8 September, 2024


دارالاِفتاء


زید کہتا ہے کہ میں چھوٹی بڑی سرکاروں کا دائمی مریض ہوں ۔ تقریبا ۱۵؍ سولہ برس کی طویل مدت ہو چکی ہے میرا بدن اب ایسا نہیں ہے کہ دماغی یا کسب بدنی کوئی کام کر سکوں، طبیعت میں ہمہ وقت شب وروز انقلاب رہتا ہے اور اہل وعیال کی وابستگی بھی ہے اور یہاں سے تیسرے ضلع کا رہنے والا ہوں ، صرف دونوں سرکار کرم فرماہیں اور وہ یہ کہ فرمائشی میلادیں پڑھنا اور جمعہ کی نماز کے بعد پیر جی حضرات سے ۱۰ روپے کا نذرانہ ملنا، میلادوں میں جو بھی ۲؍ یا ۴؍ یا ۵؍ روپے ملیں وہ مل جاتے ہیں۔ دیگر یہ ہے کہ میں اپنی اس شکستہ حالت سے قبل امامت پر فائز تھا اور اس وجہ سے ہمارے پیر جی حضرات نے یہاں پر بھی امامت کرنے کو کہا تو میں چھوٹی سرکار میں تقریبا ۷؍ یا ۸؍ برس سے امامت کر رہا ہوں ،ان تمام باتوں کے باوجود میری نہ کہیں سے تنخواہ آتی ہے اور نہ کوئی امداد، ایسی حالت میں شریعت مطہرہ کا میرے واسطے کیا حکم ہے ؟ کیا میں امامت کر سکتا ہوں یا نہیں اور کیا مجھے فطرہ اور زکات اور خیرات یا مردوں کی نیاز نذر کپڑے وغیرہ لینا چاہیے یا نہیں ؟ کیا یہ چیزیں ہمیں مباح اور جائز ہو سکتی ہیں کہ نہیں اور اگر یہی چیزیں ہم کو لینا جائز ہے تو پھر امامت بھی کر سکتے ہیں یا نہیں؟ جواب کا محتاج ہوں مفصل طور سے جواب عنایت کیا جاوے۔

فتاویٰ #1920

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- زید اگر واقعی تنگ دست ، مفلوک الحال ہے اور ضرورت مند ہےتو وہ ہر قسم کی خیرات لے سکتا ہے۔ کوئی حرج نہیں۔ بلکہ اگر مالک نصاب نہ ہو جیسا کہ ظاہر ہے تو زکات اور فطرہ کی رقم بھی لے سکتا ہے۔ قال اللہ تعالی: اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِيْنِ ۔ اس صورت خاص میں زکات فطرہ خیرات کی رقوم لینے کی وجہ سے زید کی امامت پر اثر نہیں پڑے گا۔ یہ دوسری بات ہے کہ خیرات زکات لینے والا لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہوتا ہے۔ امام کا باوقار ہونا ضروری ہے۔ اس لیے امامت کرنے والے کو حتی الوسع اجتناب ضروری ہے۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved