21 November, 2024


دارالاِفتاء


میرے اور اہلیہ کے مابین وقتی شکر رنجی اور حالت غضب میں بات بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گئی کہ میں نے عزم کر لیا کہ اپنی زوجۂ منکوحہ کو بعد از فراہمیِ مہر اپنی قیدِ نکاح سے علاحدہ کر دوں گا۔ پھر چند مخلص رفقا اور گھر کے ذمہ داران حضرات کے سمجھانے بجھانے سے باز آگیا۔ کیا فقط ارادہ اور عزم سے زوجہ پر طلاق واقع ہوگی، مدلل بیان فرمایا جائے۔

فتاویٰ #1119

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: سائل کی زوجہ بدستور اس کی زوجہ ہے ، صرف عزم اور ارادہ سے طلاق نہیں پڑتی ۔ طلاق باللسان کے لیے ایسے کلام کی ضرورت ہے جو سنے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ در مختارمیں ہے: ’’و ادنی المخالفتہ، اسماع نفسہ (الی قولہ) و یجری ذالک المذکور فی کل ما یتعلق بالنطق کتسمیۃ علی ذبیحۃ ووجوب سجدۃ تلاوۃ و عتاق و طلاق و استثناء وغیرہا فلو طلق او استثنیٰ ولم یسمع نفسہ لم یصح فی الاصح۔“واللہ تعالیٰ اعلم(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved