بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: مسئلۂ مسئولہ میں طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ مسماۃ حمید النساء بدستور ولی محمد کی زوجہ ہے ۔ اس لیے کہ اس سوال میں پانچ روپے کی عدم روانگی کی شرط تو پائی گئی مگر اس کی جزا یعنی طلاق سمجھا جائے ’’الفاظِ طلاق‘‘ سے نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ طلاق سمجھنا یا طلاق جاننا یا طلاق خیال کرنا طلاق کے الفاظ نہیں ۔ اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ شوہر نے طلاق نہ دی اور زوج زوجہ سمجھتے ہیں کہ طلاق ہو گئی تو اس سمجھنے سے کیا ہوتا ہے اور اگر حقیقتاً طلاق واقع ہو گئی اور خود شوہر اور زوجہ نے اپنی دانست میں طلاق نہ سمجھی جب بھی طلاق ہو جاتی ہے ۔ یہاں نہ سمجھنا مفید نہیں ۔ فتاویٰ عالم گیری میں ہے: ’’امرۃ قالت لزوجھا مرا طلاق دہ(الی ان قال) دادہ انگار او کردہ انگار لا یقع و ان نوی۔‘‘ یعنی اگر کسی عورت نے اپنے شوہر سے کہا ، مجھے طلاق دے ، اس نے اس کے جواب میں کہا ، دی ہوئی سمجھ یا کی ہوئی سمجھ، طلاق واقع نہ ہوگی اگرچہ شوہر نے طلاق کی نیت بھی کی ہو۔ غیاث اللغات میں ہے: ’’انگار بفتح وکاف فارسی صیغہ امراز انگا شتن بمعنی بفہم و بدان و خیال کن ‘‘۔ کشوری میں ہے: ’’انگاشتن، اٹکل کرنا،، معلوم کرنا اور یہ لفظ کاف عربی سے غلط ہے۔‘‘ اور جب طلاق واقع نہ ہوئی تو عدت کا شمار کب ؟ اسی طرح ولی محمد کا کسی عورت کو رخصتی کے لیے بھیجنا بھی اس وقت موضوعِ بحث نہیں بن سکتا۔ گو کسی عورت کو رخصتی کے لیے روانہ کرنا رجعت نہیں بلکہ خود ولی محمد بھی رخصتی کے لیے جاتا تو یہ رجعت نہیں جب تک کہ زبان سے رجعت نہ کرتا یا کوئی ایسا فعل صادر کرتا جو رجعت کے ہم معنی ہو ۔ مصرح بہ فی کتب الفقہ ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org