22 December, 2024


دارالاِفتاء


زید ایک مسجد کا امام ہے۔ پہلی بیوی کے علاوہ دوسری سے نکاح کیا ہے۔ پہلی بیوی کے رشتہ دار نے پولیس کو اطلاع دیا کہ زید دوسری شادی کر چکا ہے تو تھانہ میں زید کو بلا کر پوچھا گیا تو زید نے انکار کیا کہا کہ میں نے دوسری شادی نہیں کی ہے اور زید نے بالحقیقہ دوسری شادی کی ہے۔ زید نے تھانہ میں جو بیان دیا یہ سراسر جھوٹ ہے۔ زید ایک دوسرے کی سائیکل بطور امانت لے گیا کچھ دنوں کے بعد لوگوں نے پوچھا کہ سائیکل کیا ہوئی ؟ زید نے کہا کہ میں نے سائیکل مالک کو دے دی ہے۔ چند روز بعد ایک رسید دکھائی جس میں لکھا تھا کہ میں نے سائیکل مالک کو دے دی ہے۔کچھ دن کے بعد پھر اصل مالک آیا اس نے سائیکل تلاش کیا تو زید نے سائیکل لاکر دی۔زید نے پہلے کھلم کھلا جھوٹ کہا اور فرضی رسید بنایا تھا۔ زید کو نماز عید پڑھانے کا کچھ نذرانہ دیا جاتا ہے اس سلسلہ میں زید کو پورا پوشاک دیا گیا جو تقریبا ایک سو پچہتر روپے کا ہوگا اور بعد نماز عام لوگوں نے ۲۳؍ روپے نذرانہ دیا۔ زید نے پھر نذرانہ طلب کیا۔ ذمہ دار حضرات نے کہا جو کچھ تھا آپ کو دے دیا گیا اس پر ناراض ہو کر پگڑی نکال کر پھینک دی اور کہا آج میں اس مسجد سے نکل جاؤں گا۔ لہذا ایسے شخص (زید) کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟ درست ہونے کی کیا صورت ہے؟

فتاویٰ #1948

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- زید نے جھوٹ بولنے کا بھی ارتکاب کیا اور دھوکا دینے کا بھی ۔ اس لیے زید جب تک توبہ نہ کرے اس کے پیچھے ہرگز ہرگز نماز نہ پڑھیں۔ جھوٹ بولنے والا ، دھوکا دینے والا فاسق معلن ہےاور فاسق معلن کو امام بنانا گناہ ۔ اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے۔ حدیث میں ہے: إذ حدث کذب۔ غنیہ میں ہے: لو قدموا فاسقا یأثمون بناء علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم ۔ در مختار میں ہے: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ تحریم تجب إعادتہا۔ اسی طرح جب نماز پڑھانے کا معاوضہ پہلے سے طے نہیں تھا تو جتنا لوگوں نے بخوشی دیا اس سے زیادہ مانگنا ہرگز درست نہیں لوگوں نے جودیا تھا بخوشی لے لینا چاہیے تھا اس پر اتنا ناراض ہونا کہ پگڑی اتار کر پھینک دینا، وغیرہ وغیرہ بے ہودگی ہے اگر زید جھوٹ بولنے سے توبہ کر لے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved