8 September, 2024


دارالاِفتاء


(۱) ایک امام صاحب جو کہ عالم ہیں لوگوں کے ساتھ ٹیبل پر کھانا رکھ کر اور کرسی پر بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ کیا امام صاحب کے لیے یہ جائز ہے؟ اور ایسے امام کے پیچھے نماز درست ہے؟ (۲) رمضان شریف کے موقع پر محلہ کے لوگ امام صاحب اور دوسرے لوگوں کو دعوت افطار کراتے ہیں، جس کی وجہ سے بوقت مغرب مسجد خالی ہوجاتی ہے، جب کہ مسجد میں افطار وغیرہ کا معقول انتظام ہے۔ امام صاحب کے نہ ہونے کی وجہ سے مؤذن صاحب نماز پڑھاتے ہیں، جو نماز کے مسائل سے ناواقف اور قرآن کو لفظ کی ادایگی کے ساتھ پڑھنا نہیں جانتے ہیں۔ کیا ایسی صورت میں نماز سے پہلے امام صاحب کا دعوت میں جانا صحیح ہے؟

فتاویٰ #1773

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱) کرسی یا ٹیبل پر کھانا کھانا اب حرام و گناہ نہیں۔ خصوصیت سے اس بارے میں کوئی ممانعت نہیں آئی ہے۔ چوں کہ یہ طریقہ نصاریٰ کا تھا، اور انھیں کے ساتھ خاص تھا اور حدیث میں فرمایا گیا: إيَّاكُمْ وزي الْأَعَاجِم۔ عجمیوں کے طریقوں سے بچو۔ لیکن اب خاص ان کا طریقہ نہ رہا، تمام بلاد اسلام میں شائع و ذائع ہوگیا ہے۔ اب خاص ان کی وضع نہ رہی، سب کا طریقہ ہوگیا۔ اس لیے میز اور ٹیبل پر کھانا حرام و گناہ نہیں رہا۔ البتہ سنت کے خلاف ضرور ہے۔ مگر یہ سنت مؤکدہ نہیں جس کا ترک گناہ ہو۔ مکروہ تنزیہی ضرور ہے۔ اس لیے میز یا ٹیبل پر کھانے کی وجہ سے امام فاسق یا گنہ گار نہیں ہوا کہ اس کے پیچھے نماز پڑھنا ممنوع ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۲) دعوت کا قبول کرنا سنت ہے۔ اور امام کا کبھی کبھار مسجد سے غائب رہنا معروف و معتاد ہے۔ اور المعروف کالمشروط؛ اس لیے امام کا دعوت میں جانا قابل اعتراض نہیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اگر اس کی وسعت میں ہو تو نائب ایسا شخص مقرر کرے جو صحیح طریقے سے نماز پڑھنا جانتا ہو، امام صاحب چوں کہ عالم ہیں اس لیے ان سے مستبعد ہے کہ وہ اپنا نائب ایسے شخص کو مقرر کریں گے جو صحیح طور سے نماز نہ پڑھنا جانتا ہو۔ مؤذن کی جو شکایت ہے، وہ آپ لوگ امام صاحب سے کریں۔ امام صاحب کو لازم ہے کہ اس پر توجہ دیں۔ اگر واقعی مؤذن امامت کے لائق نہیں تو اسے ہرگز نماز پڑھانے کی اجازت نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved