بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الجواب : صورتِ مسئولہ میں زید کی بیوی پر تین طلاقیں پڑگئیں،خواہ اس کی بیوی نے سنا ہو، یا نہ سناہو،اور زید کی نیت طلاق دینے کی ہو یا نہ ہو؛اس لیے کہ طلاق واقع ہونے کے لیے بیوی کا سننا ضروری نہیں ہے ،اور جب شوہر الفاظِ صریحہ سے طلاق دے تو نیت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ فرماتے ہیں : ” طلاق کے لیے زوجہ ،خواہ کسی دوسرے کا سننا ضرور نہیں، جبکہ شوہرنے اپنی زبان سے الفاظِ طلاق ایسی آواز سے کہے جو اس کے کان تک پہنچنے کے قابل تھے اگر چہ کسی غل شور،یا ثقل سماعت کے سبب نہ پہنچے، عند اﷲطلاق ہوگئی،عورت کو خبرہوتو وہ بھی اپنے آپ کو مطلقہ جانے“۔ [فتاویٰ رضویہ ،کتاب الطلاق،ج:۵،ص:۶۱۹،رضا اکیڈمی ، ممبئی] صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : ”(میں نےتجھ کوچھوڑا)اس سے طلاق واقع ہونے کے لیے نیت و ارادہ کی بھی حاجت نہیں اور جب اس نے تین بار کہے تو تین طلاقیں واقع ہوگئیں“۔[فتاویٰ امجدیہ،کتاب الطلاق،ج:۲،ص:۲۱۵،قادری کتاب گھر ، بریلی شریف]۔واللہ تعالیٰ أعلم ۔ کتبــہ ساجد علی المصباحی خادم الإفتاء والتدریس بالجامعۃ الأشرفیۃ، مبارک فور،أعظم جرہ ۱۱؍شعبان المعظم ۱۴۴۴ھ/۴؍فروری ۲۰۲۳ء، شنبہ
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org