21 November, 2024


دارالاِفتاء


(۱) مالک نصاب کسے کہتے ہیں ؟ اگر کسی کے پاس زمین، یا بھینس، یا اور کوئی جائداد اتنی ہو کہ نصاب کی قیمت تک پہنچ جائے تو اس کو مالک نصاب کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟ کیا اس میں حوائج اصلیہ سے فاضل کی شرط ہے اور سال بھر کے کھانے پینے وغیرہ کے اخراجات حوائج اصلیہ میں شمار کیے جائیں گے، یا نہیں؟ (۲) - اگر کسی شخص کے پاس پانچ بیگھہ، یا دو بیگھہ زمین ہو اور سونا چاندی و روپے وغیرہ نہ ہوں تو وہ مالک نصاب ہے یا نہیں؟ باوجودےکہ ا س زمین کی پیداوار سے سال بھر کا غلہ دستیاب نہیں ہوتا ہے بلکہ دو چار مہینے کا خریدنا پڑتا ہے۔ تو کیا ایسے شخص پر صدقۂ فطر اور قربانی واجب ہے؟ محمد سلیمان، مقام کثم پور، پوسٹ عمل جھاڑی، اسلام پور، دیناج پور، بنگال

فتاویٰ #2624

(۱، ۲) مالک نصاب وہ شخص ہے جو ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا ان میں سے کسی کی قیمت کے برابر مال تجارت کا مالک ہو، یا یہ کہ وہ پانچ اونٹ، تیس گائے یا بھینس، یا چالیس بکری یا بھیڑ وغیرہ کا مالک ہو بشرطےکہ یہ جانور سال کے اکثر حصے میں چرائی پر گزارا کرتے ہوں، یا حوائج اصلیہ سے فارغ زمین، یا مکان، یا ایسے اسباب کا مالک ہو جو کرایے پر اٹھتے ہوں اور ان کی قیمت سونے یا چاندی کے نصاب کو پہنچتی ہو۔ اب اگر کسی کے پاس اتنا کھیت ہے جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو وہ مالک نصاب ہے۔ یوں ہی اگر کسی کے پاس تیس عدد گائے، بھینس، بیل ہوں تو وہ مالک نصاب ہے ۔ مالک نصاب ہونا اور بات ہے ۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مالک نصاب ہو مگر اس پر زکات واجب نہ ہو۔ زکات واجب ہونے کے لیے دیگر شرائط کے ساتھ ساتھ اور مالک نصاب ہونے کے باوجود نصاب کا حوائج اصلیہ سے فارغ ہونا اور مال کا نامی ہونا شرط ہے۔ مال نامی صرف چار ہیں : (۱)سونا (۲)چاندی (۳)سوائم (۴)مال تجارت ۔ اب اگر کوئی مالک نصاب ہے مگر وہ نصاب حوائج اصلیہ سے فارغ نہیں تو اس پر زکات واجب نہیں ۔ یوں ہی اگر کوئی اس معنی کر مالک نصاب ہے کہ اس کے پا س کوئی ایسی چیز ہے جس کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہے مگر وہ مال، مال نامی نہیں ہے جیسے کرایہ کا مکان ، وغیرہ تو اس پر بھی زکات نہیں ۔ قربانی اور صدقۂ فطر واجب ہونے کے لیے مال نامی کی شرط نہیں لہذا جو شخص ایسے نصاب کا مالک ہو جو مال نامی نہ ہو مگر حوائج اصلیہ سے فارغ ہو تو اس پر قربانی اور صدقۂ فطر واجب ہے ۔ غلہ اگر اتنا ہے کہ سال بھر کھانے کو پورا نہ ہو تو اتنے غلہ پر قربانی و صدقۂ فطر واجب نہ ہوگا، اس لیے کہ غلہ اور کھانے پینے کا سامان حوائج اصلیہ سے ہے، لیکن اگر کسی کے پاس اتنی زمین ہے جس کی قیمت کسی نصاب کو پہنچتی ہو اگرچہ اس کا غلہ سال بھر کے لیے کافی نہ ہوتاہو اس پر قربانی اور صدقۂ فطر واجب ہے، رد المحتار میں ہے : (والیسارالخ)بأن ملک مائتي درہم أو عرضا یساویھا غیر مسکنہ وثیاب اللبس أومتاع یحتاجہ إلی أن یذبح الأضحیۃولو لہ عقار یستغلہ ۔ فقیل: تلزم لو قیمتہ نصاباً، وقیل: لو یدخل منہ قوت سنۃ تلزم، وقیل: قوت شھر، فمتی فضل نصاب تلزمہ، ولو العقار وقفا انتھی(رد المحتار علی ہامش الدر المختار، ج:۹، ص: ۴۵۳، کتاب الأضحیۃ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت۔)۔ اور دربارۂ عبادات احتیاط پر عمل واجب ہے؛ اس لیے خادم فتوی اس پر دیتاہے کہ زمین کی پیداوار سال بھر کےلیے کافی نہ ہو جب بھی اس پر قربانی اور صدقۂ فطر واجب ہے ۔ بھینس اور بیل وغیرہ اگر تیس عدد ہوں اور سائمہ ہوں تو ان پر زکات بھی واجب ہے، اور اس کی وجہ سے صدقۂ فطر اور قربانی بھی ۔ گائے بھینس وغیرہ تیس سے کم ہوں تو ان پر زکات واجب نہیں، یا سائمہ نہ ہوں جب بھی ان پر زکات واجب نہیں، لیکن بھینس اور گائے اس لیے پالی گئی ہیں کہ ان کا دودھ بیچا جائے، اور ان جانوروں کی قیمت نصاب کے برابرہے تو ان کی وجہ سے بھی صدقۂ فطر اور قربانی واجب ہوگی، زکات واجب نہ ہوگی ۔ یوں ہی بیل اگر گھر کے کام کاج کےلیے ہیں تو نہ زکات واجب ہے، نہ قربانی، نہ صدقۂ فطر ۔ اور اگر بیل اس لیے پالے گئے ہیں کہ وہ کرایے پر دیے جاتے ہیں، یا کرایے کی بیل گاڑی میں جوتے جاتے ہیں، اور ان کی قیمت نصاب کے برابر ہوتو اگرچہ زکات واجب نہیں مگر قربانی اور صدقۂ فطر واجب ہے ۔واللہ تعالی اعلم ۔ (فتاوی جامعہ اشرفیہ، مبارک پور، جلد:۷) (فتاوی شارح بخاری)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved