--------- فقیہ اعظم حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق صاحب قبلہ امجدی قدسرہ کا جواب- الجواب ـــــــــــــــــــــ: دیوبندی مدرسہ جامع العلوم پٹکاپور ، کان پور کا ایک فتوی نظر سے گزرا جسے کسی دیوبندی ہی نے بصورت اشتہار چھپوایا ہے یہ فتوی اس سے متعلق ہے کہ اقامت کھڑے ہو کر سننا چاہیے یا بیٹھ کر۔ اس فتوے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اقامت کھڑے ہو کر سننا چاہیے، بیٹھ کر سننا شرعاً ممنوع ہے۔ مجھے حیرت اس پر ہے کہ اس فتوے کے لکھنے والے اپنے آپ کو حنفی کہتے ہیں اور فقہ حنفی کی تمام کتابوں کی غیر مبہم واضح تصحیحات کے خلاف اپنے غیر مقلد بھائیوں سے سیکھ کر خود مجتہد بن کر براہ راست فقہ حنفی کو رد کرنے کے لیے بے موقع بے محل قرآن مجید کی آیات اور احادیث کا سہارا لیا گیا ہے۔ ہم ناظرین کے سامنے پہلے فقہ حنفی سے اس کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اس مسئلہ کی تین صورتیں ہیں : پہلی صورت: امام خود ہی اقامت کہے۔ اس صورت میں سب مقتدی بیٹھے رہیں جب تک امام پوری اقامت نہ کہہ لے نہ کھڑے ہوں۔ دوسری صورت: یہ ہے کہ امام محراب کے قریب نہ ہو مسجد ہی میں محراب سے کہیں دور ہو یا مسجد سے باہر ہو۔ اب اگر امام مصلے پر صفوں کے آگے کی طرف سے آئے تو امام کو دیکھتے ہی مقتدی کھڑے ہو جائیں اگرچہ اقامت ختم نہ ہوئی ہو۔ اور اگر صفوں کے پیچھے سے آئے تو جس صف سے گزرے وہ صف کھڑی ہو جائے۔ ہمارے دیار میں یہ صورتیں بہت نادر ہیں۔ اس لیے اس سے بحث کی ضرورت نہیں۔ تیسری صورت: یہ ہے کہ امام محراب کے قریب ہو اور سب مقتدی مسجد میں ہوں۔ ہمارے دیار میں اسی پر عمل ہے اور یہی متنازع ہے اسی سے ہم تفصیلی بحث کریں گے۔ سیدنا امام اعظم کے تلمیذ جلیل محرر مذہب امام محمد رضی اللہ تعالی عنہما اپنے مؤطا میں لکھتے ہیں : ’’ینبغي للقوم إذا قال المؤذن حي علی الفلاح أن یقوموا إلی الصلاۃ ویسووا الصفوف۔ قوم کو چاہیے کہ جب مؤذن ’’حي علی الفلاح‘‘ کہے تو کھڑے ہوں اب صف لگائیں اور صفوں کو سیدھی کریں۔ عالمگیری میں ہے: إن کان المؤذن غیر الإمام وکان القوم مع الإمام في المسجد فإنہ یقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن حي علی الفلاح۔ مؤذن امام کے علاوہ کوئی اور ہو اور قوم امام کے ساتھ مسجد میں ہو تو امام اور قوم اس وقت کھڑے ہوں جب مؤذن ’’حي علی الفلاح‘‘ کہے۔ تنویر الابصار اور در مختار میں ہے: والقیام للإمام والمؤتم حین قیل حي علی الفلاح۔ اس کے تحت شامی میں ہے: كذا في الكنز ونور الإيضاح والإصلاح والظهيرية والبدائع وغيرها۔ والذي في الدرر متناً وشرحاً عند الحيعلة الأولى يعني حين يقال حي على الصلاة اهـ وعزاه الشيخ إسماعيل في شرحه إلى عيون المذاهب والفيض والوقاية والنقاية والحاوي والمختار ا هـ أ۔ قلت واعتمده في متن الملتقى وحكى الأول بـ قيل، لكن نقل ابن الكمال۔ تصحيح الأول۔ ونص عبارته: قال في الذخيرة يقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن حي على الفلاح عند علمائنا الثلاثة ۔ وقال الحسن بن زياد وزفر: إذا قال المؤذن قد قامت الصلاة قاموا إلى الصف۔ اس عبارت کا حاصل یہ ہے کہ تنویر الابصار، در مختار، کنز، نور الایضاح، اصلاح، ظہیریہ، بدائع، ذخیرہ، میں یہ ہے کہ جب مؤذن ’’حي علی الفلاح‘‘ کہے تو لوگ کھڑے ہوں اور ملتقیٰ، درر، غرر، عیون المذاہب، فیض ، وقایہ، نقایہ، حاوی اور در مختار میں یہ ہے کہ ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر کھڑے ہوں۔ ان دونوں میں مجدد اعظم اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے یہ تطبیق دی کہ ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر کھڑا ہونا شروع کریں اور ’’حي علی الفلاح‘‘ پر سیدھے کھڑے ہو جائیں۔ یہ سر دست بیس علما کے ارشادات ہیں ۔ ان سے ظاہر کہ امام اور مقتدی شروع اقامت سے کھڑے نہ رہیں بلکہ بیٹھے رہیں جب مؤذن ’’حي علی الصلاۃ‘‘ یا ’’حي علی الفلاح‘‘ کہے اس وقت کھڑے ہوں، یہ احناف کا متفق علیہ مسئلہ ہے کہ شروع اقامت سے کھڑے نہ ہوں بیٹھے رہیں اس میں کسی ایک امام یا عالم کا کوئی اختلاف نہیں، اس سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ اقامت کے وقت بیٹھنا نہ کسی آیت کے معارض ہے اور نہ کسی حدیث کے، ورنہ لازم آئے گا کہ علماے احناف نے قرآن وحدیث کے خلاف پر اتفاق کر لیا ہے۔ اس کی جرأت وہی کرے گا جو غیر مقلد ہو گا یا حنفیت کا دعوی کرتے ہوئے غیر مقلدین کا ایجنٹ ہوگا ۔ جامع العلوم کے مولوی صاحبان نے اس کے ثبوت میں جو دو آیتیں لکھی ہیں ان کا اس مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں۔ پہلی آیت کا حاصل یہ ہے کہ ’’نیکیوں کے ادا کرنے میں جلدی کرو دیرنہ کرو‘‘۔ نیکیاں صرف نماز میں منحصر نہیں نیز ہر نیکی ادا کرنے کےلیے شرائط ہیں ان شرائط کو پہلے ادا کرنا ضروری ہے۔ ان مولوی صاحب کے قول سے یہ لازم آتا ہے کہ اقامت شروع کرتے ہی نماز بھی شروع کر دی جائے ورنہ جب نماز سے پہلے اقامت ہے تو اقامت ختم ہونے تک نماز مؤخر کی جائے گی اس میں بیٹھنا کہاں حارج ہے ۔(حاشیہ: مطلب یہ ہے کہ جب نماز اقامت کے بعد ہی شروع ہوگی تو اس سے پہلے بیٹھنے کی وجہ سے نماز شروع کرنے میں دیر ہر گز نہ ہوگی۔ مسنون یہ ہے کہ جب مکبر ’’حی علی الصلاۃ‘‘ کہے تو کھڑے ہونا شروع کردیں اور ’’حی علی الفلاح‘‘ کہنے تک پورے کھڑے ہو جائیں۔ تو اس سنت پر عمل سے شروع نماز میں کہاں حرج پیدا ہوا۔ کیا دیو بندی ’’حی علی الفلاح‘‘ سے پہلے ہی نماز شروع کر لیتے ہیں، نیکی میں جلدی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وقت سنت سے پہلے نماز شروع کر دی جائے اور اگر دیوبندی ’’حي علی الفلاح‘‘ کے بعد نماز شروع کرتے ہیں تو حنفیہ اس میں دیر کہاں کرتے ہیں، حنفیہ تو اسی کے قائل ہیں کہ’’حي علی الفلاح‘‘ کے بعد نماز شروع ہو اور اس سے پہلے وہ مکمل کھڑے ہو چکے ہوتے ہیں۔ محمد نظام الدین رضوی) اور دوسری آیت میں ’’ ذکر اللہ‘‘ سے مراد اگر مولوی صاحب خطبہ لیں تو بھی اسے ان کے مدعا سے کوئی لگاو نہیں اور اگر ’’ذکر اللہ‘‘ سے مراد جمعہ ہے تو لازم کہ اذان سنتے ہی مسجد میں جاکر نماز جمعہ شروع کر دیں ۔ خطبہ بھی نہ سنیں یا پھر لازم کہ خطبہ کھڑے ہو کر سنیں۔ اور مسلم شریف کے حوالے سے جو پہلی حدیث نقل کی ہے اس مولوی نے خیانت کی حد کر دی ہے، حدیث کے الفاظ یہ ہیں: أقیمت الصلاۃ فقمنا فعدلنا الصفوف قبل أن یخرج إلینا رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم-۔ اقامت کہی جا چکی تو اس کے بعدہم کھڑے ہوئے اور ہم نے صفیں درست کیں قبل اس کے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری طرف تشریف لائیں۔ یہ اس پر نص ہے کہ صحابۂ کرام اقامت بیٹھ کر سنتے اور جب اقامت پوری ہوجاتی تو کھڑے ہوتے اور صفیں درست کرتے ۔ ابتداءً ایسا ہی تھا کہ اقامت ختم ہوتے ہی صحابۂ کرام کھڑے ہو جاتے خواہ حضور اقدس ﷺ حجرۂ مبارکہ ہی میں ہوتے اس پر صحابۂ کرام کو مشقت تھی اس لیے بعد میں فرمایا: ’’لا تقوموا حتی تروني‘‘۔ جب تک مجھے دیکھ نہ لو کھڑے نہ ہو۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ صحابۂ کرام بیٹھ کر اقامت سنا کرتے تھے حتی کہ اقامت ختم ہو جاتی جب بھی بیٹھے رہتے جب [حضور اقدس ﷺ] حجرۂ مبارک سے باہر تشریف لاتے اور صحابۂ کرام دیکھ لیتے تو کھڑے ہوتے مگر اس حدیث کو متنازع فیہ صورت سے علاقہ نہیں ـــــــ یہ مسئلہ کی دوسری صورت ہے جب امام مسجد سے باہر ہو اور اقامت کہی جائے ۔ یہاں صورت حال یہ ہے کہ امام اور قوم دونوں مسجد میں ہیں اور امام محراب کے قریب میں ہے ـــــــ پھر بھی ہمیں مضر نہیں کہ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ ’’حي علی الصلاۃ ، حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہوں اور حدیث سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ صحابۂ کرام پوری اقامت بیٹھ کر سنا کرتے تھے۔ ضد اور عناد کے جوش میں ان غریبوں کو یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ جو دلیل ذکر کر رہے ہیں اس سے ہمارا مدعا ثابت ہو رہا ہے یا رد ہو رہا ہے ۔ اس مولوی کی ڈھیٹائی دیکھیے کہ حدیث میں تھا : ’’أقیمت الصلاۃ فقمنا‘‘ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے : ’’اقامت کہی گئی اس کے بعد ہم کھڑے ہوئے‘‘۔ اور اس مولوی نے یہ ترجمہ کیا : ’’جب اقامت شروع ہوتی تھی تو لوگ کھڑے ہو جاتے تھے‘‘۔ بے پڑھے لکھے عوام کو گمراہ کرنے کے فن میں دیوبندی جماعت پوری دنیا میں زیادہ ماہر ہے، اس نے حدیث کا ترجمہ غلط کیا اور اس کے بڑوں نے تو حدیث بھی گڑھ لی ۔اس سے بڑی ڈھیٹائی یہ ہے کہ در مختار وغیرہ کی جو عبارت نقل کی یہ اس صورت کے ساتھ خاص تھی جب امام محراب کے قریب نہ ہو۔ وہیں ابتدا میں ہے : والقیام حین قیل ’’حي علی الفلاح‘‘ إن کان الإمام بقرب المحراب، وإلا فیقوم کل صف ینتہي إلی الإمام۔ وإن دخل من قدام قاموا حین یقع بصرہم علیہ۔ شامی میں ہے: أي وإن لم یکن الإمام بقرب المحراب بأن کان في موضع آخر من المسجدأو خارجہ ودخل من خلف۔ اور جب ’’حي علی الفلا ح‘‘ کہا جائے تو کھڑے ہوں اگر امام محراب کے قریب ہو۔ اور اگر امام محراب کے قریب نہیں مسجد ہی میں کہیں اور ہے یا مسجد کے باہر ہے اور صف کے پیچھے سے آئے تو جس صف تک پہنچے وہ صف کھڑی ہو جائے اور اگر آگے سے آئے تو امام کو دیکھتے ہی سب لوگ کھڑے ہو جائیں۔ کیا بد دیانتی و گمراہ گری کی اس سے بدتر مثال کوئی مل سکتی ہے کہ حکم کسی اور صورت کا تھا اور اسے چسپاں کیا جائے کسی دوسری صورت پر ،خصوصاً جب کہ متنازع صورت کا حکم وہیں مستقلاً مذکور ہو۔ پھر دلیری یہ ہے کہ در مختار کی یہ عبارت جو متنازع صورت کا جزئیہ ہے اپنی تحریر کی ابتدا میں خود نقل کی ہے اور چند سطر کے بعد ہی بھول گیا۔ سچ فرمایا حضور اقدس ﷺ نے: لوگ جاہلوں کو پیشوا بنا لیں گے جو بغیر علم فتوی دیں گے ، خود بھی گمراہ ہوں گے ، دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (حاشیہ: عن عبد اللہ بن عمرو بن العاص قال: سمعت رسول اللہ -ﷺ- یقول: إن اللہ لا یقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد، ولکن یقبض العلم یقبض العلماء حتی إذا لم یبق علما۔ اتخذ الناس رؤسا جہالا فسئلوا فأفتوا بغیر علم فضلوا وأضلوا ۔ [الصحیح البخاری، کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم۔ رقم الحدیث: ۹۹۔ محمود علی المشاہدی]) اور اخیر میں تو اس مولوی نے اپنی جہالت کے ساتھ ساتھ سفاہت پر رجسٹری کردی کہ ابتداے اقامت میں بیٹھنے کو صفیں سیدھی کرنے کے معارض جانا، اس عقلِ کل سے کوئی پوچھے کہ صف سیدھی کرنے میں کَے گھنٹے وقت صرف ہوگا؟ جو مسلمان نماز کے عادی ہیں وہ چند سکینڈ میں صفیں درست کر لیں گے اور اگر بالفرض اقامت ختم ہوتے ہوتے صفیں سیدھی نہ ہوں تو اقامت کے بعد صفیں سیدھی کرنے پر کیا قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ احادیث میں تصریح ہے کہ اگر اقامت کے بعد بھی صفیں سیدھی نہ ہوتیں تو حضور اقدس ﷺ صفوں کو سیدھی فرماتے پھر نماز شروع فرماتے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ جب امام محراب کے قریب ہو جیسا کہ ہمارے دیار میں دستور ہے تو امام ومقتدی دونوں بیٹھ کر اقامت سنیں۔ اس پر علماے احناف کا اتفاق ہے ۔ اختلاف ہے تو اس میں کہ کس وقت کھڑا ہو ’’حي علی الصلاۃ‘‘ کے وقت ، یا ’’حي علی الفلاح‘‘ یا ’’قد قامت الصلاۃ‘‘ کے وقت ۔ صحیح یہ ہے کہ ’’حي علی الصلاۃ‘‘ پر کھڑا ہونا شروع کرے اور ’’حي علی الفلاح‘‘ پر سیدھا کھڑا ہو جائے، شروع اقامت سے ہرگز نہ کھڑا رہے۔ مضمرات، عالمگیری، شامی میں تصریح ہے کہ اگر اقامت کے وقت کوئی آئے اس پر لازم ہے کہ بیٹھ جائے اسے کھڑا رہنا مکروہ ہے، لکھتے ہیں: یکرہ لہ الانتظار قائما ولکن یقعد ثم یقوم إذا بلغ المؤذن قولہ ’’حي علی الفلاح‘‘ کذا في المضمرات۔ اسی سے مفتی دیوبند کی اس نکتہ آفرینی کا قلعہ قمع ہو گیا جو انھوں نے لکھا۔ اور فقہ کی کتابوں میں جو بات یہ آئی ہے کہ ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑا ہونا مستحب ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد تک بیٹھے رہنا مکروہ ہے کیوں کہ مذکورہ بالا عبارت میں صاف تصریح ہے کہ ’’حي علی الفلاح‘‘ سے پہلے کھڑا رہنا مکروہ ہے اور بیٹھنا ضروری۔ اسے تسویۂ صف کے منافی جاننا فقہاے احناف پر یہ طعن کرنا ہوا کہ انھوں نے ایک ایسے فعل کو مستحب کہا جو ایک سنت کے مزاحم ہے۔ یہ غیر مقلدانہ روش ہے ،صف سیدھی کرنے میں کتنے سکنڈ لگتے ہیں۔ جو لوگ نماز اور صف سیدھی کرنے کے عادی ہیں وہ سکنڈ میں صف سیدھی کر لیں گے۔ اور اگر بالفرض اقامت ختم ہونے کے بعد بھی صف سیدھی نہ ہوئی تو اقامت ختم کرنے کے بعد صف سیدھی کرنے میں کیا حرج ہے۔ حدیث میں ہے: أقيمت الصلاة ، فأقبل علينا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بوجهه، فقال : أقيموا صفوفكم وتراصوا، فإني أراكم من وراء ظهري رواه البخاري. وفي المتفق عليه قال: أتموا الصفوف ، فإني أراكم من وراء ظھري. اقامت کہی جا چکی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا چہرہ انور ہماری طرف کیا اور فرمایا صفیں درست کرو اور خوب مل کر کھڑے ہو۔ میں تم کو اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکھ رہا ہوں۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵،(فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org