خالدہ کو جو زیورات اس کے میکے سے ملے ہیں وہ (اس کی) مالک ہے اس کی زکات صرف خالدہ پر فرض ہے خالدہ خود ادا کرے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خالدہ اپنے شوہر سے کہہ دے کہ وہ میری طرف سے ان زیورات کی زکات ادا کر دے اور شوہر ادا کر دے تو ادا ہو جائے گی۔ یا شوہر خود ادا کرے لیکن خالدہ کو بتادے کہ تیرے اوپر جو زکات واجب ہے وہ میں ادا کر رہا ہوں تو بھی زکات ادا ہو جائے گی۔ لیکن اگر شوہر از خود ادا کرے نہ اس طرح کہ خالدہ اس سے کہے اور نہ یہ کہ خالدہ کو یہ بتائے کہ خالدہ اداے زکات کی نیت کرے زکات ادا نہ ہوگی۔ زکات کی ادایگی کے لیے ضروری ہے کہ جس پر زکات واجب ہو وہ زکات کی نیت سے ادایگی کرے خواہ فقیروں کو دیتے وقت زکات کی نیت کرے، یا یہ کہ بقدر زکات مال علاحدہ کرتے وقت نیت کرے۔ دوسرے کے مال کی زکات فقیروں کو دینے سے زکات ادا نہ ہوگی جب تک کہ جس کی طرف سے زکات ادا کی جا رہی ہے وہ نیت نہ کرے۔[اس فتوے کی دلیل رد المحتار کا یہ جزئیہ ہے: لو أدی زکاۃ غیرہ بغیر أمرہ فبلغہ فأجاز لم یجز لأنہا وجدت نفاذًا علی المتصدق ؛ لأنہا ملکہ ولم یصر نائبا عن غیر فنفذت علیہ۔[ج:۳،ص: ۱۸۸، کتاب الزکاۃ، مطلب: في زکاۃ المبیع وفاء، دار الکتب العلمیۃ، بیروت] آج کل کا عرف یہ ہے کہ بیوی اپنے امور دینی ودنیوی کی ذمہ داری عملی طور پر شوہر کو دے دیتی ہے اور وہ اس کے جملہ امور انجام دیتا ہے، اس حیثیت سے شوہر اپنی بیوی کا وکیل ہوتا ہے، جہاں یا جس گھر کا یہ عرف ہو وہاں، شوہر کے ادا کرنے سے بھی بیوی کی زکات ادا ہو جائے گی کہ بیوی کی طرف سے شوہر کو عرفاً اجازت ہوتی ہے۔ ۱۲ محمد نظام الدین رضوی] اور جوزیور خالدہ کو اس کی سسرال والوں نے دیے ہیں اس کی دو صورت ہے اگر اس کے سسرال والوں نے خالدہ کو ان زیورات کا مالک بنا دیا ہے ، صرف پہننے کے لیے نہیں دیا ہے تو ان زیورات کی زکات بھی خالدہ ہی پر واجب ہے اور اگر صرف پہننے کے لیے دیے ہیں مالک نہیں بنایا ہے تو اس کی زکات خالدہ پر نہیں، جو لوگ مالک ہیں ان پر ہے[آج کے عرف کے مطابق ایسے زیورات کا مالک اُس عورت کا خاوند ہوتا ہے۔ ۱۲ محمد نظام الدین رضوی]۔ واللہ تعالی اعلم۔(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۷(فتاوی شارح بخاری)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org