٹریلیا میں ذبح کر کے بھیجتے ہیں جو ایک ماہ کا راستہ ہے اور جہاز سے یہاں آتا ہے اور برف میں رکھ کر آتا ہے ، پھر ذبح کرنے والے کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ مسلمان ہے۔ اس کے پیکنگ میں اس کی تصویر لگی رہتی ہے ،اس کے سر پر ٹوپی بھی نہیں ،کیااس صورت میں مانا جاسکتا ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ ہے اور پھر یہ گوشت کفار منگاتے ہیں اور پھر یہ گوشت اور گوشتوں کے ساتھ ملا کر آتا ہے ، اس میں خنزیر کا گوشت بھی ساتھ ہی آتا ہے ۔
فتاویٰ # 1175ایک نیا حکم نکلنے والا ہے کہ جانور کو مشین میں ڈال کر یا کسی صورت سے بے ہوش کر کے ذبح کیا جائے گا۔ کیا یہ جائز ہے ؟ اور بہت دنوں سے تو ایسا ہی ذبح ہوتا ہے جیسا کہ کرنے کا حکم ہے ۔
فتاویٰ # 1176ایک امدادی مدرسہ ہے، اس کے لیے مالی سوال بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اگر چرم قربانی سے اس کی مدد کی جائے تو مشکل حل ہو جائے گی۔ تحریر فرمایا جائے کہ کس طرح چرم قربانی سے اس کی مدد کی جائے جوکہ شرعاً جائز ہو۔
فتاویٰ # 1177فوت شدہ بچے اور بچیوں کا عقیقہ اگر ان کے والدین کرنا چاہیں تو ہو سکتا ہے یا نہیں ۔ جواب بالتحقیق حوالۂ کتب سے عطا فرمائیں ۔
فتاویٰ # 1178(۱).کیا چرم قربانی کی رقم سے مدرسے کی تعمیر ہو سکتی ہے؟ (۲).مدرسین کی تنخواہ بھی دے سکتے ہیں ؟ (۳).عید قرباں کے موقع پر تمام مدارس میں کھال وصول کرتے ہیں تو کس طرح اور کہاں کہاں صرف کر سکتے ہیں تفصیل بیان کی جاوے۔
فتاویٰ # 1179زید کہتا ہے کہ قربانی کی کھال مسجد و مدرسہ میں لگ سکتی ہے ۔ بکر کا قول ہے کہ فقیروں اور مسکینوں کو دی جائے کیوں کہ جلد قربانی مثل زکاۃ ہے ۔ اور اس کا مصرف قرآن کریم میں بالتصریح موجو د ہے کہ زکاۃ غریبوں اور مسکینوں کو دی جائے ، یہ چمڑا مسجد و مدرسہ کے صرف میں نہیں آسکتا ہے ۔ بینوا توجروا۔
فتاویٰ # 1180باپ نے اپنی ساری ملک اپنے چند لڑکوں میں تقسیم کر دی اور باپ کو ملک سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ کوئی کاروبار کرتے ہیں ، صرف لڑکے ان کی پرورش کرتے ہیں ، ایسی صورت میں باپ پر قربانی واجب ہے یا لڑکوں پر؟ بینوا توجروا۔
فتاویٰ # 1181زید کہتا ہے کہ بھینس چوں کہ گاے کی ہم جنس ہے اس لیے اس کی قربانی جائز ہے اور عمرو کہتا ہے کہ اس کی قربانی کا ثبوت آنحضور ﷺ اور صحابہ و تابعین سے نہیں ہے اور نہ اس کے متعلق کوئی مرفوع روایت ہے ، نہ آثار صحابہ میں سے کوئی لائقِ حجت اثر۔ اس لیے اس سے احتراز کرنا چاہیے ۔ عمرو کی باتوں سے لوگوں میں بھینس کی قربانی کے متعلق شکوک پیدا ہو گئے ہیں ، اس لیے سوال ہے کہ اس سلسلے میں کوئی مرفوع روایت یا لائقِ حجت اثر ہو تو تحریر فرما کر عند اللہ ماجور ہوں ۔
فتاویٰ # 1182چرم قربانی یا صدقۂ فطر مسجد یا انگریزی اسکول میں جس میں دینیات کی کتابیں براے نام نصاب میں داخل ہوتی ہیں ، دے سکتے ہیں یا نہیں ؟ مع سند کے جواب عنایت فرمائیں ۔ بینوا توجروا۔
فتاویٰ # 1183بٹائی والی بکری کا بچہ کہ بکری کسی کو چرانے کو دی گئی کہ دو بچوں میں سے ایک مالک کو ملا ۔مالک اس بچہ کی قربانی کر سکتا ہے کہ نہیں اور بکری اس طرح بٹائی پر دینا جائز ہے کہ نہیں؟ان دونوں سوالات کا جواب ضرور دیجیے۔
فتاویٰ # 1184(۱).زید و عمرو دونوں حقیقی برادر صاحبِ نصاب ہیں ۔ دونوں کے بیوی بچے بھی ہیں ۔ کاروبار، تجارت، کھانا ، پینا، مکان وغیرہ سب شرکت میں ہے اور ایامِ قربانی میں دونوں صرف ایک بکرا قربانی کرتے ہیں ، اس پر بھی مختلف ناموں سے۔ کسی سال زید کے نام اور کسی سال عمرو کے نام، کسی سال بیوی کے نام ، کسی سال بچے کے نام۔ آیا اس طرح قربانی کرنا کیسا ہے؟ (۲).چرم قربانی جو لوگ مدارسِ دینیہ میں دیتے ہیں ، اسے فروخت کر کے قیمت مدرس کی تنخواہ میں دے سکتے ہیں یا نہیں ۔ اگر دے سکتے ہیں تو صرف غریب طلبہ ہی کے مصرف میں لائیں یا مدرسہ کی تعمیر وغیرہ میں بھی لگا سکتے ہیں ۔ (۳).ہمارے قصبے میں بلکہ قرب و جوار کے دیہات میں یہ رواج عام ہے کہ قربانی کے جانور میں جو چربی نکلتی ہے اسے گرم کر کے اس میں سے تیل نکال کر رکھ لیتے ہیں اور ماہ دو ماہ تک اپنے صرف میں لاتے ہیں ، بعض لوگ چراغ میں جلاتے ہیں ، بعض لوگ اس میں روٹی پکوا کر کھاتے ہیں ، بعض لوگ دوا وغیرہ کے کام میں لاتے ہیں ، ایسا کرنا کیساہے؟ (۴).جس شخص کو تلاش کرنے پر بھی قربانی کا جانور نہ ملا، وہ ایامِ قربانی گزر جانے کے بعد جو روپیہ جانور خریدنے کی نیت سے رکھا تھا اس روپیہ کو مسجد کی مرمت میں لگا سکتا ہے یا نہیں ؟
فتاویٰ # 1185زید نے ایک سال اپنے نام سے قربانی کی ہے ، دوسرے سال اپنے نام سے نہیں کرنا چاہتا بلکہ اپنے گھر کے کسی اور کے نام سے کرنا چاہتا ہے ۔ مثلا اپنے لڑکے یا اپنی بیوی وغیرہ کی طرف سے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟ اور قربانی صحیح ہوگی؟
فتاویٰ # 1186در مسئلہ قربانی گاے موجودہ دورزلازل و پرفتن میں کہ ہمارے ضلع کے مواضعات نیز شہر میں مسلمان بہت کم تعداد میں پہلے ہی سے تھے ، پھر ملازمین پاکستان گئے اور کچھ ہجرت بھی کر رہے ہیں نیز کثیر تعداد میں ہندو اور سکھوں کی آمد ہے۔ اہل ہنود مواضعات نیز شہر میں دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر گاے کی قربانی کی تو ہم جنگ کریں گے ۔ ہمارے شہر باندہ میں ایک محلہ بنگالی پورہ ہے جو شہر سے باہر اسٹیشن پار ہے جس میں ہندوؤں کی اکثریت ہے ، صرف چار پانچ گھر مسلمانوں کے ہیں ۔ وہاں گائے کی قربانی ہوتی چلی آئی ہے، اب زبردست خطرہ ہے۔ اگر اس محلہ میں چڑھائی کی تو ان کو روکنے والا بھی بجز خداکے نہیں ،نہ ان کی فریاد کی آواز شہر تک پہنچ سکتی ہے، نہ شہر والوں سے اپنی اقلیت کی بنا پرامداد کی امید ہے ۔ بجز اپنے تحفظ کے اور اب حکومت بھی ہندوؤں کی ہے ۔ حاکم حکام پولیس سب ان کے ، کہیں بھی داد رسی کی امید نہیں ۔ ایسی صورت میں ہندوستان غالباً دار الحرب کے حکم میں آجائے گا۔ ان وجوہات کو مد نظررکھتے ہوئے جب کہ قربانی بکرے کی بھی ہو سکتی ہے تو کیا گاے کی قربانی فرض ہے ، بغیر اس کے قربانی نہ ہوگی، جان کا زبردست خطرہ ہے۔ یہ مستحب فعل غالباً ہوسکتا ہے مگر جان کا بچانا فرض ہے ۔ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَةِ. گاے کی قربانی کے سلسلے میں اب کیا حکم ہے ، نیز دیگر محلہ جات کے لیے اسی طرح کیا حکم ہے اور محرم پر تعزیہ داری میں بھی زبردست خطر ہ ہے ۔ اگر امسال مصلحتاً نہ کیا جائے تو کیا حرج ہے ۔ اس حکومت کی اور آئندہ ہم کو فلاح اور قوت اور اجازت عام کا امکان بھی ہے ۔ صحابۂ کرام نے بھی مصلحتاً فرائض اور اصولی چیزوں کو خفیہ کیا تو اب ہمارے لیے کیا حکم ہے ۔ علی الخصوص بنگالی پورہ اور ان مواضعات کے لیے جہاں دو چار ہی گھر مسلمانوں کے ہیں۔ یوں ہی وہ موضع جو چاروں طرف سے ہندو مواضعات سے گھرا ہو تعزیہ داری اور قربانی گاے کے لیے کیا حکم ہے ۔ بینوا بالکتاب توجروا یوم الحساب۔
فتاویٰ # 1187حضور مخدومنا الکریم ! سلام وقدم بوسی!! امید کہ مزاج مقدس بخیر ہون گے ؟ عرض یہ ہے کہ قربانی کے جانوروں کی قربانی سے پہلے ان کی کھالیں فروخت کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟ جب کہ اس وقت عامۃ الناس کا عمل قبل ذبح ہی بیع وشراء کاہے ،جو ایسا نہیں کرتے ان کی کھالیں پڑی رہ جاتی ہیں یا زبر دست خسارہ کے ساتھ نکلتی ہیں ،جواب باصواب سے تحریری طورپر آگاہ فرمائیں ۔ نیاز مند قاضی فضل رسول مصباحی
فتاویٰ # 2375Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org