22 December, 2024


دارالاِفتاء


اکثر لوگ ولاالضالین کو بآوازِ ”ظ “یا بآوازِ ’’ز‘‘ یا بآوازِ ’’دال‘‘ ادا کرتے ہیں ۔ اس سے نماز فاسد تو نہیں ہوتی ، یا معنیٰ تو نہیں بدل جاتے ، یا کفر تو لازم نہیں آتا ۔ فقہ اور حدیث کی روشنی میں تحریر کیجیے اور قراء ت کی رو سے کیا پڑھنا چاہیے۔ بینوا و توجروا۔

فتاویٰ #1022

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ: قرآن مجید کی قراء ت میں ہر حرف کو اس کے مخرج سے ادا کرنا ضروری ہے ، کسی حرف کی تبدیلی دوسرے حرف سے جائز نہیں۔ قال اللہ تعالیٰ: وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرتِیْلاً۔) ( قرآن مجید کو ترتیل سے پڑھو ۔ ترتیل کے معنیٰ وقف کی رعایت اور ہر حرف کو اس کے مخرج سے ادا کرنا ہے ۔ ترتیل نماز میں فرض ہے ، بغیر ترتیل کے نماز فاسد ہوتی ہے ۔ تفسیر احمدی شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے: وامرھم بترتیل القرآن واوجبہ علیہم وھو ما نقل عن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رعایۃ الوقوف و اداء المخارج کما صرح بہ فی الحسینی و الزاہدی و ھو فرض فی الصلوٰۃ تفسد بدونہ لانہ مامور بہ ولم یلحقہ ناسخ و کتب الفقہ مشحونۃ بذٰلک۔) ( قرآن مجید کی قراء ت میں ہر حرف کو اس کے مخرج سے ادا کرنا ضروری ہے ۔ کسی حرف کی تبدیلی دوسرے حرف سے جائز نہیں ۔ ولا الضالین کو ’’ض‘‘ کے مخرج سے ادا کر کے ولاالضالین ہی پڑھنا ضروری ہے ’’ظ‘‘ یا ’’ز‘‘ یا ’’د‘‘ سے ’’ض‘‘ کو بدلنا جائز نہیں ۔ البتہ اگر یہ تبدیلی خطا کی صورت میں ہے یعنی ’’ض‘‘ ہی پڑھنا چاہتا تھا مگر اتفاقاً زبان بہکی اور ’’ض‘‘ کے بجاے دوسرا حرف نکل گیا اور وہ یہ گمان کرتا ہے کہ ’’ض‘‘ ہی پڑھا توتیسیراً نماز جائز ہے۔ بعض متاخرین نے اس کو احسن فرمایا ہے ۔ یا یہ تبدیلی عجز کی صورت میں ہو کہ ’’ض‘‘ کی ادا پر قادر ہی نہیں تو اس پر بھی سیکھنا فرض ہے ۔ سیکھنے اور کوشش کرنے کے بعد بھی صحیح ادا نہ کر سکے تو وہ معذور ہے ، اس کی نماز جائز ہے ۔ مگر ایک حرف کو دوسرے حرف سے قصداً بدل کر پڑھنا جیسا کہ فی زمانہ بہت سے لوگ قصداً ’’ض‘‘کے بجاے’’ظ‘‘ پڑھتے ہیں اور ولاالضالین کے بجاے ولا الظالین پڑھتے ہیں ان کی نماز قطعاً نہیں ہوتی ۔ وہ ولا الظالین پڑھنے والے عالم ہوں یا جاہل ، قصداً ولا الظالین پڑھنے والوں کی نماز فاسد و باطل ہے ۔ علامہ طحطاوی ﷫ ’’خزانۃ الاکمل‘‘ سے نقل فرماتے ہیں : اذا قرأ مکان الظاء ضاداً ومکان الضاد الظاء فقال القاضی المحسن: الاحسن ان یقال ان تعمد ذلک تبطل صلا تہ عالماً کان اوجاھلاً. اما لو کان مخطأ وارادالصواب فجری ھذا علی لسانہ أو لم یکن ممن یمیز بین الحرفین فظن انہ ادی الکلمۃ کما ھی فغلط جازت صلوٰتہ. وھو قول محمد بن مقاتل وبہ کان یفتی الشیخ اسمٰیعیل الزاھد و ھو احسن واللہ تعالیٰ اعلم۔ ) ( (فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved