8 September, 2024


دارالاِفتاء


ہمارے یہاں کے امام صاحب نے جمعے کے روز دوران تقریر نمازیوں کے سلسلے میں یہ کہا: ’’بےنمازی آدمی سور سے بھی بد تر ہے‘‘۔ مذکورہ جملے پر عوام نے جب حوالہ طلب کیا تو کوئی حوالہ نہ دےکر، انھوں نے یہ کہا کہ: بےنمازی کسی کے نزدیک سور سے بد تر ہو یا نہ ہو، میرے نزدیک ہے۔چند جمعوں کے بعد امام صاحب نے اپنے قول کی حمایت میں ایک محصل کو تقریر کرنے کو کہا۔ انھوں نے اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ کہا کہ: ’’اگر اللہ تعالیٰ خنزیر سے بھی بد تر کوئی جانور پیدا کرتا تو ہم بےنمازی کو اس جانور سے بھی بدتر مانتے۔ دلیل یہ پیش کیا کہ اگر طباق میں کھانا رکھا ہو، اور خنزیر نے اس کھانے میں منھ لگا دیا تو آپ وہ کھانا دوسری طرف سے کھاسکتے ہیں، اگر دل چاہے، لیکن اگر کسی بےنمازی نے کھانا چھو دیا تو وہ کھانا حرام ہوجائےگا۔‘‘ دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس طرح کی باتیں درست ہیں، یا نہیں؟ حوالہ سے مزین فرمائیں۔ اگر غیر درست ہیں تو اس صورت میں امام مذکوراور محصل کے لیے کیا حکم ہے؟

فتاویٰ #1724

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- امام کو ایسی سخت بات ہرگز نہیں کہنی چاہیے، جس سے لوگ بھڑک جائیں۔ حدیث میں ہے: بَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا ۔ لوگوں کو خوش خبری سناؤ، نفرت نہ دلاؤ۔ لیکن امام کے قول کی تاویل ہوسکتی ہے۔ خنزیز جہنم کا مستحق نہیں، مگر بےنمازی جہنم کا مستحق ہے۔ خنزیر کے بارے میں حدیث وارد نہیں،مگر بے نمازی کے بارے میں وارد ہے: فقد کفر، خنزیر کو کسی امام یا مجتہد نے کافر نہیں کہا، مگر بے نمازی کو بہت سے ائمہ نے کافر کہا۔ مسلمانوں پر اللہ رحم فرمائے، گناہ کرتے ہیں، اس پر شرمائیں گے کیا، تنبیہ کرنے والوں کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ البتہ محصل نے جو بات کہی وہ بالکل غلط ہے، بے نمازی بہت بڑا گنہ گار ہے، شرابی، جواری، سود خور، زانی سے بڑھ کر گنہ گار ہے، مگر نجس نہیں۔ کہ اگر طباق پر ہاتھ رکھ دے تو طباق کا سب کھانا حرام ہوجائے۔ اس محصل پر توبہ فرض ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved