3 January, 2025


دارالاِفتاء


ایک عالم دین جو جامع مسجد کے امام ہیں، رمضان المبارک کے موقع پر مدرسے کے نام پر زکات فطرہ وصول کرکے لاتے ہیں، اور خود اپنی تنخواہ اسی روپے سے لے لیتے ہیں، اور جامع مسجد میں محلے کے چند بچوں کو تعلیم بھی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مدرسے کے صدر مدرس ہیں، جب کہ مدرسے کی کوئی تعمیر موجود نہیں، تو کیا جو لوگ ان کی اقتدا میں نماز پڑتھے ہیں، ان کی نماز ہوگی یا نہیں؟

فتاویٰ #1792

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- ان امام صاحب کے پیچھے نماز بلا کراہت درست ہے، آپ خود لکھتے ہیں کہ جامع مسجد میں چند بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ چند بچوں کو پڑھانا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ مدرسہ ہے۔ مدرسہ کے معنی ہی ہیں جہاں بچوں کو تعلیم دی جائے۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ زکات و فطرے کی رقوم حیلہ شرعیہ کیے بغیر تنخواہ میں نہ دیں۔ مسلمان وہ بھی عالم، وہ بھی امام کے ساتھ حسن ظن رکھنا لازم ہے، بد گمانی حرام ہے۔ حدیث میں ہے: إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيْثِ۔ بد گمانی سے بچو اس لیے کہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے۔ مدرسہ عمارت کا نام نہیں، مسجد میں اگر تعلیم ہورہی ہے تو اس کو بھی مدرسہ کہہ سکتے ہیں۔واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved