8 September, 2024


دارالاِفتاء


(۱) ہمارے شہر کمپلی کے امام کا کہنا ہے کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی اور ہمارے آقا سردار دوجہاں ﷺ کا جو روضۂ مبارک ہے، وہ تمام جگہ قبرستان تھی۔ اس طرح سے چند لوگوں کو بہکا کر اس شہر کے قدیم مقام پر عیدگاہ ہوتے ہوئے بھی خلاف شرع قبرستان ہنود کی زمین پر عیدگاہ تعمیر کرایا، کیا اس امام مذکور کا بیان سچ ہے؟ (۲) مذکورہ امام علماے اہل سنت کو محلے میں وعظ ونصیحت کرنے کے لیے بلانے کو منع کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ وہ لوگ تفرقہ کرکے فساد مچاتے ہیں، اور یہ خود تبلیغی جماعت اور اس کے چیلوں کی مدد کرتا ہے، از روے شرع اس کے لیے کیا حکم ہے؟

فتاویٰ #1753

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱) اس امام کا یہ کہنا کہ جہاں مسجد نبوی شریف ہے، وہاں پہلے قبرستان تھا، غلط ہے۔ بخاری شریف وغیرہ تمام کتب حدیث میں ہے کہ وہ جگہ کھجوروں کے کھلیان کی تھی، ہاں اس میں مشرکین کی چند قبریں تھیں، جنھیں کھدوا کر ہڈیوں کو نکال کر پھینک دیا گیا، پھر زمین برابر کی گئی اس کے بعد مسجد بنی۔ حضور اقدس ﷺ نے اس زمین کے مالکوں کو زمین کی قیمت دےکر خریدا، پھر مسجد بنائی۔ یہاں ہندوستان میں ہم اس معاہدے کے ساتھ رہ رہے ہیں کہ کسی کی ذاتی یا مذہبی ملکیت بغیر اس کی مرضی کے نہیں لیں گے۔ ایسی صورت میں ہندؤوں کے قبرستان میں عیدگاہ بنوانا جائز نہیں کہ یہ غدر اور دھوکا ہے۔ نیز اگر قبریں کھود کر ہڈیاں پھیکی نہیں گئی ہیں تو وہاں نماز پڑھنا بھی منع۔ اس لیے کہ یہ قبروں پر نماز پڑھنا ہوا، اس عیدگاہ میں دو وجہ سے نماز پڑھنا منع ہے: غصب کی زمین ہے، اور قبروں پر بنی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۲) اس سوال سے تو یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ امام دیوبندی ہے، علماے اہل سنت کے بلانے کو منع کرنا اور تبلیغیوں کی حمایت کرنا یہی بتا رہا ہے۔ ایسی صورت میں اسےامام بنانا حرام و گناہ، اس کے پیچھے نماز، نہ پڑھنے کے برابر۔ اس کو امامت سے معزول کرنا فرض۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))---

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved