22 December, 2024


دارالاِفتاء


ایک شخص قاضی شہر وامام جامع مسجد مقرر تھا ان کا انتقال ہو گیا۔ کچھ لوگ انھیں کے لڑکے کو امام بنانا چاہتے ہیں جنھوں نے اپنی خوشی سے نس بندی کرالی ہے اور معمولی پڑھے ہوئے ہیں صرف اس بنا پر کہ مرحوم امام کے بعد انھیں کے لڑکے ہی کا حق ہے، اور پڑھا لکھا طبقہ یہ کہتا ہے کہ ہمارے یہاں مولوی ، عالم، متقی، پرہیزگار موجود ہیں ان کے ہوتے ہوئے مذکور شخص اس لائق نہیں اور نہ امامت موروثی حق ہے۔ اور کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ نس بندی ہوگئی ہے تو کیا خطبہ یہ پڑھا دیں گے اور نماز دوسرا شخص پڑھا دےگا لیکن اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ خطبہ ہو یا نماز مولوی، عالم کے ہوتے ہوئے نس بندی والا شخص اس لائق نہیں۔ لہذا ایسی صورت میں کون سا شخص امامت کا زیادہ مستحق ہے؟

فتاویٰ #1900

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- امامت میرات نہیں کہ باپ کے بعد بیٹے کو ملے ۔ امامت کا حق نمازیوں میں سب سے زیادہ علم والے اور متقی کو ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یؤم القوم أقرأہم لکتاب اللہ فإن کانوا فی القراءۃ سواء فأعلمہم بالسنۃ۔ رواہ مسلم عن ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ ۔ عامۂ کتب فقہ میں ہے: والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ۔ اس لیے امام اسی کو مقرر کیا جائے جو سب سے زیادہ علم والا ہو وہی خطبہ پڑھائے اور نماز بھی پڑھائے۔ امام کے لڑکے نے نس بندی کرائی ہے اس لیے وہ امامت کے لائق نہیں۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved