----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- اگر واقعی یہ تحریر زید کی ہے تو زید کے پیچھے ہرگز ہرگز نماز نہ پڑھی جائے اور نہ اس سے بچوں کی تعلیم دلائی جائے۔ یہ تحریر زید ہی کی ہے، اس کے ثبوت کے لیے دو عادل گواہ چاہیے جنھوں نے یہ تحریر زید کو لکھتے ہوئے دیکھا ہو، یا پھر زید کا اقرار، محض لے جانے والے کے اس کہنے سے کہ یہ تحریر زید کی ہے، ثبوت نہیں ہوسکتا۔ اور نہ اس کے خط کا زید کے خط کے مشابہ ہونا اس کی دلیل بن سکتا ہے۔ اور اس تحریر سے زنا ثابت کرنا بالکل غلط ہے۔ یہ تحریر اگر زید کی ہو بھی تو اس سے زنا نہیں ثابت ہوسکتا۔ ایک بات اور تحقیق کی جائے کہ لڑکی نے زید کے پاس خط لکھا کہ نہیں؟ اگر لکھا ہے تو لڑکی کو ایسا خط لکھنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ یہ بات غور طلب ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانے؛ لیکن جہاں تک ثبوت کا تعلق ہے، اس کی بنیاد صرف دو ہے: زید کا اقرار، یا گواہ بقدر نصاب۔ بغیر اس کے یہ ثابت نہیں ہوسکےگا کہ یہ تحریر زید کی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org