22 November, 2024


دارالاِفتاء


زید کی شادی مطابق شریعتِ محمدی ﷺ قریب ۱۵؍۱۶؍ سال ہوئے مسماۃ رقیہ سے ہوئی اور زید کے نطفے سے رقیہ کے بطن سے چار اولادیں تین لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئی، جو زندہ ہیں لیکن رقیہ کو کافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، کیوں کہ زید بالکل ہی اس کے خورد و نوش کا خیال نہیں کرتا تھا۔ تاہم رقیہ اس کے گھر صبر سے پڑی رہی اور کچھ دنوں کے بعد قریب آٹھ نو سال ہوئے کہ اس نے اپنے باپ سے اپنی تکلیف کا اظہار کیا ۔ رقیہ کے باپ بہ رضا مندی زید رقیہ کو اپنے گھر لے آئے، جب سے ان کے پاس ہے۔ نو برس کے درمیان میں زید چار بار آیا ۔ دو مرتبہ لڑکوں کو پندرہ دن کے لیے بھیجا تھا، اس کے بعد کچھ کھوج خبر نہیں لیا ۔ اس کے بعد رقیہ کے کہنے پر (اپنے میں پرورش کی طاقت نہ پا کر)رقیہ کے والد زید کے وہاں گئے اور یہ بات کہی کہ ہم کب تک یہ بار برداشت کریں گے، یا تم طلاق دے دو یا اس کی اور اپنے بچوں کی پرورش کا انتظام کرو۔ زید برابر حیلہ وحوالہ کرتا رہااور یہ کہتا رہا کہ جب ہم کو کوئی آمدنی ہوگی تو لاویں گے اور نو برس کے درمیان میں کوئی اولاد نہیں ہوئی، کیوں کہ بالکل علاحدگی رہی اور چھوٹا لڑکا رقیہ کے میکے میں چھ مہینے کا ہوا۔ رقیہ اور اس کے والد بضدہوئے اس پر زید نے ایک تحریرمورخہ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۵۴ء کو بطور طلاق نامہ لکھ دیا اور تین طلاق دیا، لیکن رقیہ وہاں موجود نہیں تھی، اور زید کا کہنا ہے کہ ہم نے غصہ میں طلاق لکھا اور تین طلاق دیااور رقیہ کے والد کے ذریعہ طلاق نامہ رقیہ کو ملا اور ان کی زبانی طلاق دینے کا حال اسی روز معلوم ہو گیا۔ بعد میں تاریخ ۲۳؍ جنوری۱۹۵۵ء ایک تحریر رقیہ کے نام اپنے لڑکے کے ذریعہ جو نابالغ ہے بھیجا جو اتفاقاً اپنے نانا کے ساتھ زید کے گاؤں میں چلا گیا تھا کہ میں محی الدین (زید) پسر نور الحسن ساکن سکندر پور محبوب النسا رقیہ کو مطلع کرتا ہوں کہ ہم نے تمہاری طرف شرعی طور سے رجوع کیا۔ بہتر ہے کہ تم میرے گھر چلی آؤ۔ اس کے گواہان عبد المعید اور بشیر الدین ہیں ۔ بقلم خود، مورخہ ۲۳؍ جنوری ۔ لیکن اس لڑکے نے اپنی نانی کو وہ تحریر دی۔ نانی جھنجھلا گئی۔ جب رقیہ کے پاس خط گیا تو لینے سے انکار کر دیا، اس کی تحریر پڑھوا کر نہیں سنا۔ اب سوال یہ ہے کہ: (۱).مورخہ ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۵۴ء کی تحریر کے مطابق محبوب النسا رقیہ کی طلاق ہوئی کہ نہیں ؟ (۲).اگر طلاق رجعی ہو تو ۲۳؍ جنوری ۱۹۵۵ ء کی تحریر کے مطابق رجعت ہوئی یا نہیں؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ طلاق رجعی ہوئی۔ (۳).کیا رقیہ بحالت سابق نکاحِ سابق پر جا سکتی ہے اور زید کی زوجیت میں رہ سکتی ہے؟ (۴).کیا زید لڑکے لڑکیاں لے سکتا ہے، جب کہ لڑکے جانے پر راضی نہ ہوں اور ان لڑکوں کا خرچہ بحالت لینے لڑکوں کے زید پر ضروری ہے یا نہیں ، بلا خرچہ ادا کیے زید لڑکوں کو لے سکتا ہے؟ براے کرم مندرجہ بالا سوالوں کے جواب بروے شرع جلد از جلد اس پتہ پر روانہ فرمائیں تاکہ ایک بہت بڑا فتنہ و نزاع ختم ہو۔

فتاویٰ #1122

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: غصہ میں بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، جب کہ تین طلاقیں دیں تو یہ طلاق مغلظہ ہوئی، رقیہ سے زید کا تعلق قطعاً نہ رہا، رجعت تو کیا نکاح کا بھی حق نہ رہا۔ اس صورت میں بغیر حلالہ زید کا نکاح رقیہ سے ہرگز جائز نہیں ۔ اگر طلاق رجعی ہوتی تو رجعت کا حق عدت کے اندر ہوتا ۔ ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۵۴ء کو طلاق نامہ لکھا اور ۲۳؍ جنوری ۱۹۵۵ء کو رجعت کی تحریر بھیجی ۔ قمری حساب سے تین ماہ گزر گئے ۔ اگر عادت کے مطابق رقیہ کو طلاق کے بعد اس مدت میں تین حیض آگئے تو عدت ختم ہو گئی۔ لہٰذا اگر طلاق رجعی بھی ہوتی تو نکاح کا حق نہ ہوتا، حالاں کہ زید نے طلاق مغلظہ دی ہے، جس میں قطعاً کوئی حق باقی نہ رہا۔ سات سال تک بچے کی پرورش کا حق ماں کو رہتا ہے ، اس کے بعد بچے کو باپ لے سکتا ہے۔ بچوں کے اخراجات و مصارف باپ کے ذمہ ہیں ۔واللہ تعالیٰ اعلم (فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved