8 September, 2024


دارالاِفتاء


ہمارے یہاں نماز جمعہ کے لیے اذان اول ۱؍ بجے اور اذان ثانی ۱؍ بج کر ۴۰؍ منٹ پر ہونے کا ہمیشہ سے وقت مقرر ہے، نمازی حضرات جن میں اکثر ملازم وغیرہ ہوتے ہیں اسی مقررہ وقت کے حساب سے شریک نماز جمعہ ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک سنی واعظ تشریف لائے جو دو بجے تک تقریر فرماتے رہے۔دو بجے امام مسجد نے مزید تقریر شروع کر دی۔ تمام مقتدی پریشان تھے کہ یہ تقریر جانے کب ختم ہوگی۔ بالآخر ۲؍ بج کر ۲۰؍ منٹ پر ایک مقتدی نے کہا کہ امام صاحب گھڑی دیکھیے اب تقریر کا ٹائم ہے کیا؟ ۲؍ بج کر ۴۰؍ منٹ پر تقریر ختم ہوئی۔ بعد جمعہ امام صاحب نے مقتدی مذکور کو ڈانتے ہوئے کہا کہ تو منافق ہے تو کافر ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ (۱) بلا ضرورت تقریر لمبی کرنا اور وقت مقررہ سے ۴۵؍ منٹ تاخیر کر کے اذان ثانی دلوا کر مقتدیوں کو پریشان کرنا کیسا ہے؟ (۲) حدیث پاک کے مطابق کسی مسلمان کو کافر ومنافق کہنے والا خود کیا ہے؟ (۳) کسی مسلمان کو مجمع عام میں منافق وکافر کہنے والے کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں؟ (۴)یہ کہنا کیسا ہے کہ کسی کی پیشانی پر تو مومن یا منافق لکھا ہوا ہے نہیں، جو بار بار گھوپا گھاپی کرے وہ منافق ہی ہے۔ یہاں لوگ بڑی تشویش میں مبتلا ہیں ، اس لیے حکم شریعت جاری فرما کر جواب سے جلد نوازیں۔

فتاویٰ #1412

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: (۱-۴) نماز اور اذان کے اوقات جو مقرر کر دیے جاتے ہیں وہ لوگوں کی آسانی کے لیے ہے ، اگر سارے نمازی جو اس مسجد میں نماز پڑھنے کے عادی ہیں جمع ہو جائیں تو امام کو خطبہ اور نماز شروع کر دینی چاہیے یہی بہتر ہے ،خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ نمازیوں میں ملازم بھی ہوں جنھیں محدود وقت کے لیے نماز پڑھنے کی اجازت ملتی ہے لیکن اگر کسی اہم ضرورت کی بنا پر تاخیر ہو جائے تو گناہ بھی نہیں ۔ واعظ اور امام کو لازم ہے کہ وہ حاضرین کی ضرورتوں اور ان کے احوال کا خیال کریں، نماز میں قدر مسنون سے زائد قراءت کرنے پر حضور ﷺ نے صحابۂ کرام پر عتاب فرمایا اور ارشاد فرمایا ہے: إذا صلی أحدکم للناس فلیخفف فإن منہم الضعیف والسقیم وإذا صلی أحدکم لنفسہ فلیطول ما شاء‘‘۔ امام نے ایک مسلمان کو منافق کہا ، امام پر فرض ہے کہ اس مسلمان سے معافی مانگے اور توبہ کرے، اگر امام اس مسلمان سے معافی نہ مانگے تو بہ نہ کرے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنی جائز نہیں۔ اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے، اسے امامت سے معزول کرنا واجب ہے۔ حدیث میں ہے: ’’سباب المسلم فسوق‘‘۔ غنیہ میں ہے: ’’لو قدموا فاسقا یاثمون بناءً علی أن کراہۃ تقدیمہ کراھۃ تحریم‘‘۔ در مختار میں ہے: ’’کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved