----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱) اصل حکم یہی ہے کہ وہابی کو مسجد میں ہرگز ہرگز نہ آنے دیا جائے۔ حضور اقدس ﷺ نے خاص جمعہ کے دن خطبہ کے وقت منافقین کو نام لےکر مسجد سے باہر کردیا۔ در مختار میں ہے: وَيُمْنَعُ مِنْہُ كُلُّ مُؤْذٍ وَلَوْ بِلِسَانِہٖ ۔ مسجد سے ہر ایذا دینے والے کو روکا جائے، اگرچہ وہ زبان سے ایذا دیتا ہو۔ جہاں قدرت ہو، کسی وہابی کو مسجد میں گھسنے نہ دیا جائے، لیکن عام مساجد میں ممکن نہیں، لہذا جہاں وہابی کو مسجد میں آنے سے روکنے پر قدرت نہ ہو، وہاں صبر کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مجبوری کو جانتا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۲) یہ صحیح ہے کہ جمعہ کے وقت خطیب کو خطبہ سے پہلے محراب میں نماز مکروہ ہے، جیسا کہ شامی اور بحر الرائق میں ہے۔ [حاشیہ: رد المحتار کی عبارت یہ ہے: وتکرہ صلاتہ فی المحراب قبل الخطبۃ۔ (ج:۲،ص:۱۵۰، باب الجمعۃ) ’’کراہت‘‘ کا لفظ شاہد ہے کہ حضور سید عالم ﷺ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں، تو وہ نماز بس اپنے طور پر ایک نفل نماز ہوئی جو عام اوقات میں مندوب ومستحب ہوتی ہے مگر یہ کہ وقت کراہت کا ہو، یا خارج سے کوئی کراہت عارض ہو جائے۔ اذان خطبہ کے بعد کا وقت خطبۂ جمعہ کا ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ اذان اور خطبے کے درمیان کسی اجنبی سے فصل نہیں ہونا چاہیے اب اگر یہ فصل جنس خطبہ سے ہوتا تو کراہت نہ ہوتی اور دنیوی اعمال سے ہوتا تو مکروہ تحریمی ہونا چاہیے لیکن یہاں دونوں کے سوا نماز سے فصل ہو رہا ہے اس لیے سمجھ میں یہ آتا ہے کہ اسے مکروہ تنزیہی ہونا چاہیے غالبا اسی بنا پر حضرت شارح بخاری علیہ الرحمۃ والرضوان نے اسے مکروہ تنزیہی فرمایا ہے۔ محمود علی مشاہدی] ان دونوں بزرگوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ مکروہ تحریمی ہے یا تنزیہی؟ میرا خیال یہ ہے کہ مکروہ تنزیہی ہوگا۔ آپ امام صاحب کو مسئلہ بتا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے جھگڑا نہ کریں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org