8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید ہماری مسجد کا امام ہے، جس کی تنخواہ محلہ والے چندہ کرکے دیتے ہیں۔وہ مسجد میں بچوں کو بھی پڑھاتا ہےاور بچوں سے فیس لیتا ہے۔زید اپنے کو قاری و حافظ بتاتا ہے مگر ۳؍ سال سے طرح طرح کے بہانے بنا کر تراویح میں قرآن نہیں پڑھاتا۔ اس نے مسجد میں پارٹی بھی بنا رکھی ہے۔ کبھی اِن کی کبھی اُن کی شکایت بھی کرتا رہتا ہے۔ اذان اکثر بغیر وضو کے دیتا ہے، وضو میں ناک میں صرف ایک بار پانی ڈالتا ہے، اذان کی دعا، مائک بغیر بند کیے پڑھتاہے، ’’التحیات‘‘ میں ’’لااله الا اللہ‘‘ پر انگلی نہیں اٹھاتا، خارج مسجد کھانا بیٹھ کر کھاتاہے، کھانے میں اکثر کچی پیاز بھی کھاتا ہے، مسجد میں سرتی مَلتا ہے اور مَل کر کھاتا ہے، چین دار گھڑی کے ساتھ گلے کا بٹن کھلا رکھ کر نماز پڑھاتا ہے۔اکثر اگر مغرب کے وقت اذان ہوگئی ہے تو فوراً مصلی پر چلا جاتا ہے، کہتا ہے کہ میرا وضو ہے، اور مغرب کی نفل، عشا کی سنت اور نفل اکثر ترک کرتا ہے، کبھی کبھی وتر میں ہاتھ بھی نہیں چھوڑتا۔ اکثر سنت و نفل جب پڑھتا ہے تو اگر پہلی رکعت ۳۰؍ سکنڈ کی ہوگی تو دوسری نو۹ سکنڈ کی ہوگی۔ ہم لوگ کبھی سنت میں ثنا بھی نہیں پڑھ پاتے کہ وہ رکوع کردیتا ہے، کبھی ’’التحیات‘‘ پڑھنے میں اتنا وقت لیتا ہے کہ مقتدی درود اور دعاے ماثورہ پڑھ لیتے ہیں، تب وہ اٹھتا ہے، کہتا ہے میں صبح سو کر اٹھنے پر فوراً اذان دےکر فراغت کے لیے جاتا ہوں، کلی وغیرہ بھی نہیں کرتا۔ چین دار گھڑی کے بارے میں کہتا ہے کہ مفتی بنارس عبدالرحمٰن صاحب کا یہ مسئلہ چلا نہیں؛ اس لیے سبھی مفتیوں نے اتفاق راے سے اسے چالو کردیا۔ اور اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ امام کا عمل امام کے ساتھ ہے، ہم کو کیا؟ ہم نماز پڑھیں گے۔ گناہ تو امام کو ملےگا۔ براے مہربانی شرعی حکم سے مطلع فرمائیں، کیا زید کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے؟

فتاویٰ #1745

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- آپ حضرات نے بڑی کوشش و محنت سے امام کے خلاف الزامات کی بہت لمبی فہرست تحریر کی ہے؛ لیکن اس ساری فہرست میں سواے ایک الزام کے کوئی ایسا نہیں جس کی وجہ سے اس پر کوئی فرد جرم عائد کی جاسکے۔ یعنی مسجد کے اندر سُرتی ملنا، سرتی میں بد بو ہوتی ہے، اور بدبودار چیز مسجد میں لےجانا جائز نہیں۔ امام کو ہدایت کردی جائے کہ اب تک اس نے مسجد میں جو سرتی لےجاکر ملی ہے اس سے توبہ کرے اور آیندہ احتیاط کرے۔ بغیر وضو اذان دینا ناجائز و گناہ نہیں، خلاف اولیٰ ہے۔ نوافل چھوڑنے پر کوئی گناہ نہیں۔ ہاں ! وتر میں قنوت پڑھتے وقت کانوں تک ہاتھ لےجاکر پھر ہاتھ باندھنا سنت ہے۔ امام اگر اس کا عادی ہے کہ اس وقت ہاتھ کانوں تک نہیں لےجاتا تو ضرور گنہ گار ہے، امام کو اس سے بھی توبہ کرنی چاہیے اور آیندہ اس کی پابندی کرنی چاہیےکہ یہ سنت ترک نہ ہو۔ توبہ کے بعد ان پر کوئی الزام باقی نہیں رہتا۔ حدیث میں ہے: التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لاَ ذَنْبَ لَہُ. واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved