22 December, 2024


دارالاِفتاء


(۱) آپ نے ابو داؤد شریف کی جو حدیث بطور حوالہ نقل فرمائی ہے اس میں علی باب المسجد کا لفظ موجود ہے ، اس کا کیا ترجمہ ہوگا؟ خارج مسجد کا ترجمہ کن الفاظ سے مترشح ہے ۔ کیوں کہ علی باب المسجد کا اطلاق اندرون مسجد پر ہوتا ہے نہ کہ بیرون مسجد پر اور اگر اس کو مبہم سمجھا جائے تو اس سے دو مطلب اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اول یہ کہ عند باب المسجد یعنی مسجد کے دروازے کے قریب۔ یا فوق باب المسجد یعنی مسجد کے دروازے کے اوپر لیکن خارج مسجد کا ترشح کسی کنایہ سے بھی نہیں ہوتا۔ (۲) یہ کہ کتب فقہ میں عند المنبر اور بین یدی الخطیب کے جو الفاظ آئے ہیں اس کی کیا توجیہ ہے؟ بین یدی الخطیب کی توجیہ تو کچھ ہو سکتی ہے کہ اذان خطیب سے دور دی جائے لیکن عند المنبر کی کیا تاویل ہے؟ کیا عند کے معی لغت میں کچھ اور بھی ہیں۔

فتاویٰ #1505

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: (۱) دار الافتا کو مناظرانہ سوالات سے محفوظ رکھا جائے تو اچھا ہے ۔ ان سوالوں کے جوابات متعدد مسائل میں بار بار دیے جا چکے ہیں۔ آپ اپنی تسکین کے لیے ’’آذان من اللہ‘‘ اور ’’سد الفرار‘‘ کا مطالعہ کریں یا کم از کم فتاوی رضویہ جلد دوم وسوم کا مطالعہ کر لیں صرف چند باتیں معروض ہیں۔ یہ دروازہ جس پر جمعہ کی اذان ہوتی تھی جمعہ کی مسجد اقدس کا شمالی دروازہ تھا اور مسجد سے باہر تھا ۔ عہد نبوی میں اندر کوئی دروازہ نہ تھا ۔ ’’علی‘‘ بمعنی قرب مجاز ہے اور حقیقت استعلا ہے۔ اور جب معنی حقیقی درست ہوں تو مجازی مراد لینا صحیح نہیں۔ دروازے کی جہت دروازہ نہیں۔ دروازہ وہ خلا ہے جس سے آمد ورفت ہوتی ہے۔ نیز ’’بین یدي‘‘ اس کی دلیل ہے کہ یہ اذان دروازے پر یعنی اس جگہ ہوتی ہے جو خلا اندر باہر کے لیے تھا۔ واللہ تعالی اعلم (۲) اگر ’’عند‘‘ کے معنی قریب کے متعین ہیں تو فقہا کا یہ ارشاد حدیث کے معارض کہ حدیث میں ’’علی باب المسجد‘‘ مذکور ہے اور دروازہ مسجد نبوی منبر سے لگ بھگ چھیانوے ہاتھ تھا۔ پھر تمام فقہا تصریح کرتے ہیں کہ مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ خانیہ ، ہندیہ، البحر الرائق، شرح نقایہ علامہ برجندی، فتح القدیر میں ہے: لا یؤذن في المسجد۔ نیز فتح القدیر خاص باب الجمعہ میں ہے: ہو ذکر اللہ في المسجد أي في حدودہ لکراہۃ الأذان في داخلہ۔ طحطاوی علی المراقی میں ہے : یکرہ أن یؤذن في المسجد کما في القہستانی عن النظم۔ ان ارشادات میں نہ کسی اذان کی تخصیص ہے نہ کسی کا استثنا۔ اس لیے یہ اذان جمعہ یعنی خطبہ کو ضرور شامل۔ لہذا اذان خطبہ بھی اندرون مسجد ممنوع اور مکروہ اور احناف کے نزدیک عند الاطلاق کراہت سے مراد کراہت تحریم۔ اور ہر مکروہ تحریمی گناہ۔ لہذا ثابت کہ اذان خطبہ بھی مسجد کے اندر منبر کے قریب دینا گناہ۔ اب آپ بتائیں کہ ان عبارات کا کیا جواب ہوگا؟ علاوہ ازیں مسجد حرام میں یہ اذان کنارہ ٔ مطاف پر ہوتی ہے۔ اور یہی معمول قدیم ہے یہاں ’’عند المنبر‘‘ بمعنی قریب منبر کیوں نہیں ہوتی؟ مسجد اقدس میں یہ اذان بھی منبر کے متصل نہیں ہوتی۔ یہاں ’’عند ‘‘ کیا صادق؟ دہلی شاہی مسجد میں بھی یہ اذان منبر کے قریب نہیں ہوتی باہر مئذنہ پر ہوتی ہے۔ یہاں ’’عند‘‘ کے کیا معنی ؟ اور لیجیے مولانا عبد الحی عمدۃ الرعایہ میں لکھتے ہیں : قولہ بین یدیہ أي مستقبل الإمام في المسجد کان أو خارجہ ۔ یعنی ’’بین یدیہ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ اذان امام کے روبرو ہو اور اندرون مسجد پر صادق اور خارج پر بھی اور مسنون ثانی ہے یعنی خارج مسجد، اور خلاف سنت بدعت لہذا اس سے بھی ثابت کہ اندرون مسجد اذان دینا گناہ۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved