22 November, 2024


دارالاِفتاء


یورپ اور امریکہ میں سرمایہ دار طبقہ کے لوگ بینک سے قرض لیتے ہیں، جس کو یہاں کی زبان میں ’’مورٹ گیج‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس طرح کہ ایک شخص خود لاکھوں کا مالک ہے مگر اس نے اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے بینک سے ایک لاکھ کا قرض لیا جس کی ادایگی ایک مخصوص مدت دس سال، پندرہ سال، بیس سال، ۳۵؍ سال تک میں ہوتی ہے، اس قرض کو ماہانہ قسطوں میں ادا کیا جاتا ہے مثلا پانچ سو ڈالر ماہانہ۔ سوال یہ ہے کہ اس کا ایک لاکھ کا بزنس ہے اور ایک ہی لاکھ کا قرض اور یہ قرض ایک لمبی مدت کو محیط کہ اگر مقررہ مدت سے قبل ادا کر کے گلو خلاصی کرنا چاہے تو بینک اس کو قبول نہ کرے گا ، لا محالہ اس مدت تک اس کی ادایگی ہونی ہے، تو اب اس صورت میں زکات کیسے ادا ہوگی؟ اور اس کا طریقہ کیا ہوگا؟ یوں ہی شخص مذکور اپنی تجارت کے لیے تو قرض نہیں لیتا ہے مگر اپنا مکان خریدنے کے لیے اس نے قرض لیا، اور اس کی بھی شرح ادا مثل سابق ہے تو اس پر زکات کا کیا حکم ہے؟ نیز ایک شخص نے دس لاکھ ڈالر بینک سے قرض لیا اور نئی تجارت شروع کی اور اس کی آمدنی سات سو ڈالر ماہانہ ہے جب کہ قسط وار قرض کی ادایگی پانچ سو ڈالر ماہانہ ہو رہی ہے۔اور یہ قرض مذکور بیس سال میں ادا کرنا ہے تو اس صورت میں اس پر زکات کس طرح عائد ہوگی اور شرح زکات کیا ہوگی؟ کیوں کہ ان مذکورہ صورتوں میں ایک طرح سے وہ مقروض ہے ۔ بینوا توجروا محمد قمر الحسن قادری، خطیب وامام مسجد النور، ہوسٹن، ٹیکس، امریکہ- ۲۰ ؍ رمضان المبارک ۱۴۰۷ھ

فتاویٰ #2614

تینوں قسم کے افراد پر اتنے سرمایہ کی زکات نہیں جتنا ان پر قرض ہے۔ مثلا پہلی صورت میں ایک لاکھ ڈالر قرض لیا تھا جس سے اس نے کاروبار شروع کیا ۔ سال پورا ہونے پر اس نے قسط وار کچھ قرض بھی ادا کر دیا۔ مثلا اس نے ماہانہ پانچ سو ڈالر ادا کیا تو بارہ مہینے میں چھ ہزار اس نے قرض ادا کر دیا، اب اس کے اوپر چورانوے ہزار قرض رہا، اپنے کل سرمایہ میں سے چورانوے ہزار منہا کر کے بقیہ تجارتی سرمایے اور پسماندہ رقوم کی زکات ادا کرے۔ مثلا قرض لی ہوئی رقم کو ملا کر اس کا کاروبار دو لاکھ میں چل رہا ہے ۔ سال تمام پر یہ شخص چورانوے ہزار منہا کر کے ایک لاکھ چھ ہزار کی زکات ادا کرے۔ علی ھذا القیاس، دوسرے فریق بھی یہی کریں۔ تیسرا شخص سال پورا ہونے کے بعد بقدر قرض منہا کرنے کے بعد اگر مالک نصاب ہے تو جتنا مال ہے ا س کے نصاب پر زکات دینا فرض ہوگا۔ اور اگر سال تمام پر بقدر قرض وضع کر نے کے بعد یہ شخص مالک نصاب نہیں رہتا تو اس پر زکات نہیں۔ مثلا جب یہ فرض کیا گیا کہ وہ ماہانہ پانچ سو ڈالر قرض ادا کرتا رہا تو سال بھر میں چھ ہزار قرض ادا کیا اب اس پر نو لاکھ چورانوے ہزار قرض رہا، اس کا جتنا سرمایۂ تجارت ہو وہ اور پسماندہ رقوم اس میں سے نو لاکھ چورانوے ہزار وضع کرنے کے بعد اگر اتنا مال تجارت بچے، یا اتنا مال پسماندہ ہو جو بقدر نصاب ہو اور اس نصاب پر سال گزر چکا ہو تو اتنے کی زکات اس پر فرض ہے، اور اگر قرض کی مقدار وضع کرنے کے بعد نہ اتنا مال تجارت ہے جو بقدر نصاب ہو، اور نہ اتنا پسماندہ ہے جو بقدر نصاب ہو مگر دونوں کو ملا کر نصاب پورا ہو جاتا ہے تو بھی اس کے اوپر اتنے مقدار کی زکات واجب ہے۔ سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ ہے، اور چاندی کا ساڑھے باون تولہ، یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی قیمت کی مقدار مال تجارت۔ آج کل ہمارے ہندوستان کے بھاو سے سونے کے نصاب کی قیمت زیادہ ہے اور چاندی کے نصاب کی قیمت کم۔ چاندی کی نصاب کا وزن اعشاریہ مروجہ اوزان سے ۱۸۴ء ۶۵۳ گرام ہے؛ اس لیے مال تجارت میں چاندی ہی کے نصاب کی قیمت کا اعتبار ہے۔ اس وقت ہمارے یہاں ہندوستان میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت لگ بھگ چھ ہزار ہوتی ہے، اب نولاکھ چورانوے ہزار اس شخص کے کل سرمایہ سے وضع کر کے اتنا مال تجارت بچتا ہے جس کی قیمت ہندوستانی روپے سے چھ ہزار ہوجاتی ہو تو اتنے کی زکات اس پر واجب ہے۔ مال تجارت یاڈالر میں چالیسواں حصہ فرض ہے ۔ ڈالر میں زکات اس وقت واجب ہوگی جب وہ اتنا جمع ہو کہ سونے یا چاندی کے نصاب کی قیمت تک پہنچ جائے ۔ واللہ تعالی اعلم۔(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۷(فتاوی شارح بخاری)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved