22 December, 2024


دارالاِفتاء


زید ہمارے یہاں مسجد میں کافی عرصہ سے مؤذن ہے لیکن اذان کے الفاظ صحیح ادا نہیں کرپاتا ہے ۔ أشہد أن لا إلہ کو أشہد أن لا إلح‘‘ بڑی حا سے پڑھتا ہے۔ علاوہ ازیں غین وغیرہ بھی ادا نہیں ہوتی ہے اور اس کا متعدد بار جھوٹ بولنا بھی ثابت ہو چکا ہے، امام مسجد کا کھانا محلہ سے آتا ہے، زید ایک وقت میں کئی جگہ امام کی دعوت لوگوں کے گھر جا کر کہہ دیتا ہے اور ایک جگہ کا کھانا امام کو لاکر دیتا ہے بقیہ جگہوں سے خفیہ طور پر اپنے گھر پہنچاتا ہے ، یہ باتیں شرعی طور پر ثابت ہیں۔ لہذا دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید کو منصب مؤذن سبھالنے دیا جائے یا معزول کر دیا جائے؟ اور اگر یہ خرابیاں زید دور نہ کرے اور کچھ لوگوں کو اپنا حمایتی سفارشی بنالے تو اراکین اس سلسلے میں کیا کریں؟ اور اگر اراکین مسجد زید ہی سے اذان دلوائیں تو نماز میں کیا خرابی آئے گی؟ جو خدا اور رسول کا فرمان ہو آگاہ فرما کر مشکور فرمائیں۔ بینوا توجروا۔

فتاویٰ #1433

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: اس مؤذن کو علاحدہ کر دینا واجب ہے اور اس کو مؤذن کے عہدے پر باقی رکھنا گناہ وناجائز ہے اور یہ گناہ منتظمین کے سر بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے سر بھی۔ سوال میں جس طرح اس کی اذان کو لکھا گیا اور اس کے تلفظ کی جو غلطیاں تحریر ہیں اگر وہ صحیح ہیں تو اس کی اذان اذان ہی نہیں، اور اس کی اذان پر اکتفا کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ بغیر اذان کے نماز پڑھی گئی علاوہ ازیں جب وہ جھوٹ بولتا ہے اور فریب دے کر کھانا وصول کرتا ہے تو کئی طرح سے فاسق بھی ہوا ۔ جھوٹ بولنے کی وجہ سے اور فریب دینے کی وجہ سے، اور فریب سے لیا ہوا کھانا اس کے لیے (مال)حرام ہے اسے کھانے کی وجہ سے۔ اور فاسق کو مؤذن بنانا ناجائز وگناہ، اس کی اذان کے اعادہ کا حکم ہے ۔ اگر زید جھوٹ بولنے، فریب دینے، مال حرام کھانے سےتوبہ صحیح کرے تو بھی اسے مؤذن رکھنا جائز نہ ہوگا کہ وہ اذان صحیح طریقہ سے نہیں دیتا، جب تک کہ وہ اذان کے کلمات کا تلفظ صحیح نہ کر لے اس کی اذان درست ہی نہ ہوگی؛ اس لیے فی الحال ضروری ہے کہ اسے علاحدہ کیا جائے جب وہ جھوٹ بولنے، فریب دینے، مال حرام کھانے سے توبہ کرے اور توبہ کے آثار ظاہر ہو جائیں نیز اذان کے کلمات کا تلفظ درست کر لے تب یہ جائز ہوگا کہ اسے مؤذن رکھا جائے ۔ جو لوگ اس کی سفارش کریں انھیں سمجھا دیا جائے کہ جب اس کی اذان ہی صحیح نہیں تو اس کو مؤذن رکھنا کیسے صحیح ہوگا۔ اس کی اذان صحیح نہیں۔ مگر اس کے باوجود نماز بلا کراہت درست۔ جیسے اگر بالفرض بغیر اذان نماز پڑھی گئی تو بھی نماز صحیح ہے۔ البتہ اذان چھوڑنے کا وبال ہوگا۔ اسی طرح یہاں بھی نماز صحیح ہے البتہ تمام لوگوں پر اس کا وبال ہوگا کہ صحیح اذان کے بغیر نماز پڑھی۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved