22 December, 2024


دارالاِفتاء


(۱).مکبر کو تکبیر کب کہنی چاہیے،آیا قبل از درستیِ صفوف یا بعد از قیامِ صفوف؟ (۲).اگر مکبر تکبیر(اقامت) کہہ رہا ہو تو امام کو اپنا منہ کب قبلہ کی طرف کرنا چاہیے ،آیا قبل از اقامت یا دورانِ اقامت، یا بعد از اقامت؟ (۳).اگر امام، جب کہ اقامت کہی جا رہی ہو اور وہ اپنا منہ بجاے قبلہ کے مقتدیوں کی طرف براے درستیِ صفوف کیے ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ (۴).اگر مکبر اقامت شروع کر دے قبل اس کے کہ امام مصلیٰ پر موجود ہو تو اس کا مسئلہ کیا ہے،آیا درست ہے یا غیر درست؟ (۵).تکبیرِ تحریمہ سے کون سی تکبیر مراد ہے؟ اقامت یا وہ تکبیر جو امام نماز شروع کرنے کے لیے کہتا ہے؟ (۶).امام کو نماز شروع کرنے والی تکبیر کب کہنی چاہیے؟ (۷).امام کو نماز کب شروع کرنا چاہیے؟ (۸).اگر جماعت کثیر ہو کہ امام اپنے مصلّے پر سے صفِ اول کے سوا دیگر صفوف کو دیکھ نہیں سکتا اور ایسی حالت میں جب کہ تکبیر (اقامت) کہی جا رہی ہو تو امام اپنی جگہ سے ہٹ کر پچھلی صفوں کو دیکھ سکتا ہے یا نہیں؟ جب کہ اسے یقین نہ ہو کہ صفیں درست نہیں ہیں گو کہ اس کے متعلق وہ زبان سے تنبیہ کر چکا ہو۔

فتاویٰ #1015

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ: (۱).صف درست ہونے سے پہلے مکبر کو تکبیر کہنی چاہیے۔ کھڑے ہونے اور صف درست کرنے کا وقت تکبیر سے پہلے نہیں ہے ، بلکہ جس وقت مکبر حی علی الفلاح کہے، اس وقت کھڑے ہوں اور صف درست کریں۔ بہ حالتِ قیام تکبیر کا انتظار کرنا ، یوں ہی ابتداے اقامت میں کھڑے ہو جانا مکروہ ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی تکبیر ہوتے میں آیا اسے بھی بیٹھ جانا چاہیے۔ جب مکبر حی علی الفلاح کہے، اس وقت کھڑا ہو۔ عالم گیری میں ہے: ’’یقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن حیَّ علی الفلاح عند علمائنا الثلاثۃ و ھو الصحیح۔‘‘) ( اور ایسا ہی کنز و نور الایضاح و الاصلاح و ظہیریہ و بدائع وغیرہا بلکہ کثیر کتب میں ہے۔ اور طحطاوی علی مراقی الفلاح و جامع المضمرات و عالمگیری و رد المحتار میں ہے:(واللفظ للطحطاوی) وإذا أخذ المؤذن فی الإقامۃ و دخل رجل المسجد فانہ یقعد ولا ینتظر قائما فانہ مکروہ کما فی المضمرات. قھستانی. ویفہم منہ کراہۃ القیام ابتداء الاقامۃ والناس عنہ غافلون۔‘‘) ( یہ اس وقت ہے جب کہ امام بھی مسجد میں موجود ہو۔ مراقی الفلاح میں ہے: ’’(القیام) ای قیام القوم والامام ان کان حاضرا بقرب المحراب (حین قیل) أی وقت قول المقیم (حی علی الفلاح) لانہ امر بہ فیجاب۔‘‘) ( اور اگر امام وہاں موجود نہ ہو تو مكبّر جب تک اسے آتا نہ دیکھ لے تکبیر نہ شروع کرے حدیث میں ہے: ’’المؤذن املک بالأذان و الامام املک بالإقامۃ۔‘‘) ( اور سنن ابو داؤد میں جابر بن سمرہ سے ہے: ’’قال کان بلال یوذن ثم یمھل فاذارأی النبی ﷺ قد خرج أقام الصلوٰۃ۔‘‘) ( اور اگر شروع کر دیا تو قوم اس وقت تک نہ کھڑی ہو جب تک امام نہ آئے، اگرچہ تکبیر ختم ہو جائے۔ لقولہ ﷺ: إذا أقیمت الصلوٰۃ فلا تقوموا حتی ترونی قد خرجت ۔) ( رواہ البخاری و مسلم و النسائی و ابو داؤد عن ابی قتادہ۔‘‘ پھر جب امام آئے تو اس وقت دو صورتیں ہیں: پہلی صورت: اگر صفوں کی طرف سے داخلِ مسجد ہو تو جس صف سے گزرتا جائے وہی صف کھڑی ہوتی جائے۔ دوسری صورت:اور اگر سامنے سے آئے تو دیکھتے ہی سب کھڑے ہو جائیں۔ اور اگر خود امام ہی تکبیر کہے تو جب تک پوری تکبیر سے فارغ نہ ہو جائے مقتدی اصلا نہ کھڑے ہوں بلکہ اس نے اگر مسجد سے باہر تکبیر کہی تو ختم ہونے پر بھی نہ کھڑے ہوں جب وہ مسجد میں داخل ہو اس وقت کھڑے ہوں۔ عالم گیری میں ہے: ’’فاما اذا کان الامام خارج المسجد فان دخل المسجد من قبل الصفوف فکلما جاوز صفا قام ذلک الصف و الیہ مال شمس الأئمۃ الحلوائی والسرخسی و شیخ الاسلام خواہر زادہ و ان کان الامام دخل المسجد من قد امہم یقومون کما رأوا الامام. و ان کان المؤذن والامام واحدا فان اقام فی المسجد فالقوم لا یقومون ما لم یفرغ من الاقامۃ و ان اقام خارج المسجد فمشایخنا اتفقوا علی انھم لا یقومون ما لم ید خل الامام المسجد ویکبر الامام قبیل قولہ» قد قامت الصلوٰۃ « قال الشیخ الامام شمس الأئمۃ الحلوائی : و ھو الصحیح ھٰکذا فی المحیط۔‘‘) ( (۲).استقبالِ قبلہ نماز کے لیے شرط ہے ۔ نہ تکبیر سننے اور اس کے انتظار کے لیے کہ لازم ہوکہ تکبیر سے پہلے صف بندی ہولے اور امام صاحب بھی رو بہ قبلہ کھڑے ہوں تو پھر تکبیر کا آغاز ہو۔ حکم وہی ہے جو سوال اول کے جواب میں گزرا کہ اگر امام مسجد میں موجود ہے تو امام اور قوم حی علی الفلاح پر کھڑے ہوں گے اور قد قامت الصلوٰۃ پر امام نماز شروع کر سکتا ہے ، لہذا اس شروع سے کچھ پہلے ہی اپنا منہ قبلہ کی طرف کرے گا ۔ لیکن قد قامت الصلوٰۃ پر شروع کرنا ضروری نہیں۔ تکبیر ختم ہونے پر بھی شروع کرنا جائز ہے۔ بہر حال جب شروع کرے گا اس وقت استقبالِ قبلہ ضروری ہے۔ اس سے قبل امام کو اجازت ہے کہ وہ اور کسی طرف متوجہ ہو۔ (۳).متوجہ ہونے کا حکم سوال نمبر (۲) کے جواب سے معلوم ہوا۔ رہا صفوں کا درست کرنا تو امام کو اس کا خیال کرنا چاہیے در مختار میں ہے: ’’یصفھم الامام بان یامرھم بذلک۔‘‘) ( یعنی امام مقتدیوں کو ہدایت کرے گا کہ وہ صف درست رکھیں۔ اور امام سے زیادہ مقتدیوں کو خیال رکھنا ضروری ہے۔ انھیں کے حق میں وعید آئی ہے اور حضور نے فرمایا: ’’عباد اللہ لَتَسَوُّنَّ صفوفکم أو لَیُخَالفنّ اللہ بین وجوھکم۔‘‘) ( اے اللہ کے بندو تم صفوں کو درست کرو نہیں تو اللہ تمہارے درمیان اختلاف اور پھوٹ ڈال دے گا۔ نبی ﷺاقامت کے بعد صفوں کو درست کرایا کرتے تھے اور اس کی سخت تاکید فرمایا کرتے تھے۔ صحیح بخاری میں حضرت انس سے ہے: ’’قال أقیمت الصلوٰۃ فأقبل علینا رسول اللہ ﷺ بوجہہ فقال أقیموا صفوفکم وتراصوا فإنی أراکم من وراء ظہری۔‘‘) ( کہا: انس نے نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو ہماری طرف رسول اللہ ﷺ نے متوجہ ہو کر فرمایااپنی صفوں کو سیدھی کرو اور خوب مل کر کھڑے ہو، اس لیے کہ میں تمھیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھا کرتا ہوں۔ (۴).اس کا جواب نمبر ۱ کے سوال میں گزر چکا۔ (۵).تکبیرِ تحریمہ اس تکبیر کا نام ہے جس سے نماز شروع ہوتی ہے، اقامت کا نام تکبیرِ تحریمہ نہیں۔ (۶ ، ۷) سوال ششم و ہفتم کا حاصل ایک ہے۔ قد قامت الصلوٰۃ پر امام کو نماز شروع کرنے کا اختیار ہے لیکن اصح ہے کہ تکبیر ختم ہونے پر شروع کرے۔ طحطاوی حاشیہ مراقی الفلاح میں ہے: ’’قال ابو یوسف: یشرع إذا فرغ من الاقامۃ۔‘‘) ( طحطاوی حاشیہ مراقی الفلاح میں ہے: ’’أی بدون فصل و بہ قالت الأئمۃ الثلاثۃ۔‘‘) ( شرح المجمع میں ہے:’’وھواعدل المذاہب۔‘‘ قہستانی میں خلاصہ سے ہے:’’و ھو الأصح۔‘‘ نہر میں ہے:’’و ھو الحق۔‘‘واللہ تعالیٰ اعلم (۸). سوال نمبر (۱) کا جواب ملاحظہ ہو۔ اس میں عباراتِ فقہیہ و احادیثِ نبویہ نے اظہر من الشمس کر دیا ہے کہ بہ حالتِ قیام اقامت کا انتظار کرنا مکروہ ہے، تو اقامت سے قبل اور اقامت کے درمیان صف بندی کرنی اور کرانی کراہت سے خالی نہیں۔ اب امام کو چاہیے کہ جب حی علی الفلاح پر کھڑا ہو ، مقتدی صف بندی کر یں۔ اس وقت ہدایت کرے ۔ اگر زبانی تعلیم و ہدایت سے بھی نہ سمجھ سکیں تو امام ان کے قریب جا کر بتا سکتا ہے۔ سنن ابو داؤد میں براء بن عازب سے مروی ہے: ’’قال کان رسول اللہ ﷺ یتخلل الصف من ناحیۃ إلی ناحیۃ یمسح صدورنا و مناکبنا و یقول لا تختلفوا فیختلف قلوبکم ۔‘‘ ) ( یعنی رسول اللہ ﷺ ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک صفوں میں داخل ہوتے اور ہمارے سینے یا مونڈھے صف سے آگے یا پیچھے ہوتے تو برابر فرما دیتے اور اس کے ساتھ فرماتے جاتے، اختلاف نہ رکھو کہ اِس سے کہیں تمہارے دل مختلف نہ ہو جائیں ۔ اوراس صورت میں اگرچہ اقامت اور نماز کے شروع کرنے میں کچھ تاخیر ہوگی لیکن اس میں کوئی حرج نہیں۔ صحیح بخاری و سنن ابو داؤد میں حضرت انس سے ہے: ’’قال أقیمت الصلوٰۃ فعرض للنبی ﷺ رجل فحبسہ بعد ما أقیمت الصلوٰۃ۔) (زاد ھشام فی روایتہ: حتی نعس بعض القوم۔‘‘ یعنی اقامت کہی گئی تو ایک مرد حضور کے سامنے آیا اور اپنی کوئی حاجت پیش کی اور حضور کو دیر تک روکے رکھا، یہاں تک کہ بعض لوگ اونگھنے لگے۔ سنن ابو داؤد میں سالم ابن ابی النضر و مولیٰ علی سے روایت ہے: ’’قال کان رسول اللہ ﷺحین تقام الصلوٰۃ فی المسجد إذا راٰھم قلیلا جلس لم یصل و اذا راٰھم جماعۃ صلی۔‘‘) ( یعنی جب مسجد میں اقامت کہی جاتی تو حضور اگر لوگوں کو قلیل محسوس فرماتے تو بیٹھ جاتے اور جب ان کو زیادہ دیکھتے تو نماز پڑھتے۔ واللہ أعلم بالصواب(فتاوی حافظ ملت)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved