22 November, 2024


دارالاِفتاء


ایک جائداد کے شرکا دو بھائی زید و عمرو اور ایک بہن ہندہ ہیں۔ زید و عمرو نے اپنے حصوں کو اپنے نواسے پر ہبہ کر دیا ، بعدہٗ ہندہ نے اپنا حصہ ایک مسجد میں وقف کر دیا ۔ اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ ہندہ کا حصہ موقوفہ کسی ایسی جائداد سے بدلا جا سکتا ہے یا نہیں جس سے مسجد کی آمدنی زیادہ ہو اور اس تبادلہ میں مسجد کا فائدہ ہو ۔بینوا تو جروا۔

فتاویٰ #1243

بسم اللہ الرحمن الرحیم - الجواب: و باللہ التوفیق۔ اگر ہندہ نے وقف نامہ میں یہ تحریر کیا ہے کہ اس وقف کو بدلا جا سکتا ہے تو دوسری زمین سے بدل سکتے ہیں اور اس دوسری جائداد کا بھی وہی حکم ہوگا جو پہلی کا ہے۔ عالم گیری میں ہے: إذا شرط في أصل الوقف أن یستبدل بہ أرضا أخری إذا شاء ذلک فتکون وقفا مکانھا فالوقف والشرط جائزان عند أبي یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ و کذا لو شرط أن یبیعھا و یستبدل بثمنھا مکانھا۔ اور اگر واقف نے بدل دینے کی شرط نہ کی تو اس صورت میں صرف اس وقت بدلا جا سکتا ہے کہ یہ وقف قابلِ انتفاع نہ رہا ہو یعنی اتنی بھی آمدنی نہ ہوتی ہو جو وقف کے مصارف کے لیے کافی ہو ، مگر اس کے لیے چند شرطیں ہیں: (۱)غبن فاحش کے ساتھ بیع نہ ہو۔(۲)تبادلہ کرنے والا قاضی عالمِ باعمل ہو۔(۳)تبادلہ غیر منقولہ سے ہو، روپے، اشرفی سے نہ ہو۔(۴)ایسے سے تبادلہ نہ کرے جس کی شہادت اس کے حق میں نا مقبول ہو۔(۵) ایسے شخص سے تبادلہ نہ کرے جس کا اس پر دین ہو۔(۶)دونوں جائدادیں ایک ہی محلہ میں ہوں یا وہ ایسے محلہ میں ہو کہ اس سے بہتر ہو ۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے: ولو کان الوقف مرسلا لم یذکر فیہ شرط الاستبدال لم یکن لہ أن یبیعھا ویستبدل بھا والمعتمد أنہ یجوز للقاضي بشرط أن یخرج عن الإنتفاع بالکلیۃ و أن لا یکون ھناک ریع للوقف یعمر بہ و أن لا یکون البیع بغبن فاحش کذا في البحر الرائق و شرط في الأسعاف أن یکون المستبدل قاضی الجنۃ المفسر بذي العلم والعمل کذا في النھر الفائق ۔انتہی ملتقطا۔ رد المحتار میں ہے: وأما الإستبدال ولو للمساکین (بدون الشرط فلا یملکہ إلا القاضی) درر و شرط في البحر خروجہ عن الإنتفاع بالکلیۃ وکون البدل عقا.رًا و المستبدل قاضی الجنہ المفسر بذي العلم والعمل و یجب أن یزاد آخر في زماننا وھو أن یستبدل بعقار لا بدراھم ودنانیر فإنا قد شاہدنا النظار یا کلونھا و قل أن یشتري بھا بدلا وأفاد في البحر زیادۃ شرط سادس، و ھو أن لا یبیعہ ممن لا تقبل شھادتہ لہ ولا ممن لہ علیہ دین ۔ انتہی ملتقطا۔ وقف اگر قابلِ انتقاع ہے یعنی اس کی آمدنی ایسی ہے کہ مصارف سے بچ رہتی ہے اور اس کے بدلے اتنی زمین ملتی ہے جس کا نفع زیادہ ہے تو جب تک واقف نے تبادلہ کی شرط نہیں کی تبادلہ نہ کریں ۔ رد المحتار میں ہے: اتفق أنہ أمکن أن یوخذ بثمنہ ما ھو خیر منہ مع کونہ منتفعاً بہ فینبغي أن لا یجوز لأن الواجب إبقاء الوقف علی ماکان علیہ دون زیادۃ ھذا ھو الحق و الصواب ۔ انتہی ملتقطاً۔ واللہ تعالیٰ اعلم(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved