8 September, 2024


دارالاِفتاء


ہماری مسجد میں ایک مولانا صاحب نماز جمعہ پڑھانے سے پیش تر خطبہ کی اذان خارج از مسجد دلوایا کرتے تھے چند ماہ بعد کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ جمعہ کی اذان ثانی مسجد کے اندر ہونی چاہیے اس پر مولانا مذکور نے کہا کہ از روے شرع خطبہ کی اذان (یعنی جمعہ کے دن اذان ثانی) خارج از مسجد درست ہے ۔ مولانا صاحب بار بار کہتے رہے کہ کتاب دکھانے کے لیے تیار ہوں، آپ نماز پڑھ لیجیے۔اس پر بھی لوگوں نے نہیں مانا اور گڑبڑی مچائی اس روز سے بروز جمعہ مسجد میں دو جماعتیں ہوتی ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ الف: از روے شرع خطبہ کی اذان جمعہ کے دن کہاں دی جائے؟ ب: خطبہ کی اذان خارج از مسجد دے کر اگر نماز جمعہ پڑھی جائے تو کیا یہ نماز نہ ہوگی؟ شرعی جواب مرحمت فرمائیں۔

فتاویٰ #1489

(بدر احمد مجیبی پھلواروی کا جواب) الجواب ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ جمعہ کی اذان ثانی جو خطبہ کے قبل ہوتی ہے وہ داخل مسجد اور منبر کے سامنے ہونی چاہیے یہی سنت خلفا ہے اور اسی پر عمل امت ہے۔ سب سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اذان کا مقصد کیا ہے؟ فقہا کی تصریحات سے ثابت ہے کہ اذان کا مقصد اعلام غائبین ہے یعنی جو لوگ مسجد میں نہیں ہیں ان کو خبر دینا کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے جیسا کہ شرح وقایہ میں ایک جگہ ہے ’’والأذان لإعلام الغائبین‘‘۔ اور اقامت اعلام حاضرین کے لیے ہوتی ہے کہ مسجد میں موجود لوگوں کو متنبہ کر دیا جائے کہ نماز شروع ہورہی ہے، شرح وقایہ میں ہے: ’’لأنہا لإعلام الحاضرین‘‘۔ نفع المفتی میں ہے: ’’ویحول في الأذان؛ لأنہ لإعلام الغائبین۔ وأما الإقامۃ فہی لتنبیہ الحاضرین۔‘‘ اب دیکھا جائے کہ جمعہ کی اذان ثانی کا مقصد کیا ہے، عہد نبوی میں جمعہ کی اذان اول نہیں تھی صرف یہی اذان تھی جس سے اعلام غائبین کا کام لیا جاتا تھا۔ اس لیے یہ مسجد کے دروازے پر ہوتی تھی ۔اور ایسا ہی عہد صدیقی و فاروقی میں بھی معمول تھا حضرت سائب بن یزید سے مروی ہے : كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ وَأَبِى بَكْرٍ وَعُمَرَ۔ پھر عہد عثمانی میں آبادی کی کثرت کی وجہ سے ایک اور اذان کا اضافہ ہوا جو اذان اول کہلائی، یہ اذان زوراء نامی مقام پر دی جانے لگی، بخاری میں ہے: کان النداء یوم الجمعۃ أولہ إذا جلس علی المنبر علی عہد النبی ﷺ وأبي بکر وعمر فلما کان عثمان وکثر الناس زاد النداء الثالث علی الزوراء۔ (بخاری) اب چوں کہ اذان اول سے اطلاع واخبار عام کا مقصد پورا ہوجاتا ہے اس لیے اذان ثانی کا مقصد حاضرین مسجد کی آگاہی وتنبیہ قرار پایا کہ مسجد میں موجود لوگوں کو خطبہ کے لیے خاموش ومتنبہ کیا جائے حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: لما زید الأذان الأول کان للإعلام والذي بین یدي الخطیب للإنصات۔ (فتح الباری) علامہ ابن المنیر نے فرمایا ہے: حکمتہ إنصات الناس لسماعہا وسکونہم أو إحضار الذہن للذکر ۔ (روح التوشیح) جب اذان ثانی کا مقصد بدل گیا تو یہ اقامت کے مثل ہو گئی جس طرح اقامت اعلام حاضرین کے لیے ہوتی ہے اسی طرح اس کا مقصد بھی اعلام حاضرین اور انصات ناس ہوا۔ اور حاضرین کو خبر کرنے کے لیے اذان کو مسجد کے اندر ہونا چاہیے نہ کہ باہر ۔ اسی وجہ سے فقہا ے احناف سے کسی نے بھی اس اذان کے لیے ’’علی باب المسجد‘‘ یا ’’خارج المسجد‘‘ کے الفاظ استعمال نہیں کیے ہیں سبھی ’’بین یدي المنبر‘‘ لکھتے ہیں۔ ہدایہ میں ہے: إذا صعد الإمام وجلس أذن المؤذن بین یدي المنبر وبذلک جری التوارث ۔ بلکہ بعض کتب فقہ میں تصریح ہے کہ یہ اقامت کے مثل ہے اور اس میں زیادہ رفع صوت بھی نہ ہونا چاہیے۔ مراقی الفلاح میں ہے: والأذان بین یدیہ جری بہ التوارث کالإقامۃ بعد الخطبۃ۔ (مراقی الفلاح) سعایہ شرح وقایہ میں ہے: أي أذان لا یستحب رفع الصوت فیہ بل ہو الأذان الثاني یوم الجمعۃ الذي یکون بین یدي الخطیب؛ لأنہ کالإقامۃ لإعلام الحاضرین۔ صرح بہ جماعۃ من الفقہاء۔ (سعایہ) اتنی تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جمعہ کی اذان ثانی اقامت کے مثل ہے اور اقامت ہی کی طرح اسے بھی مسجد کے اندر منبر کے سامنے ہونا چاہیے اور اسی پر تعامل امت ہے۔ اب سوال کے جواب بالترتیب ملاحظہ فرمائیں: الف: از روے شرع خطبۂ جمعہ کی اذان منبر کے سامنے داخل مسجد ہونی چاہیے۔ ب: اذان نماز کے داخل کی چیز نہیں ہے کہ اس کے غلط جگہ پر ہونے سے نماز فاسد ہو جائے۔ اذان مسجد کے اندر دیں یا مسجد کے باہر نماز تو ہو ہی جائے گی، البتہ جمعہ کی اذان ثانی کا مسجد سے باہر دینا خلاف سنت اور خلاف تعامل ہے اس لیے یہ عمل کراہت سے خالی نہ ہوگا۔ المجیب بدر احمد المجیبی۔ ۱۸؍ محرم ۱۴۰۸ھ الجواب صحیح - ہلال احمد پھلواری الجواب حق وصحیح والدلائل قویۃ أنا متفق في ہذا الجواب محمد احسان الحق، مدرس دار العلوم مجیبیہ پھلواری شریف، پٹنہ حضور نائب مفتی اعظم ہند قبلہ زید کرمکم واحترامکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بحمدہ تعالی بخیریت رہ کر امید کہ مزاج گرامی مع الخیر ہوگا۔ عرض ضرور ی ہے کہ جمعہ کی اذان ثانی سے متعلق مفتیان خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف ، پٹنہ سے استفتا کیا تھا وہاں سے جو جواب آیا ہے وہ معمولات اہل سنت کے برعکس ہے۔ اب حضور سے دست بستہ عرض ہے کہ حضور احادیث کریمہ وفقہ کی روشنی میں ایسا دندان شکن جواب دیں کہ معمولات اہل سنت کے مطابق جمعہ کی اذان ثانی جو خارج مسجد ہوتی ہے حق قرار پائے اور پھلواری علما کا فتوی جو جمعہ کی اذان ثانی کو داخل مسجد ثابت کرتے ہیں باطل قرار پائے۔ احقر کا سوال اور پھلواری علما کے جواب کی فوٹو اسٹیٹ کاپی ارسال خدمت ہے۔ (حضور شارح بخاری کا جواب) بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: دیگر اذانوں کی طرح جمعہ کے خطبے کی اذان بھی مسجد کے اندر خصوصاً منبر کے متصل خطیب کے سر پر دینا خلاف سنت اور بدعت ومکروہ ہے۔ فقہاے کرام نے مطلقاً ہر اذان کے بارے میں فرمایا کہ مسجد میں نہ دی جائے مسجد کے باہر دی جائے ، مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے۔ خانیہ، خلاصہ قلمی، خزانۃ المفتیین قلمی، عالمگیری، البحر الرائق، شرح نقایہ برجندی ، فتح القدیر میں ہے: لا یؤذن في المسجد۔ مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ غنیہ شرح منیہ میں ہے: الأذان إنما یکون في المئذنۃ أو خارج المسجد والإقامۃ في داخلہ۔ اذان نہ دی جائے مگر مینارے پر یا مسجد سے باہر اور اقامت مسجد کے اندر۔ فتح القدیر خاص باب الجمعہ میں ہے: لکراہۃ الأذان في داخلہ۔ مسجد میں اذان مکروہ ہے ۔ نظم امام زندویستی پھر قہستانی پھر طحطاوی علی المراقی میں ہے: یکرہ أن یؤذن في المسجد۔ مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے۔ ان ارشادات میں نہ اذان پنج گانہ کی تخصیص ہے نہ اذان خطبہ کا استثنا اس لیے وہ بھی اس حکم میں داخل اور دوسری اذانوں کی طرح اسے بھی مسجد کے اندر دینا ممنوع ومکروہ۔ حضور اقدس ﷺ اور خلفاے راشدین کے زمانے میں یہ اذان مسجد کے باہر دروازہ مسجد پر ہوتی تھی حتی کہ جب حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلی اذان کا اضافہ فرمایا تو بھی یہ اذان وہیں ہوتی رہی جہاں حضور اقدس ﷺ کے زمانے سے ہو رہی تھی۔ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ اسے گھسیٹ کر منبر کے سامنے نہیں لائے وہیں رہنے دی، ابو داؤد شریف میں ہے : كَانَ يُؤَذَّنُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- إِذَا جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ. رواہ أبو داؤد عن السائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ۔ جمعہ کے دن حضور ﷺ منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان ہوتی تھی ایسا ہی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانے میں بھی ہوتا تھا۔ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں لوگوں کی کثرت ہوئی تو انھوں نے مقام زوراء پر ایک اذان کا اضافہ فرمایا جیسا کہ مجیبی مجیب صاحب نے خود نقل کیا ہے مگر یہ چھوڑ دیا کہ اذان خطبہ کہاں رہی اس لیے کہ یہ ان کے مقصد کے خلاف تھا۔ ہم سے سنیئے اذان خطبہ وہیں ہوتی رہی جہاں حضور ﷺ کے عہد مبارک میں ہوتی آئی تھی۔ زرقانی علی المواہب میں ہے: ’’لما کان عثمان وکثروا أمر بالأذان قبلہ علی الزوراء ثم نقلہ ہشام إلی المسجد‘‘ أي أمر بفعلہ فیہ ’’وجعل الاٰخر‘‘ الذي يفعل بعد جلوس الخطیب علی المنبر ’’بین یدیہ‘‘ مرۃ واحدۃ بمعنی أنہ أبقاہ بالمکان الذي یفعل فیہ فلم یغیرہ بخلاف ما کان یفعل بالزوراء فحولہ إلی المسجد علی المنار۔ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے اذان خطبہ سے پہلے ایک اذان بازار میں زوراء کی چھت پر دلوائی پھر اس پہلی اذان کو ہشام نے مسجد کی طرف منتقل کر لیا یعنی اس کے مسجد میں ہونے کا حکم دیا اور دوسری جو خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے وقت ہوتی ہے وہ خطیب کے مواجہہ میں رکھی یعنی جہاں ہوا کرتی تھی وہیں باقی رکھی۔ اس اذان ثانی میں ہشام نے کوئی تبدیلی نہ کی بخلاف بازار والی اذان اول کے کہ اسے مسجد کی طرف منارے پر لے آیا۔ اسی سے ان مجیب صاحب کی یہ نکتہ آفرینی باطل ہو گئی کہ اذان اعلام غائبین کے لیے ہے جو پہلی اذان سے حاصل ہو چکا دوسری حاضرین کے چپ کرنے کے لیے ہے انھیں یہ بھی خیال نہ آیا کہ حضور اقدس ﷺ کے عمل اور خلفاے راشدین اور صحابۂ کرام کے اجتماعی عمل کے مقابلہ میں نکتہ آفرینی کر کے حضور اقدس ﷺ کے عمل اور فقہا کے ارشاد کو رد کر رہے ہیں۔ یہ بھی خیال نہ رہا کہ یہ اذان ہے اور ہر اذان غائبین کے اعلام کے لیے ہے ۔آج تک کسی فقیہ نے یہ نہ لکھا کہ یہ حاضرین کے انصات کے لیے ہے اس لیے کہ پھر یہ اذان نہ رہتی جب اذان کو اعلام غائبین کے لیے مانا تو یاتو یہ کہیں کہ یہ اذان ہی نہیں اور جب یہ اذان ہے تو اعلام غائبین ہی کے لیے ہوگی یہ اسی وقت ہوگا جب مسجد کے باہر دی جائے مفتی صاحب یہ بتائیں کہ نص صریح کو قیاس سے رد کرنا دین داری ہے ؟ حضور ﷺ تو یہ ارشاد فرمائیں: ’’علیکم بسنتي وسنۃ الخلفاءالراشدین‘‘ میری اور خلفاے راشدین کی اتباع تم پر لازم ہے۔ اور مفتی صاحب سنت کے خلاف اپنے قیاس تکّے کے مطابق عوام کالانعام کو فتوی دیں۔ مولانا عبد الحی صاحب لکھنوی بھی ان کے نزدیک بہت بڑے معتمد عالم ہیں انھیں کی مان لیں۔ عمدۃ الرعایہ حاشیہ شرح وقایہ میں لکھتے ہیں: قولہ: ’’بین یدیہ‘‘ أي مستقبل الإمام داخل المسجد کان أو خارجہ والمسنون ہو الثاني۔ یعنی ’’بین یدیہ‘‘ کے معنی صرف اس قدر ہے کہ امام کے رو برو، اور یہ رو برو مسجد کے اندر پر بھی صادق اور باہر پر بھی ۔ اور مسنون دوسرا طریقہ ہے ۔ یعنی سنت یہی ہے کہ مسجد کے باہر ہو جب یہ تصریح کر چکے تو اسی سے ثابت کہ مسجد کے اندر اس اذان کا ہونا خلاف سنت اور بدعت ہے۔ رہ گیا سوال تعامل کا تو جب احادیث صحیحہ سے یہ ثابت کہ حضور اقدس ﷺ اور صحابۂ کرام کا تعامل یہی ہے کہ مسجد کے باہر ہو تو اس کے خلاف آج کے تعامل کا کیا اعتبار۔ اگر آج کے تعامل کا اعتبار کر لیا جائے تو دین کا خدا حافظ۔ وہ دن دور نہیں کہ مفتی صاحب داڑھی منڈا نے کو بھی جائز کہہ دیں، نیز تعامل کا دعوی غلط ۔ حرمین طیبین میں کہیں بھی یہ اذان منبر کے متصل خطیب کے سر پر نہیں ہوتی۔ مسجد حرام میں کنارے مطاف پر ہوتی ہے اور عہد نبوی میں مسجد حرام مطاف ہی تک تھی مسلک متقسط میں ہے: المطاف ہو ما کان في زمنہ ﷺ مسجدا ۔ اور حاشیۂ مطاف خارج مسجد تھا اور یہ اپنی جگہ پر طے کہ قبل تمام مسجدیت اذان کے لیے جو جگہ مقرر کر لی جائے وہ خارج مسجد کے حکم میں ہے، اور مسجد نبوی میں مئذنہ پر ہوتی ہے جو منبر سے بہت دور ہے۔ مفتی صاحب نے سوچا ہوگا عوام میں حاجی کتنے ہوتے ہیں اور جو حج کے لیے جاتے ہیں ان میں سب کو اس سے کیا غرض کہ خطبے کی اذان کہاں ہوئی، اس لیے تعامل کا بھانڈا نہ پھوٹے گا دور کیوں جائیے جامع مسجد دہلی اور آگرہ میں یہ اذان منبر کے متصل خطیب کے سر پر نہیں ہوتی مئذنہ پر ہوتی ہے اب کوئی مفتی صاحب سے پوچھے تعامل کہاں رہا۔ واللہ تعالی اعلم اور صاحب ہدایہ کے اس ارشاد: أذن المؤذنون بین یدي المنبر بذلک جری التوارث‘‘۔ سے یہ سمجھنا کہ یہ اذان مسجد کے اندر ہونا چاہیے نری جہالت ہے اس لیے کہ ’’بین یدي‘‘ کے معنی کسی لغت میں اندر کے نہیں بلکہ سامنے کے ہیں جیسا کہ خود مجیبی صاحب کے معتمد ومستند مولانا عبد الحی صاحب کا ارشاد گزرا ۔ نیز ابو داؤد شریف کی حدیث میں ’’بین یدي‘‘ کے ساتھ ’’علی باب المسجد‘‘ بھی ہے اور مسجد اقدس عہد رسالت میں سو ہاتھ لمبی اور سو ہاتھ چوڑی تھی تو جب ’’بین یدي‘‘ قریب قریب سو ہاتھ کی دوری پر بھی صادق اس کے باوجود کہ باب مسجد خارج مسجد تھا تو ’’بین یدی‘‘ سے اندرون مسجد پر استدلال فریب نہیں تو اور کیا ہے؟ اور ’’بذلک‘‘ سے اشارہ ’’بین یدي‘‘ کی جانب ہے اس لیے کہ یہی مذکور ہے داخل مسجد پر نہیں کہ نہ یہ مذکور ہے اور نہ مطلوب ۔رہ گیا مولانا عبد الحی کے اس کہنے سے ’’یہ اعلان حاضرین کے لیے ہے‘‘ یہ استدلال کہ مسجد کے اندر ہونی چاہیے سو ے فہمی ہے۔ اس لیے کہ پھر مولانا ہی کے کلام میں تعارض لازم آئے گا کہ اس کے اختصار عمدۃ الرعایہ میں وہ لکھ چکے ہیں کہ مسنون یہ ہے کہ اذان مسجد کے باہر ہونی چا ہیے اور تعارض کے وقت منطوق مستفاد پر راجح۔ اس لیے کہ خود مولانا لکھنوی کے کلام سے مسجد کے باہر اس اذان کا راجح ہونا ثابت۔ مفتی صاحب کو یہ بھی خبر نہیں کہ تشبیہ کے لیے مشبہ بہ کے تمام اوصاف کا مشبہ میں پایا جانا لازم نہیں ورنہ لازم کہ اگر مفتی صاحب کو کسی نے شیر کہہ دیا تو اس سے ثابت ہو جائے گا کہ مفتی صاحب کے دُم بھی ہے اور وہ چار پیر پر چلتے بھی ہیں، جنگل میں رہتے ہیں ، مردار کھاتے ہیں پھر یہاں یہ لازم آئے گا کہ اس اذان میں ’’قد قامت الصلاۃ ،قد قامت الصلاۃ‘‘ بھی کہیں اور کانو ں میں انگلیاں دینا مسنون نہ ہو ورنہ بات صاف ہے کہ خود مولانا نے وجہ شبہ کی تصریح کر دی ہے اور وہ رفع صوت کا مستحب نہ ہونا اور بس۔ مفتی صاحب نے بہت زور باندھا ہے کہ فقہا نے کہیں ’’علی باب المسجد‘‘ یا ’’خارج المسجد‘‘ کے الفاظ استعمال نہیں کیے ہیں۔ اس پر عرض ہے : اولاً: حدیث میں ’’علی باب المسجد‘‘ ہے آپ کو وہ نظر نہیں آیا۔ ثانیاً : جب فقہا نے تصریح کر دی کہ اذان مسجد کے اندر دینی ممنوع ہے اور اذان خطبہ کا استثنا نہیں فرمایا تو ثابت ہو گیا کہ یہ بھی مسجد کے اندر دینا ممنوع ہے ، اب الگ سے خارج مسجد ذکر کر نے کی ضرورت نہیں جیسے نماز کی صفت میں بیان کر دیا جاتا ہے کہ نماز کے یہ فرائض، یہ واجبات، یہ سنن، یہ مستحبات ہیں اسی سے ثابت ہوجاتا ہے کہ نماز خواہ فرض ہو یا واجب یا سنت یا نفل سب کے لیے یہی تفصیل ہے، اب اگر کوئی یہ کہے کہ وتر کے لیے کہیں نہیں کہ اس میں تکبیر تحریمہ یا قراءت یا رکوع سجدہ فرض ہے، فقہا نے کہیں نہیں لکھا ہے تو اس کا کیا علاج ۔ ثالثاً : آپ ہم سے خارج مسجد کا مطالبہ کر رہے ہیں آپ دکھائیے کہ کہیں کسی فقیہ نے اس اذان کے لیے داخل مسجد کا لفظ استعمال کیا ہے جب کہ آپ لوگوں کے مذہب کے مطابق یہ ضروری تھا ، اس لیے کہ جب مطلق اذان کے احکام کے بیان میں یہ فرما دیا کہ ’’اذان مسجد میں دینا ممنوع ہے‘‘ تو فقہا پر لازم تھا کہ اذان خطبہ کے لیے تصریح فرماتے کہ یہ اس سے مستثنیٰ ہے اسے اندر ہونا چاہیے۔ رابعاً : ہم نے تو فقہا کا قاعدۂ کلیہ بیان کر دیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ ’’مسجد میں اذان دینا ممنوع ہے‘‘۔ آپ ایسا کوئی قاعدہ بیان کر دیجیے جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ اذان مسجد میں دینی چاہیے ہم کہے دیتے ہیں کہ کوئی شخص ایک ایسا لفظ کسی فقیہ کا نہیں دکھا سکتا جس سے اشارۃً بھی یہ ثابت ہوتا ہو کہ یہ اذان مسجد میں ہونی چاہیے۔ عوام پر لازم ہے کہ وہ اس پر عمل کریں جو حدیث صحیح اور فقہا کے ارشادات سے ثابت ہے اور ادھر ادھر کی باتوں پر کان نہ دھریں۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved