22 November, 2024


دارالاِفتاء


ایک مسلمان عورت کو سات ماہ پر لڑکاپیدا ہوا۔ اس پر بستی والوں نے کہا کہ بچہ تمہارے شوہر کا نہیں ہے۔ اس پر اس کے شوہر نے کہا کہ یہ میرا بچہ ہے اور بیوی نے بھی کہا کہ میرے شوہر کا ہے۔ بستی والے نہیں مانے۔ بہت اصرار کرنے پر کہ تم کو کچھ نہ کریں گے۔ تب اس عورت نے اقرار کیا کہ دوسرے کا ہے۔ تب اس کے شوہر سے پوچھا گیا کہ تم رکھو گے یا نہیں؟ تو شوہر نے کہا کہ رکھیں گے۔ پھر اس کی عورت کے پاس آدمی بھیجا گیا کہ اس میں اور کوئی تھا، تو اس نے دو عورتوں کا نام لیا، ان میں ایک بالکل ضعیفہ تھی اور ایک تین بچے کی ماں تھی۔ ان دونوں نے فریب دے کر پھنسا دیا تھا، لیکن ان دونوں کی بد چلنی ثابت نہیں ۔ بستی والوں نے دونوں کے شوہروں کو بلا کر کہا کہ تم لوگوں کو اپنی اپنی بیویوں کو طلاق دینا ہوگا۔ ایک عورت تو بیوہ تھی لہٰذا دو سے کہا گیا۔ ان لوگوں کا ارادہ نہیں تھا لیکن کہنے پر اقرارکیا اور نمبر ایک عورت کو بلایا گیا۔ اس کے شوہر نے کہا کہ تم کو طلاق دیتے ہیں ، اسی طریقے سے دو بار کہا۔ اس کے بعد نمبر دو عورت کو بلایا گیا جو نہیں آتی تھی۔ تب شوہر کا چچا زاد بھائی اسے مکان سے گھسیٹ کر لایا اور ایک بانس کی چھڑی سے مارا اور زیور اتار لیا اور جہاں پر آدمی اور شوہر جمع تھے ، لایا گیا۔ اس وقت عورت رو رہی تھی۔ روتے ہوئے اس نے اپنے شوہر کا نام پکار کر کہا کہ تم کو جادو سے مروا دیں گے۔ جس پر شوہر کے چچا بولے کہ طلاق ہو گئی۔ تم بھی کہہ دو کہ تم ماں ہم بیٹا۔ جس پر اس کا شوہر بولا کہ تم ماں ہم بیٹا۔ اور بیوی کا نام لے کر کہا کہ تم کو طلاق دیتے ہیں ، تم کو طلاق دیتے ہیں ۔ اسی طریقے سے دو بار کہا۔ اس وقت وہ عورت رو رہی تھی۔ بعد میں دونوں عورتیں نکال دی گئیں اور اپنے اپنے ماں باپ کے یہاں چلی گئیں ۔ پھر نمبر ایک عورت کا شوہر دس دن کے بعد بیوی کو لے آیا۔ اپنے قاضی سے پوچھ کر کہ یہ عورت جائز ہے ، طلاق نہیں ہوئی۔ بعد میں نمبر دو عورت بھی راضی ہے کہ اسی شوہر کے یہاں جائے گی اور شوہر بھی راضی ہے کہ ہم وہی عورت چاہتے ہیں تو اس کا فتویٰ کیا ہوتا ہے۔ شوہر اور کچھ گواہ اور شوہر کا باپ کہتا ہے کہ دو بار طلاق کا نام لیا ہے۔ لیکن ایک دو شخص کہتے ہیں کہ تین بار کہا ہے اور طلاق کی نسبت شوہر کے ماں باپ نے کچھ نہیں کہا کہ تم چھوڑ دو اور نمبر دو عورت کہہ رہی ہے کہ میں رو رہی تھی۔ میں نے طلاق کا نام تک نہیں سنا ہے۔ صرف ماں بیٹا سنا ہے۔ اس کافتویٰ جلد از جلد دیں گے کہ عورت جائز ہو سکتی ہے یا نہیں اور دونوں شوہر بیوی کو چاہتے ہیں ۔

فتاویٰ #1110

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: و باللہ التوفیق۔ بستی والوں نے جو عورت کو اقرارِ زنا پر مجبور کیا ، یہ شدید گناہ ہے اور مسلمانوں میں فاحشہ کی اشاعت ہے۔ شریعتِ مطہرہ کا حکم ہے کہ حتی الوسع گناہوں کو شائع نہ کیا جائے۔ حدیث میں ہے: ’’لو سترتہ بثوبک لکان خیرًا لک۔‘‘ اگر تو اپنے کپڑے سے پردہ ڈال دیتا تو بہتر تھا۔ دوسری حدیث شریف میں ہے: ’’من ستر مسلما سترہٗ اللہ یوم القیامۃ۔‘‘ جس نے کسی مسلمان کے عیب کو چھپایا، اللہ تعالیٰ اس کے عیب کو قیامت میں چھپائے گا۔ ان بستی والوں نے یہ بہت برا کام کیا، پھر سات مہینہ میں بچہ ہونے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ، خصوصاً جب کہ شوہر خود اقرار کرتا ہے کہ یہ میرا بچہ ہے۔ در مختار میں ہے: ’’لاکثر مدۃ الحمل سنتان و اقلھا ستۃ اشہر اجماعاً۔‘‘ اکثر مدت حمل دو سال ہے اور کم سے کم چھ مہینے اور اس پر اجماع ہے۔ ہدایہ میں ہے: ’’لانھا لما جاء ت بالولد لستۃ اشھر من وقت النکاح فقد جاء ت بہ لاقل منھا۔‘‘ اب یہ بچہ اسی شوہر کا ہے: ’’الولد للفراش و للعاہر الحجر۔‘‘ نمبر ایک عورت پر دو طلاقیں واقع ہو گئیں ۔مگر شوہر رجعت کر سکتا ہے، یعنی عورت سے یہ کہے کہ میں نے اس کو اپنی عورت بنا لیا، یا اس قسم کا کوئی فعل پایا جائے جو میاں بیوی میں ہوتا ہے تو وہ عورت ہو جائے گی۔ اس کے لیے نئے نکاح کی ضرورت نہیں ۔ ہدایہ میں ہے: ’’اذا طلق الرجل امرأتہ تطلیقۃ رجعیۃ أو تطلقتین فلہ أن یراجعھا فی العدۃ رضیت بذٰلک أو لم ترض لقولہ تعالیٰ فامسکوھن بمعروف والرجعۃ ان یقول راجعتک او راجعت امرأتی أو یطأھا أو یقبلھا أو یلمسھا بشھوۃ أو ینظر إلی فرجھا بشہوۃ۔ شوہر کا یہ سمجھنا کہ یہ طلاق نہیں ، غلط ہے۔ اسی طرح کسی قاضی کا یہ کہنا کہ یہ طلاق نہیں ، غلط ہے۔ یہ طلاق ہے مگر رجعت کر سکتا ہے اور اس کا واپس لے آنا رجعت کے حکم میں ہے۔ عورت نمبر دو کو جو اس نے ماں کہا اور اپنے کو بیٹا بنایا، یہ غلط اور جھوٹ اور تبرا ہے، اس سے توبہ کر لے۔ رہا یہ کہ عورت نمبر دو کا شوہر اسے اپنے یہاں رکھ سکتا ہے یا نہیں تو واقعۃً’’ تم کو طلاق دیتے ہیں ‘‘دو مرتبہ کہاہے تو دو طلاقیں ہوئیں اور عدت میں رجعت کر سکتا ہے۔ اگر واقعۃً اور حقیقۃً تین دفعہ’’ تم کو طلاق دیتے ہیں ‘‘ اپنی عورت سے کہا تو اس وقت تین طلاقیں واقع ہوئیں ۔ ’’ فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ١ؕ ‘‘ تو جب تک یہ عورت کسی دوسرے شخص سے بعد عدت نکاح نہ کر لے اور وہ بعدِ جماع طلاق نہ دے دے اور عورت عدت نہ گزار لے ، نکاح نہیں کر سکتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved