8 September, 2024


دارالاِفتاء


بالقصد شہرت اور ناموری کے لیے تصویر کھنچوانا یا کھینچنا، چھوٹی یا بڑی، جائز ہے یا ناجائز؟ جو لوگ تصویر کھنچواتے ہیں ان کے پیچھے نماز جائز ہے یا ناجائز؟ جو لوگ بالقصد ویڈیو، ٹی وی دیکھتے ہیں بلکہ ٹی وی اور ویڈیو دیکھنا جائز قرار دیتے ہوں، ایسے لوگوں کے پیچھے نماز جائز ہے یا ناجائز؟ ایسے لوگوں سے بیعت ہونا جائز ہے یا ناجائز؟ اگر کوئی بیعت ہوچکا ہو تو اس کے لیے شرعی حکم کیا ہے؟ خاص بات یہ ہے کہ ویڈیو اور ٹی وی دیکھنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟

فتاویٰ #1731

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- جو لوگ تصویریں کھنچواتے ہوں وہ فاسق معلن ہیں، انھیں امام بنانا جائز نہیں، ان کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے، یعنی جتنی نمازیں پڑھی ہیں سب دوبارہ پڑھی جائیں۔ ویڈیو اور ٹیلی ویژن [دیکھنے]میں تفصیل ہے۔ اصل میں جس چیز کا دیکھنا سننا جائز ہے، ویڈیو اور ٹیلی ویژن میں بھی اس کا دیکھنا جائز ہے، مثلاً مرد کا عکس، یا مرد کی تقریر سننا۔ اور اصل میں جن کا دیکھنا ناجائز ہے، ویڈیو اور ٹیلی ویژن میں بھی ان کا دیکھنا سننا ناجائز۔ اسی طرح جو علما صرف جائز پروگرام دیکھتے ہیں، ان پر بھی کوئی الزام نہیں۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنے اور ان سے مرید ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر کوئی دوسری صورت کو بھی جائز کہتا ہو اور دوسرے قسم کے مناظر دیکھتا ہو، تو وہ فاسق معلن ہے۔ اسے امام بنانا جائز نہیں۔ اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے، اس سے مرید ہونا جائز نہیں۔ البتہ یہ خادم ٹیلی ویژن گھر میں رکھنے کو جائز نہیں جانتا۔ اس لیے کہ لوگ ٹیلی ویژن پر زیادہ تر، اتنے زیادہ کہ کل کے حکم میں ہے، ناجائز پروگرام ہی دیکھتے ہیں، اور ٹیلی ویژن اسٹیشنوں سے غالب اکثر ناجائز پروگرام ہی نشر ہوتے ہیں۔ بہت سے ایسے پروگرام ہیں جو حقیقت میں ناجائز ہیں مگر لوگ اسے ناجائز نہیں سمجھتے، بےمحابہ دیکھتے ہیں۔ مثلاً عورت کی تقریر، کھیل کے سین، حج کی ویڈیو کیسیٹ،جس میں عورتوں کو حج کرتے ہوئے بے پردہ دکھایا گیا ہے، بال کھول کر احرام کے لیے بال کٹاتے دکھایا گیا ہے، یہ سب ناجائز سین ہے، مگر ’’حج ویڈیو کیسیٹ‘‘ میں یہ سب موجود ہے۔ لوگ اسے بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔بلکہ بہت سے احمق اسے باعث ثواب جانتے ہیں، تو چوں کہ گھر میں رکھنا باعتبار اغلب و اکثر حرام میں مبتلا کرنے کا ذریعہ ہے، اس لیے اس کا رکھنا جائز نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved