8 September, 2024


دارالاِفتاء


ایسے امام کے پیچھے نماز ادا کی جائے یا نہیں جس کے پیچھے دل رجوع نہ ہو اور دل کراہت کرے چاہے وہ کسی بھی مسلک کا ہو؟

فتاویٰ #1824

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- امام میں اگر کوئی شرعی خرابی نہیں جس کی وجہ سے اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں شرعاً ممانعت ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے احتراز جائز نہیں۔ اگر چہ مقتدی امام سے کسی وجہ سے خوش نہ ہوں اس لیے کہ اس صورت میں بلا وجہ شرعی مسلمانوں میں اختلاف پیدا کرنے کی بنیاد ڈالنا ہے نیز خود جماعت سے محروم رہنا ہے۔ تنویر الابصار، ودر مختار میں ہے: (ولو أم قوما وہم لہ کارہون، إن) الکراہۃ (لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ) لہ ذلک تحریما لحدیث أبي داؤد: ’’لا یقبل اللہ صلاۃ من تقدم قوما وہم لہ کارہون‘‘۔ (وإن ہو أحق لا) والکراہۃ علیہم۔ اس کے تحت شامی میں ہے:جزم في الحلیۃ بأن الکراہۃ الأولی تحریمیۃ للحدیث وتردد في ہذہ إھ. أقول لہذا إذا صلی أما إذا ترک الصلاۃ خلفہ فلا شبہۃ في کونہ تحریمیۃ لأنہ یفضي إلی ترک الجماعۃ واختلاف بین المسلمین۔ جب امام میں کوئی شرعی نقص نہیں تو اس کے پیچھے نماز بلا کراہت درست ہے اگرچہ مقتدی اسے ناپسند کرتا ہو ، اس سے ناراض ہو۔ واللہ تعالی اعلم---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved