19 May, 2024


دارالاِفتاء


ایک نابالغہ لڑکی کا نکاح اس کے باپ کے رہتے ہوئے دادا کی ولایت اور اجازت سے ہوا لڑکی سن بلوغ کو پہونچ کر قبل خلوت صحیحہ کے نکاح فسخ کراسکتی ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا ۔

فتاویٰ #1074

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــ: ولایت نکاح اسی ترتیب سے ہے جیسے کہ ترتیبِ وراثت ہے کہ ابعد وارث محجوب ہوتا ہے اقرب وارث کے ہوتے ہوئے اور اقرب ولی نابالغہ لڑکی کا باپ ہے پھر دادا، الخ۔ اور نکاح ولی ابعد کا ولی اقرب کی موجودگی میں ولی اقرب پر موقوف ہوتا ہے اگر ولی اقرب کی اجازت ہے تو نکاح لازم ہوگیا اور اگر اجازت نہیں ہے بلکہ اس نے انکار کردیا تو نکاح رد ہوگیا ۔ ہدایہ میں ہے : والترتیب فی العصبات فی ولایۃ ا لنکاح کالترتیب فی الارث والابعد محجوب بالأقرب ( ( اور فتاویٰ قاضی خاں میں ہے : و أقرب العصبات الی الصغیر والصغیرۃ الاب ثم الجد أبوالاب و إن علا۔ ( ( اور فتاوی ہندیہ میں ہے : وان زوج الصغیر و الصغیرۃ أبعد الاولیاء فان کان الاقرب حاضراً و ھو من اھل الولایۃ توقف نکاح الابعد علی اجازتہ۔ ( ( لہٰذاباپ کی موجودگی میں جو دادا نے لڑکی نابالغہ کا نکاح پڑھایا تو اگر باپ نے اس وقت نکاح سے بیزاری ظاہر کردی یا اور کسی طرح صراحۃً یا ضمنا اس سے انکار معلوم ہوا تو نکاح اسی وقت رد ہوگیا ۔ اور قرینۂ قیاس یہ ہے کہ باپ کی بھی ا جازت تھی کہ اس دیار میں رائج ہے کہ لڑکے اپنے باپ کی موجودگی میں اپنے لڑکے اور لڑکیوں کے نکاح کا معاملہ عموماً اپنے باپ کی طرف سپرد کرتے ہیں کہ وہ جہاں چاہیں نکاح کردیں ،لڑکے اس پر راضی رہتے ہیں۔ جب ایسی صورت ہے تو نکاح لازم ہوگیا، لڑکی کو خیار بلوغ نہیں، نکاح فسخ نہیں کرسکتی ۔ ہدایہ میں ہے : فإن زوجھماالأب أو الجد فلاخیار لھما بعد بلوغھما۔( ( واللہ تعالیٰ اعلم (فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved