22 December, 2024


دارالاِفتاء


لندن سے ۱۰۰؍ میل جانب شمال لیسٹر شہر آباد ہے۔ اس شہر کا عرض البلد ۳۸ء۵۲ شمالی ہے۔ یہاں موسم گرما میں (۱۸؍ مئی سے ۲۶؍ جولائی تک) تقریبا دو ماہ نو دن ایسے آتے ہیں جب آفتاب غروب ہو کر مغرب کی جانب ۱۸؍ درجہ زیر افق نہیں پہنچتا ہے بلکہ ۱۲؍ درجہ ہی نیچے جاکر دوبارہ طلوع ہو جاتا ہے۔ برطانیہ کی مشہور زمانہ رصد گاہ ’’رائل گرینچ آبزرویٹری‘‘ نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے۔ ان کی اصطلاح میں اس خاص لمحہ کو جب سورج زیر افق شرعی ۱۸؍ درجہ تک آجا تاہے اسٹرو نومیکل ٹوائی لائٹ کا آغاز (Beginning of Astronomical Twitight ) کہتے ہیں۔ اور جب سورج زیر افق غربی ۱۸؍ درجہ تک چلا جاتا ہے تو اسے اسٹرو نومیکل ٹوائی لائٹ کا اختتام کہتے ہیں۔ گرینچ کی رصد گاہ نے اس سلسلہ میں لیسٹر کے لیے اسٹرو نومیکل ٹوائی لائٹ کے آغاز واختتام کا جو نقشہ مرتب کر کے دیا ہے وہ اس استفتا کے ساتھ منسلک ہے جسے دیکھ کر لیسٹر میں موسم گرما میں پیدا ہونے والی زیر بحث مخصوص صورت حال کی مزید وضاحت ہو جائے گی۔ مذکورہ بالا صورت حال، یہاں آباد ہزاروں مسلمانوں کے لیے اس وقت بڑی پیچیدہ ہے جب ہم بہت سے متقدمین ومعاصرین علما کی یہ آرا پڑھتے ہیں: (۱) انحطاط الشمس تحت أفق حتی کان ثمانیۃ عشر جزءا کان ذلک وقت طلوع الفجر في المشرق۔ (أبو ریحان البیروني۔ القانون المسعودي) (۲) وقد عرف بالتجربۃ أن أول الصبح وآخر الشفق إنما یکون إذا کان انحطاط الشمس ثمانیۃ عشر جزءا۔ (شرح چغمینی) (۳) وقد ذکر صاحب التصریح في الفصل الخامس وشارح الملخص الشغمیني في الباب الثالث من المقالۃ الثانیۃ أن أول الصبح واٰخر الشفق إنما یکون إذا کان انحطاط الشمس (أي من الأفق) ثمانیۃ عشر جزءا۔ (مولانا یوسف بنودي، معارف السنن جلد ثانی) (۴) أما الفجر والشفق فإن خطیہما ہو مقنطرۃ ثمانیۃ عشر في کل عرض وفي کل مکان وزمان۔ (أبو علي الحسن بن عیسی بن المجامي۔ تذکرۃ أولي الألباب في عمل صنعۃ الأسطرلاب) (۵) وإن ابتداء طلوع الفجر وانتہاء غروب الشفق یکونان عند انحطاء الشمس عن الأفق ثمانیۃ عشر درجۃ۔ (سید محمد بن عبد الوہاب مراکشي ، إیضاح القول الحق في مقدار انحطاط الشمس وقت طلوع الفجر وغروب الشفق) (۶) إن بدایۃ وقت الفجر، وہو صلاۃ الصبح، یبدأ عندما تکون الشمس تحت الأفق الشرعي بمقدار ۱۸؍ وإن وقت العشا یبدأ عندما تصیر الشمس تحت الأفق الغربی بمقدار ۱۸؍ کذلک۔ (ڈاکٹر حسین کمال الدین، پروفیسر محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی ریاض، تعین مواقیت في زمان ومکان علی سطح الأرض۔) (۷) امام احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ والرضوان نے بھی اپنے رسالہ ’’درء القبح عن درک وقت الصبح‘‘ میں جو کچھ فرمایا ہے اس سے بھی مذکورہ بالا تمام اقوال کی تائید وتصدیق ہی ہوتی ہے۔ مذکورہ اقتباسات کی روشنی میں گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر برطانوی رصد گاہ کی اصطلاحات کو شرعی اصطلاحات پر منطبق کیا جائے تو اسٹرونومیکل ٹوائی لائٹ کا آغاز، صبح صادق کا آغاز ہے۔ اور اسٹرونومیکل ٹوائی لائٹ کا اختتام عشا کے وقت کا آغاز ہے۔ اس صورت میں یہ بات لازم آتی ہے کہ موسم گرما کے مذکورہ بالا ایام (۱۸؍ مئی تا ۲۶؍ جولائی) میں لیسٹر میں شفق ابیض (بقول امام اعظم ابو حنیفہ) غائب نہیں ہوتی ہے اور شرعی رات کا تحقق نہیں ہوتا ہے کیوں کہ شرعی رات کی ابتدا شفق ابیض کے غروب کے بعد ہوتی ہے اور شفق ابیض کا غروب قواعد ہیئت کی روشنی میں آفتاب غروب ہونے کے بعد اس وقت ہوتا ہے جب آفتاب غروب ہو کر جانب مغرب ۱۸؍ درجہ زیر افق چلا جاتا ہے، اسی طرح یہ بات بھی لازم آتی ہے کہ لیسٹر میں مذکورہ بالا ایام میں شرعی صبح صادق کے آغاز کا بھی تحقق نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے صبح صادق کا ابتدائی وقت وہ ہوتا ہے جب سورج جانب مشرق ۱۸؍ درجہ زیر افق ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا تمام تفصیلات وگزارشات کی روشنی میں اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ : ۱۸؍ مئی سے ۲۶؍ جولائی تک کے درمیانی عرصہ میں لیسٹر میں وقت عشا کے آغاز اور صبح صادق کے آغاز کا تعین کس طرح کیا جائے، چوں کہ آج کل ماہ رمضان المبارک جون وجولائی میں آرہا ہے اس لیے ختم سحری کے وقت کا تعین بھی ایک مسئلہ ہے۔ اس سلسلہ میں آپ جو طریقہ بھی تجویز فرمائیں اس کی تائید میں باحوالہ عبارتوں کا اور متعلقہ کتب ومصنفین کے اسما کا بھی ضرور ذکر فرمائیں ، تاکہ فقہاے کرام وعلماے اسلام کے اقوال کی روشنی میں آپ کے مجوزہ طریقہ کو سند عام حاصل ہو جائے۔ اگر چہ یہ مسئلہ ایک خاص مقام وشہر کے بارے میں دریافت کیا جا رہا ہے لیکن برطانیہ کے متعدد شہروں کے مسلمان اسی طرح کی پریشانی سے دوچار ہیں اس لیے امید کی جاتی ہے کہ آپ کے مدلل ومفصل جواب سے دیگر شہروں کے مسلمان بھی مستفید ہو سکیں گے۔

فتاویٰ #1401

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ــــــــــــ: جن بلاد میں کچھ ایام میں سورج اٹھارہ درجے تک زیر افق نہیں پہنچتا ان بلاد کے ان ایام میں شفق ابیض غروب نہیں ہوتی۔ شفق ابیض کے غروب ہونے سے پہلے پہلے صبح صادق طلوع کر آتی ہے۔ ان بلاد کے ان ایام میں بر بناے مذہب امام اعظم عشا کا وقت نہیں پایا جاتا۔ اس لیے کہ ان کے نزدیک عشا کا وقت شفق ابیض کے غروب کے بعد شروع ہوتا ہے اور طلوع صبح صادق تک رہتا ہے ۔ اگر چہ یہی قول مختار ومعمول بہ ہے اور حدیث صحیح سے مؤید بھی۔ مگر ائمہ ثلاثہ حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد بن حنبل کے علاوہ خود صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسف وحضرت امام محمد رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کا مذہب یہ ہے کہ مغرب کا وقت شفق احمر تک ہے۔ شفق احمر کے غروب ہوتے ہی عشا کا وقت شروع ہو جاتا ہے ، صاحبین کے اس قول کو ہمارے کثیر علماے احناف نے اختیار فرمایا بلکہ یہ بھی فرمایا کہ ’’علیہ الفتوی‘‘ علامہ ابن عابدین شامی کی مشہور کتاب رد المحتار میں ہے: لکن تعامل الناس الیوم في عامۃ البلاد علی قولہما وقد أیدہ في النہر تبعا للنقایۃ، والوقایۃ والدرر والإصلاح، ودرر البحار، والإمداد، والمواہب، وشرحہ البرہان وغیرہم مصرحین بأن علیہ الفتوی۔ حتی کہ تنویر الابصار میں علامہ غزی تمرتاشی اور علامہ حصکفی نے اس کی شرح در مختار میں صرف صاحبین ہی کے قول کو ذکر فرمایا، لکھتے ہیں: ووقت المغرب منہ إلی غروب الشفق وہو الحمرۃ عندہما، وبہ قالت الثلثۃ، وإلیہ رجع الإمام کما في شروح المجمع وغیرہا فکان ہو المذہب۔ نیز نور الایضاح اور اس کی شرح مراقی الفلاح میں صاحبین ہی کے قول پر اقتصار فرمایا، لکھتے ہیں: وأول وقت (المغرب منہ) أي غروب الشمس (إلی) قبیل غروب الشفق الأحمر علی المفتی بہ، وہو روایۃ عن الإمام، وعلیہا الفتوی۔ بضرورت اس خادم نے بھی ہالینڈ کے ایک استفتا کے جواب میں ان دیار کے ان ایام میں صاحبین کے اس قول پر فتوی دیا ہے، اس طرح عشا کے وقت کا مسئلہ حل ہو گیا۔ رہ گیا فجر کا معاملہ تو یہ ان دیار کے لیے بالکل واضح ہے ۔ اللہ عزو جل اور رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ فجر کا وقت اس وقت شروع ہوگا جب سورج اٹھارہ درجے زیر افق پہنچ جائے بلکہ فجر کا وقت صبح صادق کے طلوع سے رکھا ہے، امام ترمذی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے یہ حدیث روایت کی: إن النبي -صلی اللہ تعالی علیہ وسلم- قال: أمني جبرئیل عند البیت مرتین (إلی أن قال) ثم صلی الفجر حین برق الفجر وحرم الطعام علی الصائم۔ ترجمہ: نبی ﷺ نے فرمایا: جبرئیل نے بیت اللہ کے پاس دو مرتبہ میری امامت کی (یہاں تک کہ فرمایا) کہ پہلے دن فجر اس وقت پڑھی جب فجر چمکی جس وقت روزہ دار پر کھانا حرام ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ’’ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ١۪ ‘‘ ترجمہ: کھاؤ پیو یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگا سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے۔ امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، امام احمد بن حنبل، امام ابن ماجہ بالفاظ متقاربہ واتحاد معنی روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: لا یمنعکم من سَحور کم أذان بلال ولا الفجر المستطیل ولکن الفجر المستطیر في الأفق۔ ترجمہ: تم لوگوں کو سحری کھانے سے بلال کی اذان اور لمبی لمبی پھیلی ہوئی فجر نہ روکے، ہاں !جب وہ فجر چمک جائے جو افق میں پھیلی ہوئی ہو تو سحری کھانا چھوڑ دو۔ علاوہ ازیں فقہ کی تمام کتابوں میں یہ تصریح ہے کہ فجر کا وقت صبح صادق کے طلوع سے شروع ہوتا ہے اور صبح صادق وہ سفیدی ہے جو افق میں یعنی کنارۂ آسمان میں پھیلی ہوئی ہو۔ ہدایہ میں ہے: أول وقت الفجر إذا طلع الفجر الثاني وہو المعترض في الأفق۔ ترجمہ: فجر کا شروع وقت وہ ہے جب فجر ثانی طلوع کر آئے یہ وہ ہے جو افق میں پھیلی ہوئی ہو ۔ تنویر الابصار ودر مختار میں ہے: وقت صلاۃ الفجر من أول طلوع الفجر الثاني وہو البیاض المنتشر المستطیر لا المستطیل۔ اس کے تحت شامی میں ہے: وہو الفجر المستطیر في الأفق أي الذي ینتشر ضوءہ في أطراف السماء۔ ترجمہ: صبح صادق وہ ہے جس کی روشنی آسمان کے کناروں میں پھیلے۔ غرضے کہ قرآن مجید اور احادیث کریمہ اور فقہ کی تمام کتابوں میں فجر کا ابتداے وقت یہ بتایا ’’جب صبح صادق طلوع کر آئے ‘‘، کسی کتاب میں یہ نہیں لکھا کہ فجر کا وقت اس وقت شروع ہوگا جب سورج ۱۸؍ درجے زیر افق پہنچے۔ اور یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ ان دیار کے ان دنوں میں بھی طلوع سے پہلے یہ سفیدی جانب مشرق کنارہ آسمان پر چمکتی ہے؛ اس لیے ان دیار کے ان دنوں میں بھی ختم سحری اور ابتداے وقت فجر میں اعتبار اسی سفیدی کے طلوع کا ہوگا جو کنارۂ آسمان پر جانب شرق طلوع آفتاب سے پہلے نمودار ہوتی ہے۔ خواہ سورج کہیں بھی ہو، علماے ہیئت کا یہ کہنا کہ صبح صادق اس وقت طلوع ہوتی ہے جب سورج ۱۸؍ درجے زیر افق ہو یہ ان کے اپنے بلاد کے اعتبار سے ہے یا زیادہ سے زیادہ عامہ بلاد کے اعتبار سے۔ نیز ان کی مراد یہ ہے کہ اگر سورج ۱۸؍ درجے سے زائد نیچے ہوگا تو صبح صادق طلوع نہ کرے گی۔ ۱۸؍ درجے پہنچنے کے بعد صبح صادق ضرور طلوع کر آئے گی۔ رہ گیا گرینچ رصد گاہ کا یہ کہنا کہ ان دنوں میں اسٹرونومیکل ٹوائی لائٹ کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ ان کی کوئی خاص اصطلاح ہو گی۔ اس کو خواہ مخواہ صبح صادق پر چسپاں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہوا کہ قرآن واحادیث وارشادات فقہ کی روشنی میں صبح صادق اس سفیدی کا نام ہے جو طلوع آفتاب سے قبل جانب مشرق آسمان کی جڑ میں جنوبا وشمالا پھیلے اور ان بلاد کے ان دنوں میں بھی یہ روشنی پائی جاتی ہے۔ یہی منتہاے وقت عشا ومنتہاے سحر اور ابتداے وقت فجر ہے ،فقہا نے انھیں بلاد کے بارے میں فرمایا: وفاقد وقتہما کبلغار فإن فیہا یطلع الفجر قبل غروب الشفق في أربعینیۃ الشتاء۔ صاف تصریح ہے کہ ان بلاد میں ان دنوں میں بھی فجر طلوع کرتی ہے اس پر بعض لوگوں نے یہ کہا تھا کہ ان دنوں میں وہاں عشا ووتر کا وقت ہی نہیں پایا جاتا بلکہ فجر کا وقت بھی نہیں پایا جاتا اس لیے کہ صبح صادق کے وقت کی ابتدا طلوع فجر چاہتی ہے۔ اور طلوع فجر کے لیے اندھیری کا پہلے ہونا لازم ہے اور ان دیار میں ان دنوں میں شفق کے باقی رہتے ہوئے اندھیرا رہتا ہی نہیں ۔ اس خیال کا رد کرتے ہوئے علامہ شامی لکھتے ہیں: أقول: الخلاف المنقول بین مشايخ المذہب إنما ہو في وجوب العشاء و الوتر فقط ولم نر أحداً منہم تعرض لقضاء الفجر في ہذہ الصورۃ وإنما الواقع في کلامہم تسمیتہ فجرا؛ لأن الفجر عندہم اسم للبیاض المنتشر في الأفق موافقا للحدیث الصحیح کما مر بلا تقیید بسبق ظلام، علی أنا لا نسلم عدم الظلام ہنا ثم رأیتہ ذکر نحوہ۔ ترجمہ: مشائخ مذہب کے مابین جو اختلاف منقول ہے وہ صرف عشا اور وتر کے وجوب میں ہے ۔ ہم نے ان میں سے کسی کو نہیں پايا کہ اس نے اس صورت میں فجر کی قضا کی بات کی ہو، اس کے بر خلاف ان سب کے کلام میں اس کو فجر کہا گیا؛ اس لیے کہ فجر ان کے نزدیک اس سفیدی کا نام ہے جو کنارہ آسمان میں پھیلی ہوئی ہو حدیث صحیح کے موافق سبقت ظلام کی قید کے بغیر۔ علاوہ اس کے ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ وہاں اندھیری نہیں ہوئی۔ پھر میں نے دیکھا کہ طحطاوی نے بھی اسی کے مثل ذکر کیا ہے۔ علامہ شامی کے فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان دیار میں ان دنوں صبح صادق نہ ہوتی تو مشائخ مذہب عشا ووتر کی طرح یہ بھی بحث کرتے کہ نماز فجر واجب ہے یا نہیں جیسا کہ وتر وعشا کے بارے میں ہوا، مگر فجر کے بارے میں کسی ایک نے بھی کبھی یہ بحث نہیں چھیڑی تو ثابت ہوگیا کہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ ان دیار میں ان دنوں میں بھی فجر اس سفیدی کا نام ہے جو افق میں پھیلی ہوئی ہو۔ حدیث میں اور مشائخ کے کلام میں یہ کہیں نہیں کہ صبح صادق سے پہلے اندھیرا ہونا ضروری ہو، پھر اخیر میں فرمایا کہ یہی صحیح نہیں کہ اندھیری کی سبقت صبح صادق کے طلوع پر نہیں اس لیے کہ سبقت ظلام صبح صادق کے مطلع میں ہونی چاہیے اور صبح صادق کے مطلع میں صبح صادق کے طلوع سے پہلے تاریکی ہوتی ہے یعنی شفق ہے جانب مغرب، اور صبح صادق کا طلوع ہونا ہے جانب مشرق، تو وجود شفق صبح صادق کے مطلع میں نہ ہوا۔ صبح صادق کے طلوع سے پہلے تاریکی ہوتی ہے غرض یہ ہے کہ سارے فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ ان دیار کے ان دنوں میں بھی صبح صادق کا طلوع ہوتا ہے، اس لیے حسب تصریح قرآن واحادیث وعبارات فقہ ان بلاد کے ان دنوں میں بھی منتہاے سحر ووقت عشا وابتداے وقت فجر اس سفیدی کے طلوع ہونے پر ہے جو قبل طلوع آفتاب جانب مشرق کنارۂ آسمان پر چمکتی ہے۔ یہ کہنا کہ ان بلاد کے ان دنوں میں شرعی رات کا وجود نہیں ہوتا بہت ہی تعجب خیز ہے۔ شریعت نے رات کی ابتدا غروب سے مانی ہے، قران مجید میں ہے:’’ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ١ۚ ‘‘ پھر رات آنے تک روزے پورے کرو۔ اور باجماع مسلمین یہاں لیل سے مراد غروب آفتاب ہے۔ امام بخاری وامام مسلم حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: ’’إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ هٰهُنَا وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هٰهُنَا وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ.‘‘ (واللفظ للبخاري) ترجمہ: جب رات ادھر سے (مشرق کی جانب سے) آگے بڑھے اور دن یہاں سے (مغرب کی جانب سے) چلا جائے اور سورج ڈوب جائے تو روزہ دار کے افطار کا وقت ہو گیا۔ ثابت ہو گیا کہ شرعی رات کی ابتدا سورج ڈوبنے سے ہے،اور ان دیار کے ان دنوں میں بھی سورج ضرور غروب ہوتا ہے تو شرعی رات کی ابتدا ضرور ہوئی۔ شرعی رات کی انتہا طلوع صبح صادق ہے اب ثابت ہو گیا کہ ان دیار کے ان دنوں میں بھی شرعی رات ضرور پائی جاتی ہے، اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ ان دیار میں ان دنوں میں شرعی رات نہیں پائی جاتی۔ واللہ تعالی اعلم(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵ (فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved