22 December, 2024


دارالاِفتاء


(۱) پورب کے بعض ملکوں میں ایام سرما کی مخصوص تاریخوں کے اندر نماز عصر کا وقت داخل ہی نہیں ہوتا ۔نہ سیدنا امام اعظم کے نزدیک، نہ صاحبین وائمہ ثلاثہ کے نزدیک (رحمہم اللہ تعالی) یعنی کسی چیز کا سایہ، سایہ اصلی کے علاوہ ایک مثل نہیں ہوپاتا ہے کہ سورج غروب ہو جاتا ہے، دریں صورت غروب آفتاب کے بعد نماز عصر پڑھی جائے گی یا نہیں؟ اور اس کی ادایگی بہ نیت قضا ہوگی یا ادا؟ يا پھر وہ نماز فرض ہی نہیں ہوئی، یا ہوئی؟ اگر اس میں ائمہ اسلام کا اختلاف ہو تو اس کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ (۲) ہر سال یہاں کم وبیش پینسٹھ راتیں ایسی آتی ہیں کہ سیدنا امام اعظم کے مسلک میں نماز عشا کا وقت ہی داخل نہیں ہوتا ہے کیوں کہ افق غربی سے شفق ابیض زائل ہوتا ہے، نہ سورج ساری رات اٹھارہ درجے سے نیچے جاتا ہے (بارہ اور اٹھارہ کے درمیان گردش کرتا ہے) ایسی صورت میں احناف کے لیے نماز عشا کی ادایگی کی کیا صورت ہوگی؟ کیا اس خاص مسئلہ میں قول صاحبین کی طرف امام اعظم علیہ الرحمہ کا رجوع صحیح ہے جیسا کہ فتح القدیر اور رد المحتار وغیرہما میں ہے؟ اگر صحیح ہے تو مذکورہ راتوں کے علاوہ بھی ضرورت صحیح (جوبہت کم پائی جاتی ہے ) ومصلحت شرعیہ (ارتفاع نزاع بین المسلمین الحنیفین) وغیرہا کے پیش نظر قول صاحبین پر حنفیوں کو عمل جائز ہے؟ (۳) مذکورہ راتوں میں جب ساری رات سورج اٹھارہ درجہ سے نیچے نہیں ہوتا (صبح کاذب ہوتی ہی نہیں) تو امساک عن الاکل والشرب للصوم کا کیا ہوگا؟ کھا پی سکتے ہیں یا نہیں؟ (۴) یورپ کے اندر بیش تر ممالک میں جہاں کبھی اسلامی حکومت ہوئی ہی نہیں وہاں جمعہ واعیاد نیز سکونت مسلمین کا شرعی حکم کیا ہے؟ (۵) ہالینڈ کی ’’مجلس علما‘‘ نے مقامی موسمی تبدیلیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ستمبر کے آخر ہفتہ سے مارچ کے آخر ہفتہ تک شفق ابیض کے غائب ہونے پر بالاتفاق ابتداے عشا کا وقت تسلیم کیا ہے، اور ابتداے اپریل سے ستمبر کے تیسرے ہفتہ تک شفق احمر کے غائب ہونے کے بعد وقت عشا کی ابتدا تسلیم کیا ہے ۔ ایسا نہ کرنے پر نزاع شدیدو حرج مزید ہے۔ کیا مجلس علما کا یہ فیصلہ قابل عمل ہے ؟ بینوا توجروا۔

فتاویٰ #1402

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: (۱)حامدا ومصلیا۔ یہ میری سمجھ سے باہر ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں مثل اول ہونے سے پہلے سورج ڈوب جائے، میں توقیت وحساب کا ماہر نہیں ورنہ قواعد سے ثابت کر دیتا۔ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ سورج جانب مغرب جتنا جھکتا جائے گا ہر چیز کا سایہ بڑھتا جائے گا یہاں تک کہ غروب آفتاب کے وقت اس کا سایہ افق شرعی تک ممتد (دراز) ہوگا، اگر آپ علم توقیت وعلم المرایا والمناظر کے ماہرین سے تحقیق کریں گے تو میری بات کی تصدیق کریں گے جب سورج کنارۂ افق پر پہنچے گا تو ہر چیز کا سایہ اتنا ہی لمبا ہوگا جتنی دوری سورج اور اس چیز میں ہے (اس لیے یہ کہنا ہی غلط ہے کہ کہیں مثل اول کے اندر ہی اندر سورج ڈوب جاتا ہے) اگر دنیا کے کسی بھی حصہ میں ایسا ہوتا تو ہمارے علما عشا کی طرح عصر کے بارے میں بھی یہ ضرور ذکر کرتے مگر ہمارے علما تو ہمارے علما کسی بھی مذہب کے کسی عالم نے عصر کے بارے میں یہ ذکر نہیں فرمایا ۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ یہ وقت بہت ہی قلیل ہو اس لیے عصر کے بارے میں جس نے بھی یہ سوال اٹھایا ہے اس نے غلط اٹھایا ہے واللہ تعالی اعلم (۲) اس خصوص میں اس خادم نے متعدد بار دلائل قاہرہ کے ساتھ یہ فتوی دیا ہے کہ اگر چہ راجح ومختار حضرت امام اعظم کا قول ہے کہ مغرب کا وقت شفق ابیض تک ہے مگر ان بلاد میں بوجہ ضرورت شرعیہ صاحبین کے مذہب پر عمل جائز ہے اور یہ مذہب بھی کمزور نہیں ۔ خود ہمارے ائمہ احناف میں سے اجلہ فقہا نے اسے اختیار فرمایا۔ اس کی تائید کی، اسی پر عمل بتایا ۔ علامہ شامی نے حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے قول کی تائید وتقویت وتصحیح کے بعد ارشاد فرمایا : لکن تعامل الناس الیوم في عامۃ البلاد علی قولہما وقد أیدہ في النہر تبعا للنقایۃ والوقایۃ والدرر والإصلاح ودرر البحار والإمداد والمواہب وشرحہ البرہان وغیرہم مصرحین بأن علیہ الفتوی وفي السراج: قولہم أوسع وقولہ أحوط۔ جب صاحبین کا قول بھی ہمارے بہت سے علماے احناف نے اختیار فرمایا حتی کہ سب سے زیادہ قوی لفظ ترجیح ’’علیہ الفتوی‘‘ تک فرمایا اور صورت مذکورہ بالا میں ضرورت بھی ہے تو اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ دفع فتنہ کے لیے اس پر عمل ضروری ہے۔ یہ کہنا کہ حضرت امام اعظم نے صاحبین کے قول کی طرف رجوع کرلیا صحیح نہیں۔ آپ نے اس کی نسبت امام ابن ہمام کی طرف کی ہے یہ بھی صحیح نہیں ۔ امام ابن ہمام نے فتح القدیر میں فرمایا ہے : ولا تساعده رواية ولا دراية ، أما الأول فلأنه خلاف الرواية الظاهرة عنه ، وأما الثاني فلما قدمنا في حديث ابن فضيل وأن آخر وقتها حين يغيب الأفق ، وغيبوبته بسقوط البياض الذي يعقب الحمرة وإلا كان باديا ، ويجيء ما تقدم : أعني إذا تعارضت الأخبار لم ينقض الوقت بالشك۔ (ورجحه أيضا تلميذه قاسم في تصحيح القدوري، وقال في آخره: فثبت أن قول الإمام هو الأصح.) پھر یہ کہنا کیسے درست ہوگا کہ امام ابن ہمام نے فرمایا کہ حضرت امام اعظم نے صاحبین کے قول کی طرف رجوع فرمالیا ۔ ہاں صاحب در مختار نے شرح مجمع وغیرہ کی تبعیت میں یہ ضرور لکھا ہے مگر علامہ شامی نے اس کے تحت تحریر فرمایا : وقال تلمیذہ العلامۃ قاسم في تصحیح القدوري: إن رجوعہ لم یثبت لما نقلہ الکافۃ من لدن الائمۃ الثلاثۃ إلی الیوم من حکایۃ القولین۔ آپ نے رد المحتار کی طرف امام کے رجوع کے قول کو منسوب کردیا یہ بھی غلط ہے، رد المحتار میں رجوع کا رد فرمایا ہے جیسا کہ ابھی عبارت گزری شاید آپ کو رد المحتار اور در مختار میں دھوکا لگا رد المحتار در مختار کا حاشیہ ہے جو علامہ شامی کی تصنیف ہے، رد المحتار کو شامی بھی کہتے ہیں۔ واللہ تعالی اعلم (۳) صبح کاذب کے ساتھ کوئی حکم شرعی (روزے کا) متعلق نہیں ، صبح صادق کے ساتھ متعلق ہے ۔ ان راتوں میں ان بلاد میں بھی حکم روزے کے لیے وہی ہوگا کہ صبح صادق کے طلوع سے لے کر غروب آفتاب تک امساک عن الاکل والشرب فرض ہوگا، اس میں روزہ داروں پر تھوڑی سی مشقت ضرور ہے لیکن روزے کی مشروعیت ہی مشقت کے لیے ہے، کیا ایسا نہیں ہوتا کہ لوگ اپنے نجی کاموں میں مصروفیت کی وجہ سے چوبیس چوبیس گھنٹے کچھ نہیں کھاتے پیتے پھر کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالی کی رضا اور آخرت کے ثواب کے لیے تھوڑی سی مشقت نہ اٹھائیں۔ واللہ تعالی اعلم (۴) یہ سارے بلاد دار الحرب ہیں اور دار الحرب میں جمعہ صحیح نہیں کسی ملک کے دار الاسلام ہونے کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ اس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو جائے اگر کوئی ملک ایسا ہے جس پر کبھی بھی مسلمانوں کا قبضہ نہیں ہوا تو وہ دار الحرب ہی رہے گا اگر چہ مسلمان وہاں بودو باش اختیار کریں، انھیں اجازت ہو کہ وہ اپنے مذہبی معمولات جیسے چاہیں ادا کریں ۔ اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ فتاوی رضویہ جلد سوم میں فرماتے ہیں: ’’جہاں سلطنت اسلامی کبھی نہ تھی نہ اب ہے وہ اسلامی شہر نہیں ہو سکتے، نہ وہاں جمعہ وعیدین جائز ہوں اگر چہ وہاں کے کافر سلاطین شعائر اسلامیہ کو نہ روکتے ہوں، اگر چہ وہاں مساجد بکثرت ہوں اذان واقامت جماعت علی الاعلان ہوتی ہو، اگر چہ عوام اپنے جہل کے باعث جمعہ وعیدین بلا مزاحمت ادا کرتے ہوں جیسے کہ روس، جرمن، فرانس، پرتگال وغیرہا اکثر بلکہ شاید کل سلطنت ہاے یورپ کا یہی حال ہے۔ اسی میں ہے: شرح نقایہ میں کافی سے ہے:’’دارالإسلام ما یجري فیہ حکم إمام المسلمین‘‘ اس سے ظاہر ہو گیا ہے کہ ہالینڈ وغیرہ میں جمعہ وعیدین صحیح نہیں اس لیے کہ وہ دار الحرب ہیں۔ لیکن جہاں جہاں جمعہ ہوتا ہو وہاں عوام کو منع نہ کیا جائے جیسا کہ دیہات میں جمعہ کے بارے میں اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا قدس سرہ نے فرمایا ہے۔ رہ گیا بود وباش کا معاملہ اگر حکومت مسلمانوں کو ان کے مذہب کے خلاف کسی کام کے کرنے پر مجبور نہیں کرتی، وہاں مسلمانوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے تو وہاں مسلمانوں کے رہنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ حبشہ میں صحابۂ کرام نیز لنکا اور مالا بار میں تابعین نے آکر سکونت اختیار کی اور چین میں چھٹی صدی سے مسلمان رہ رہے ہیں۔ واللہ تعالی اعلم(مجلس شرعی کے فیصلے میں ہے: یورپ اور امریکہ وغیرہ کے بلاد میں جہاں عوام وخواص جمعہ وعیدین ادا کر رہے ہیں اور غیر مسلم حکومتوں کی طرف سے انھیں اجازت ہے ، وہاں جمعہ وعیدین سے انھیں روکنا سخت مفاسد کا باعث ہوگا، جن کی تفصیل مقالات میں موجود ہے۔ اس لیے بالاتفاق دفع فساد مظنون بظن غالب کی خاطر اور اکثر مندوبین کے نزدیک بوجہ عموم بلوی بھی امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے مسلک پر عمل کرنے اور جمعہ وعیدین ادا کرنے کی اجازت ہوگی، ساتھ ہی خواص کو ظہر ادا کرنے کا بھی حکم ہوگا۔ (مجلس شرعی کے فیصلے، فیصلہ: ۱۵، ص:۲۱۰، ناشر مجلس شرعی) محمود علی مشاہدی) (۵) مجلس علماکا یہ فیصلہ صحیح اور حق ہے کہ اس میں احناف کا مختار اصل مذہب امام اعظم پر عمل ہے اور ضرورتاً بقدر ضرورت صاحبین کے مذہب پر۔ واللہ تعالی اعلم۔(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved