8 September, 2024


دارالاِفتاء


گاؤں کے امام صاحب کو لوگوں نے بلا کر لوٹے ہوئے بیل ، بکری وغیرہ کو امام صاحب سے ذبح کرایا اور امام صاحب نے ان لوگوں کو کچھ نہیں کہا ، منع بھی نہیں کیا بلکہ ان لوگوں کا ساتھ دیا ، امام صاحب نے خود ذبح کیا اور سب لوگ کھائے اور کھلائے لہذا امام مذکور کی امامت اور گاؤں کی جو ذمہ داری امام صاحب پر رہتی ہے وہ سب کام امام صاحب کا کرنا شرعاً کیا حکم ہے، اور ان کی امامت شرعاً درست ہے یا نہیں؟

فتاویٰ #1839

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- اگر فی الوقت امام صاحب کو یہ علم تھا کہ یہ لوٹا ہوامال ہے اور زبردستی لیا ہوا بیل، بکری ہے اس علم کے بعد بھی انھوں نے جانوروں کو ذبح کیا اور لوگوں نے کھایا تو امام مذکور نے سخت گناہ کیا ایسا امام لائق امامت نہیں۔ امام پر فرض تھا کہ لوگوں کو اس برے کام سے روکتا( نہ کہ خود شریک ہوتا) اور اگر نہ مانتے وہاں سے چلا آتا تو امام مذکور بری الذمہ ہوتا ۔اگر باوجود علم کے امام مذکور نے یہ سب کیا تو امام قابل امامت نہیں رہا۔ اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی، پڑھنا منع ۔ اگر پڑھ لی تو اعادہ واجب ہے اور ایسے امام سے مذہبی امور کی انجام دہی کرانا منع کہ جو حلال وحرام میں امتیاز نہ کرے تو اور معاملات میں کیا کچھ نہیں کرے گا اوراگر امام مذکور کو کچھ علم نہیں تھا اور نہ اسے کچھ بتایا گیا تو امام پر الزام نہیں۔ جن جن لوگوں نے اس ظلم وزیادتی کا کام کیا ان پر فرض ہے کہ مال مغصوب کا عوض دیں اور توبہ واستغفار کریں اور صاحب مال سے معافی طلب کریں ۔ واللہ تعالی اعلم کتبہ: مولانا ثناء المصطفیٰ صاحب ، مدرسہ ضیاء الاسلام، ہوڑہ الجواب صحیح۔ واللہ تعالی اعلم محمد شریف الحق امجدی---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved