8 September, 2024


دارالاِفتاء


(۱) یہاں گوا میں جامع مسجد کے ایک پیش امام نے کسی مرحومہ کی قبر میں سورۂ یٰسٓ کو دفن کرکے میت کو جنت میں داخل کرایا، کیا یہ قرآن شریف کی بےحرمتی نہیں ہے؟ (۲) ایک جلسۂ عام میں امام نے سورہ اعراف کی آیت ۱۸۷ کو جھٹلا کر توبہ استغفار کرایا، کیا ایسے شخص کی امامت جائز ہے؟

فتاویٰ #1746

----بسم اللہ الرحمن الرحیم :----- الجواب:---- (۱) اس میں قرآن مجید کی کوئی بےحرمتی نہیں کہ سورہ یٰسٓ شریف قبر میں رکھا گیا۔ یہ سائل کی بےعلمی ہے کہ اس کو بے حرمتی سمجھ رہا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ قبر میں سرھانے کی جانب سے طاق کھود کر اس میں رکھا جاتا ہے۔ بلکہ علماے احناف نے اس کی بھی اجازت دی ہے کہ میت کی پیشانی یاعمامہ یا اس کے کفن پر عہد نامہ لکھا جائے۔ یا اس کی پیشانی پر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھا جائے۔ در مختار میں ہے: كُتِبَ عَلَی جَبْہۃِ الْمَيِّتِ أَوْ عِمَامَتِہِ أَوْ كَفَنِہِ عَہْدُ نَامَہْ يُرْجَی أَنْ يَغْفِرَ اللہُ لِلْمَيِّتِ. أَوْصَی بَعْضُہُمْ أَنْ يُكْتَبَ فِي جَبْہَتِہِ وَصَدْرِہِ - بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰن الرَّحِيم - فَفُعِلَ ثُمَّ رُئِيَ فِي الْمَنَامِ فَسُئِلَ فَقَالَ : لَمَّا وُضِعْتُ فِي الْقَبْرِ جَاءَتْنِي مَلَائِكَۃُ الْعَذَابِ، فَلَمَّا رَأَوْا مَكْتُوبًا عَلَی جَبْہَتِي بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰن الرَّحِيم قَالُوا : أَمِنْتَ مِنْ عَذَابِ اللہِ ۔ ’’میت کی پیشانی یا اس کے عمامہ یا اس کے کفن پر عہد نامہ لکھا جائے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ میت کو بخش دےگا۔ ایک شخص نے وصیت کی کہ اس کی پیشانی اور سینہ پر بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰن الرَّحِيم لکھا جائے، لکھا گیا، دفن کے بعد اس کو خواب میں دیکھا گیا اور پوچھا گیا کہ کیا ہوا؟ تو اس نے بتایا کہ میرے پاس عذاب کے فرشتے آئے جب انھوں نے میری پیشانی پر بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰن الرَّحِيم لکھا دیکھا تو کہا کہ تو اللہ کے عذاب سے محفوظ ہوگیا۔‘‘ واضح ہو کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بھی قرآن مجید ہے۔ جب میت کی پیشانی پر یا سینہ پر اسے لکھ کر دفن کرنا اس کی بے ادبی نہیں تو قبر کے طاق پر رکھنا کیسے بے ادبی ہے۔ قبر میں سورہ یٓس شریف رکھنے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اوپر کی منزل پر رہتا ہو، اور نیچے کی منزل میں قرآن مجید ہو۔ کیا اس میں قرآن مجید کی بے حرمتی ہے؟ بہر حال قبر میں قرآن مجید رکھنے کی وجہ سے امام صاحب پر کوئی الزام نہیں۔ (۲) سائل بہت ہوشیار ہے، اس کو لازم تھا کہ امام صاحب نے جس جملے پر توبہ کرائی اس کو لکھتا، لیکن اس لکھنے سے کہ ’’ آیت ۱۸۷ کو جھٹلا کر توبہ و استغفار کرائی‘‘سے سمجھ میں آیا کہ اس قائل نے قیام قیامت کے علم کا انکار کیا ہوگا، حق اور صحیح یہی ہے کہ حضور اقدس ﷺ کو دنیا سے تشریف لےجانے سے پہلے یہ بتایا جا چکا تھا کہ قیامت کب قائم ہوگی۔ علامہ ابراہیم ہیجوری قدس سرہٗ نے قصیدہ بُردہ شریف کی شرح میں فرمایا: أي لم یخرج صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم من الدنیا إلا بعد أن أعلمہ اﷲ تعالیٰ بھذہ الأمور الخمسۃ ۔ نبی کریم ﷺ دنیا سے تشریف نہ لے گئے مگر بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو ان پانچ غیبوں کا علم دے دیا۔ ان پانچوں میں قیام قیامت کا بھی علم ہے۔ ان کے علاوہ اور بہت سے علما نے یہی لکھا ہے۔ آپ اپنے اطمینان کے لیے الدولۃ المکیۃ اور اورالکلمۃ العليا کا مطالعہ کریں۔ اس عقیدے کو سورۂ اعراف کی مذکورہ بالا آیت کے خلاف سمجھنا نافہمی ہے۔ اس آیت میں مراد علم ذاتی ہے۔ اس لیے اس توبہ کرانے سے بھی امام صاحب پر کوئی الزام نہیں۔ ٍٍٍٍواللہ تعالیٰ اعلم۔ ---(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد:۵(فتاوی شارح بخاری))--- (حاشیہ: سورۂ اعراف کی آیت: ۱۸۷ یہ ہے: يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسٰىهَا١ؕ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ١ۚ لَا يُجَلِّيْهَا لِوَقْتِهَاۤ اِلَّا هُوَ١ؔۘؕ ثَقُلَتْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ لَا تَاْتِيْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً١ؕ يَسْـَٔلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا١ؕ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ۰۰۱۸۷ ۔)

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved