----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- یہ سوال جس علاقے سے آیا ہے وہاں شوافع حضرات بکثرت ہیں، اور ان کی خاص اپنی مساجد ہیں، سنی شافعی ائمہ دستیاب نہیں ہوتے اور اس قسم کی بہت سی خبریں دار الافتا میں ملی ہیں کہ سنی حنفی علما نے جب شافعی طریقے سے نماز پڑھانے سے انکار کردیا تو بے علم شافعیوں نے دیوبندیوں کو رکھ لیا۔ بےچارے عوام، دیوبندیوں کے عقائد سے واقف نہیں وہ ایسی غلطیاں مسلسل کر چکے ہیں۔ دیوبندی ائمہ سے مساجد کو بچانے اور شوافع حضرات کی نمازوں کو برباد ہونے سے بچانے کے لیے حنفی علما کو اس کی اجازت ہے کہ وہ شافعی طریقے پر نماز پڑھادیا کریں۔ اگر کوئی حنفی، شافعی طریقےپر نماز پڑھائے تو حنفی مذہب کی رو سے نہ کسی فرض کا ترک ہوگا نہ کسی واجب کا۔ ہاں حنفی مذہب کے مطابق چند باتیں خلاف سنت ہوں گی۔ مثلاً بجاے کانوں کے کندھے تک ہاتھ لےجانا۔ ناف کے نیچے کے بجاے ناف کے اوپرہاتھ باندھنا۔ آمین زور سے کہنا، وغیرہ وغیرہ۔ ایسے صحیح العقیدہ سنی حنفی امام کے پیچھے جو مذکورہ بالا ضرورت کی وجہ سے شافعی طریقے پر نماز پڑھائے شوافع کی نماز بلا کراہت ہو جائے گی اور احناف کی بھی۔ ایک بڑی مصیبت سے عوام کو نجات دلانے کے لیے اس کی اجازت ہے؛ لیکن جائز نہیں کہ جو حنفی ہو شافعی ہوجائے۔ اور جو شافعی ہو حنبلی ہوجائے۔ عوام پر تقلید واجب ہے۔ تقلید کا مطلب ہوتا ہے کسی کی بات بلا دلیل ماننا۔ جب ایک کو مان لیا تو اسے چھوڑ کر دوسرے کو ماننا دو ہی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ ایک: تحقیق، یہ کام مجتہد کا ہے عوام کا نہیں۔ دوسری: خواہش نفس، یہ شریعت کا اتباع نہ ہوا، خواہش نفس کا ہوا۔ اور دلیل میں سرکار غوث اعظم کو پیش کرنا جہالت ہے۔ تحقیق یہ ہے کہ سرکار غوث اعظم مجتہد مطلق کے منصب پر فائز تھے، وہ براہ راست اپنے جد کریم حضور علیہ الصلاۃ والتسلیم سے تلقی احکام فرماتے تھے، اور سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے کسی امام کی تقلید، فتنے سے بچنے کے لیے فرمایا؛ کہ نفس پرست دنیا دار، فتنہ پرور، غیر مقلد ہونے کی دلیل بنا لیتے کہ سرکار غوث اعظم نے کسی کی تقلید نہیں کی تو ہم بھی نہیں کریں گے، جیسا کہ اس مولوی امام نے کیا۔ خلاصۂ کلام یہ کہ کسی حنفی کو یہ جائز نہیں کہ سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ کی تقلید ترک کرکے کسی دوسرے امام کی تقلید کرے۔ اسی طرح شافعی کو بھی جائز نہیں۔ ہاں ! اس کی اجازت ہے کہ بوجہ ضرورت و حاجت کسی خاص مسئلے میں دوسرے امام کے مسئلے پر عمل کرے۔ جیسے سفر میں جمع بین الصلاتین،اورمفقود الخبر وغیرہ کے مسئلے میں خود علماے احناف نے تصریح کی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۳) حنفی مؤذن کو مثل ثانی شروع ہوتے ہی اذان کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ خود ہمارے ائمہ میں سے امام ابو یوسف اور امام محمد کا مذہب یہی ہے کہ مثل ثانی پر عصر کا وقت ہوجاتا ہے۔ بضرورت حنفی کو امام شافعی یا دوسرے ائمہ کے مذہب پر عمل کی اجازت ہے۔ جیسا کہ مفقود الخبر اور متعسر النفقہ اور ممتدّۃ الطہر کے مسئلے میں خود علماے احناف نے تصریح کی ہے۔ مسلمانوں کی نمازوں کو ضائع ہونے سے بچانا ان ضرورتوں سے کہیں بڑھ کر ہے جن کی بنا پر مذکورہ بالا مسائل میں دوسرے امام کے مذہب پر عمل کی اجازت دی گئی ہے۔ٍ واللہ تعالیٰ اعلم۔---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org