8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید کی عورت ناخوش ہو کر شوہر کے مکان سے دوسری جگہ چلی گئی اور دس ماہ تک شوہر کے مکان پر نہیں آئی اور نہ اس مدت میں کبھی بیوی اور شوہر میں مجامعت کا موقع ہوا۔ بعد دس ماہ کے جب شوہر کے مکان پر آئی تو آنے کے تقریباً چار پانچ ماہ بعد لڑکی پیدا ہوئی اور ناجائز لڑکی کا نام ہندہ پڑا۔ اب ہندہ بالغہ ہو چکی ہے ۔ اس کے نکاح کے لیے کسی ولی کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ اور اگر ضرورت ہے تو کون ولی ہو سکتا ہے ، اس لیے کہ باپ لا معلوم ہے اور بعدِ نکاح ہندہ کے بطن سے جو بچے پیدا ہوں گے وہ کیسے سمجھے جائیں گے؟

فتاویٰ #1076

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــ: ہندہ جب عاقلہ و بالغہ ہے تو اپنے نکاح کی خود مختار ہے ، عقد نکاح کے لیے صرف اس کی رضا مندی ہی کافی ہے ، کسی ولی کی ضرورت نہیں ۔ ہدایہ میں ہے: وینعقد نکاح الحرۃ العاقلۃ البالغۃ برضائھا و ان لم یعقد علیہا ولیّ بکرا کانت أو ثیبا۔( ( چوں کہ ہندہ کی اجازت اور رضا مندی سے نکاح صحیح ہے اور نکاح صحیح سے جو اولاد پیدا ہوتی ہے وہ حلالی اور صحیح النسب ہوتی ہے ، لہٰذا اس نکاح سے ہندہ کی جو اولاد ہوگی وہ حلالی اور صحیح النسب ہوگی ۔ ہندہ کے باپ وہی ہیں جس کے نکاح میں ہندہ کی ماں اس وقت تھی، جب کہ ہندہ پیدا ہوئی تھی ۔ اس لیے کہ ہندہ کی ماں کے دوسری جگہ چلی جانے کے چودہ، پندرہ مہینے کے بعد ہندہ پیدا ہوئی۔ لہٰذا ہندہ کی ولادت مدت حمل کے اندر ہوئی ، کیوں کہ حمل کی انتہائی مدت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک دو سال ہے ۔ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ کی حدیث ہے: الولد لا یبقی فی البطن اکثر من سنتین و لو بظل مغزل. ( ( لہٰذا ہندہ کا نسب اس کی ماں کے شوہر سے ثابت ہوا اور وہی اس کا باپ قرار پایا۔ واللہ اعلم بالصواب۔(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved