8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید ایک مسجد کا امام ہے، جس کو خالد و بکر نے مدرسہ اور مسجد کے لیے کچھ روپے دیے، تین ماہ تک کسی کو اس روپے کے متعلق خبر نہیں ہوئی، بعدہٗ چندہ دہندگان نے کمیٹی کے افراد سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ انھوں نے نہیں دیا ہے۔ اس کے بعد اراکین مدرسہ کی ایک میٹنگ ہوئی، تب امام صاحب نے پیسہ دیا، اس سے معلوم ہوا کہ اگر کمیٹی نہ ہوتی تو امام صاحب پیسہ نہیں دیتے۔ کیا ایسی صورت میں امام صاحب کی چوری ثابت ہوتی ہے؟ اور وہ امامت کے حق دار ہیں؟

فتاویٰ #1786

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- زید کے پیچھے نماز پڑھنا بلا کراہت درست ہے۔ زید پر چوری ثابت نہیں، جب کہ طلب کرنے پر فوراً بلا تاخیر اس نے روپے دے دیے۔ رہ گیا دو تین مہینے تک نہیں دیا، اس کے بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں، مسلمان کے ساتھ حسن ظن رکھنا واجب ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا: لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَيْرًا١ۙ وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِيْنٌ۰۰۱۲ ۔ اور جب تم نے اس کو سنا تھا، کیوں نہ مسلمان مردوں اور عورتوں نے اپنوں پر نیک گمان کیا، اور یہ کہا یہ کھلا ہوا بہتان ہے۔ مسلمان کے ساتھ بد گمانی حرام ہے۔ حدیث میں ہے: إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيْثِ۔ بد گمانی سے بچو اس لیے کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved