بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــ: ہندہ جب عاقلہ و بالغہ ہے تو اپنے نکاح کی خود مختار ہے ، عقد نکاح کے لیے صرف اس کی رضا مندی ہی کافی ہے ، کسی ولی کی ضرورت نہیں ۔ ہدایہ میں ہے: وینعقد نکاح الحرۃ العاقلۃ البالغۃ برضائھا و ان لم یعقد علیہا ولیّ بکرا کانت أو ثیبا۔( ( چوں کہ ہندہ کی اجازت اور رضا مندی سے نکاح صحیح ہے اور نکاح صحیح سے جو اولاد پیدا ہوتی ہے وہ حلالی اور صحیح النسب ہوتی ہے ، لہٰذا اس نکاح سے ہندہ کی جو اولاد ہوگی وہ حلالی اور صحیح النسب ہوگی ۔ ہندہ کے باپ وہی ہیں جس کے نکاح میں ہندہ کی ماں اس وقت تھی، جب کہ ہندہ پیدا ہوئی تھی ۔ اس لیے کہ ہندہ کی ماں کے دوسری جگہ چلی جانے کے چودہ، پندرہ مہینے کے بعد ہندہ پیدا ہوئی۔ لہٰذا ہندہ کی ولادت مدت حمل کے اندر ہوئی ، کیوں کہ حمل کی انتہائی مدت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک دو سال ہے ۔ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ کی حدیث ہے: الولد لا یبقی فی البطن اکثر من سنتین و لو بظل مغزل. ( ( لہٰذا ہندہ کا نسب اس کی ماں کے شوہر سے ثابت ہوا اور وہی اس کا باپ قرار پایا۔ واللہ اعلم بالصواب۔(فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org