8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید ایک مسجد کا امام وخطیب ہے اس سے بکر نے کہاں کہ مسجد کے دروازہ پر اذان دی جانی چاہیے اس لیے کہ سنت یہی ہے ۔ ثبوت کے طور پر اس نے اعلی حضرت کی کتاب ’’احکام شریعت‘‘ کھول کر دکھایا۔ تو زید نے کہا کہ یہ سب ٹھیک ہے لیکن اگر میں نے اس سلسلے میں زبان کھولی تو میرے مخالفین اس کا فائدہ اٹھائیں گے ، عوام میں انتشار ہو جائے گا اور میری امامت بھی چھن جائے گی۔ روزی ، روٹی کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔اس لیے کہ جب سے یہ مسجد بنی ہے اس میں شروع سے ہی منبر کے پاس ہی اذان دینے کی رسم چلی آرہی ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ عوام میں انتشار کے خوف سے زید کا کہنا درست ہے یا نہیں؟ یہاں واضح کردوں کہ مسجد کے اصلی دروازہ کا رخ جنوب کی طرف ہے اور مشرق کی طرف کارخانہ کی فصیل ہے لہذا ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

فتاویٰ #1490

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: یہ کہنا غلط ہے کہ خطبہ کی اذان دروازہ پر دی جانی چاہیے۔ خطبہ کی اذان کے لیے ضروری ہے کہ خطیب کے روبرو ہو اور مسجد کے باہر۔ مسجد نبوی شریف میں عہد رسالت اور حضرات شیخین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما کے عہد خلافت تک منبر کے سامنے جانب شمال دروازہ تھا جو مسجد کے باہر تھا اس لیے وہاں اذان دی جاتی تھی۔ اس مسجد میں جب دروازہ جانب جنوب ہے تو خطبہ کی اذان دروازہ پر دینا خلاف سنت ہوگا بلکہ ضروری ہے کہ منبر کے سامنے پورب جانب جو جگہ ہو وہاں اذان دی جائے۔ امام صاحب کو ہمت کرنا چاہیے ، جب سارے علماے اہل سنت اور ہمارے سارے دار الافتا ان کی حمایت کریں گے تو عوام کی شورش خود ہی ختم ہو جائے گی لیکن اگر وہ اس کی ہمت نہیں کرتے اور اسی کو حق سمجھتے ہیں کہ خطبہ کی اذان خطیب کے سامنے مسجد کے باہر ہو تو انھیں ملامت بھی نہیں کرنی چاہیے۔ حدیث میں ہے:وإن لم یستطع فبقلبہ وذلک أضعف الإیمان۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved