8 September, 2024


دارالاِفتاء


(۱) زید جو عالم وقاری ہیں ہماری مسجد کے امام ہیں اور مدرسے میں خدمت تدریس انجام دیتے ہیں۔ ایک دن وقت عشا قبل جماعت موصوف صلاۃ کہنے کے لیے کھڑے ہوئے فوراً بکر نے انھیں پکڑ لیا اور کہا یہ فضول خرچی ہے بالآخر امام صاحب کو ٹھوکر مار دی جس میں ایک عالم دین کی سخت توہین ہوئی لہذا بکر کے لیے شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے آیا ایسے شخص کی اذان واقامت درست ہے اگر نہیں تو اذان کا اعادہ ضروری ہے یا نہیں پھر ایسے شخص سے مصلیان کیسا سلوک کریں نیز شرعاً مجرم ہے یا نہیں اگر ہے تو اس پر شریعت کیا سزا نافذ کرتی ہے؟ (۲) قبل جماعت صلاۃ پڑھنے کی کیا حقیقت ہے اور اس کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی مع السند تحریر کریں۔ (۳) أشہد أن لا إلہ إلا اللہ پر کلمہ کی انگلی اٹھانا جو عوام میں رائج ہے اس کی کیا سند ہے؟ مذکورہ بالا مسائل کے جوابات بالتفصیل تحریر فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں ۔ بینوا توجروا

فتاویٰ #1536

بسم اللہ الرحمن الرحیم – الجواب ــــــــــــــ: (۱) بکر جس نے زید عالم دین امام مسجد کو ایک جائز اور مستحسن کام کرنے پر پکڑا ، ٹھوکر ماری وہ فسادی فاسق معلن ہو گیا بلکہ باعتبار ظاہر اس پر کفر بھی لازم؛ اس لیے کہ اس نے ایک عالم دین کی ایک مستحسن کام کے لیے توہین کی۔ پکڑنا اور ٹھوکر مارنا تو بڑی بات ہے علما نے لکھا ہے کہ علما کے ساتھ استہزا اور استخفاف کفر ہے۔ الاشباہ والنظائر میں ہے : الاستہزاء بالعلم والعلماء کفر۔ ملتقی میں ہے: الاستخفاف بالعلماء کفر ۔ بکر وہابی معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ صلاۃ سے صرف وہابی ہی چڑھتے ہیں، وہابیوں کے دلوں میں حضور اقدس ﷺ کی عداوت بھری ہوئی ہے۔ وہ اس کو برداشت ہی نہیں کر سکتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ پر درود وسلام پڑھا جائے۔ بکر سے نہ اذان کہلائی جائے نہ اقامت۔ سنی مسلمان اس سے میل جول، سلام وکلام بند کر دیں حتی کہ اگر وہ اپنی ضد سے اذان واقامت کہہ دے تو دوبارہ اذان واقامت کہیں۔ واللہ تعالی اعلم (۲) اذان کے بعد جماعت سے پہلے صلاۃ کہنا باتفاق علماے احناف جائز ومستحسن ہے اور تمام بلاد اسلامیہ میں بلا انکار منکر رائج ومعمول ہے ۔ ہدایہ میں ہے : المتأخرون استحسنوہ في الصلوات کلہا لظہور التواني في الأمور الدینیۃ۔ فتاوی خانیہ میں ہے: ولا باس بالتثویب في سائر الصلوات الخمس في زماننا ۔ عالمگیری میں ہے: والتثویب حسن عندالمتأخرین في کل صلاۃ إلا في المغرب ، کذا في شرح النقایۃ للشیخ أبي المکارم۔ تنویر الابصار ودر مختار میں ہے: ویثوب بین الأذان والإقامۃ في الکل للکل بما تعارفوہ إلا في المغرب۔ سر دست پانچ کتابوں کا حوالہ ہے اس کے علاوہ فقہ کی پچاسوں کتابوں میں تصریح ہے کہ تثویب اذان واقامت کے درمیان مستحسن ہے۔تثویب کے معنی اعلام کے بعد اعلام ۔ اس کے لیے کوئی لفظ مقرر نہیں ۔ ہدایہ میں ہے: معناہ العود إلی الإعلام وہو علی حسب ما تعارفوہ۔ خانیہ میں ہے: تثویب کل بلدۃ ما تعارفوہ۔ عالمگیری میں ہے: وہو رجوع المؤذن إلی الإعلام بالصلاۃ بین الأذان والإقامۃ وتثویب کل بلدۃ علی ما تعارفوہ إما بالتنحنح أو بالصلاۃ الصلاۃ أو قامت قامت لأنہ للمبالغۃ بالإعلام وإنما یحصل ذلک بما تعارفوہ، کذا في الکافي۔ اب سب باتوں کا حاصل یہ ہے کہ اذان کے بعد دوبارہ نماز کے وقت کی خبر دینے کا نام تثویب ہے اور اس کے لیے کوئی لفظ مقرر نہیں ۔ شہر والے جس لفظ کو تثویب سمجھیں وہی تثویب ہے ۔ مثلا ’’الصلاۃ الصلاۃ‘‘ کہنا یا ’’قامت قامت‘‘ کہنا حتی کہ اگر وہاں تثویب کے لیے کھنکھارنا رائج ہو تو وہی تثویب ہے اور ظاہر ہے کہ صلاۃ پڑھنے کو ہر شخص تثویب جانتا ہے۔ میں نے خود بارہا لوگوں سے سنا ہے کہ لوگوں نے صلاۃ سنی تو نماز کے لیے فوراً کھڑے ہو جاتے ہیں ، کہتے ہیں کہ مسجد چلو جماعت تیار ہے صلاۃ ہو چکی۔ اس لیے اذان واقامت کے درمیان صلاۃ کہنا جائز ہے نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے۔ اس لفظ سے تثویب درست ہے، ہمارے ہندوستان ہی میں نہیں مصر وغیرہ میں ’’الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ‘‘ رائج ہے۔ تثویب کے لیے سلام پڑھنا غازی سلطان صلاح الدین ایوبی کے حکم سے ۷۸۱ھ یا ۷۹۱ ہجری میں رائج ہوا جیسا کہ صاحب در مختار نے لکھا ہے اور صاحب در مختار نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے اور صرف انھوں نے ہی نہیں بلکہ علامہ ابن عابدین شامی نے البحر الرائق بحوالہ قول البدیع نقل فرمایا کہ ان سب حضرات نے فرمایا کہ یہ بدعت حسنہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تثویب یعنی کسی بھی لفظ سے اذان کے بعد دوبارہ اعلام صدیوں پہلے سے رائج تھا خاص اس کے لیے تسلیم یعنی حضور ﷺ پر سلام پڑھنا غازی صلاح الدین ایوبی فاتح بیت المقدس کے حکم سے ان کے زمانے سے رائج ہے۔ واللہ تعالی اعلم (۳) اس کی کوئی سند میری نظر میں نہیں اور اس سے ممانعت بھی نہیں اس لیے اس میں کوئی حرج نہیں۔(حاشیہ: عوام کا عمل یہ ہے کہ اذان میں، اقامت میں، خطبے میں، خطیب کی تقریر میں نیز دوسرے مواقع پر بھی جب کلمہ شہادت سنتے ہیں تو ’’أن لا إلہ‘‘ پر کلمے کی انگلی اٹھاتے ہیں، اس طرح کے مواقع پر انگلی اٹھانا رسول اللہ ﷺ سے معلوم نہیں، فتوے میں عوام کے اسی عمومی عمل کے بارے میں حضرت نے لکھا ہے کہ ’’اس کی کوئی سند میری نظر میں نہیں‘‘ یعنی عام حالات میں کلمہ شہادت پر سرکار علیہ الصلاۃ والسلام سے انگلی اٹھانا میرےعلم میں نہیں۔ ہاں! نماز میں التحیات پڑھتے وقت ’’أن لا إلہ‘‘ پر سرور کائنات ﷺ نے انگلی اٹھائی۔ یہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ انگلی اٹھانے کا مقصد ’’لا إلہ‘‘ کی تائید وتصدیق ہے یعنی معبود باطل کی نفی۔ اس مقصد کے پیش نظر اگر تشہد کے دوسرے مقامات پر بھی انگلی اٹھائی جائےتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ یہاں بھی وہی معبود باطل کی نفی ہے، اس طرح دیکھا جائے تو عوام الناس کے موجودہ عمل کی اصل حدیث نبوی میں ملتی ہے۔ اس لیے یہ ناجائز نہیں ہے، کہ جائز قرار دینے کے لیے دلیل منع چاہیے اور وہ یہاں مفقود ہے۔ یہ حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کے مختصر فتوے کی تشریح ہے۔ محمد نظام الدین رضوی ۔) واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved