بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ: اذان و اقامت کے تمام کلمات کے آخر حرف پر سکون اور وقف ہے ، مگر اذان و اقامت میں فرق یہ ہے کہ اذان میں حقیقۃً وقف ہے یعنی کلماتِ اذان میں سکون کے ساتھ سانس توڑ کر ٹھہر جائے اور کلماتِ اقامت میں سکون پڑھے اور وقف کی نیت کرے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے: ’’ویسکن کلماتھما علی الوقف لکن فی الأذان حقیقۃ و فی الأقامۃ ینوی الوقف۔‘‘ ) ( لہذا دونوں مرتبہ لفظ قد قامت الصلوٰۃ کے آخری حرف ۃ کو ساکن کر کے ہ پڑھا جائے۔ پہلی مرتبہ وقف ترک کر کے ۃ کو متحرک و مضموم پڑھنا یہ حرکت مذموم بدعت و خلافِ سنت ہے۔ مراقی الفلاح میں ہے: ’’ویسکن کلمات الأذان و الأقامۃ فی الاذان حقیقۃ و ینوی الوقف فی الأقامۃ لقولہ ﷺ الاذان جزم والأقامۃ جزم و التکبیر جزم۔‘‘) ( اس کے حاشیہ طحطاوی شریف میں ہے: ’’یعنی للوقف والاولی ذکرہ۔‘‘) ( یعنی اذان و اقامت کے تمام کلمات کے آخر میں سکون پر وقف کرے۔ اذان میں حقیقۃً یعنی سانس توڑ کر ٹھہر بھی جائے اور اقامت میں سکون و جزم پڑھے اور وقف کی نیت کرے۔ اس لیے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اذان و اقامت اور تکبیر میں جزم ہے جب کہ صاحب شریعت مختار کل محمد رسول اللہﷺ نے اقامت کے جزم کی تصریح فرمائی جو بالخصوص قد قامت الصلوٰۃ بالنص شامل ہے تو حرف ”ۃ“ کا سکون و جزم ترک کر کے اس کو متحرک و مضموم پڑھنا بلا شبہہ مذموم و رافعِ سنت ہے اور ارشادِ نبوی کی مخالفت ہے اور ثابت ہوا کہ زید اور بکر دونوں کا قول غلط ہے ۔ فقہ حنفی و ارشادِ نبوی کے خلاف ہے اور ثابت ہوا کہ اقامت میں دونوں مرتبہ قد قامت الصلوٰۃ پر سکون و جزم کر کے پڑھا جائے گا۔ واللہ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org