14 March, 2025


دارالاِفتاء


زید مع اپنی بیوی بچوں کے بمبئی رہتا تھا اور میل میں کام کرتا تھا۔ اتفاق سے ریل کا واپسی ٹکٹ اور رضا لے کر مع بیوی بچوں کے بنارس آیاگھر والوں سے ملنے کے لیے۔ بنارس آنے پر بچے کو چیچک نکل آئی۔ اچھے ہونے کے انتظار میں رضا ختم ہو گئی۔ زیدکو دونوں کو چھوڑ کر بمبئی جانا پڑا۔ جاتے وقت بیوی نے کہا کہ ہماری بالی سونے کی جو ٹوٹی ہوئی ہے اس غرض سے بمبئی لے جانا چاہتے تھے کہ کوئی دوسرا زیور بنوا کر پہنیں مگر تم جا رہے ہو، معلوم نہیں ہم کو کب اور کس کے ساتھ آنا پڑے، اس لیے اس کو اپنے ساتھ لیتے جاؤ۔ زید بیوی کے کہنے کے مطابق بالیوں کو لے کر بمبئی چلا گیا اور اس کو بڑی حفاظت سے ایک چھوٹے بکس میں رکھ کر اس بکس کو ایک بڑے بکس میں تالہ بند کر کے رکھتا تھااور کمرے میں بھی قفل لگا کر کام کرنے یااور کام سے آتا جاتا رہتا تھا۔ قریب ایک ماہ لے جانے کے بعد زید ایک روز میل سے آیا تو دیکھا ، دروازہ کا قفل ٹوٹا ہوا ہے، دروازہ بند ہے، اندر گیا تو معلوم ہوا کہ بڑے بکس کو بھی کسی ذریعے سے کھول کر وہ چھوٹا بکس ، جس میں بالیاں ، زید کا نقد ۳۰؍ روپیہ، ایک چاندی کا بٹن اور کچھ سامان تاگہ وغیرہ مع بکس غائب ہے۔ زید نے فوراً پولیس میں رپٹ کیا۔ پولیس آئی مگر کچھ پتہ نہ چلا۔ جب زید کی بیوی بمبئی گئی اور کچھ دنوں کے بعد پھر آئی، اس درمیان میں اس کو چوری ہونے کا حال معلوم ہو گیا۔ زید جس کمرے میں رہتا تھا، اس کے بغل میں ایک آدمی رہتا تھا ، یہ اسی کا کام تھا ۔ اس کی عورت کے ذریعہ سب حال دوسرے، تیسرے کو معلوم ہوا،کچھ دن بعد اس سے اور یقین قوی ہو گیا کہ جو جو چیزیں اس میں تھیں بتلائی نہیں گئی تھیں ۔ مگر اس نے سب کچھ بتلایا کہ فلاں فلاں چیزیں تھیں ۔ اس کے بعد زید کی بیوی نے دو تین آدمیوں کے درمیان تمام حال بتلا دیا کہ بالیاں ہمارے شوہر اپنے خرچ میں نہیں لائے بلکہ یوں چوری ہوئی ہے۔ ہم کو سب حال معلوم ہو گیا۔ بہر حال چھ سال کے بعد کچھ ایسی صورت آئی کہ زید نے بیوی کو طلاق دے دی تو عورت کے گھر والوں نے اس رقم کو طلب کیا۔ کیا از روے شرع محمدی زید پر ان بالیوں کی قیمت دینی واجب ہے یا نہیں ۔ اگر ہو تو لکھا جائے بہ حوالہ کتبِ معتبرہ درج فرمایا جائے۔ چوں کہ زیور کا یہ معاملہ پنچوں کے سامنے گیا۔ پنچوں نے عورت کے گھر والوں سے کہا کہ کیا قصہ ہے، بکر نے اپنا زیور طلب کیا ۔ پنچوں نے زید سے پوچھا کیا بات ہے۔ زید نے کہا کہ قصہ یوں ہے کہ یہ زیور ہم اپنے خرچ میں نہیں لائے ہیں چوری ہو گیا، کیسے ہوا بیان سے معلوم ہو جائے گا۔ اور دو ڈھائی سال کے پہلے آج سے عورت کا بیان مع گواہان کے سن لو معلوم ہو جائے گا ۔ اس کو گم ہوئے عرصہ چھ سال ہوئے اور اس درمیان میں طلاق ہونے کے بعد کیا کیا بات ہوئی، دونوں طرف سے مسئلہ بھی دریافت کیا گیاہے، مگر اپنے اپنے طور پر۔بکر کو کیا جواب ملا ،معلوم نہیں ۔ہم کو جواب ملا کہ تمھارے بیان سے تمھارے اوپر ان بالیوں کی قیمت دینی یا بالیوں کے بدلے بالیاں دینی واجب نہیں ۔ بہر حال دونوں طرف کے بیان کے بعد جو بھی فیصلہ شرعاً اخلاقاً ہوگا ہم کو تسلیم ہے۔ اس پر پنچوں نے بڑی خفگی کا اظہار کیا اور شریعت پر پھبتی کسی کہ لو صاحب اب ہم لوگوں کا کام نہیں ، کیا پہلے شریعت نہیں تھی، جوآج شریعت سے فیصلہ ہوگا۔ اب تو ہم لوگوں کو اپنا تمام اصول برادری کے رواج کو ختم کر کے دوسرا اصول بنانے کی ضرورت ہے ۔ پہلے اصول بنا لیں اس کے بعد یہ فیصلہ کریں ، چلو صاحب پہلے مدرسہ میں پڑھ آویں ، تب فیصلہ کریں ۔ جب شریعت ہی سے فیصلہ کرنا ہے تو یہ کام توعالم کا ہے ۔ ایک پنچ نے تو یہ بھی خیال ظاہر کیا کہ پنچایت کے پہلے کہ یہ رقم از روے شرع زید کے اوپر واجب نہیں ہوئی۔ مگر ہم ا گر فیصلہ شرعاً کرتے ہیں تو قوم کا رواج بگڑ جاتا ہے، ایسی ایسی باتوں کا اظہار کیا گیا۔ غصہ میں آکر بکر سے پوچھا گیا کہ کیا تم بھی فیصلہ شریعت ہی سے چاہتے ہو ۔ بکر نے بھی کہہ دیا کہ شریعت سے کس کو انکار ہے، ہم بھی شریعت کو مانتے ہیں ، کون مسلمان ہے جو نہیں مانے گا۔ شریعت سے فیصلہ ہو۔ اب پنچ صاحبان کچھ دیر خاموش رہے کہ ہم لوگ کیا کریں جب تک ہم لوگوں کو نہیں مانا جائے گا کیا کر سکتے ہیں ۔ بار بار زید سے کہا کہ پنچایت مان لو۔زید برابر کہتا رہا کہ فیصلہ شرعاً چاہتے ہیں ۔ لوگ بگڑ گئے کہ چلو صاحب ہم لوگ کیا کریں گے، پنچایت ختم کر دو۔ اس پر کچھ لوگوں نے زید کو مشورہ دیا کہ پنچ پر چھوڑ دو، دیکھو کیا کرتے ہیں اور پنچوں نے کہا کہ ہم لوگ بیان سن لیں ۔ اگر فیصلہ ہمارے قابل ہوگا تو فیصلہ کریں گے ۔ زید نے مجبوراً کہہ دیا کہ اچھا تسلیم ہے۔ اب کیا یکے بعد دیگر شروع ہوا ، کوئی اختلاف ایسا نہیں ہوا کہ اختلاف سمجھایا جائے، پس پنچوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ہم کر سکتے ہیں ، باوجود دونوں فریق کے شریعت یہ فیصلہ چاہتی ہے کہ فیصلہ کر دیا جائے کہ یہ رقم زید کے یہاں سے گم ہوئی ہے، اب زید کو دینا ہوگا۔ زید نے کہا کہ مطابق شریعت کے ہم پر اس کی قیمت کا دینا واجب نہیں ، آپ لوگ زبردستی دلوا رہے ہیں ، ہم دے دیں گے مگر اس کا محاسبہ آپ لوگوں پر ہے۔ اس پر ایک صاحب نے کہا کہ ہاں جو فیصلہ کرتا ہے اس پر ذمہ داری ہوتی ہے، تم کہو گے جیسا یہ تو ہے ہی۔اب سوال یہ ہے کہ : (۱).کیا یہ فیصلہ حق ہے اور ماننے کے لائق ہے۔ (۲).ایسے پنچوں کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے? (۳).اور زید نے یہ قیمت جو آج کل کے بازار کے بھاؤ سے لگائی گئی ہے، بد نامی یا ڈر کی وجہ سے دے دی تو کیا حشر میں اس کا کوئی معاوضہ ملے گاجس کو گم ہوئے عرصہ چھ سال کا ہوا۔

فتاویٰ #1205

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب: شریعتِ مطہرہ کے احکام کی پابندی ہی میں مسلمانوں کی صلاح و فلاح منحصر ہے۔ شریعتِ مطہرہ عین مصلحت ہے، کیوں کہ شریعتِ مطہرہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب محمد رسول اللہ کا حکم ہے۔ اللہ و رسول جل جلالہ و صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر ہمارے ماں باپ، اعزہ و احباب بلکہ خود ہم سے زیادہ مہربان ہیں ۔ قرآن مجید میں ہے: وَھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔ اسی کا ارشاد ہے: وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ اے محبوب ہم نے آپ کو کل جہان کے لیے رحمتِ کاملہ بنا کر بھیجا ۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا: وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُفٌ رَّحِیْمٌ۔ محمد رسول اللہ ﷺ ایمان والوں پر بہت ہی مہربان نہایت ہی رحم فرمانے والے ہیں ۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ہماری سمجھ میں نہ آئے، ہم اپنی بے سمجھی سے شریعت کے احکام میں اپنا نقصان اور اس کے خلاف میں مصلحت سمجھیں مگر یہ محض ہماری نادانی ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا: عَسٰی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ عَسٰی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔ قریب ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو، حالاں کہ وہ تمھارے لیے مفید ہے اور تم کسی چیز کو پسند کرو حالاں کہ وہ تمہارے لیے مضر ہے اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ پنچایت قانون کو یا قومی اصول جو شریعت کے خلاف ہے وہ ہمارے لیے مضر ہے اور جو شریعت کا حکم ہے وہ ہمارے لیے مفید ہے۔ امانت کی حفاظت کرتے ہوئے اگر امانت ضائع ہو جائے تو امانت دار پر تاوان نہیں ، یہ شریعتِ مطہرہ کا حکم ہے۔ اس کے خلاف جو پنچایت کا اصول ہے وہ ہر گز قابلِ تسلیم نہیں ۔ زید ان بالیوں کا امین تھا اور حفاظت کرتے ہوئے ضائع ہو گئیں ، لہذا زید پر ان بالیوں کا تاوان نہیں ۔ پنچوں کا اس پر خفگی کا اظہار کرنا ، پھبتی کسنا، سخت ترین جہالت، سخت حرام جرم شرعی اور بغاوت ہے اور باوجود مسئلہ جانتے ہوئے اور حکمِ شرعی اور حکم پر مطلع ہوتے ہوئے زید کا ایسے لوگوں کو پنچ ماننا اور حکم ماننا بھی حرام و جرمِ شرعی ہے۔ ایسی حالت میں لوگوں کا مشورہ دینا کہ پنچ مان لو، یہ بھی حرام و جرمِ شرعی ہے لہذا اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو زید اور پنچ اورمشورہ دینے والے سب گنہ گار ہیں ، سب مجرم ہیں ، سب پر توبہ لازم ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved