8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید اپنے مکان کے باہر دروازہ پر چاندنی رات میں بیٹھا تھا اس کی پردہ نشیں بیوی دروازہ پر آئی، ایک اجنبی شخص کو گزرتے پاکر زید نے پردہ کرنے کو اسے(زوجہ کو) اشارہ کیا مگر نہ ر کی بلکہ بول اٹھی کہ فلاں تو ہے (حالانکہ اجنبی کی عمر تقریباً ۳۵ سال ہے ) زید نے طنز اً کہا کہ ’’ تو گودی لے لو‘‘ تب غصہ سے بڑبڑانے لگی اور اندر جاکر پردہ نیز حکم پردہ پر آئی اور زید کو فحش گالی بکنے لگی۔ زید غصہ ہوکر اس سے بولا۔ جب پردہ ناپسند ہے اور کھولنے کا شوق ہے توکل صبح بعدِ طلوع آفتاب ندی سے (جو کہ قریب ہے ) ایک گھڑا پانی تم کو خود لانا پڑے گا ورنہ تین طلاق ، تین طلاق ، تین طلاق۔ زوجہ نے حسب حکم پانی لادیا ۔ اب دریافت طلب یہ مسئلہ ہے کہ دریں صورت طلاق واقع ہوگئی کہ نہیں ؟ عمر کہتا ہے طلاق ہوگئی کیوں کہ خلاف شرع امر کی شرط باطل ہے ۔بکر کہتا ہے کہ کلیہ یہ ہے کہ اذا فات الشرط فات المشروط اس سے طلاق واقع نہ ہونا ظاہر۔ زید کی زوجہ پر اس کی سخت کلامی خصوصاً حکم پردہ پر کہ منصوص ہے منہ آنا اور دیگر فحش گوئی کے باعث توبہ لازم ہے ۔ صحیح جواب سے مستفیض فرما کر اجر دارین حاصل کریں تادم تحریر فریقین قربت سے مُجتنِب ہیں ۔

فتاویٰ #1140

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: صورت مسئولہ میں زید کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی ،بکر کا قول صحیح اور عمر کا قول غلط ہے ،خلاف شرع امر کی قسم اگرچہ ناجائز ہے مگر اس امر کا باطل ہونا الگ بات ہے اور اس سے دوسری شے کا ثبوت یہ امر دیگر ہے فعل حرام ضرور حرام ہے لیکن اس سے دوسری شی کا ثبوت بھی نہ ہو ایسا نہیں ۔ فتاوی عالمگیری میں ہے: ولو قال ان شربت الخمر فانت طالق فشھد علی شرب الخمر رجل و امرأتان لاتقبل في حق الحد ولا في حق الطلاق و قیل تقبل في حق الطلاق و ھو المختار للفتوی کذا في خزانۃ المفتین۔ یعنی کسی شخص نے کہا اگر میں شراب پیوں تو میری بیوی پر طلاق۔ پھر اس کے شراب پینے کی ایک مرد اور دو عورتوں نے شہادت دی تو یہ شہادت حد اور طلاق دونوں میں مقبول نہیں مگر قول مختار پر یہ شہادت طلاق کے حق میں مانی جائے گی یعنی واقع ہو جائے گی ۔ فتویٰ میں شہادت مقبول ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ صرف اسی قول مشروط پر طلاق نہیں ہوئی جب شرط پائی گئی اور شہادت سے ثابت ہوئی تب وقوعِ طلاق کا حکم دیا گیا یعنی اگر شراب نہ پیتا تو طلاق واقع نہ ہوتی۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اگر زید نے خلاف شرع امر پر تعلیق کی تب بھی تعلیق صحیح ہے ۔ لیکن جب کہ شرط نہیں پائی گئی تو طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ یہ وہ صورت ہے کہ ندی سے پانی لانے میں بے پردگی کی قید ہو مگر سوال میں یہ نہیں ہے کہ زید نے اپنی بیوی سے کہا کہ بے پردہ ہو کر ندی سے پانی لا بلکہ یہ کہا ’’ بعد طلوع آفتاب ندی سے ایک گھڑا پانی تم کو خود لانا پڑے گا ورنہ تین طلاق‘‘ زید کی بیوی ندی سے پانی پردہ کر کے لاسکتی ہے ۔ لہٰذا یہ شرط خلاف شرع بھی نہیں ہے۔ بہرحال دونوں صورتوں میں تعلیق صحیح ہے اور جب شرط نہیں پائی گئی تو طلاق نہیں ہوئی۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved