8 September, 2024


دارالاِفتاء


مسجد کے امام پر ایک لڑکی نے زنا کا الزام لگایا اکثریت کی نگاہ میں بظاہر امام مسجد نیک آدمی ہے اور اکثر وقت مسجد میں ہی رہتا ہے بچوں کو قرآن کی تعلیم اور حفظ قرآن کراتے ہیں ۔ بظاہر نیک ہے کم بولتے ہیں۔ اس گناہ یعنی امام صاحب کو زنا کرتے ہوئے یا لڑکی کا ہاتھ پکڑنے کا اشارہ کنایہ کرتے نہیں دیکھا ۔ صرف لڑکی یہ اقرار کرتی ہے کہ میرے ساتھ امام مسجد نے مسجد کے باہر زنا کیا ہے اور اس کا حمل بھی ہے اور لڑکی کا گھر بھی مسجد کے پاس ہی ہے۔ امام صاحب اس الزام سے انکار کرتے ہیں اور کوئی بھی عینی گواہ نہیں ہے تو امام صاحب کے پیچھے نماز ہو گی یا نہیں؟

فتاویٰ #1881

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- سوال میں جو تفصیل درج ہے اس کے مطابق امام پر زنا کا الزام ثابت نہیں اور ان کے پیچھے نماز بلا کراہت درست۔ لڑکی کے کہنے کا کوئی اعتبار نہیں۔ زنا کے ثبوت کے لیے ضروری ہے کہ چار مرد عادل، ثقہ ، چشم دید گواہی دیں ۔ قرآن مجید میں فرمایا: ’’ لَوْ لَا جَآءُوْ عَلَيْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ١ۚ ‘‘۔ یہ لوگ چار گواہ کیوں نہیں لاتے۔ تجربہ ہے کہ آوارہ لڑکیاں اپنے اصل یار کو چھپاتی ہیں اور جسے کمزور و بے سہارا دیکھتی ہیں ان پر الزام دھرتی ہیں تاکہ اس یار سے کھیل کھیلنے کا موقع ضائع نہ ہو۔ مسلمان کو یہ نکتہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے ۔ عوام کا حال یہ ہے کہ ایک بدکار عورت جس پر الزام رکھ دیتی ہے لوگ یقین کر لیتے ہیں۔ یہ سخت گناہ وحرام ہے۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved