بسم اللہ الرحمٰن الرحیم – الجواب ــــــــــــــــــــ: (۱-۲) خطبے کی اذان حضور اقدس ﷺ کے زمانے سے ہوتی آرہی ہے اور یہ اذان اسی زمانے سے مسجد کے باہر مسجد کے دروازے پر ہوتی تھی۔ ابو داؤد میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے : کان یؤذن بین یدي رسول اللہ -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- إذا جلس علی المنبر یوم الجمعۃ علی باب المسجد وأبي بکر وعمر۔ وفی روایۃ وعلي بالکوفۃ۔ رسول اللہ ﷺ جب جمعہ کے دن منبر پر بیٹھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان ہوتی تھی، اور ایسا ہی حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانے میں ہوتا تھا، اور ایسا ہی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کوفہ میں کیا۔ جب حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد مبارک میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی انھوں نے خطبے کی اذان سے پہلے ایک اذان بازار کے مقام ’’زوراء‘‘ پر دلوانی شروع کی، جب مسجد نبوی میں مینارے بن گئے تو ہشام بن عبد الملک مروانی بادشاہ نے وہاں سے منتقل کرکے مینارے پر دلوانی شروع کی۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے خطبے سے پہلے مقام ’’زوراء‘‘ پر پہلی اذان کا اضافہ کیا۔ مگر خطبے کی اذان وہیں رہنے دی، جہاں حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے عہد مبارک سے ہوتی آئی تھی۔ اس لیے اذان خطبہ میں سنت یہی ہے کہ مسجد کے باہر خطیب کے سامنے ہو۔ رہ گیا اذان کہہ کر مؤذن اقامت کہنے کے لیے پہلی صف میں جائے گا تو گردنیں پھلانگنا پڑے گی۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ گردن پھلانگنا بلا ضرورت منع ہے اور بضرورت اس کی اجازت ہے۔ مثلا ایک شخص صف اول میں بیٹھا ہے اس کا وضو ٹوٹ گیا تو گردنیں پھلانگ کر مسجد کے باہر جائے گا پھر وضو کر کے اپنی جگہ پر جائے تو کوئی حرج نہیں، یا فرض کیجیے کہ امام دیر میں آیا ، مسجد بھر چکی ہے تو امام لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر محراب میں جائے گا تو (امام کا)یہ جانا بضرورت ہے اس لیے گردن پھلانگ کر جانے میں کوئی حرج نہیں ۔ اسی طرح مؤذن کا اقامت کہنے کے لیے جانا بضرورت ہے ، اس لیے جائز ہے۔ اسی طرح بنایہ کی عبارت ’’عند المنبر‘‘ کا مطلب یہ لینا کہ یہ اذان منبر کے متصل خطیب کے سر پر ہو جہالت ہے ورنہ لازم آئے گا کہ حنفی مذہب حدیث کے خلاف ہے۔ نیز حضرت امام اعظم نے فرما یا : إذا صح الحدیث فہو مذہبي۔ اور جب حدیث سے ثابت کہ اذان مسجد کے باہر ہونی چاہیے تو بنایہ کا قول ساقط۔ جب دیوبندی لغت میں ’’عند‘‘ کے معنی یہ ہے کہ متصل ہو تو بخاری کی اس عبارت کا کیا مطلب ہوگا؟ حتی وضعہما عند البیت عند دوحۃ، فوق زمزم۔ کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو بیت اللہ کے پاس زم زم کے اوپر ایک بڑے لنڈ منڈ درخت کے پاس رکھا۔ بولیے اگر آپ کو حج کی توفیق نہیں ہوئی ہے تو حاجیوں سے پوچھ لیجیے کہ زم زم شریف بیت اللہ شریف کے کتنے فاصلے پر ہے پھر بھی اس کو ’’عند البیت‘‘ کہا، اور اگر ان ابحاث کی سیر کرنا چاہتے ہیں اور دیوبندیوں کی جہالت کے نمونے دیکھنا چاہتے ہیں تو جناب مولانا عبد الحق صاحب کی دو کتابیں مطالعہ کرلیجیے۔ ’’اذان خطبہ کہاں ہو ؟‘‘ اور ’’تنقید برمحل‘‘ طبیعت ہری بھری ہو جائے گی۔ آپ دیوبندی ہیں دیوبندی مذہب پر عمل کریں۔ ہمیں چھیڑیں نہیں ہم آپ کے گھر جا کر دیوبندی مذہب چھوڑنے پر مجبور نہیں کرتے اور نہ آپ کے گھر جا کر یا خط بھیج کر دیو بندی مذہب پر اعتراض کرتے ہیں۔ پھر آپ کیوں بلا وجہ ہمیں چھیڑتے ہیں آپ کو آپ کا مذہب مبارک ہو ہم کو ہمارا مذہب مبارک ۔ آپ اپنے مذہب پر رہیں ہم اپنے مذہب پر رہیں۔ ’’لکم دینکم ولي دین‘‘۔ آپ کو توفیق ہو تو حرمین طیبین جا کر دیکھ لیں وہ خطبے کی اذان منبر کے متصل خطیب کے سر پر نہیں ہوتی مسجد حرام میں کنارہ مطاف پر ہوتی ہے اور عہد نبوی میں مطاف ہی تک مسجد حرام تھی اور مسجد نبوی شریف میں مکبرہ پر ہوتی ہے جو منبر سے کافی فاصلہ پر ہے۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵( فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org