بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: اگرپہلے نکاح کی اطلاع پا کر ہندہ کے باپ نے اس نکاح کو رد کر دیا تھا تو رد ہو گیا۔ اس صورت میں یہ دوسرا نکاح صحیح و درست ہے۔ اور اگر رد نہیں کیا تھا جیسا کہ ہندہ کے سسرال جانے(پھر بالغہ ہونے کے) ایک سال بعد انکار اور اظہارِ ناراضگی کرنے سے معلوم ہوتا ہے تو اس صورت میں یہ دوسرا نکاح درست نہیں۔(حاشیہ: کیوں کہ قرائن سے ظاہر یہ ہے کہ نابالغہ کو اس کے باپ نے یا اس کی مرضی یا اجازت سے اس کے لڑکے نے رخصت کیا اور یہ باپ کی طرف سے نکاح کی اجازت ہے۔ علاوہ ازیں نابالغہ کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار بالغہ ہونے کے فوراً بعد ملتا ہے اور یہاں اس نے بالغہ ہونے کے ایک سال بعد نکاح سے انکار و اظہارِ ناراضگی کیا ہے، چناں چہ بہارِ شریعت میں درِ مختار اور رد المحتار کے حوالے سے ہے۔ (ج:۷، ص:۴۶)ولی اقرب غائب ہے ، اس وقت دور والے نکاح کر دیا تو صحیح ہے اور اگر اس کی موجودگی میں نکاح کیا تو اس کی اجازت پر موقوف ہے، محض اس کا سکوت کافی نہیں، بلکہ صراحۃً یا دلالۃً اجازت کی ضرورت ہے ، یہاں تک کہ اگر ولی اقرب مجلس میں موجود ہو تو یہ بھی اجازت نہیں۔ [مکتبۃ المدینہ] دوسری جگہ بزازیہ کے حوالے سے ہے: عورت جس وقت بالغہ ہوئی اسی وقت کسی کو گواہ بنائے کہ میں ابھی بالغ ہوئی اور اپنے نفس کو اختیار کرتی ہوں اور رات میں اگر اس کو حیض آیا تو اسی وقت اپنے نفس کو اختیار کرے اور صبح کو گواہوں کے سامنے بالغ ہونا اور اختیار کرنا بیان کرے مگر یہ نہ کہے کہ میں رات میں بالغ ہوئی ، بلکہ یہ کہ میں اس وقت بالغ ہوئی اور اپنے نفس کو اختیار کیا اور اس لفظ سے مراد لے کہ میں اس وقت بالغ ہوں، تاکہ جھوٹ نہ ہو۔ [ص:۵۲، ج:۷] “(از مرتب)) بیانِ سائل سے معلوم ہوا کہ شوہر اول کے انتقال کو سات مہینے گزر گئے ، لہٰذا عدت ختم ہوگئی۔ اب ہندہ کا نکاح کر دیا جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org