8 September, 2024


دارالاِفتاء


(۱) ہوٹل مالک نے جگہ کی تنگی کے باعث قبرستان سے تھوڑی سی جگہ حاصل کرنے کے لیے جو اس سے متصل ہے، مسجد کمیٹی سے کہا: ہم گاؤں کے عربی مدرسے کے لیے چھ ہزار روپے سالانہ دیں گے۔ یہ بات امام صاحب کو بتائی گئی، انھوں نے متعدد دار الافتا سے رجوع کیا تو جواب آیا کہ جائز نہیں۔ انھوں نے فتویٰ چھپالیا اورہوٹل مالک سے کہا آپ فتوے کے چکر میں مت پڑو۔ پھر امام صاحب کے اصرار پر اس نے پیشگی رقم جمع کردی۔ امام صاحب نے جواب دیا کہ عربی مدرسے کا فائدہ ہوتا ہے ہونے دو۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا قبرستان کی زمین فروخت کرکے مدرسے کے لیے رقم لینا جائز ہے؟ اور امام صاحب اور ہوٹل مالک پر شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ اور فتویٰ چھپانا کیسا ہے؟ (۲)یہاں بمبئی کی اکثر مساجد میں جمعے کے دن خطبے سےقبل قَدْ جَاءَکُمْ- الآیۃ پڑھا جاتا ہے اور ہمارے یہاں منور میں بھی۔ مؤذن صاحب بسم اللہ شریف نہیں پڑھتے ہیں، صرف أعوذ باللہ پڑھ کر شروع کردیتے ہیں۔ زید نے اس کی وجہ دریافت کی، تو مؤذن نے کہا کہ امام صاحب منع کرتے ہیں۔جب امام صاحب سے تسمیہ نہ پڑھنے کی وجہ دریافت کی گئی، امام صاحب حافظ قرآن اور عالم بھی ہیں، انھوں نے فرمایا کہ آیت، سورۂ توبہ کی ہے؛ تسمیہ نہیں پڑھنا چاہیے۔ زید نے مؤذن کو قانون شریعت دکھا کر ایک جمعہ کو مع تعوذ و تسمیہ کے قَدْ جَاءَکُمْ- الآیۃ پڑھوا دیا، تو امام صاحب زید سے ناراض ہوگئے اور بولے آپ نے بسم اللہ کیوں پڑھوایا؟ آپ نے ایک مسنون طریقے پر اتنا زور کیوں دیا؟ زید امام کا خیال کرتے ہوئے ان سے معافی مانگتا رہا، لیکن وہ بار بار یہی کہتے رہے کہ ایک مسنون طریقے پر اتنا زور کیوں دیا۔ بمشکل تمام بادلِ ناخواستہ معاف کیا۔ اور محض ضد کی وجہ سے بسم اللہ شریف پڑھنے پر آج تک پابندی لگا رکھی ہے۔ ایسا کرنے پر شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ جواب سے نوازیں۔

فتاویٰ #1791

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱)یہ امام فاسق معلن ہوگیا، اسے امامت سے معزول کرنا واجب، اور جب سے اس نے ہوٹل والے سے یہ بات کہی ہے، اس وقت سے لےکر جتنی نمازیں اس کے پیچھے پڑھی گئی ہیں، سب کا دہرانا واجب۔ قبرستان کی ایک بالشت بھی زمین بیچنا یا کسی کو کِراے پر دینا ناجائز و حرام ہے۔ اگرچہ وہاں مردے نہ ہوں۔ کیوں کہ یہ وقف کی تغییر ہے۔ اور یہ جائز نہیں۔ کمیٹی والوں نے اگر اجازت دے دی ہے تو وہ خائن ہوئے، ان سب کو معزول کرنا واجب۔ در مختار میں ہے: ( وَيُنْزَعُ ) وُجُوبًا ( لَوْ ) الْوَاقِفُ فَغَيْرُہُ بِالْأَوْلَی ( غَيْرَ مَأْمُونٍ ) أَوْ عَاجِزًا أَوْ ظَھَرَ بِہِ فِسْقٌ ۔ بوقت ضرورت فتویٰ چھپانا حرام، یہ کتمان حق ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۲)اللہ ﷯ ائمۂ مساجد کو ہدایت دے۔ صرف کہیں امام ہوجانے سے کوئی عالم نہیں ہوجاتا۔ آج کل تو حال یہ ہے کہ سو۱۰۰عالم کہلانے والوں میں شائد ہی ایک عالم ہوتا ہے۔ آپ نے اس امام کو عالم کہا، اس سے آپ توبہ کریں۔ سورۂ توبہ کے شروع میں چوں کہ بسم اللہ شریف نازل نہیں ہوئی، اس لیے مسلسل تلاوت کے وقت بسم اللہ شریف نہیں پڑھی جاتی۔ اگر کوئی شخص سورۂ توبہ کی ابتدا ہی سے تلاوت شروع کرے تو اس وقت بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے، چہ جاے کہ سورہ توبہ کی وسط یا اخیر کی کوئی آیت پڑھے۔ پھر اس نے تلاوت سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کو مطلقاً سنت بتایا، یہ بھی غلط ہے۔ اگر شروع سورت سے تلاوت کی ابتدا کرے تو سنت ہے، اور اگر درمیان سورت سے تلاوت کی ابتدا کرے تو مستحب۔ آپ نے مؤذن سے ایک مستحب کام کرایا اس پر امام ناراض ہوا، یہ اس کی تیسری جہالت ہے، اور آپ کی غلطی ہے کہ آپ نے اس سے معافی مانگی۔ جو کام مستحب ہیں، ان کو خود کرنا اور دوسروں سے کرانا باعث اجر و ثواب ہے۔ اس پر ناراض ہونا جہالت ہے۔ امام کی ایک جہالت یہ بھی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ آپ نے ایک مسنون طریقے پر اتنا زور کیوں دیا۔ جب کہ حدیث میں فرمایا گیا کہ: مَنْ تَمَسَّكَ بِسُنَّتِي عِنْدَ فَسَادِ أُمَّتِي لَہُ أَجْرُ مائۃ شَھِيدٍ ۔ جو شخص میری کوئی مردہ سنت زندہ کرےگا اسے سو شہیدوں کا ثواب ملےگا۔ یہ امام بتائے کہ بقول اس کے مسنون طریقہ بند کرانے پر اسے ضد کیوں ہے۔ کیا اس کے اعتقاد میں سنت مٹانا ثواب کا کام ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر امام اپنے ایمان کی خبر لے۔ آپ کو امام سے ہرگز ہرگز معافی نہیں مانگنی چاہیے تھی۔ یہ عوام میں غلط مشہور ہے کہ اگر امام ناراض ہوگا تو مقتدیوں کی نماز نہیں ہوگی۔ امام راضی ہو یا ناراض، مقتدیوں کی نماز اس کے پیچھے بہر حال ہوجائےگی۔ بلکہ اگر امام نے کوئی شرعی غلطی کی اس پر مقتدی امام سے ناراض ہیں تو امام کی نماز قبول نہ ہوگی۔ حدیث میں ہے: تین شخصوں کی نماز ان کے کانوں سے اوپر نہیں جاتی۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو لوگوں کا امام ہو۔ اور لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved